Tag: افغان طالبان

  • افغان طالبان کے اقتدار کے 3 سال مکمل ہونے پر کابل میں طاقت کا زبردست مظاہرہ

    افغان طالبان کے اقتدار کے 3 سال مکمل ہونے پر کابل میں طاقت کا زبردست مظاہرہ

    کابل: افغان طالبان کی حکومت کو تین سال مکمل ہو گئے ہیں، کابل میں تین سالہ جشن منایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کے اقتدا ر کے تین سال مکمل ہونے پر کابل میں فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا، پریڈ میں امریکی ساختہ بکتر بند گاڑیاں بھی شامل تھیں، جن پر طالبان کے سفید اور کالے جھنڈے لہرا رہے تھے۔

    پریڈ گراؤنڈ کے اوپر ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں نے بھی پرواز کی، پریڈ میں مقامی طور پر تیار کردہ بم، فائٹر ایئر کرافٹ کے علاوہ سوویت دور کے ٹینکوں اور بگرام میں امریکی ایئر بیس میں موجود آرٹلری کی نمائش کی گئی۔

    یہ تقریب سابق امریکی فوجی مرکز بگرام ایئر بیس میں منعقد ہوئی، جس میں چینی اور ایرانی سفارت کاروں نے بھی شرکت کی، یہ وہ مقام تھا جہاں کبھی طالبان جنگجوؤں کو قید رکھا جاتا تھا۔ وزیر اعظم محمد حسن آخوند نے شیڈول کے مطابق بگرام ایئربیس میں تقریب میں شرکت کرنی تھی، تاہم ان کی غیر موجودگی میں چیف آف اسٹاف نے ان کا پیغام پڑھا، جس میں مغربی قابضین کے خلاف طالبان حکام کی فتح کی تعریف کی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ افغان طالبان نے 15 اگست 2021 کو دارالحکومت کابل کا انتظام اس وقت سنبھالا جب امریکی حمایت یافتہ حکومت کا خاتمہ ہوا اور اس کے رہنما وطن چھوڑ کر بھاگ گئے، تاہم تین سال گزر جانے کے بعد ابھی تک دنیا نے افغان طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی ایک وجہ خواتین کے حقوق پر عائد پابندیاں ہیں۔

    کابل میں یونیورسٹی کی ایک 20 سالہ سابق طالبہ مدینہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’’لڑکیوں کے خوابوں کو دفن ہوئے تین سال گزر چکے ہیں۔ یہ ایک تلخ احساس ہے کہ ہر سال اس دن کا جشن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے کس طرح اپنے مستقبل کے لیے ہدف بنا کر کوششیں کی تھیں۔

  • ٹی ٹی پی افغان طالبان گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشتگردی کے خطرات میں اضافہ

    ٹی ٹی پی افغان طالبان گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشتگردی کے خطرات میں اضافہ

    یو این سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق یو این سلامتی کونسل رپورٹ میں پاکستان کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    سلامتی کونسل رپورٹ میں کہا گیا ہے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان تعاون میں اضافہ ہوا ہے، طالبان کی حمایت سے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے تیز کر دیئے ہیں، سرحد پار سے پاکستانی چوکیوں پر حملے ہوتے ہیں۔

    یو این سلامتی کونسل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس 6 سے ساڑھے 6 ہزار کارندے ہیں، ٹی ٹی پی افغانستان سے حاصل نیٹو ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

    یو این رپورٹ کے مطابق القاعدہ ٹی ٹی پی کیلئے ہتھیاروں اور خودکش جیکٹوں کیلئے فنڈنگ کر رہی ہے، افغانستان سے دہشتگردی کا خطرہ رکن ممالک کیلئے باعث تشویش ہے۔

  • افغان طالبان، ٹی ٹی پی کے سرپرست ثابت

    افغان طالبان، ٹی ٹی پی کے سرپرست ثابت

    افغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی کے سرپرست ثابت ہوئے۔

    طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد پاکستان نے بارہا افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردی کو روکے، پاکستان نے متعدد بار افغانستان کو شواہد پیش کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کو پناہ فراہم کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

    ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں  نے متعدد بار پاکستان میں حملے کروائے اور ملک کا امن سبوتاژ کرنے کی مذموم کوششیں کیں، رواں سال کے اوائل میں بشام میں چینی انجینئرز پر حملہ اور جون میں دیر کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ بھی ٹی ٹی پی کی دہشتگرد کارروائیوں کی واضح مثالیں ہیں۔

