Tag: افغان طالبان

  • صوبائی دارالحکومتوں کا قبضہ طالبان سے چھڑانے کے لیے افغان فورسز کی کوششیں

    صوبائی دارالحکومتوں کا قبضہ طالبان سے چھڑانے کے لیے افغان فورسز کی کوششیں

    کابل: طالبان اور افغان فورسز میں جنوبی شہروں کے لیے لڑائی جاری ہے، کابل میں ریڈیو مینجر کو قتل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان کے 72 گھنٹوں میں پانچ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے بعد افغان فورسز کی جنوبی شہروں کی واپسی کے لیے طالبان کے ساتھ لڑائی جاری ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق پیر کو افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قندھار اور ہلمند میں جھڑپوں کے دوران طالبان کے سیکڑوں جنگ جو ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں، وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس ستانکزئی کا کہنا ہے کہ طالبان کو بھاری نقصان ہوا ہے اور سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔

    واضح رہے کہ رواں برس مئی میں جب اتحادی افواج نے افغانستان سے انخلا کے آخری مرحلے کا آغاز کیا تو یہاں طویل عرصے سے جاری کشیدگی میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    رپورٹس کے مطابق طالبان جنگ جو ہفتوں سے قندھار اور لشکرگاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب تک صرف شہروں کے مضافات یا کچھ محلوں تک ہی پہنچ سکے ہیں۔

    دوسری جانب طالبان نے پیر کو کہا ہے کہ ان کی نظریں اب شمال میں سب سے بڑے شہر مزار شریف پر ہیں، طالبان کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انھوں نے شبرغان کے مغرب میں اور مشرق میں قندوز اور تالقان پر ہفتے کے آخر میں قبضہ کرنے کے بعد شہر پر چار جہتی حملہ کیا ہے، تاہم ہرات کے رہائشیوں اور حکام کا کہنا ہے کہ طالبان مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں اور لڑائی صرف آس پاس کے ضلعوں تک محدود ہے۔

    دوسری طرف کابل میں مسلح افراد نے افغان ریڈیو پکتیا گھاگ کے اسٹیشن مینجر توفن عمر کو گولیاں مار کر قتل کر دیا، جب کہ ہلمدن صوبے سے ایک صحافی نعمت اللہ ہمت کو لشکر گاہ میں ان کے گھر سے اغوا کر لیا ہے، گزشتہ مہینے این اے آئی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ رواں سال افغانستان میں شدت پسند گروپوں نے کم از کم 30 صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو قتل، زخمی اور اغوا کیا۔

    واضح رہے کہ طالبان نے قندوز، سرِپُل اور تالقان پر گھنٹوں کے اندر قبضہ کر لیا ہے، ایک شہری نے غیر ملکی میڈیا کو فون پر بتایا کہ اس نے سیکیورٹی فورسز اور عہدے داروں کو گاڑیوں کے قافلے میں شہر سے نکلتے دیکھا ہے۔

  • افغان طالبان نے جوزجان صوبے کے دارالحکومت شبرغان پر قبضہ کر لیا

    افغان طالبان نے جوزجان صوبے کے دارالحکومت شبرغان پر قبضہ کر لیا

    کابل: افغان طالبان نے صوبہ جوزجان صوبے کے دارالحکومت شبرغان پر قبضہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان نے جوزجان صوبے کے دارالحکومت شبرغان پر قبضہ کر لیا، یہ طالبان کے قبضے میں آنے والا دوسرا صوبائی دارالحکومت ہے۔

    ترجمان وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ طالبان کی جارحانہ کارروائیاں عالمی سطح پر ناقابل قبول ہیں، ادھر افغان وزارت دفاع کے مطابق 24 گھنٹوں میں 385 طالبان مارے گئے ہیں۔

    مقامی میڈیا کے مطابق شبرغان شہر کے کئی علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے، طالبان زیادہ تر سرکاری عمارتوں اور شہر کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، تاحال حکومت کے زیر کنٹرول ایئر پورٹ کے لیے لڑائی جاری ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے جنوب مغربی صوبے نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ نمروز پولیس نے شکوہ کیا تھا کہ جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ کے لیے فوج نہیں بھیجی گئی، نہ ہی پولیس کے تازہ دم دستوں سے مدد کی گئی۔

    افغانستان کے دیگر صوبائی دارالحکومت جہاں اس وقت شدید لڑائی جاری ہے ان میں مغرب میں ہرات اور جنوب میں لشکر گاہ شامل ہیں۔

    دوسری طرف سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں دو ٹوک بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں بہ زور قوت بننے والی حکومت قبول نہیں ہوگی، مذاکرات میں شامل ممالک طالبان کو جنگ بندی پر قائل کریں۔

  • افغان طالبان نے باب دوستی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا

    افغان طالبان نے باب دوستی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا

    چمن: ذرائع وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے باب دوستی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبان نے ایک بار پھر باب دوستی کو پاکستان کے ساتھ آمد و رفت کے لیے بند کر دیا ہے، جس کے بعد پاکستان نے بھی پاک افغان بارڈر پر ہر قسم کی آمد و رفت معطل کر دی ہے۔

