کابل : افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے میں ملوث داعش کے دہشت گرد مارے گئے۔
تفصیلات کے مطابق افغان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغان فورسز نے کابل اور صوبے نمروز میں داعش کے مختلف ٹھکانوں پر کارروائی کی ، کارروائی میں 8 دہشت گردوں کو ہلاک اور سات کو گرفتار کیا گیا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے میں ملوث داعش کے دہشت گرد مارے گئے۔
ترجمان نے بتایا کہ افغان فورسز نے داعش کےخطرناک نیٹ ورک کیخلاف کارروائیاں کیں ، یہ دہشت گرد پاکستانی سفارت خانے اور کابل ہوٹل میں چینی باشندوں پر حملے میں ملوث تھے۔
یاد رہے دو دسمبر کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا جس میں سیکورٹی گارڈ زخمی ہو ا تھا۔
لندن: برطانیہ کے لیے کام کرنے والے افغان مترجمین کا ڈیٹا لیک ہو گیا۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں افغان مترجمین کا ڈیٹا لیک ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس سے افغانستان میں موجود ترجمانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق 250 سے زائد افغان ترجمانوں کی معلومات چوری ہو چکی ہیں، لیک ہونے والی معلومات میں افغان ترجمانوں کے ای میل ایڈریسز اور تصاویر شامل ہیں۔
برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس کی ہدایت پر ان افغان ترجمانوں کے ڈیٹا لیک ہونے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جنھوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک چھوڑنے کے خواہاں برطانوی فوجیوں کے لیے کام کیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی غلطی سے ڈھائی سو سے زائد ترجمانوں کے نام، ای میل پتے اور پروفائل تصاویر وزارت سے بھیجی جانے والی ایک ای میل میں کاپی ہو گئیں، یہ ای میل ان تمام ترجمانوں کو بھیجی گئی تھی جو افغانستان میں تاحال چھپے ہوئے ہیں۔
وزارت دفاع کی جانب سے اس غلطی پر معذرت کی گئی ہے، ذرائع کے مطابق ڈیٹا لیک ہونے سے ان ترجمانوں میں خوف و ہراس پھیلنے کا اندیشہ جنھوں نے برطانوی فوجیوں کے لیے کام کیا۔
واشنگٹن: افغانستان میں امریکی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں پر مشتمل پہلی فلائٹ امریکا پہنچ گئی۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان میں امریکی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کی امریکا منتقلی کا سلسلہ جاری ہے، امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ساتھ کام کرنے والے افغان ترجمانوں اور دیگر کے انخلا کی پہلی پرواز واشنگٹن کے ڈولس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچ گئی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ایئرلائن نے، جس میں 221 افغان سوار تھے، بشمول 57 بچے اور 15 نوزائیدہ، جمعے کو علی الصبح ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ امریکا پہنچنے والے افغان پہلے مرحلے میں شامل ان ڈھائی ہزار افغانوں میں سے ہیں، جنھیں امریکا منتقل کیا جانا تھا، ان میں 700 اصل درخواست گزار ہیں جب کہ باقی ان کے خاندانوں کے افراد ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق اس گروپ میں شامل تمام افراد کو خصوصی امیگرنٹ ویزے کے لیے اجازت دی گئی تھی، اور ان سب کے بیک گراؤنڈ کی بھی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
امریکی رہنمائی میں ناٹو فورسز کے ساتھ کام کرنے والے اکثر افغانوں کو طالبان کی جانب سے انتقامی حملوں کا خوف لاحق تھا، انھیں بھی امریکی فوجیوں کے ساتھ اگست کے اختتام تک افغان سرزمین چھوڑنے کے لیے شیڈول کیا گیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو امریکا پہنچنے والی فلائٹ کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک اہم سنگ میل ہے، ہم ہزاروں افغان شہریوں سے اپنے وعدے کو پورا کررہے ہیں، جنھوں نے افغانستان میں گزشتہ 20 برسوں میں امریکی فوجیوں اور سفارت کاروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر خدمات انجام دیں۔
