Tag: افغانستان میں امن

  • افغانستان میں امن کے لیے پاکستان سے مل کر کوششیں کر رہے ہیں: خصوصی سفیر قطر

    افغانستان میں امن کے لیے پاکستان سے مل کر کوششیں کر رہے ہیں: خصوصی سفیر قطر

    اسلام آباد: قطر کے خصوصی سفیر مطلق بن ماجد القحطانی نے کہا ہے کہ قطر افغانستان میں امن کے لیے پاکستان سے مل کر کوششیں کر رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پیر کو اسلام آباد میں قطر کے خصوصی سفیر مطلق بن ماجد القحطانی نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے ملاقات کی، جس میں پاکستان قطر باہمی تعلقات اور افغانستان امن مذاکرات پر بات چیت کی گئی۔

    وزیر داخلہ نے افغان امن مذاکرات سے متعلق قطر کی کاوشوں کو سراہا، قطر کے خصوصی سفیر نے کہا افغانستان میں امن خطے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، پاکستان نے قیام امن کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔

    وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا پاکستان اور قطر کے درمیان تعلقات برادرانہ ہیں، افغانستان میں پائیدار امن پاکستان کا دیرینہ خواب ہے، قطر حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے قابل ستائش کام کیا۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا پاکستان قطر کی امن کوششوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان، قطر اور افغانستان کی کوششوں سے علاقے میں امن بہتر ہوا، افغان طالبان سے مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے۔

    وزیر داخلہ سے ملاقات میں قطری حکومت کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی، ملاقات میں پاکستان میں قطر کے سفیر اور وفاقی سیکریٹری داخلہ بھی موجود تھے۔

  • افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے ، 17 سال یہاں جنگ لڑنے کے بعد بالاخر امریکی افواج نے اپنا سازو سامان  لپیٹنے کی تیاری شروع کردی ہے یعنی جنگ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن اس موقع پر دو سوال سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطے سے نکل جانے کے بعد یہاں کے معاملات کون سنبھالے گا اوردوسرا یہ کہ کیا امریکا کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوگا یا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا، یاد رہے کہ افغانستان کے ماضی میں ایسی مثال موجود رہی ہے۔

    افغان امن عمل میں اب تک مذاکرات دو مرکزی فریقین یعنی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہورہے تھے، دور وز قبل اس معاملے پر ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوئی۔ روس میں افغان تارکین وطن نے ایک اہم ڈائیلاگ کا انعقاد کروایا ،جس میں افغان اپوزیشن کے 40 سے زائد افراد پر مبنی ایک گروہ نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں طالبان کے ساتھ ملاقات کی ۔ افغان وفد 10 ارکان پر مشتمل تھاا ور اس کی قیادت شیر محمد ستنک زئی کررہے تھے۔ عالمی میڈیا کا ماننا ہے کہ اس ڈائیلاگ کو روسی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل تھی ، تاہم روس کی جانب سے ایسی کسی بھی حمایت کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغان اپوزیشن کے وفد میں کئی اہم سیاستدانوں کے علاوہ قابلِ ذکر وارلارڈز کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے متحرک شخصیات بھی شامل رہیں۔

    کابل میں برسرِ اقتدار افغان صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت نے اس ملاقات پرشدید تنقید کی ہے اور اسے قبل از وقت ، لاحاصل اور افغانستان کی آئینی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ان کہنا تھا کہ جب تک حکومت کے طالبان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوجاتے ، ایسی کوئی بھی مشق سود مند نہیں رہے گی۔ افغان حکومت نے سابق صدر کرزئی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ماضی میں خود صدر رہے ہیں اور اب موجودہ حکومت کے آئینی حق کو تسلیم کرنے کےبجائے براہ راست طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں۔

