Tag: افغان امن عمل

  • امریکا اور طالبان کا 2 اہم نکات پر اتفاق، افغانستان سے افواج کی واپسی زیرغور

    امریکا اور طالبان کا 2 اہم نکات پر اتفاق، افغانستان سے افواج کی واپسی زیرغور

    واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ پلاڈینو کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 2 اہم معاملات پر اتفاق ہوگیا ہے، افواج کی واپسی اور انسداددہشت گردی کی یقین دہانی پر ڈرافت تیار ہورہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دارالحکومت واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رابرٹ پلاڈینو کا کہنا تھا کہ ڈرافٹ کی تیاری کے بعد افغان حکومتی ٹیم اپنا کام شروع کرےگی، افغان حکومت سیاسی حل اور سیزفائر پر طالبان سے مذاکرات کرے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ افغان امن مذاکرات پر ایک ڈرافٹ تیار کیا جارہا ہے، افغان طالبان سے مذاکرات میں بامعنی پیش رفت ہوئی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ حتمی معاہدے میں طالبان، افغان حکومت اور دیگر شامل ہوں گے، امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کل واپس پہنچے ہیں، وہ واشنگٹن میں بھی تمام اہم پارٹنرز سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ حالیہ امریکا طالبان مذاکرات دوحہ قطر میں 25 فروری کو شروع ہوئے، جس کے لیے پاکستان نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ دو دن قبل افغان میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ فریقین میں کچھ معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے اور چند معاملات پر ابھی بھی رکاوٹ موجود ہے۔

    قطر مذاکرات: امریکا کا تمام شرائط منوانے کے لیے اصرار، طالبان کا انکار

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذاکرات کار کوشش کر رہے ہیں کہ درپیش رکاوٹوں پر قابو پایا جائے، طالبان نمائندے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں ان کا صرف اس بات پر اصرار ہے کہ تمام قابض افواج افغانستان سے نکل جائیں۔

  • طالبان ڈپٹی لیڈر ملا عبدالغنی برادر امریکا سے مذاکرات کے لیے قطر پہنچ گئے

    طالبان ڈپٹی لیڈر ملا عبدالغنی برادر امریکا سے مذاکرات کے لیے قطر پہنچ گئے

    کابل: افغان طالبان کے ڈپٹی لیڈر ملا عبدالغنی برادر امریکا سے مذاکرات کرنے کے لیے آج قطر پہنچ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی میڈیا نے خبر دی ہے کہ طالبان ڈپٹی لیڈر ملا عبدالغنی برادر قطر پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ امریکی وفد کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔

    [bs-quote quote=”مذاکرات میں گزشتہ ماہ ہونے والی ڈیل کے لیے فریم ورک طے کیا جائے گا۔” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    امریکی اور افغان وفد کے درمیان افغان امن عمل سے متعلق مذاکرات کا دور کل قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوگا۔

    کہا جا رہا ہے کہ طویل افغان جنگ کے خاتمے کے لیے یہ امریکی سفارت کاروں اور طالبان کے درمیان اب تک کے اعلیٰ سطح کے مذاکرات ہوں گے۔

    امکان ہے کہ مذاکرات اس نکتے پر مرکوز ہوں گے کہ فریقین کے درمیان گزشتہ ماہ جو ڈیل طے ہوئی تھی اس کا فریم ورک کیا طے کیا جائے، ڈیل کے مطابق امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی اور طالبان یہ گارنٹی دیں گے کہ افغان علاقہ دہشت گرد کبھی استعمال نہیں کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  مذاکرات میں پیشرفت پر افغانستان میں فوج کی تعداد کم کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

    ان مذاکرات سے افغان حکومت کو باہر کر دیا گیا ہے، تاہم امریکی حکام کہہ چکے ہیں کہ امریکا کے ساتھ کسی بھی حتمی معاہدے میں یہ بھی شامل ہوگا کہ طالبان افغان حکام سے مل کر جنگ بندی کا اعلان کریں گے تاکہ جنگ سے ہونے والی اموات اور تباہ کاریوں کا سلسلہ رک جائے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ملا برادر پاکستان سے دوحا پہنچے، جہاں وہ زلمے خلیل زاد کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لیں گے۔

    امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خیل زاد نے کہا ہے کہ وہ طالبان پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالیں گے کہ وہ ان دو نکات پر رضامند ہوں۔