بائیڈن نے کہا یہ پہلے افغان اس لیے براہ راست امریکا پہنچے ہیں، کیوں کہ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ان کے بیک گراؤنڈ کو اچھی طرح سے چیک کر لیا تھا اور ان کی مکمل سیکیورٹی اسکریننگ کی گئی تھی۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ افغان شہری اب ریاست ورجینیا کے شہر فورٹ لی میں اپنے ویزے درخواستوں اور درکار طبی جانچ کے لیے حتمی مراحل مکمل کریں گے، اس کے بعد یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اپنی نئی زندگیاں شروع کر سکیں گے۔
خیال رہے کہ امریکا ان افغان خاندانوں کو ملک بھر میں آباد کرنے کے لیے یونائیٹڈ نیشن انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے ساتھ شراکت کر رہا ہے۔
ادھر افغانستان کے دارالحکومت کابل سے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی سفارت خانہ افغان شہریوں کے انخلا کے سلسلے میں نہایت راز داری سے کام لے رہا ہے۔
واشنگٹن: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں وہاں موجود امریکا کے لیے مترجم کا کردار ادا کرنے والے افغانوں کی حفاظت کا مسئلہ سامنے آ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے فوجی انخلا سے قبل امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے کچھ افغان مترجمین اور دیگر افراد کو نکالنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کچھ افغان باشندوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا جائے گا، کیوں کہ وہ اپنی امریکی ویزا درخواستوں پر کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم امریکی عہدے داروں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ مذکورہ افغان شہری کہاں انتظار کریں گے، اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ آیا کسی تیسرے ملک نے انھیں قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، یا نہیں۔
واضح رہے کہ امریکی حکومت کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے، ان افغان شہریوں نے خصوصی نقل مکانی ویزا کے لیے درخواستیں جمع کروائیں ہیں۔
سابق افغان مترجمین اکھٹے ہو کر کابل میں نیٹو اور امریکی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (فوٹو اے پی)
ایک سینئر امریکی ریپبلکن قانون ساز نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ خطرے سے دوچار افغانوں کے انخلا میں ان کے کنبوں کے افراد بھی شامل ہوں گے، جن کی مجموعی تعداد 50 ہزار تک ہے۔
روئٹرز کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا یہ فیصلہ افغانستان میں بحران کے احساس کو تیز کرنے کا سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ ابھی ایک دن قبل ہی (جمعے کو) بائیڈن نے واشنگٹن میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے، جس کا مقصد فوجی انخلا کے باوجود افغانستان کے ساتھ پارٹنر شپ کے احساس کو اجاگر کرنا تھا۔
خیال رہے کہ قانون سازوں کے ایک گروپ نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا تھا، کہ وہ ان افغانوں کا تحفظ یقینی بنائیں جنھوں نے امریکا کے لیے ترجمانی کے فرائض انجام دیے، کیوں کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال بگڑگئی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں تقریر کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں جنھوں نے ہماری مدد کی تھی انھیں ہم پیچھے نہیں چھوڑیں گے، انھیں بھی ان لوگوں کی طرح خوش آمدید کہا جائے گا جنھوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری مدد کی۔
امریکی نمائندے مائیک مک کال نے روئٹرز کو بتایا کہ انخلا کرنے والوں میں تقریباً 9 ہزار ترجمان شامل ہیں، جنھوں نے خصوصی امیگریشن ویزے کے لیے اہل خانہ سمیت درخواستیں دی ہیں، اور جو ممالک انھیں وصول کریں گے ان میں ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور کویت شامل ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی حمایت یافتہ افغان افواج اور طالبان کے مابین لڑائی میں شدت آ چکی ہے، طالبان علاقوں پر پھر سے کنٹرول حاصل کرنے لگے ہیں، پینٹاگون کے مطابق افغانستان کے 419 ضلعی مراکز میں طالبان کا کنٹرول 81 پر ہے۔