    پاکستان سمیت کئی ممالک نے افغانستان سے ہونے والی ٹی ٹی پی کی دہشتگرد کارروائیوں پر انتہائی تشویش کا اظہار بھی کیا، دوسری جانب افغان حکومت کی بارہا تردید کے باوجود ٹی ٹی پی کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔

    افغان طالبان ٹی ٹی پی کے ارکان کو سرحدی علاقوں سے ہٹا کر باقاعدہ اب افغانستان کے مختلف صوبوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق افغان سرزمین پر طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں خصوصاً صوبہ خوست میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    طالبان کے اس اقدام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ برسوں سے ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی سرپرستی حاصل ہے
    کیا ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے شواہد منظر عام پر آنے کے بعد بھی افغان طالبان اپنی سرزمین سے اٹھنے والی دہشت گردی سے انکار کرتے رہیں گے؟

  • سخت گیر اور اعتدال پسند طالبان کے درمیان تناؤ بڑھ گیا

    سخت گیر اور اعتدال پسند طالبان کے درمیان تناؤ بڑھ گیا

    افغان طالبان کے مابین اختلافات نمایاں ہونے لگے ہیں، افغانستان میں بڑھتے معاشی اور سیکیورٹی مسائل کے باعث سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کے درمیان تناؤ بڑھ گیا۔

    فوکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق عید الفطر پر افغانستان کے سپریم لیڈر ہبۃ اللہ اخونزادہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انھوں نے خود ساختہ اسلامی قوانین کا دفاع اور عالمی برادری کی ان پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا، اس کے برعکس افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ شائستگی کو محلوظ خاطر رکھیں اور ایسے رویے سے اجتناب کریں جس سے افغان عوام ناخوش ہوں۔

    افغان طالبان کی جانب سے 2021 میں قبضے کے بعد سے ان کی حکمرانی بالخصوص خواتین کو متاثر کرنے والی پابندیوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کو جنم دیا ہے اور ان کی بین الاقوامی تنہائی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ قندھار میں طالبان کے مرکز میں واقع عیدگاہ مسجد میں افغان سپریم لیڈر کے بدھ کے خطبہ عید میں ماضی کی طرح سخت لہجہ اور گفتگو شامل تھی، اپنے خطبے میں ہبۃ اللہ اخونزادہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ ہے تو ہم اسے حل کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اپنے اصولوں یا اسلام پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، میں شریعت سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

    اس کے برعکس سراج الدین حقانی کا عید پیغام دری اور پشتو میں تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ عوام اور حکام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے سے گریز کیا جائے، سراج الدین حقانی کا پیغام ہبۃ اللہ اخونزادہ سے یک سر مختلف تھا جس میں انھوں نے ملک کو درپیش چیلنجز کا حوالہ دیا۔

    اس حوالے سے ولسن سینٹر کے ساوٴتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ حقانی، نرم رخ دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے، طالبان کی ’سفاکانہ طرزِ حکمرانی‘ سے آگاہ وسیع تر افغان عوام سے اعتماد اور حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں، کوگل مین نے مزید کہا کہ حقانی نیٹ ورک بین الاقوامی برادری سے سرمایہ کاری اور امداد کا خواہاں ہے۔

    طالبان کا سماجی ایجنڈا، خاص طور پر خواتین کے بارے میں ان کی سخت گیر پالیسیاں، مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ہیں، یاد رہے کہ طالبان نے خواتین پر چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم، ملازمتوں اور پارکوں جیسی عوامی جگہوں پر جانے کی پابندی عائد کر رکھی ہے، افغان طالبان نے جسمانی سزا اور سرعام پھانسیوں کو نافذ کیا ہے، جس کے مناظر 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران دیکھے گئے تھے۔

    طالبان کی ان سخت گیر پالیسیوں کے باعث بیرونی امدادی نہ ملنے سے معیشت اب زوال کا شکار ہے اور افغان قوم بڑے پیمانے پر خشک سالی، بھوک اور بے گھر ہونے کا سامنا کر رہی ہے، پاکستانی صحافی اور مصنف احمد رشید کے مطابق طالبان کے اندر ایسے اعتدال پسند عناصر ہیں جو خواتین کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے وہ اپنا وقت گزار رہے ہیں، سپریم لیڈر ہبۃ اللہ اخونزادہ نے بلاشبہ رٹ قائم کر رکھی ہے تاہم ان کے پاس لوگوں کے بیشتر سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔

    سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان قیادت اور ان کے فیصلہ سازی کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جس پر ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ان کی سرزنش کی گئی تھی، طالبان کی سخت گیر اور خود ساختہ شریعت کی وجہ سے اب تک کسی بھی ملک نے ان کو تسلیم نہیں کیا ہے اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔

    افغان طالبان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جو بات دنیا ان کے بارے میں کہتی آ رہی ہے اب وہ آواز ان کے اندر سے آ رہی ہے، اگر انھوں نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو آنے والا وقت ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

  • شنگھائی تعاون تنظیم کا طالبان سے اہم مطالبہ

    شنگھائی تعاون تنظیم کا طالبان سے اہم مطالبہ

    شنگھائی تعاون تنظیم نے افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا افغان حکومت اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی خطے میں سنگین دہشتگردی کی لہر نے جنم لیا، بین الاقوامی تنظیموں نے بارہا افغان حکومت سے افغانستان کی سرزمین دہشتگردی کے لئے استعمال ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

    قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سالانہ 19واں اجلاس منعقد ہوا، شنگھائی تعاون تنظیم نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کریں، دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے طالبان حکومت اپنے وعدے پورے کرے۔

    شنگھائی تعاون تنظیم نے اس بات پر زور دیا کہ افغان حکومت رکن ممالک کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کو دبانے کے لیے موثر حکمت عملی اپنائیں۔

    ایس سی او کے قومی سلامتی کے مشیروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں اور افغانستان میں مقیم دیگر گروہوں کی موجودگی ایس سی او کے رکن ممالک کے لئے سنگین خطرہ ہے۔

    ایس سی او کی سلامتی کونسل نے دہشت گردی کے خطرات، بین الاقوامی منظم جرائم، دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے چینلز کی روک تھام، اور غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔

    چین، روس، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ایران اور ازبکستان شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت پر مشتمل ہیں۔

    اس سے قبل بھی ایس سی او کے رکن ممالک نے گزشتہ دو سالوں میں افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے متعدد بار تشویش کا اظہار کیا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک افغان سرزمین خطے میں بدامنی پھیلانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کا آلہ کار بنی رہے گی؟، کیا شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی مسلسل تشویش کے بعد افغان حکومت کوئی عملی اقدامات اٹھائے گی۔

  • افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے شریعت دعوے بے نقاب

    افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے شریعت دعوے بے نقاب

    افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد دہشتگرد ٹی ٹی پی نے فوراً ان کی حمایت کردی اور افغان طالبان کے تمام اقدامات کو درست قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ بات ثابت ہوئی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں، ان کا واحد مقصد پاکستان میں دہشتگردی کر کے انتشار پھیلانا ہے۔

    افغان طالبان جو ٹی ٹی پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کے ذریعے معصوم لوگوں کو شہید کررہے ہیں مگر ان کے اپنے ملک میں حالات ابتر ہیں، افغانستان کے عوام خصوصاً اقلیتیں انتہائی مشکل حالات میں ہیں اور افغان طالبان کے مظالم کا شکار ہیں۔

    جبکہ افغانستان کی خواتین کو افغان طالبان نے زندہ درگو کر رکھا ہے معاشرتی اقدارہوں یا اسلامی تعلیمات افغان طالبان دونوں پہلوؤں میں شدت پسندی کے علمبردار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فیصد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اکثریت پشتون آبادی ہے جو 52.4 فیصد بنتی ہے، اس کے بعد تاجک برادری سب سے زیادہ ہے جو 32.1 فیصد ہے، ہزارہ، ازبک، ترکمان اور دیگر برادریاں بہت کم تعداد میں موجود ہیں۔

    افغان طالبان تاجک، ہزارہ، ترکمان اور دوسری لسانی اقلیتوں کیخلاف نسلی تفریق رکھتے ہیں، افغان طالبان اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے وہ اقلیتوں کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    افغان طالبان  نے چھوٹے لسانی ونسلی گروہوں کو اقتدار میں بھی بہت کم نمائندگی دی ہے جو ان کے متعصبانہ رویے کی زندہ مثال ہے، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی جو اپنی مذموم دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں اب مکمل طورپر بے نقاب ہوچکے ہیں۔

    افغان طالبان اور ٹی ٹی پی شریعت اور دین اسلام کو خالصتاً اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں، دراصل مذہب کی آڑ میں وہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے نہ صرف اپنے لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ پڑوسی ممالک کیلئے بھی وبال جان بن چکے ہیں، افغان طالبان طاقت کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے دین اسلام کی تشریح اپنے طور پر کر لیتے ہیں۔

    افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا بھارت کی جانب نرم رویہ بھی ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی مغرب کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور مذہب کا استعمال کر کے پاکستان میں دہشتگردی کر رہے ہیں۔
    حالیہ اسرائیل حماس جنگ کے دوران افغان طالبان نے غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا، افغان طالبان کی جانب سے حالیہ میڈیا پالیسی کے مطابق ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جس سے مغرب اور امریکا ناراض ہوسکتے ہیں۔

    افغان طالبان کی پالیسیاں کسی صورت ان کے شریعت کے دعوے کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ طاقت اور کرسی کا کھیل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔

  • افغانستان، کنڑ میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کی مدرسے کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت (ویڈیو)

    افغانستان، کنڑ میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کی مدرسے کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت (ویڈیو)

    اسلام آباد: افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ٹریننگ مراکز کی موجودگی کے شواہد سامنے آ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان، کنڑ میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے ایک مدرسے کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت کی ہے، جس کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔

    یہ تقریب کنڑ میں موجود مدرسہ دار الحجرا والجہاد اور جامعہ منبہ الاسلام میں ہوئی، تقریب میں دہشت گرد عظمت لالا اور مولوی فقیر کی موجودگی بھی دیکھی جا سکتی ہے، اس تقریب میں متعدد افغان رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

    ترجمان افغان طالبان کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے کوئی ٹھکانے موجود نہیں ہیں، جب کہ یہ تقریب افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی کا کھلا ثبوت ہے۔

    ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہے، جس کا افغان حکومت کو بخوبی علم ہے، پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر کے خطے کو دہشت گردی سے پاک کرے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغان سر زمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کی بنیادی وجہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنا ہے۔

  • ویڈیو رپورٹ: افغان طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر

    ویڈیو رپورٹ: افغان طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر

    افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر ہو چکا ہے، افغان طالبان کے دور میں خواتین کے بنیادی حقوق بھی سلب کیے گئے ہیں، تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا، خواتین پر تعلیمی پابندیوں حوالے سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے۔

    بین الاقوامی سطح پر افغان طالبان کی وجہ شہرت ان کا شدت پسندانہ رویہ ہے جو کہ بہت سے معاملات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، معاشرتی اقدار ہوں یا اسلامی تعلیمات افغان طالبان دونوں پہلووٴں میں شدت پسندی کے علم بردار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فی صد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے واضح اثرات میں سے ایک صحت کے شعبے میں پیشہ ور خواتین کی تربیت کا فقدان ہے۔

    الجزیرہ ٹی وی کے مطابق طالبان کے اقتدار پر قبضے اور خواتین کی تعلیم پر پابندی سے افغانستان میں شعبہ صحت کی تعلیم سے منسلک خواتین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اس حوالے سے کابل کی رہائشی طالبہ بھی ان ہزاروں لڑکیوں میں شامل ہے، جو افغان طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کے فیصلے سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔

    یہ طالبہ جو کابل میڈیکل اسکول سے گریجویشن کر رہی تھی اور جب طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی تو اس کی ڈگری مکمل ہونے میں چند ہفتے ہی باقی تھے، گو کہ طالبان نے پہلے سے شعبہ صحت میں خدمات سرانجام دینی والی افغان خواتین جن میں ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملہ شامل ہے کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی ہے، تاہم اس حوالے سے نئی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔

    الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پابندی سے پہلے ہی میڈیکل اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والی 3,000 سے زیادہ خواتین کو پریکٹس کرنے کے لیے درکار بورڈ کے امتحانات دینے سے روک دیا گیا تھا، افغان طالبان کی جانب سے یہ سخت فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں پہلے ہی خواتین طبی عملے کی شدید کمی ہے اور نئے ڈاکٹرز کی اشد ضرورت تھی۔

    خواتین کو دباوٴ میں رکھنا اور تعلیم کے حق سے محروم کرنا کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ یہ سوال افغان طالبان کو خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔

  • بھارت اور افغان طالبان پاکستان کیخلاف یک زبان، ایک بار پھر بغیر شواہد کیچڑا چھالنا شروع

    بھارت اور افغان طالبان پاکستان کیخلاف یک زبان، ایک بار پھر بغیر شواہد کیچڑا چھالنا شروع