  • جولائی سے قبل طالبان سے معاہدے کی کوشش ہے: زلمے خلیل زاد

    جولائی سے قبل طالبان سے معاہدے کی کوشش ہے: زلمے خلیل زاد

    واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ پوری کوشش کررہے ہیں افغانستان میں جولائی سے قبل طالبان سے معاہدہ طے پاجائے۔

    واشنگٹن میں یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس سے خطاب کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں پاکستان افغان امن میں مزید کردار ادا کرے۔

    انہوں نے کہا کہ طالبان سے بات چیت بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے، ایک لمبے سفر کے آغاز کے ابھی دو تین قدم ہی اٹھائے ہیں۔

    زلمے خلیل زاد نے امریکا کی افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف بھی کی۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ابھی افغان حکومت اور طالبان مذاکرات میں سیز فائر اور کئی معاملات ابھی باقی ہیں، بعض لوگ ابتدائی باتوں سے سمجھتے ہیں کہ ہم کسی معاہدہ پر پہنچ گئے۔

    افغان حکومت اور طالبان مذاکرات، سیز فائر سمیت کئی معاملات ابھی باقی ہیں، زلمے خلیل زاد

    انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی اور افواج کے انخلا پر بات ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معاملات حل ہوگئے ہیں، ہم نے ان معاملات پر اب تک بات چیت مکمل بھی نہیں کی ہے، سیز فائر اور کئی معاملات پر ابھی بات ہونی ہے۔

    خیال رہے قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ایک طویل دور ہوچکا ہے، جس میں17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے پر بنیادی معاہدہ طے پایا تھا جبکہ فریقین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے پرامن انخلاء پر متفق ہوگئے تھے۔

    علاوہ ازیں روس میں طالبان اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان بھی گذشتہ دنوں بیٹھک لگی جس میں ملکی امور پر تفصیلی مذاکرات ہوئے۔

  • روس میں طالبان اورافغان اپوزیشن کی ملاقات شروع

    روس میں طالبان اورافغان اپوزیشن کی ملاقات شروع

    ماسکو: افغان طالبان اورافغان اپوزیشن اتحاد کا دوروزہ مذاکراتی دور آج سے روس میں شروع ہوگیا ہے، سابق افغان صدر حامد کرزئی اپوزیشن وفد کی قیادت کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبا ن اور افغان اپوزیشن رہنما آج اور کل روس کے پریذیڈنٹ ہوٹل میں افغانستان میں پائیدارامن کے لیے ملاقات کریں گے، یہ ملاقات افغان مفاہمتی عمل کا حصہ بتائی جارہی ہے۔

    روس نے ان سرکاری سطح پر ان مذاکرات سے کسی بھی قسم کی وابستگی سے انکارکیا ہے، بتایا جارہا ہے کہ یہ ملاقات روس میں مقیم افغان تارکین وطن کی جانب سے منعقد کی گئی ہے۔

    طالبان قطرآفس کے ترجمان سہیل شاہین نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے وفد کی قیادت شیر محمدعباس ستانکذئی کررہے ہیں۔

    دوسری جانب افغان صدراشرف غنی کے مشیر فضل فضلے نے اپوزیشن رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ طالبان سے مذاکرات کرکے صرف طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں ماضی میں حکومت کرنے والے موجودہ حکومتی پالیسی کے برخلاف اقدامات کررہے ہیں، اورطاقت سے دور ہورہے ہیں۔

    یاد رہے کہ دس دن قبل قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ مذاکرات کا حالیہ دور گزشتہ ادوار سے بہت اچھا رہا، بات چیت کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے جلد مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

    زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا تھا کہ ابھی مکمل اتفاق نہیں ہوا، کچھ معاملات باقی ہیں، جب تک سب باتوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا کچھ بھی منظور نہیں ہوگا۔

    گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اگر دوبارہ مسائل نے سر اٹھایا تو اس سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس رکھیں گے، طالبان امن چاہتے ہیں، وہ تھک چکے ہیں، دراصل ہم سب ہی تھک چکے ہیں۔

  • موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    ماضی کی طرح اس سال بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دورشروع ہوچکا ہے، فی الحال یہ عمل طالبان کی جانب سے معطلی کا شکار ہے لیکن امید کی جارہی ہے کہ مذاکرات جلد بحال ہوں گے۔ افغانستان کے جغرافیائی محل و وقوع کے سبب یہاں موسمِ سرما میں انتہائی محدود سرگرمیاں ہوتی ہیں، اسی لیے جنگ بھی تعطل کا شکار ہے ۔

