Tag: افغان طالبان

  • ٹرمپ کا طالبان سے معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں فوج رکھنے کا اعلان

    ٹرمپ کا طالبان سے معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں فوج رکھنے کا اعلان

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان سے معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں فوج رکھنے کا اعلان کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں مستقبل بنیادوں پر امریکی فوج رہے گی، معاہدے طے پایا تو افغانستان میں افواج کی تعداد گھٹا کر 8600 کردیں گے۔

    امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان میں ہمیشہ امریکی افواج کی موجودگی بنائے رکھیں گے، اگر پھر امریکا پر افغانستان سے حملہ ہوا تو ایسی قوت سے لوٹیں گے جس کی ماضی میں مثال نہیں۔

    افغانستان میں فی الوقت 14 ہزار امریکی فوجی اہلکار موجود ہیں جبکہ نیٹو افواج کے اہلکار اس کےعلاوہ ہیں۔

    امریکی صدر نے ایک بار پھر افغانستان کو دہشت گردی کی ہارورڈ یونیورسٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہا گر میں ایک کروڑ لوگوں کو ماردوں تو امریکا یہ جنگ منٹوں میں جیت سکتا ہے لیکن میں ایسا نہیں چاہتا۔

    واضح رہے کہ دوحا میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نویں دور کا آج پانچواں روز ہے، افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا نے طالبان کے 98 فیصد مطالبات مان لیے گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق طالبان اور امریکا کے درمیان مکمل فائر بندی ہوگی، امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں اپنے آپریشنز روک دیں گے۔

    طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے کا باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے اور اس اعلان کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔

  • طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ

    طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ

    کابل: افغان امن مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کی طرف سے برف پگھلنے لگی ہے، طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، براہ راست مذاکرات کا سلسلہ آیندہ دو ہفتوں کے اندر شروع ہو سکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے نے ایک اعلیٰ افغان اہل کار کے حوالے سے کہا ہے کہ دو ہفتے میں افغان حکومت اور طالبان رہنماؤں کے درمیان براہ راست مذاکرات متوقع ہیں۔

    بتایا گیا ہے کہ ایک افغان وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کی سطح پر طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں ایک پندرہ رکنی وفد حکومت کی نمایندگی کرے گا۔

    طالبان کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ افغان حکومت ایک کٹھ پتلی حکومت ہے، اس لیے اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے ضرور قبول کریں گے، افغان طالبان

    افغان طالبان حکومت کی بہ جائے امریکی ٹیم کے ساتھ گزشتہ کئی ماہ سے مذاکرات کر رہے ہیں، دوحہ، قطر میں اس سلسلے میں کئی ادوار چلے جس میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا۔

    افغان امن مذاکرات کے لیے امریکی نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کئی مرتبہ پاکستان آ کر پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

    افغانستان میں گزشتہ 18 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی کوشش رہی ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے میز پر آئے تاہم طالبان انکار کرتے آئے ہیں۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کو خصوصی طور پر سراہا گیا، امریکی صدر نے کہا کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان امریکا کی بہت مدد کر رہا ہے۔

  • پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے ضرور قبول کریں گے، افغان طالبان

    پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے ضرور قبول کریں گے، افغان طالبان

    دوحہ : افغان طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے ضرور قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے، وزیراعظم نے امریکی دورے میں کہا تھا طالبان سے ملیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی خبر رساں ادارے سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کی پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے قبول کرلیں گے، دورےکی دعوت ملی تووزیراعظم عمران خان سےبھی ملیں گے۔

    ترجمان افغان طالبان کا کہنا تھا وزیراعظم نےامریکی دورےمیں کہا تھاطالبان سےملیں گے اور طالبان کوکہیں گےافغان حکومت سےمذاکرات کریں ، ہم تو خطے اور ہمسایہ ممالک کے دورے وقتاً فوقتاً کرتے ہیں تو اگر ہمیں پاکستان کی طرف سے رسمی دعوت ملتی ہے، تو ہم جائیں گے کیونکہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔

    اس سوال کے جواب میں کہ طالبان پر تو پہلے سے ہی یہ الزامات ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں، تو کیا اس دورے سے افغانستان کے اندر اور باہر ان پر مزید الزامات نہیں لگیں گے؟ جس پر سہیل شاہین کا کہنا تھا وہ لوگ جن کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں وہی ان پر اس قسم کے الزامات لگائیں گے، ماضی میں بھی لگا چکے ہیں اور مستقبل میں بھی لگاتے رہیں گے۔