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    دیکھا جائے تو یہ سارا کھیل اب انتہائی موڑ پر پہنچ چکا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ ہم دونوں یعنی امریکا اور طالبان اس طویل جنگ سے تھک چکے ہیں لیکن اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سامنے آتا ہے کہ تھکن صرف امریکا کے حصے میں آئی ہے ، افغان طالبان کے کیمپ میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، طویل جنگیں امریکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں اور اپنی بے پناہ معیشت اور فوجی طاقت کے علاوہ امریکا ہے کیا، کچھ بھی تو نہیں، سو امریکا کسی بھی صورت اپنی معیشت کو برباد نہیں ہونے دے گا۔ دوسری جانب طالبان کے پاس نقصان کے لیے ایسا کچھ نہیں ہے ، ان کے لیے واحد مسئلہ یہ جنگ لڑنے کے لیے افرادی قوت ہے جو بہر حال انہیں کہیں نہ کہیں سے مل ہی رہی ہے ، ان کے زیر اہتمام علاقوں میں معیشت کی بہتری کوئی مانوس لفظ نہیں، سو وہ شاید مزید کچھ عرصے تک اس جنگ کو لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سارے عمل میں اب تک افغان حکومت وہ فریق ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے ، طالبان کا موقف ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد مقامی حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔افغانستان کی آئینی حکومت جو کہ امریکی افواج کی موجودگی کے سبب اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ، اس کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے کہ ابتدائی طور پر امریکا نے طالبان کا یہ مطالبہ مان کر نہ صرف ان سے مذاکرات شروع کیے بلکہ انخلا کا وقت بھی مقرر کردیا ہے۔

    غنی حکومت کا خیال ہے کہ امریکا کے خطے سے نکلتے ہی کابل اور افغان حکومت طالبان کے لیے آسان ہدف بن جائے گے۔ یہی سبب ہے کہ وہ خطے سے امریکی افواج کے فی الفور انخلا کے حق میں نہیں ہیں ، کم از کم جب تک کابل اور طالبان کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاملہ طے نہ پا جائے۔ ایسے ماحول میں طالبان نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرکے اپنے پلڑے کو مزید بھاری کرلیا ہے اور اب جب بھی مستقبل میں طالبان ، کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے، نہ صرف یہ کہ انہیں امریکی بلکہ مقامی قیادت کی مدد بھی حاصل ہوگی۔ یہاں قابلِ ذکر بات افغانستا ن میں 20 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات بھی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت بس اب چند ہی مہینوں کی مہمان ہے اور یقیناً طالبان کسی بھی جاتی ہوئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پسند نہیں کریں گے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مقامی حکومت سے مذاکرات کو امریکی انخلا سے مشروط کیا ہے اور حیرت انگیز طور پر انہیں اس موقف پر امریکا کے ساتھ اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے۔

    اس سارے منظر نامے میں 20 جولائی کا دن افغانستان کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ نئی آنے والی حکومت چاہے موجودہ حکومت کا تسلسل ہو یا آج کی حزبِ اختلاف حکومت قائم کرے، اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر یہ مذاکراتی عمل امریکا کی موجودگی میں شروع ہوجاتا ہے تو کابل کی حکومت نسبتاً بہتر
    پوزیشن میں ہوگی ،لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور مذاکرات کا عمل انخلا کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، تب چاہے حکومت میں اشرف غنی ہوں یا کوئی۔ اس کے لیے طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر جنگ بندی کرانا ایک ناممکن ٹاسک ہوگا۔

    سب سے دلچسپ پہلو اس معاملے کا امریکی سینیٹ میں آنے والی قرار داد ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جلد از جلد افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں ، یقینا ان کی خواہش ہوگی کہ آئندہ الیکشن سے پہلے یہ مرحلہ طے ہوجائے تاکہ وہ امریکا کو افغانستان کی دلدل سےنکالے جانے کا کریڈٹ لے سکیں لیکن امریکی سینٹ میں افغانستان سے مکمل انخلا کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سےمنظور ہوگئی ہے ، یعنی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایک اندرونی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس محاذ سے منظوری کےبغیر انخلا کا عمل شروع نہیں ہوسکے گا۔