    علاقائی سیاست اور دہشت گردی کے خلا ف اس جنگ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اچھی طبرح جانتے ہیں کہ طالبان موسمِ سرما میں ہمیشہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے چلے آئے ہیں اور موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی وہ جنگ چھیڑدینے کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکی حکومت، افغان حکومت اور طالبان قیادت ، تینوں فریقین کی جانب سے مسئلے کی اصل جڑ کو نظرانداز کرنے کے سبب یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا رخ اختیا ر کرچکی ہے اور امریکا، جو ویت نام کی دلدلوں سے بحفاظت باہر نکل آیا تھا ، آج تک یہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

    ماضی سے حال تک


    اب ذرا نظر ڈالتے ہیں ماضی کے ان حالات پر جن سے گزر کر افغانستان اور امریکا اس نہج پر پہنچے ہیں کہ نہ جائے رفتن ، نہ پائے ماندن والی صورتحال پید ا ہوچکی ہے۔ نہ تو امریکا ، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرسکا ہے، نہ ہی اس کی مدد سے تشکیل پانے والی افغان حکومت ملک پر اپنا کنٹرول قائم کرسکی ہے ، دوسری جانب طالبان جو آج بھی افغانستان کے ایک بڑے خطے پر قابض ہیں ، تاحال رائے عامہ کو اکثریتی طور پر اپنے حق میں ہموار نہیں کرپائے ہیں جس کے سبب انہیں بھی ملک کا بلا شرکت غیرے مالک تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

    افغانستان کی حالیہ جنگ کا منظر نامہ نائن الیون کے بعد ترتیب پانا شروع ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں ماضی میں ہیں ، جب سویت یونین شکست کے بعد اپنا جنگی سازو سامان افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں پر پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا، اور اس کی شکست کے پیچھے واضح طور پر امریکا اور پاکستان کا اشتراک تھا، روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش کے سبب پاکستان پرلازم تھا کہ وہ اس سیلِ رواں کے سامنے افغانستان میں ہی بند باندھ دے جو کہ افغانستان کے رستے ہماری جانب بڑھ رہا تھا۔روس کے انخلاء کے فوراً بعد ہی امریکا بھی اس خطے سے ہاتھ جھاڑ کرچل پڑا جس کے نتائج بعد میں پورے خطے نے بھگتے۔

    نائن الیون کے بعد امریکا ایک نئے کردار کے ساتھ اس خطے میں واپس آیا، کل تک جو طالبان امریکا کے اتحادی تھے ، آج وہ ان کا مخالف تھا، ایجنڈا یہ تھا کہ طالبان سے ان کے اس مسکن کو چھین لیا جائے جہاں بیٹھ کر وہ بقول شخصے پوری دنیا کا من سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انتہائی طویل سرحد اور صدیوں پر مشتمل رشتوں کے سبب امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ لہذا پاکستان کو بطور فرنٹ لائن اتحادی اس جنگ میں شامل کیا گیا۔

    میدانِ جنگ پاکستان تک پھیل گیا


    جنگ شروع ہوئی تو یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پھر اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے یہاں کے گلیوں اور بازاروں میں در آئی ۔ اس موقع پر بھارت کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جس نے پاکستان سے اپنی روایتی مخالفت کے سبب اپنے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانوں کی شکل میں اپنا پورا نیٹ ورک ترتیب دیا اور بقول پاکستانی فوج کی ہائی کمان کے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے وہاں سے بیٹھ کر بھرپور وسائل استعمال کیے۔ بالاخرمنظرنامہ تبدیل ہوا، اور سوات میں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج نے ایکشن کے ذریعے ایک ایک کرکے پاکستان میں موجود تحریکِ طالبان کے ٹھکانے ختم کرنا شروع کیے اورسرحد پرباڑھ لگانے کا کام بھی شروع کیا، جس کے اثرات بھی نظرآئے اور پاکستان جو کہ روز بم دھماکوں کا نشانہ بنتا تھا ، اب یہ واقعات پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوچکے ہیں۔

    اس ساری صورتحال سے افغانستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اورامریکا جو ابتدا میں وہاں فتح یاب دکھائی دے رہا تھا ،بالاخر اسی دلدل میں پھنس گیا جس میں اس سے قبل سفید ریچھ یعنی روس پھنس چکا تھا۔