    ترجمان نے کہاکہ ایک تو ہمارے اسلامی اور قومی مفاد ہیں، جس میں ہم کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنے دیتے ہیں، البتہ جہاں تک دوسرے ممالک یا پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے کا سلسلہ ہے، ان کے ساتھ تو ہمارے رابطے ہیں بھی اور ہم چاہتے بھی ہیں۔

    افغان طالبان کا کہنا تھا ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی، پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں، تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوسکتی ہے۔

    سہیل شاہین نے کہا ہم نے امریکا کے ساتھ پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کئے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

    یاد رہے عمران خان نے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم نے70ہزار جانیں قربان کی ہیں،70ہزار قربانیوں کے باوجود پاکستان اور امریکا میں بداعتمادی کی فضا برقرار رہی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اس سے بڑی قربانیاں نہیں ہوسکتیں، پاکستانی عوام سمجھتے رہے کہ وہ امریکی جنگ لڑرہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا افغان جنگ کی ہم نے بہت بھاری قیمت ادا کی، اتنی قربانیوں کے بعد بھی امریکا کا خیال تھا کہ ہم کام نہیں کررہے، حیران ہوں کی امریکا کی اہم شخصیات کو پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں کا درست اندازہ نہیں ہے، امید کرتا ہوں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان بات چیت سے حل نکلے گا، افغان مسئلے کے پائیدار حل کیلئے مزید وقت درکار ہوگا۔

  • افغانستان میں قیام امن کیلئے بین الاقوامی افواج کا انخلاء ضروری ہے، طالبان

    افغانستان میں قیام امن کیلئے بین الاقوامی افواج کا انخلاء ضروری ہے، طالبان

    ماسکو : افغان طالبان کے سیاسی امور کے نگران ملا برادر اخوند نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن سے متعلق کسی بھی معاہدے پر اتفاق کیلئے بین الاقوامی افواج کا انخلاء انتہائی ضروری ہے۔

    یہ بات انہوں نے ماسکو میں روس افغانستان سفارتی تعلقات میں استحکام کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، تفصیلات کے مطابق افغانستان کے اہم سیاستدانوں اور طالبان کے اعلیٰ سطح مذاکرات میں شرکت کیلئے افغان طالبان کا چودہ رکنی وفد ماسکو پہنچ گیا، سیاسی امور کے نگران ملا برادر اخوند کی زیر قیادت وفد کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا گیا۔

    وفد نے گزشتہ روز ماسکو میں روس افغانستان سفارتی تعلقات میں استحکام کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں بھی شرکت کی۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق تقریب میں ماسکو میں تعینات افغان سفیر نے بھی شرکت کی۔

    اس حوالے سے غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ طالبان رہنما نے افغانستان میں قیامِ امن سے متعلق کسی بھی معاہدے پر اتفاق کیلئے بین الاقوامی افواج کا انخلاء ضروری قرار دیا ہے۔

    افغان طالبان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں امن چاہتے ہیں لیکن اس کی جانب پیش قدمی سے قبل امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔

    اس موقع پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے غیر ملکی افواج کا انخلاء بہت ضروری ہے، قیام امن کے لیے سب فریقین کو مل جل کر فیصلہ کرنا چاہیے۔

  • طالبان کو مذاکرات کے اخراجات دینے سے متعلق ٹرمپ کی درخواست مسترد

    طالبان کو مذاکرات کے اخراجات دینے سے متعلق ٹرمپ کی درخواست مسترد

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طالبان کو مذاکرات کے اخراجات دینے کی درخواست قانون سازی سے متعلق کمیٹی نے مسترد کردی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان پر مہربان ہوتے ہوئے نوید سنائی تھی کہ وہ امن مذاکرات کے لیے آنے جانے اور کھانے پینے کے اخراجات دینے کے خواہش مند ہیں لیکن قانون سازی سے متعلق کمیٹی نے درخواست مسترد کردی۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی کانگریس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ طالبان کو حالیہ مذاکرات میں شرکت کرنے پر آنے والے سفری اخراجات واپس کرنا چاہتی ہے۔

    امریکی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ان اخراجات میں کھانا پینا، رہائش اور آمدورفت کے خرچے شامل تھے، امریکی کانگریس کی کمیٹی نے درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ وہ شدت پسندوں کے اخراجات نہیں اٹھائے گی۔

