Tag: افسانہ نگار

  • سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی آج 64 ویں برسی ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

    ‎اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی 1912ء کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کے مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض 43 سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎منٹو کا قلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت ورسوائی سے بھی دوچارکیا۔

    معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمرکے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

  • آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں قرة العین حیدر کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ مشہور انشا پرداز سید سجاد حیدر بلدرم کی صاحبزادی تھیں ، ان کا ناول’ آگ کا دریا‘ان کی شناخت کا سبب بنا۔

    قرةالعین حیدر 20 جنوری 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ بچپن کا زمانہ جزائر انڈمان میں گزارا جہاں ان کے والد ریونیو کمشنر تھے۔ اس کے بعد ڈیرہ دون کانونٹ میں تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں لکھنو یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    قرة العین حیدر نے تقریباً اسی زمانے میں افسانہ نویسی کا آغاز کیا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”ستاروں سے آگے“ تھا، جسے جدید افسانہ کا نقطہ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ 1947ء میں وہ پاکستان چلی آئیں جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات و فلم سے وابستہ ہو گئیں۔ یہاں ان کے کئی ناول شائع ہوئے جن میں میرے بھی صنم خانے، سفینہ غم دل اور آگ کا دریا قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر ناول کی اشاعت پر پاکستانی پریس نے ان کے خلاف تناسخ کے عقیدے کے پرچار پر بڑی سخت مہم چلائی جس پر وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔

    گارڈن، کراچی۔ تصویر بشکریہ: عقیل عباس جعفری

    ہندوستان جانے کے بعد قرة العین حیدر کے کئی افسانوی مجموعے، ناولٹ اور ناول شائع ہوئے جن میں ہاؤسنگ سوسائٹی، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، گل گشت، ستیا ہرن ،چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، جہانِ دیگر، دل ربا ، گردشِ رنگ چمن اورچاندنی بیگم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سوانحی ناول ”کار جہاں دراز ہے“ بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

    سنہ 1989ء میں انہیں حکومت ہندوستان نے گیان پیٹھ ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ 2005ء میں حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن کے اعزاز سے سرفراز کیا۔

    قرة العین حیدر نے 21 اگست 2007ء کو دہلی کے نزدیک نوئیڈا کے مقام پر وفات پائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں۔انہوں نے جدید ناول کو کہانی بیان کرنے کا جو انداز دیا اس نے جدید ناول کو کلاسیکی مقام پر پہنچا دیا۔

  • منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    آج اردو ادب کے معروف افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار منشی پریم چند کا 80 واں یوم وفات ہے،وہ اردو نثرمیں جدید اور اصلاحی ناول اور افسانہ نگاری  کے موجد کہلائے جاتے ہیں۔

    منشی پریم ۔۔۔ مختصر تعارف

    31 جولائی1880ء کو ضلع وار انسی مرٹھوا کے ’’لمبی‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہونے والے منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا جو اُن کے والد صاھب نے رکھا لیکن اُن کے چچا نے اپنے بھتجے کا نام پریم چند رکھا اور آگے چل کر وہ منشی  پریم چند کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔

    درس و تدریس

    آپ نے ابتدائی تعلیم لائل پور ایک کے مولوی سے حاصل کی،جہاں منشی پریم چند اردو اور فارسی ذبان کے رموز سیکھے اور ادب سے شناسائی حاصل کی اور 1895ء میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔

    بعد ازاں 1899ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی اور 1900ء میں بیرائچ کے گورنمنٹ اسکول میں بہ طور ٹیچر مقرر ہوئے  تقرر ہوا اور الہ آباد میں جا کرآپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔

    1908ء میں جونیئرانگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی سے اردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا اور ۱۹۰۹ء میں ترقی پا کر سب انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔

    1919ء میں بی۔اے کیا اور فروری 1920ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ ہوئے اور لکھنؤ میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی صدارت کی۔

    تصنیف اور تالیف 

    منشی پریم چند اپنے ناول ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے لکھتے تھے آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر1903ء کو شائع ہوا جس نے قبول سند عام حاصل کی جب  دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔

    امنشی پریم چند کا پہلا  افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں شائع ہوا جس میں 5 افسانے شامل تھےان افسانوں میں آزادی ، حریت پسندی، غلامی سے نجات اور علم بغاوت بلند کرنے کے موضوعات کو سمیٹا گیا تھا۔