    امریکی انخلاء


    سابق امریکی صدر اوبامہ کے دور سے امریکا چاہ رہا ہے کہ کسی طرح اپنا ساز وسامان سمیٹ کر افغانستان سے نکل جائے کہ یہ جنگ اب نہ صرف اس کی معیشت پر اثر انداز ہوکر اپنے اثرات دکھا رہی ہے بلکہ اس کے فوجی بھی اس بے مقصد کی جنگ سے عاجز آچکے ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے جائے تو جائے کیسے کہ امریکا تو کمبل کو چھوڑ رہا ہے لیکن کمبل امریکا کو نہیں چھوڑ رہا۔ امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ایک دم سے اس خطے سے نکل جاتا ہے تو اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر پاکستان افغانستان کے امور پر حاوی ہوجائے گا کہ جو کہ امریکا کے لیے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان جو کہ خود بھی انتہائی اہم محل و وقوع کا حامل ہے ، افغانستان جیسے علاقے میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرلے۔ امریکا کی اس تشویش کو بڑھاوا دینے میں اس کے دیرینہ دوست بھارت کا بھی ہاتھ ہے جو اسے مسلسل ڈرا رہا ہے کہ امریکا کے انخلا کی صورت میں چین، پاکستان اور افغانستان کے راستے سنٹرل ایشین منڈیوں تک آسان رسائی حاصل کرلے گا اورایک بار امریکا یہاں سے گیا تو پھر دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکے گا۔

    پاکستان کا کردار


    پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا سی پیک معاہدہ بھی امریکا کی پریشانی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دور کی شروعات میں پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے ذریعے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی جس میں اسے ایک جانب تو بری طرح ناکامی ہوئی، دوسری جانب پاکستان جو کہ اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا ، اس نے بھی امریکا سے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرکے علاقائی سطح پرچین اور روس کے تعاون سے افغانستان میں قیام ِ امن کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش شروع کردی۔

    اس ساری صورتحال نے امریکا کو مجبور کردیا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان سے رجوع کرے اور یوں امریکی صدر اپنے 33 بلین ڈالرز، جن کا وہ پاکستان سے حساب مانگا کرتے تھے، بھول کر نئی پاکستانی حکومت سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ افغان امن عمل میں پاکستان ایک بار پھر موثر طور پر اپنا کردار ادا کرے۔

    دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت عالمی بساط پر اپنے مہرے بہت احتیاط سے چل رہا ہے ، سی پیک کی صورت میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے انتہائی قریب آچکے ہیں ، جس کے سبب پاکستان کا امریکا پر انحصار کم ہورہا ہے، دوسری جانب پاکستان روس سے بھی اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والےسفارتی اوردفاعی روابط اس بات کے گواہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی از سرِ نو تشکیل کی ہے اور یمن کے معاملے میں غیر جانب دار رہ کر اپنا نیا کردار دنیا کے سامنے منوایا ہے۔

    طالبان امریکا مذاکرات


    پاکستان کی کوششوں سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امور زلمے خلیل زا د نے دسمبر میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور افغانستان میں افغان طالبا ن کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد طالبان اور امریکا کے قطر میں مذکرات کی میز پر بیٹھنے کے آثار پیدا ہوئے، لیکن اس کے بعد صورتحال نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور طالبان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کے ا یجنڈے سے پیچھے سے ہٹ رہا ہے ، یہ کہہ کر افغانستان کی جانب سے مذاکرات معطل کردیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے مذاکرات باہمی رضا مندی سے کچھ وقت کے لیے ملتوی کیے ہیں اور کچھ اختلافی امورکو طے کرنے کے بعد مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کیا جائے گا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز جلد ہوگا۔

    مذاکرات کی معطلی کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغانستان پہنچے ، جہاں انتہائی مصروف شیڈول گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا اوراب وہ سول اورعسکری اعلیٰ سطحی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے طالبان اورامریکا کے درمیان مصالحت کاری کے فرائض انجام دینے پرپاکستان کا شکریہ بھی ادا
    کیا۔ امریکی وفدمیں افغان امریکی مشن کےسربراہ جنرل آسٹن،امریکی صدرکی نائب معاون لیزاکرٹس اورامریکی ناظم الاموربھی شامل ہیں۔ جی ایچ کیو میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے حالیہ دورے میں ہونے والی پیش رفت سے آرمی چیف کو آگاہ کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