    بھارتی میڈیا نے افغان وزیر دفاع ملایعقوب مجاہد کےبیان کا حوالہ دیکر پاکستان پر بغیرشواہد کے کیچڑا چھالنا شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت اور افغان طالبان پاکستان کیخلاف یک زبان ہوگئے اور بھارتی میڈیا افغان طالبان کے بیانیہ کو درست ثابت کرنے کیلئے سرگرم ہو گیا۔

    بھارتی پروپیگنڈا کو تقویت دینے میں بھارتی ذرائع ابلاغ قدم با قدم بھارتی حکومت کے منصوبوں پرعمل پیرا ہیں ، بھارتی خبررساں ادارے ورلڈ از ون نیوز، اےاین آئی نیوزایجنسی نے پاکستان پر بغیر شواہد کیچڑا چھالنا شروع کردیا۔

    بھارتی میڈیا نے افغان وزیر دفاع ملایعقوب مجاہد کےبیان کاحوالہ دیکرپاکستان پر بغیرشواہد کےکیچڑاچھالنا شروع کیا۔

    طلوع نیوز کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے افغان طالبان کے عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کا بیان شائع کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ سال 2023 میں افغانستان میں بیس سے زائد پاکستانیوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر ہلاک کیا گیا۔

    تاہم یہ بیان دراصل اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے، جس کےمطابق پاکستان نے شواہد کے ساتھ بتایا پاکستان میں خود کش حملوں میں افغان شہری ملوث ہیں۔

    افغان وزیر دفاع نے دعویٰ کیا کہ ان کے اقتدار میں افغانستان کی سرزمین سےدوسرے ممالک میں دہشت گردی میں نوے فیصد کمی آئی۔

    طلوع نیوز کے مطابق افغان وزیردفاع کا کہنا ہے امریکا یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے چھوڑا گیا اسلحہ سمگل کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں جبکہ پاکستان نے شواہد کے ساتھ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں یہ اسلحہ بھی افغان طالبان کو دکھایا ہے۔

  • کازان کانفرنس کا افغان طالبان سے تمام گروپوں پر مشتمل جامع حکومت کی جلد تشکیل کا مطالبہ

    کازان کانفرنس کا افغان طالبان سے تمام گروپوں پر مشتمل جامع حکومت کی جلد تشکیل کا مطالبہ

    کازان: روسی شہر کازان میں منعقدہ کانفرنس نے افغان طالبان سے تمام گروپوں پر مشتمل جامع حکومت کی جلد تشکیل کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے شہر کازان میں افغانستان کی صورت حال پر اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا، جس میں روز دیا گیا ہے کہ افغانستان میں تمام گروپوں پر مشتمل جامع حکومت کی جلد تشکیل ہونی چاہیے۔

    دوران اجلاس روس نے افغانستان میں غیر علاقائی عناصر کی بڑھتی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا، روسی نمائندہ خصوصی نے کہا دہشت گرد گروہوں اور خاص طور پر داعش کا مقابلہ کرنے میں طالبا ن غیر مؤثر رہے ہیں۔

    ماسکو فارمیٹ کے تحت اجلاس میں چین، بھارت، روس، پاکستان اور افغانستان سمیت ایران کے نمائندوں نے شرکت کی۔

    کازان کانفرنس کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ افغانستان میں موجود تمام دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانے ختم کیے جائیں، اور انسانی حقوق کے ساتھ خواتین کے حقوق کا احترام بھی کیا جانا چاہیے۔

    افغانستان کے لیے روس کے صدارتی ایلچی ضمیر کابلوف نے کہا افغانستان میں جامع طرز حکمرانی سب سے پہلے افغان عوام کے لیے اہم ہے، کوئی دوسرا غیر جامع ڈھانچا مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے۔

    انھوں امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ صرف اثاثے منجمد کرنے، ہیرا پھیری کرنے اور دھمکیاں دینے تک محدود تھا۔ امریکا افغانستان سے7 ارب کی چوری کر کے بھاگا لیکن اس چوری کو اس نے سرکاری طور پر اثاثے منجمد کرنا کہا۔

    ضمیر کابلوف نے کہا کہ یہی ہے امریکی اثر و رسوخ، امریکی ڈرونز ہر وقت افغانستان اور کابل پر چھائے رہتے ہیں، جو افغان حکام کے نمائندگان کو دھمکاتے رہتے ہیں کہ کوئی امریکا مخالف مؤقف اختیار مت کرنا، اگر اسی کو اثر و رسوخ کہتے ہیں تو امریکی ایسا ہی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