    مزید پڑھیں: افغان حکومت اورطالبان کےدرمیان مذاکرات آخری لمحات میں منسوخ

    واضح رہے کہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان اکتوبر سے اب تک دوحہ میں مذاکرات کے چھ دور ہوئے ہیں جن کا مقصد امریکا کو افغانستان سے محفوظ انخلا فراہم کرنا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات آخری لمحات میں منسوخ ہوگئے تھے، ترجمان افغان صدارتی محل نے مذاکرات کی منسوخی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات افغان وفد پر قطری حکومت کے اعتراض پر منسوخ ہوئے۔

    خیال رہے طالبان نے مذاکرات کے لئے افغان حکومت کے 250 رکنی وفد پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا یہ کانفرنس ہے شادی کی تقریب یا دعوت نہیں۔

  • بغلان: طالبان کا بارود سے بھری گاڑی سے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ، 13 ہلاک

    بغلان: طالبان کا بارود سے بھری گاڑی سے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ، 13 ہلاک

    بغلان: افغانستان کے شمالی صوبے بغلان کے شہر پل خمری میں طالبان نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر بارود سے بھری گاڑی کے ساتھ حملہ کیا، جس میں 13 سیکورٹی اہل کار ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان نے افغان صوبے بغلان کی پولیس کے ہیڈ کوارٹر پر تباہ کن خود کش حملہ کرتے ہوئے تیرہ سیکورٹی اہل کار مار دیے، حملے میں 50 سیکورٹی اہل کار بھی زخمی ہوئے۔

    زخمیوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ان میں سے متعدد کی حالت تشویش ناک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، زخمیوں میں عام لوگ بھی شامل ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق طالبان نے حملے کا آغاز پولیس عمارت کے گیٹ پر بارود سے بھری گاڑی اڑانے سے کیا، جس کے بعد طالبان نے پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کھول دی۔

    خود کش حملے کے بعد افغان پولیس نے جوابی کارروائی میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا، طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  افغانستان میں قیام امن کیلئے کوشش جاری رہے گی، وزیراعظم عمران خان

    میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والے طالبان کی تعداد خود کش حملہ آور سمیت 9 تھی، جنھوں نے چھ گھنٹوں تک پولیس کے ساتھ مقابلہ کیا۔

    افغان حکام کا کہنا تھا کہ پولیس کمپلیکس پر حملہ کرنے والے 8 افراد پولیس کی جوابی کارروائی کے دوران مارے گئے۔

    خیال رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب افغانستان میں کل سے رمضان کا آغاز ہو رہا ہے، تین دن قبل لویہ جرگہ کے اجلاس میں طالبان کے ساتھ جنگ بندی کی قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔

    افغان صدر اشرف غنی بھی دو روز قبل رمضان کے مہینے میں طالبان کو جنگ بندی کی پیش کش کر چکے ہیں۔

  • اشرف غنی کی افغان طالبان کو افغانستان میں مذاکرات کی پیش کش

    اشرف غنی کی افغان طالبان کو افغانستان میں مذاکرات کی پیش کش

    کابل : افغان صدر اشرف غنی نے 175 طالبان دہشت گردوں کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے افغان طالبان کو جنگ بندی کےلیے افغانستان میں مذاکرات کی دعوت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ملک میں امن و امان کی صورتحال قائم کرنے کےلیے کوششیں کرنے پر امریکا کے کردار کو خوب سراہا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ افغان صدر پڑوسی ملک پاکستان سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پاکستان سے دوستی اور باہمی عزت کا تعلق چاہتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر اشرف غنی نے تحریک طالبان افغانستان کو جنگ بندی اور افغانستان میں مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے 175 طالبان دہشت گردوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔

    یاد رہے کہ افغان صدر نے نومبر 2018 میں جنیوا میں طالبان سے مذاکرات سے لیے بارہ رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔

    مزید پڑھیں : افغان صدر نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کمیشن تشکیل دے دی

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کمیشن کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غنی نے ان بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کی جن کی بنیاد پر طالبان سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں گے۔

    ان میں افغانستان کے آئین کی پاسداری اور ملک کے اندرونی معاملات سے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کو دور رکھنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

  • امریکا، افغان طالبان مذاکرات کا چھٹا مرحلہ آج دوحہ میں ہوگا

    امریکا، افغان طالبان مذاکرات کا چھٹا مرحلہ آج دوحہ میں ہوگا

    دوحہ: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا چھٹا مرحلہ آج دوحہ میں ہوگا، امن مذاکرات میں جنگ بندی کے اعلامیے پر توجہ مرکوز ہوگی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آج دوحہ، قطر میں امریکا افغان طالبان امن مذاکرات کا چھٹا مرحلہ ہوگا، امریکا کی جانب سے جنگ بندی پر زور دیے جانے کے بعد آج مذاکرات کے دوران جنگ بندی کے اعلامیے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

