Tag: افسانے

  • ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتّا مجھ سے چند گز کے فاصلے پر دوڑا چلا جارہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔ اگلے پنجوں کو اس طرح اٹھانے لگا گویا کسی شکار کو سونگھ رہا ہے۔

    جب میں نے روش پر نظر دوڑائی۔ تو مجھے قریب ہی زمین پر چڑیا کا ایک بچّہ دکھائی دیا جس کی چونچ زرد تھی۔ اور بدن پر نرم نرم روئیں اگ رہے تھے۔ یہ غالباً اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا۔ کیوں کہ آج ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور روش کے آس پاس لگے ہوئے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔

    معصوم بچّہ چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اڑنے کے لیے ننھّے ننھّے پر پھیلاتا، مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ پرواز کرسکے۔ بے چارہ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔

    میرا کتّا اس کی طرف آہستہ آہستہ جارہا تھا کہ دفعتاً قریب کے درخت سے ایک چڑیا اتری اور کتّے اور بچّے کے درمیان زمین پر اس طرح آپڑی جیسے پتّھر گر پڑا ہو۔

    کتّے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرف دیکھ کر ایک درد ناک اور رحم طلب آواز میں چلائی اور اس کی طرف جھپٹ پڑی۔ وہ اپنے ننھّے بچّے کو میرے کتّے سے بچانا چاہتی تھی۔ اسی غرض کے لیے اس نے اسے اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور چیخ پکار شروع کردی۔ اس کے چھوٹے گلے میں آواز گھٹنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد بے جان ہو کر گری اور مر گئی۔ اور اس طرح اپنے آپ کو قربان کر دیا۔

    وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچّے کو کتّے کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کی نظروں میں میرا کتّا غالباً ایک ہیبت ناک دیو کی مانند تھا۔

    وہ کیا شے تھی۔ جو چڑیا کو شاخِ صنوبر سے کشاں کشاں زمین پر لائی؟

    میرا کتّا حساس تھا۔ چڑیا کو اس طرح قربان ہوتے دیکھ کر ٹھٹھکا اور ایک طرف ہٹ گیا میں نے اسے اپنی طرف اشارہ سے بلا لیا اور آگے بڑھ گئے۔

    یہ واقعہ دیکھ کر مجھے تسکین سی محسوس ہوئی۔ روح سے ایک بوجھ ہلکا ہوتا نظر آیا۔ اس بہادر چڑیا کی غیر معمولی جرأت نے میرے دل میں احترام اور احساسِ فرض کے جذبات موجزن کر دیے۔

    میں نے خیال کیا کہ محبت، موت اور اس کی ہیبت سے کہیں زیادہ ہے اور صرف محبّت ہی ایسی چیز ہے جو زندگی کے نظام کو قائم اور متحرک رکھتی ہے۔

    (عظیم روسی ادیب انتون چیخوف کے قلم سے)

  • جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    اسلام آباد: پاکستان میں تعینات سیاحت کے بے حد شوقین جرمن سفیر مارٹن کوبلر پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سیاحت کے بعد اردو ادب کے بھی شائق نکل آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن سفیر مارٹن کوبلر پاکستان کے تین صوبوں کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیاحت کر چکے ہیں، انھوں نے سیر کے دوران عام لوگوں سے تعلق رکھنے کی ایک نئی نظیر قائم کی۔

    پاکستانی کھانوں، بالخصوص بریانی، پلاؤ اور مٹن ڈشز کے شوقین مارٹن کوبلر اب اردو ادب کے بھی شوقین نکل آئے ہیں۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جرمن سفیر کی پوسٹس فالو کرنے والوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب انھوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اردو فکشن کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی کتاب کا مطالعہ کرتے دکھائی دیے۔

    یاد رہے کہ آج دنیا بھر میں ارتھ آور منایا جا رہا ہے، جس کے تحت رات کے 8:30 سے 9:30 تک ایک گھنٹے کے لیے تمام روشنیاں بھجائی جا رہی ہیں۔

    مارٹن کوبلر نے اس حوالے سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اندھیرے میں نظر آ رہے ہیں، اور اردو کے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے افسانے پڑھ رہے ہیں۔

    جرمن سفیر نے لکھا کہ انھوں نے سفارت خانے اور اپنی رہائش گاہ کی تمام غیر ضروری روشنیاں بھجا دی ہیں، کیا آپ لوگ بھی ارتھ آور منا رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمی تبدیلی سے متعلق شعور اجاگر کیا جانا بے حد ضروری ہے، اپنی زمین، اور فطرت کے بچاؤ کے لیے لائٹس بجھا دیں، اور اس طرح توانائی، پیسا اور سیارہ بچائیں۔