    پاکستان اس وقت خاموشی سےساری صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور پاکستان کی حکومت اور ملٹری قیادت کئی بار یہ بات باور کراچکے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن ہی خطے کی ترقی کی ضمانت ہے ۔ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسلام آباد جو فی الوقت امریکا اور طالبان کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کررہا ہے ، مستقبل میں اس معاملے کو کس طرح سے لے کر چلے گا۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش اس سارے معاملے میں اعتدال برقراررکھنا ہے کہ اس تنازعے کے تمام فریقوں سےپاکستان کے کسی نہ کسی نوعیت پر مضبوط تعلقات موجود ہیں۔

  • افغان طالبان نے ماسکو مذاکرات کو کامیاب قرار دے دیا

    افغان طالبان نے ماسکو مذاکرات کو کامیاب قرار دے دیا

    ماسکو:  افغان طالبان نے ماسکومذاکرات کوکامیاب قرار دے دیا، کانفرنس میں مذاکرات جاری رکھنے اور افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے پراتفاق ہوا  ہے۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان میں امن سے متعلق ماسکومیں دورروزہ کانفرنس ختم ہونے کے بعد اعلامیہ جاری کردیا گیا، جس کے مطابق روس کی میزبانی میں منعقد کی گئی دورروزہ افغان امن کانفرنس میں طالبان اورافغان سیاسی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس میں افغان حکومت کے نمائندوں کوکانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی ۔

    کانفرنس کے اعلامیے میں افغان تنازع کے حل کے لئے مذاکرات جاری رکھنے ، افغانستان میں غیرملکی مداخلت کے خلاف اور افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق ہوا۔

    افغان وفد کے سربراہ عباس ستنکزئی نے میڈیا سے گفتگومیں ماسکو مذاکرات کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا افغانستان سے غیرملکی فوج کے انخلا کا ٹائم ٹیبل طے نہیں ہوا ہے اوراس بارے میں پیشرفت ہورہی ہے۔

    مزید پڑھیں : طالبان پورے افغانستان پر قبضے کے خواہش مند نہیں ہیں: شیر عباس ستانکزئی

    گذشتہ روز عباس ستنکزئی کا کہنا تھا کہ طالبان بزورِ طاقت پورے ملک پر قابض ہونا نہیں چاہتے کیونکہ اس کی وجہ سے امن قائم ہونا ممکن نہیں، مذاکراتی عمل اپنی جگہ مگر طالبان اُس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک غیر ملکی افواج ہماری سرزمین سے چلی نہیں جاتیں۔

    مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے بڑھتے اثرات سے خواتین کو بالکل خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم انہیں شریعت اور افغان ثقافت کے مطابق سارے حقوق اور تحفظ فراہم کریں گے، لڑکیاں اسکول ، یونیورسٹی جاسکیں گی اور خواتین ملازمت کی بھی اجازت ہوگی۔

    خیال رہے اس سے قبل قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ایک طویل دور ہوچکا ہے، جس میں17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے پر بنیادی معاہدہ طے پایا تھا جبکہ فریقین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے پرامن انخلاء پر متفق ہوگئے تھے۔

    تاہم افغان صدراشرف غنی کو تاحال افغانستان میں جاری سترہ سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔

  • واضح کرنا چاہتا ہوں امریکا صرف امن چاہتا ہے: زلمے خلیل زاد کا ٹویٹ

    واضح کرنا چاہتا ہوں امریکا صرف امن چاہتا ہے: زلمے خلیل زاد کا ٹویٹ

    واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خیل زاد نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا صرف امن چاہتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں افغانستان کے حوالے سے امریکی طرزِ عمل پر اٹھنے والے سوال پر لوگوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکا امن چاہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”افغانستان کی آزادی اور خود مختاری اور خطے کی ریاستوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”زلمے خلیل زاد”][/bs-quote]

    زلمے خلیل زاد نے لکھا کہ لوگوں کے اس حوالے سے تحفظات ہیں کہ امریکا ایک طرف افغانستان میں لڑنا بھی چاہتا ہے اور دوسری طرف مذاکرات بھی کرنا چاہتا ہے۔

    امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا صرف امن چاہتا ہے، امن کے قیام کے لیے تمام افغانیوں کے تحفظات دیکھیں گے۔