    اس سارے معاملے میں پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت پر خصوصی نظر رکھے جس نے محض پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ، اور اگر افغان طالبان اور امریکا کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو نہ صرف افغانستان میں کی گئی بھارتی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی بلکہ پاکستان مستقبل میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے بھارت کا خطے کا چودھری بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

    آثاردیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اب کی بار طالبان اور امریکا کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب رہیں گے لیکن ماضی بتاتا ہے کہ موسمِ سرما میں کی جانے والی ایسی کوششیں ماضی میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ موسمِ سرما گزار کر افغان طالبان ہمیشہ ہی کابل کی افغان حکومت اور افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے شروع کردیتے ہیں اور سرما میں مذاکرات کا مقصد تاحال ان کے لیے گرمیوں میں لڑی جانے والی جنگ کی یکسوئی سے تیاری کرنا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور امریکی عوام پر امید ہیں کہ فریقین کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں اور خطے میں اب کی بار ’قیام امن کی ضرورت‘ اصل گیم چینجر ثابت ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امن کی بہار کی یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے؟۔،

  • امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی

    امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی

    واشنگٹن : امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی، امریکی صدرکی نائب معاون لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات میں پاکستان کا تعاون ضروری ہے۔

    تفیصلات کے مطابق امریکا نے خطے میں پاکستان کی اہمیت ایک بار پھر تسلیم کرلی اور افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے پاکستان سے مدد مانگ لی۔

    امریکی صدر کی نائب معاون لیزا کرٹس نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن ایسا پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، امن عمل میں پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔

    لیزا کرٹس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کے خدشات پرتوجہ دینا ہوگی، امریکا مذاکرات میں شامل ہوگا لیکن افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کرے گا، افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے کوششوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں سال  4 اپریل کو امریکی سفارت خانے کی جانب سے نائب سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز کے دورہ پاکستان سے متعلق اعلامیے میں‌ کہا گیا تھا کہ پاکستان اور امریکہ مشترکہ تعاون کے ساتھ ہی افغانستان کے پرامن مسئلے کا حل تلاش کرسکتے ہیں

    اس سے قبل  یکم مارچ کو امریکا کی معاون نائب وزیرخارجہ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں یہ نہ سمجھا جائے کہ پاکستان سے تعلقات ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں، انتہا پسند تنظیموں کےخلاف پاکستان سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

    واضح  رہے کہ نئے سال کے آغاز پرامریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 15 سالوں میں 33 ارب ڈالر امداد دینے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔


  • پاکستان اورافغانستان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ ایکشن پلان پرمتفق

    پاکستان اورافغانستان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ ایکشن پلان پرمتفق

    اسلام آباد: پاکستان اورافغانستان کے مابین امن کے سلسلے میں سات نکاتی ایکشن پلان پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جس پرساتھ مل کرکام کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان نے افغان قیادت کے تحت افغان امن عمل کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، یہ بات دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک اعلامیے میں کہی۔ ترجمان نے کہا کہ ایکشن پلان کے تحت مشترکہ ورکنگ گروپس میں ہر طرح سے تعاون کیا جائے گا۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ 6 اپریل کو وزیر اعظم نے کابل کا دورہ کیا تھا جس میں ایکشن پلان کے نکات پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر بلیم گیم سے اجتناب برتیں گے اور ایک دوسرے کی علاقائی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک سات نکاتی ایکشن پلان پر مل کر کام کریں گے اور ایک دوسرے کی سیکورٹی کو لاحق خطرات کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔

    پاک افغان مشترکہ ورکنگ گروپ کا دوسرا اجلاس آج ہوگا

    پاکستان اور افغانستان کے درمیان بننے والے ایکشن پلان کے مطابق دونوں ممالک اپنی زمین غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روکیں گے اور اس سلسلے میں جو گروپس کام کریں گے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔

    ترجمان نے کہا کہ ایکشن پلان کے تحت جو فیصلے کیے گئے ہیں ان پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ لائزن آفیسر مقرر کیے جائیں گے تاکہ یہ پلان کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے۔

    واضح رہے کہ پاک افغان مشترکہ ورکنگ گروپس کے درمیان دو اجلاس ہوچکے ہیں جن میں دہشت گردی اور افغان مہاجرین کی واپسی سمیت مختلف معاملات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ پاک افغان ایکشن پلان پر بھی مثبت پیش رفت ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک کے سربراہان ماضی میں بھی ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم ختم کرنے پر متفق ہوچکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