    امریکی وفد کی قیادت نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہتی عمل زلمے خلیل زاد کریں گے، خیال رہے کہ فریقین میں مذاکرات کا سلسلہ جولائی سے جاری ہے۔

    گزشتہ روز زلمے خلیل زاد نے پاکستان کا دورہ کر کے افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔

    چند روز قبل امریکی امن مندوب برائے افغانستان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے کسی بھی امن ڈیل کا دار و مدار طالبان کی جانب سے فائر بندی پر ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  افغانستان کی حکومت امن کے لیے تیار نہیں، امریکی واچ ڈاگ

    ادھر امریکی واچ ڈاگ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کی حکومت امن کے لیے تیار نہیں ہے جب کہ طالبان کے معاشرے میں دوبارہ انضمام تک ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

    واچ ڈاگ کا کہنا تھا کہ افغانستان کی اعلیٰ قیادت کو طالبان کے معاشرے میں دوبارہ انضمام کے لیے باقاعدہ حکمت عملی کا تعین اور بد عنوانی کے خاتمے کے لیے اقدامات اور منشیات کے مسئلے سے نمٹنا پڑے گا۔

  • امن معاہدے کا دار و مدار طالبان کی جنگ بندی پر ہے: زلمے خلیل زاد

    امن معاہدے کا دار و مدار طالبان کی جنگ بندی پر ہے: زلمے خلیل زاد

    واشنگٹن: امریکی امن مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے کسی بھی امن ڈیل کا دار و مدار طالبان کی جانب سے فائر بندی پر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغان امن عمل میں کسی معاہدے تک پہنچنے کا دار و مدار طالبان کی جانب سے جنگ بندی پر ہے۔

    اتوار کے روز خلیل زاد نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان کو مکمل فائر بندی اور ملک میں طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرنا چاہیے۔

    یہ بھی پڑھیں:  زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان، دفترخارجہ میں وفود کی سطح پرمذاکرات

    افغانستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے اپنے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکا کی توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر مرکوز ہے اور جب تک طالبان مکمل اور مستقل فائر بندی کا اعلان نہیں کرتے، کوئی بھی امن معاہدہ طے نہیں پا سکتا۔

    خیال رہے کہ آج زلمے خلیل زاد امریکی نائب وزیرِ خارجہ ایلس ویلز کے ساتھ وفود کی سطح پر پاک امریکا مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچے تھے، انھوں نے دفتر خارجہ میں پاکستانی وفد کے ساتھ مذاکرات کیے۔

    پاک امریکا مذاکرات میں دو طرفہ تعلقات، خطے میں امن وامان اور افغان مفاہمتی عمل پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ 19 اپریل کو افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات آخری لمحات میں منسوخ کردیے گئے تھے۔

  • قطرمیں مذاکرات ملتوی ہونے پرمایوسی ہوئی، زلمے خلیل زاد

    قطرمیں مذاکرات ملتوی ہونے پرمایوسی ہوئی، زلمے خلیل زاد

    واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں، ضرورت ہوتوہم مدد کو تیارہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے قطرمیں مذاکرات ملتوی ہونے پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ فریقین سے رابطے میں ہیں اورمذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔

    زلمے خلیل زاد نے کہا کہ مذاکرات پائیدارامن اورسیاسی روڈمیپ کے لیے اہم ہوتے ہیں، مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں، ضرورت ہوتوہم مدد کو تیارہیں۔

    افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے دوحا مذاکرات آخری لمحات پر منسوخ کردیے گئے۔

    ترجمان افغان صدارتی محل نے مذاکرات منسوخی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات افغان وفد پرقطری حکومت کے اعتراض پر منسوخ ہوئے۔

    افغان حکومت اورطالبان کےدرمیان مذاکرات آخری لمحات میں منسوخ

    یاد رہے کہ طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان ملاقات 20 اور 21 اپریل کو قطر میں ہونا تھی اور مذاکرات کے لیے افغان حکومت نے 250 رکنی فہرست تیار کی تھی۔

    افغان حکومت کی مذاکرات کے لیے تیار کی گئی فہرست پرطالبان نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شادی یا کسی اور مناسب سے دعوت اور مہمان نوازی کی تقریب نہیں کہ کابل انتظامیہ نے کانفرنس میں شرکت کے لیے 250 افراد کی فہرست جاری کی۔