    گزشتہ ماہ طالبان نے 20 سال بعد افغانستان کی جانب سے باب دوستی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تھا، اور افغان قومی پرچم اتار کر اپنا سفید جھنڈا لہرا دیا تھا۔

    افغان طالبان کا اسپین بولدک پر قبضہ، را اور این ڈی ایس کی پاکستان مخالف بڑی سازش بے نقاب

    24 جولائی کو افغان طالبان نے افغانستان کے اہم ضلع اسپین بولدک پر قبضہ کر کے وہاں سے کروڑوں روپے مالیت کی پاکستانی کرنسی بھی برآمد کی تھی، افغان طالبان کی پیش قدمی کے بعد افغان فورسز اسپین بولدک سے فرار ہو گئی تھیں۔

    تاہم پاک افغان بارڈر، بابِ دوستی کو دو روزہ بندش کے بعد افغان طالبان کے کمانڈر اور پاکستانی سیکیورٹی حکام کے درمیان پہلے رابطے کے بعد پیدل آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا تھا، جس کے بعد بڑی تعداد میں دونوں جانب پھنسے پاکستانی اور افغان شہری آنے جانے لگے تھے۔

  • طالبان کیا چاہتے ہیں، حکومت میں بڑا حصہ یا کچھ اور؟ ترجمان کا اہم بیان

    طالبان کیا چاہتے ہیں، حکومت میں بڑا حصہ یا کچھ اور؟ ترجمان کا اہم بیان

    کابل: افغان طالبان نے واضح کیا کر دیا ہے کہ وہ افغانستان میں کیا چاہتے ہیں، حکومت میں ’بڑا حصہ‘ یا کچھ اور۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان نے مستقبل کی حکومت میں ’بڑا حصہ‘ مانگنے کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے، امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان مستقبل کی حکومت میں ’لائنز شیئر‘ یعنی بڑا حصہ چاہتے ہیں۔

    طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ زلمے خلیل زاد کا ذاتی خیال ہے، ہم نے ان کی باتیں سنی ہیں لیکن ہم ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو لوگوں کے اسلامی جذبات کے مطابق ہو، ہم طاقت کی اجارہ داری یا اقتدار میں اہم نوع کی شراکت داری نہیں چاہتے۔

    ترجمان کا کہنا تھا ہم اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے، ہم نے اسلام کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں، قوم اب تھک چکی ہے، اب یہاں ایک مکمل اسلامی حکومت ہونی چاہیے اور سب لوگوں کو اسے تسلیم کرنا چاہیے، اس حکومت میں سب افغانوں کو شریک کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے منگل کو اسپن سیکیورٹی فورم کی ایک ورچوئل کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت طالبان عسکری صورت کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی حکومت میں ’لائنز شیئر‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

    گزشتہ چند ماہ میں طالبان نے افغانستان کے کچھ سرحدی علاقوں سمیت متعدد مقامات پر قبضے کے دعوے کیے ہیں، افغانستان کی سرکاری فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق مئی اور جون میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 24 سو افغان شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔

  • افغان طالبان کے سربراہ نے اپنی حکومت کا خاکہ پیش کر دیا

    افغان طالبان کے سربراہ نے اپنی حکومت کا خاکہ پیش کر دیا

    کابل: افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے افغانستان میں اپنی حکومت کا خاکہ پیش کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سربراہ افغان طالبان ہیبت اللہ اخونزادہ نے افغانستان میں حکومت کے خدوخال پر مبنی 20 نکاتی مجوزہ ایجنڈا جاری کر دیا ہے۔

    ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ طالبان انخلا کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر سے سفارتی و معاشی تعلقات کے خواہاں ہیں، طالبان افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اسی طرح ہمارے داخلی امور میں بھی دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔

    ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا کہ غیر ملکی سفارت کاروں، سفارت خانوں اور سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تحفظ دیں گے، افغانستان ہم سب کا گھر ہے، تمام ملکی فریقوں کے لیے بھی ہمارے دروازے کھلے ہیں، لیکن طالبان حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں اس لیے ملکی فریق بھی اسے تسلیم کریں۔

    امریکا سمیت 16 ملکوں نے طالبان سے اہم مطالبہ کر دیا

    ایجنڈے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کی صفوں میں شامل ہونے والے سرکاری اہل کاروں اور فوجیوں سے وعدے پورے کیے جائیں گے، حکومت کے قیام اور ملک کی ترقی میں افغان اقوام کا بڑا کردار ہوگا۔

    ایجنڈے کے مطابق طالبان کے زیر اثر علاقوں میں مدارس، اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کھلی رہیں گی۔

    خیال رہے کہ دوحہ مذاکرات کے دوسرے روز طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں انھوں نے کہا اسلامی امارات ایک سیاسی حل کی حمایت کرتی ہے باوجود اس کے کہ اسے میدان میں کامیابیاں مل رہی ہیں۔

