Tag: افغانستان میں داعش

  • واشنگٹن داعش کی سرپرستی کر کے افغانستان میں شکست کا بدلہ طالبان سے لینا چاہتا ہے: روس

    ماسکو: روس نے الزام لگایا ہے کہ امریکا افغانستان میں داعش کی خفیہ سرپرستی کر رہا ہے، اور اس طرح شکست کا بدلہ طالبان سے لینا چاہتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے خصوصی صدارتی ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے جمعے کو ایک روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا افغانستان میں داعش کی سرپرستی کر کے ہمارے وسط ایشیائی شراکت داروں کے استحکام کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں طالبان مخالف مسلح گروپوں کی مدد کر رہا ہے، امریکا کوشش کر رہا ہے کہ شورش زدہ سرزمین پر امن قائم نہ ہو۔

    ضمیر کابلوف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مسلح اپوزیشن کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے کے علاوہ امریکا خفیہ طور پر اسلامک اسٹیٹ کے ارکان کی سرپرستی کرتا ہے، جو نہ صرف وسطی ایشیا اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کے استحکام کے خلاف ہیں، بلکہ روس کی سلامتی کے بھی خلاف ہیں۔

    کابلوف نے نشان دہی کی کہ امریکا افغانستان میں اپنی شرمناک فوجی اور سیاسی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بہت بے چین ہیں، واشنگٹن افغانستان میں شکست کا بدلہ طالبان سے لینا چاہتا ہے۔

    روسی ایلچی نے مزید کہا کہ جوابی کارروائی کے طور پر، امریکا اس درد بھری سرزمین پر امن کو آنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

  • افغانستان نے داعش کا وجود علامتی قرار دے دیا

    افغانستان نے داعش کا وجود علامتی قرار دے دیا

    چین: افغانستان نے داعش کا وجود علامتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ ممالک کی جانب سے افغانستان میں داعش کی موجودگی کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

    یہ بات افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے چین میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ اجلاس میں کی، یہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کا تیسرا اجلاس تھا جس کی میزبانی چین نے کی، جب کہ اس نوعیت کا یہ پہلا اجلاس تھا جس میں افغان وزیر خارجہ نے بھی شرکت کی۔

    خطے کے کچھ ممالک کی جانب سے خدشات کے اظہار پر داعش کے حوالے سے امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ داعش کا مسئلہ کافی حد تک حل کیا جاچکا ہے، داعش کا وجود محض علامتی ہے۔

    انھوں نے کہا بدقسمتی سے بیرونی جانب سے داعش سے متعلق پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے داعش کے لیے حالات سازگار بنائے جاتے ہیں، اور اسے میڈیا کے ذریعے آکسیجن مہیا کیا جاتا ہے، تاہم افغان حکومت ہر ملک کے خدشے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس اجلاس میں روس، قطر او انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ امارت اسلامیہ چاہتی ہے کہ اپنی متوازن اکانومی کے گرد گھومتی خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا کے ٹکراؤ سے خود کو محفوظ رکھے۔

    انھوں نے کہا امارت اسلامیہ نے کابینہ وزرا پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا ہے جو ملک کے اندر اور باہر شخصیات سے رابطے کرے گا، افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی تشکیل مزید جامع ہو اور سب کی اس میں شمولیت ہو۔

    متقی نے کہا اب وقت آ گیا ہے کہ افغان حکومت سے ہمہ پہلو تعاون کیا جائے، افغانستان کی مضبوطی سب کے مفاد میں ہے اور کمزوری میں سب کا نقصان۔ انھوں نے کہا افغان سرمایہ منجمد کر دیا گیا ہے، اقوام متحدہ میں اس کی سیاسی نمائندگی ایسے شخص کو دی گئی ہے جو اس کا اہل ہی نہیں ہے، وہ افغان عوام کی خدمت نہیں کر سکتا، افغان سرزمین کے سیاسی اور اقتصادی حقوق یرغمال بنا دیے گئے ہیں۔

    افغان طالبان کے لیے بڑی خبر، ماسکو میں سفارت خانہ مکمل فعال ہونے کے قریب

    ان کا کہنا تھا کہ امارت اسلامیہ کوشش کر رہی ہے تمام سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کو تدبیر اور احتیاط سے حل کرے۔

    چینی وزیر خارجہ وانگ یی اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، انھوں نے افغانستان کے حوالے سے ترقی اور کامیابی کی امید ظاہر کی، اور توقع ظاہر کی کہ افغانستان میں اب کسی کے لیے چیلنجز اور خطرات نہیں ہوں گے۔ انھوں نے اجلاس میں مولوی امیر خان متقی کی شرکت کا خیر مقدم کیا اور ان کے مؤقف کو سراہا۔

    روسی وزیر خارجہ نے مولوی امیر خان متقی کی گفتگو کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کی حمایت کی تاکید کی، لاوروف نے کہا مغربی ممالک کو افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ سرگئی لاوروف نے تاکید کی کہ سابقہ انتظامیہ کے نمائندے افغانستان کی موجودہ حکومت کی نمائندگی نہیں کر سکتے، وہ اس اسٹیج کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے روس میں نئے سفیروں کی منظوری کی جانب بھی اشارہ کیا۔

    اجلاس کے تمام شرکا نے نئی افغان حکومت سے تعلقات کی مضبوطی کی تائید کی۔ ازبکستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے بڑے اقتصادی منصوبوں کی تکمیل اور افغانستان کے راستے ٹرانزٹ کے منصوبوں پر زور دیا۔ انڈونیشیا اور قطر کے وزرائے خارجہ نے افغانستان سے مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔

    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کا عمل پڑوسی ممالک کے اتفاق رائے سے پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیے۔

    اس سلسلے کا آئندہ اجلاس ازبکستان میں ہوگا، جس میں افغان وزیر خارجہ بھی شریک ہوں گے۔