    جس کے باعث ہندوستان پر قابض حکومتِ برطانیہ نے اس افسانوی مجموعے پر پابندی عائد کردی چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے افسانوی مجموعے کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔

    اس واقعہ کے بعد سے منشی پریم چند اپنا ادبی نام ’’رائے نواب ‘‘ ترک کر کے اپنے چچا کی جانب سے دیے گئے نام میں منشی کا اضافہ کر کے ’’منشی پریم چند‘‘ اختیار کیا اور تا دم مرگ یہی ادبی نام استعمال کرتے رہے۔

    منشی پریم چند کے مشہور ناول میں اسرار مابعد اور کشانا مشہور افسانوں میں کفن،حج اکبر اور نجات جب کہ معروف کہانیوں میں انمول رتن شامل ہیں۔

    منشی پریم چند نے مریادا،مالا اور مادھوری کے نام سے نکلنے والوں علمی اور ادبی رسالوں کی ادارت کی اور بعد میں ملازمت ترکی کر کے اپنا رسالہ ’’ھنس‘‘ کے نام شائع کیا۔

    افسانوں کے مجموعے 

    ( 1) سوزِوطن(1908ء)، (2) پریم دلچسپی جلد اول (1915ء)، (3) پریم دلچسپی جلد دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1921ء)،(6) خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)،(8) پریم چالیسی (1930ء)، (9) آخری تحفہ (1934ء)،(۱۰) زادِ راہ (1936ء )۔

     

    طرز تحریر کی نمایاں خصوصیات 

    پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی کالونیاں 20 ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔

    ایک طرف جہاں اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا اور 19 ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا یہی طرز نثری ادب میں دیکھا گیا اور یوں  جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔

    پریم چند بھی اسی نیم سیاسی اضطراب اور ملک و قوم کی بقاء کے دفاع کے لیے جدو جہد میں گذرے اُس دور سے متاثر ہوئے اور شہرہ آفاق افسانوی مجموعہ  ’’سوزِ وطن‘‘ تخلیق کیا جس نے قوم میں حریت و ہمیت کی نئی روح پھونک دی یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کو اس مجموعہ پر پابندی لگانی پڑی۔
    ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو 1958ء کے بعد سرسید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔

    آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہا ہے اور پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصورفن کو تباہ کر دیتا ہے۔

    جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔

    منشی پریم چند ۔۔۔ نقادوں کی نظر میں

    بقول ڈاکٹر مسعود حسین خان : ’’اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
    بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘
    بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

    بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔

    تاریخ وفات 

    دس افسانوی مجموعوں کے تخلیق کار اور ناول نگاری میں سے ڈارمہ نگاری کے رموز تراشنے والے اردو ادب کے پہلے معروف ناول نگار،افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار منشی پریم چند  8 اکتوبر 1936ء کو 56 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنی تحریروں میں وہ آج بھی زندہ ہیں اور علم و ادب کے پیاسوں کو دیراب کر رہے ہیں۔

    (اس مضمون کی تیاری میں محترم خالد محمود صاحب کی تحقیق اور تصنیف سے اُن کے شکریے کے ساتھ فائدہ اُٹھایا گیا ہے)

     

  • ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    اردو کے منفرد و ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے اننچاس برس بیت گئے۔

    اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی ،نئی طرز کی افسانہ نگاری میں پہلی اینٹ رکھنے والے سعادت حسن منٹو , منٹو کے افسانے،ڈرامے مضامین اور خاکے اردو ادب میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ منٹو پر فحش نگا ری کا الزام لگا نے والو ں کو جواب خود منٹو نے دیا۔

    اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ منٹو نے صرف جنسی نفسیات پر مبنی افسانے نہیں لکھے ، بلکہ غربت ، افلاس، استحصال، مزدور کی حا لت زار ، غریبی اور امیری کے درمیان کی خلیج ، سیاسی بازیگری ، ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک جیسے اہم موضوعات پر بھی اچھو تے انداز سے قلم اٹھا یا ، منٹو نے لکھا کہ سعادت حسن فانی ہے لیکن منٹو رہتی دنیا تک زندہ رہے گا اور بلاشبہ ان کی تحریریں آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