Tag: افسردگی

  • کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو افسردگی کا شکار بنا رہا ہے؟

    کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو افسردگی کا شکار بنا رہا ہے؟

    نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کو سمجھنے کے لیے وقتاً فوقتاً تحقیقاتی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں، اب ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز الگ تھلگ رہنے والے نوجوانوں کے لیے باعث اطمینان ہیں لیکن وہ ذہنی پریشانیوں کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔

    نیو پورٹ اکیڈمی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے کئی مثبت اثرات بھی ہیں، تاہم اس کا مسلسل استعمال منفی نتائج کا باعث بنتا ہے، نوجوانوں میں اس سے منفی عادات اور منفی سیلف امیج جنم لیتا ہے۔

    یہ بات کئی تحقیقات میں سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ انھیں چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے، اس عادت کی وجہ سے انسان دنیا کی حقیقت اور صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

    لیکن اب یہ اہم سوال سامنے کھڑا ہوا ہے کہ کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو زیادہ پریشان اور افسردہ کرتا ہے؟ چوں کہ اس سوال سے ٹیکنالوجی کے استعمال کا سوال بھی جڑا ہے، اس لیے ایک متنازعہ سوال بن گیا ہے، تحقیقات میں بھی اس کے متنوع نتائج سامنے آتے ہیں۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے مستقل استعمال سے اعصابی نظام پر شدید اثر پڑتا ہے، اور نوجوانوں میں لڑائی جھگڑے کا موڈ ایک مستقل عادت کے طور پر سامنے آتا ہے، ان میں ڈپریشن (افسردگی)، عدم توجہ، مخالفین کو دھمکیاں دینا اور نو عمری میں بے چینی جیسے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور ایک تحقیق میں میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے افسردگی بڑھ جاتی ہے۔

    اس سلسلے میں 2018 میں 14 سے 17 سال کی عمر کے نوجوانوں پر ایک تحقیق کی گئی تھی جو دن میں 7 گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے، نتائج سے معلوم ہوا کہ ایسے نوجوانوں کو ذہنی مسائل کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان میں کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، تحقیق کے دوران ان نوجوانوں کا موازنہ ان افراد کے ساتھ کیا گیا جو دن میں صرف ایک گھنٹہ اسکرین استعمال کرتے تھے۔

    ٹیکنالوجی کے استعمال سے افسردگی میں اضافے کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں کہا گیا کہ 2010 اور 2015 کے درمیان بالخصوص نوجوان خواتین میں افسردگی کی علامات میں اضافہ ہوا، محققین نے اس کی وجہ سوشل میڈیا اور اسکرین کے استعمال کی زیادتی بتائی تھی۔

    امریکی ٹی وی سی این این کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ جو نوجوان دن میں 50 سے 100 بار فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس چیک کر رہے تھے، وہ دیگر کے مقابلے میں 37 فی صد زیادہ افسردہ تھے، جب کہ وہ نوجوان جو دن میں 100 سے زیادہ بار سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرتے ہیں وہ اوسطاً 47 فی صد زیادہ افسردہ ہوتے ہیں۔

    تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے نوجوانوں میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

  • دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    کہنے کو تو دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے، لیکن اس نے جو معنی پہنے، جو مفہوم اوڑھا، اس کی تفصیل کے لیے دفتر چاہیے۔

    یخ بستہ ہوائیں، خنک شامیں اور یادیں دسمبر کا امتیاز ہیں۔ سال کا یہ آخری مہینہ نجانے کب جدائی اور ہجر کا استعارہ بنا ہو گا، کیوں‌ اسے یادوں سے جوڑا اور کب یاسیت اور افسردگی سے نتھی کیا گیا ہو گا۔

    یوں‌ تو سبھی دسمبر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، لیکن اردو شعرا نے خاص طور پر اپنی تخلیقات میں‌ دسمبر سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

    آئیے، 2019 کے اس دسمبر کو شاعری کے قالب میں‌ دیکھتے ہیں۔

    امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے” پڑھیے

    ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
    خواہشوں کے نگار خانے میں
    کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
    رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
    ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
    فون کی ڈائری کے صفحوں سے
    کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
    جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
    اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
    کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
    رینگتی بدنما لکیریں سی
    میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
    دوریاں دائرے بناتی ہیں
    دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
    مشعلیں درد کی جلاتے ہیں

    خالد شریف کے اشعار

    کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
    کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
    ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
    یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں

    یہ شعر ملاحظہ ہو

    یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
    تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا

    اور دسمبر میں کسی امید پر ایک دستک، ایک آہٹ پر بے تاب ہو جانے والے شاعر کی یہ کیفیت دیکھیے

    دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
    یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا

    جب کسی کے سامنے خود کو بکھرا ہوا اور شکستہ نہ ثابت کرنا ہو تو اس شعر کا سہارا لیا جاسکتا ہے

    مجھے کب فرق پڑتا ہے دسمبر بیت جائے تو
    اداسی میری فطرت ہے اسے موسم سے کیا لینا

    وہ دسمبر کی آخری اور نامہربان شام تھی جب عبدالرحمان واصف نے جنوری کے نام ایک پیام پڑھا، ان کی یہ نظم پڑھیے

    جنوری مبارک ہو

    ڈوبتے دسمبر کی
    ناتمام کرنوں نے
    شام کے سرہانے پر
    چند پھول رکھے ہیں
    دل نشین لہجوں کے
    دل فگار باتوں کے
    دل فریب لمحوں کے

    یہ پیام بھیجا ہے
    دل نشین چہروں کو
    دل فریب لہجوں کو
    دل نواز لوگوں کو
    زندگی مبارک ہو
    جنوری مبارک ہو
    آنے والے وقتوں کی دوستی مبارک ہو!