    زلمےخلیل زاد نے لکھا کہ افغانستان میں تمام فریقین، افغانستان کی آزادی اور خود مختاری اور خطے کی ریاستوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں لڑائی فوری ختم ہو، لیکن امن کی تلاش کا مطلب ہے کہ ہمیں ضرورت کے مطابق لڑنا بھی پڑے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیراعظم عمران خان سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمےخلیل زاد کی ملاقات

    یاد رہے کہ گزشتہ روز زلمے خلیل زاد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کی، اس موقع پر افغان امن عمل میں پیش رفت اور دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

  • افغانستان میں امن بحالی، امریکا اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات آج ہوں گے

    افغانستان میں امن بحالی، امریکا اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات آج ہوں گے

    دوحہ: افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے امریکا اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات آج ہوں گے، طالبان نے پاکستان کے تعاون سے امریکا کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کردی ہے۔

    افغان میڈیاکے مطابق طالبان کی جانب سے جاری بیان میں قطرمیں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کی گئی ہے، قطرمیں امریکا اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان،افغانستان،یواے ای اورسعودی عرب کےنمائندے شریک ہوں گے۔

    پاکستان کے تعاون سے امریکا،افغان طالبان مذاکرات آج ہوں گے ۔

    افغانستان میں ترجمان امریکی سفارتخانے نے وائس آف امریکاسےگفتگو میں کہا تھا کہ امریکا پاکستانی حکومت کے تعاون کا خیر مقدم کرتا ہے، امریکی نمایندے زلمے خلیل زادتمام فریقین سے ملے ہیں اور مزید ملاقاتیں کریں گے۔

    مزید پڑھیں : طالبان مذاکرات سے متعلق پاکستانی حکومت کے تعاون کا خیر مقدم کرتے ہیں: امریکا

    خیال رہے وزیراعظم عمران خان نے دوروز قبل ہی مذاکرات کے بارے میں بتادیا تھا۔

    یاد رہے نومبر میں قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان رہنماؤں نے امریکا کے اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات کی تھی ، جس کی طالبان نے بھی تصدیق کی۔

    امريکی سفير زلمے خلیل زاد کا قطر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شورش زدہ ملک افغانستان ميں قيام امن کے ليے تمام فريقوں سے بات چيت کر رہے ہيں، جن ميں مختلف گروپ شامل ہيں، اس وقت امن اور مفاہمت کا بہترين موقع ہے، افغان معاملات میں بہتری چاہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو خط ارسال کیا تھا، خط میں امریکی صدر نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے مدد مانگ تھی، خط میں نیک خواہشات کا اظہار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف بھی کی تھی۔

    مزید پڑھیں : طالبان مذاکرات : امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان سے مدد مانگ لی

    بعد ازاں  امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان وافغانستان زلمے خلیل زاد پاکستان کا دورہ کیا تھا ، دورے میںزلمےخلیل زاد نے وزیر اعظم عمران خان ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ سے اہم ملاقاتیں کیں تھیں۔

    امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان وافغانستان زلمے خلیل زاد  نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں افغان مفاہمتی عمل اور طالبان سے مذاکرات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا جبکہ  صدر ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم کو نیک خواہشات کا پیغام بھی پہنچایا۔

  • افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ طالبان سے مذاکرات کرے، خواجہ آصف

    افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ طالبان سے مذاکرات کرے، خواجہ آصف

    اسلام آباد: وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کو قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔

    اسلام آباد میں وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں فوجی حل کی سوچ ناکام پالیسی کی عکاسی کرتی ہے، اگر امریکا افغانستان میں مستقل امن قائم کرنا چاہتا ہے تو طالبان سے بات چیت کرے۔

    انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اہتمام ہو سکتا ہے اگر امریکا عسکریت پسند گروہوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ اپنی ناکام حکمت عملی برقرار رکھے ہوئے ہے، طاقت کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنا ناممکن ہے۔

    خواجہ آصف نے کہا کہ چار ملکی گروپ میں پاکستان ، چین، امریکہ اورافغانستان کے علاوہ ایسے ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیئے جو طالبان میں اثر رسوخ رکھتے ہیں۔