    خیال رہے کہ تصویر میں منٹو کی جو کلیات دکھائی دے رہی ہے، یہ خالد حسن نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ اور ایڈٹ کی ہے۔

  • افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    گھروں میں کُتب بینی کو رواج دینا اور مطالعے کا ماحول بنانا کتنا اہم، ضروری اور خواب ناک ہے، اس کا اندازہ ڈاکٹر افشاں ملک کی مختصر کتھا پڑھنے سے ہوتا ہے۔کس طرح ایک گھر کے جیتے جاگتے انسان اپنے پرکھوں سے مِل آتے ہیں، اپنی ثقافت کی خوش بو گھر کی مٹی میں سونگھ لیتے ہیں اور کئی زمانے آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔

    افشاں ملک کا تعلق علی گڑھ سے ہے، گھرانے میں کئی پُشتوں میں کوئی ادیب، شاعر نہیں گزرا، لیکن دادا، پَر دادا کا ذوقِ مطالعہ عروج پر رہا۔ افشاں کے گھرانے کی زندگی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ایک وراثت ہے جو بہترین ہے، افضل ہے، جسے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا جانا چاہیے، یہ وراثت کتابیں اور مطالعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی اور ایک دن چھپکے سے افسانوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ وہ بیس سال سے انسان اور اس کے فلاحی رشتوں کو مدِ نظر رکھ کر افسانے لکھ رہی ہیں۔ لیکن کیا ’انسان‘ کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، یہ ’انسان‘ تو خود بے پناہ خانوں میں منقسم ہے، طرح طرح کے تعصبات میں جکڑا ہوا ہے۔


    افشاں ملک کا افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘ پڑھیں


    [bs-quote quote=”افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/08/afshan-Malik-2.jpg”][/bs-quote]

    اردو افسانہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں بہت مقبول صنف بن چکی ہے۔ بے شمار نئے اور جوان خون کے حامل افسانہ نویس سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کیا وہ ’انسان‘ کے گوناں گوں تعصبات کو درست طور پر سمجھ کر، اسے اس کے نظریات سمیت افسانوں کی زینت بنا رہے ہیں یا مصنف خود اپنے تعصبات اور نظریات کے پرچار کے لیے کردار تخلیق کر رہے ہیں۔

    افشاں کا خیال ہے کہ موجودہ عہد کا انسان روزی روٹی کی فکر سے زیادہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا اسیر ہے۔ خاتون افسانہ نویس کہتی ہیں کہ وہ اس انسان کو اس تشویش ناک صورتِ حال سے باہر نکالنے کے لیے افسانے لکھتی ہیں۔

    نعیم بیگ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بینکار اور اردو انگریزی ناول نگار ہیں۔ مقامی اور خطے کی سیاست اور جنگی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ثقافتی یلغار، ہندوستان کی تقسیم، عالمی جنگوں کے اثرات اور انگریز کے چھوڑے ہوئے جاگیر داری نظام نے ہماری ثقافت کے خال و خد کو داغ دار اور دھندلا کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں افشاں ملک اپنے افسانوں کے ذریعے اپنی مٹی کی خوش بو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    [bs-quote quote=”مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ’اضطراب‘ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو افشاں ملک کے قلم سے ترتیب پایا ہے۔ اس مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں۔ آپ اکثر ڈائجسٹوں میں کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں، یہ کہانیاں ایک ہی موضوع ’محبت‘ کے گرد گھومتی ہیں، محبت بھی مرد اور عورت والی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں قاری کو زندگی کے کسی گہرے اور سنجیدہ تجربے سے روشناس نہیں کراتیں۔


    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول


    افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مرد عورت، میاں بیوی، مرد مرد، اور عورت عورت کے تعلقات کی مختلف پرتوں کے ساتھ ساتھ سماجی سیاسی شعور بھی مل جاتا ہے۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک عورت ہوتے ہوئے افسانے میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہوئے تانیثی (عورت سے متعلق) تعصبات کا شکار نہیں ہوتیں۔

    اضطراب کے افسانے پڑھتے ہوئے آپ کو لطف بھی آئے گا اور دماغ کے کینوس پر کچھ سنجیدہ نقوش بھی مرتب ہوں گے۔ ان افسانوں میں چند کے نام یہ ہیں: گورِ غریباں، افتادہ اراضی، گود لی ہوئی ماں، پینٹنگ، اور آسیب زدہ۔