  • امریکا سمیت 16 ملکوں نے طالبان سے اہم مطالبہ کر دیا

    امریکا سمیت 16 ملکوں نے طالبان سے اہم مطالبہ کر دیا

    کابل: افغانستان کے دارالحکومت میں امریکا سمیت 16 ممالک کے سفارتی مشنز نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی حالیہ جنگی کارروائیاں فوری طور پر روک دیں۔

    تفصیلات کے مطابق پیر کو کابل میں امریکی سفارت خانے سے جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں سے شہر آبادی اور امن مذاکرات کو نقصان پہنچ رہا ہے، لوگ بے گھر ہو رہے ہیں، یہ کارروائیاں دوحہ میں کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہیں، طالبان نے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل چاہتے ہیں۔

    کابل میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، اسپین، سویڈن، جمہوریہ چیک اور یورپین یونین کے دفتر نے طالبان کے حملوں کی مذمت کی ہے۔

    سفارتی مشنز کے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی جارحیت کے نتیجے میں معصوم افغان شہریوں کی ہلاکتوں سمیت ٹارکٹ کلنگ، افغان شہریوں کی نقل مکانی، لوٹ مار اور ذرائع مواصلات کی بربادی جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔

    سفارتی مشنز کے مطابق افغانستان کے جن اضلاع میں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں کے شہری اور مبصرین مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کر رہے ہیں، مبصرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی بند کروائے جا رہے ہیں تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آزادی اظہار کو دبانے کے اقدامات کو چھپایا جا سکے۔

    سفارتی مشنز نے بیان میں کہا کہ افغان عوام نے گزشتہ 20 برس میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ افغان عوام کی ترقی، انسانی حقوق اور آزادئ اظہار کی پاس داری کا سفر جاری رہے۔

    ان ممالک نے مطالبہ کیا کہ عیدالاضحیٰ پر طالبان ہتھیار ڈال کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ وہ افغانستان میں امن عمل کے معاملے میں یکسو ہیں۔

    خیال رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان میں دوحہ میں ہونے والے 2 روزہ مذاکرات کسی اہم پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔

  • طالبان کے طاقت کے استعمال کے حوالے سے زلمے خلیل کا دو ٹوک مؤقف

    طالبان کے طاقت کے استعمال کے حوالے سے زلمے خلیل کا دو ٹوک مؤقف

    کابل: زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اجارہ داری قائم کی اور اپنی حکومت تھوپی تو امریکا اُسے تسلیم نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے دو ٹوک مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے ہم نے طالبان پر واضح کیا ہے کہ طاقت کے زور سے حکومت بنانے والوں کو ہم اور متعدد دیگر ملک بھی نہیں تسلیم کریں گے، نہ معاونت فراہم کریں گے۔

    انھوں نے کہا افغانستان میں استحکام، ترقی اور امن کے قیام کی غرض سے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے دو امور اہم ہیں، یہ کہ یہ افغان عوام کے لیے قابل قبول ہو اور اسے پڑوسیوں، ڈونرز اور دنیا کے دیگر ملکوں کا تعاون حاصل ہو، اور اس کے لیے سیاسی معاملہ فہمی اختیار کرنے اور عوامی رائے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ آج قطر میں افغان سیاسی قیادت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس میں فریقین نے مسائل کے حل کے لیے بات جیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا، طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سالمیت کے لیے خود مختار اسلامی نظام کی ضرورت ہے۔

    قندھار میں طالبان اور افغان فورسز میں جھڑپیں، رائٹرز کا صحافی ہلاک

    انھوں نے کہا کہ بداعتماد ی ختم کر کے قوم کو متحد کرنا ہوگا، اور ہمیں ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔

    افغان مفاہمتی کونسل کے چئیرمین عبداللہ عبداللہ نے بات چیت میں تیزی لانے پر زور دیا، انھوں نے کہا افغانستان مشکل دور سےگزر رہا ہے، کشیدگی جاری ہے، شہری نشانہ بن رہے ہیں، افغانوں اور مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔

    انھوں نے کہا مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، امن کے لیے دونوں اطراف سے لچک درکار ہے، جس کے لیے مذاکرات میں بھی تیزی لانی ہوگی۔

  • برطانوی وزیر دفاع کے بیان پر افغان طالبان کا رد عمل

    برطانوی وزیر دفاع کے بیان پر افغان طالبان کا رد عمل

    کابل: افغان طالبان کی جانب سے برطانوی وزیر دفاع کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانوی وزیر دفاع کا طالبان کے ساتھ کام کرنے کا بیان مثبت ہے، ہم دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

    ترجمان افغان طالبان نے کہا ہم اپنی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے، نہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں گے، اور نہ کسی کو کرنے دیں گے۔

    سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ طالبان مذہبی اور قومی روایات کی روشنی میں عالمی قوانین کی پاسداری کریں گے۔

    برطانیہ کی طالبان کو بڑی پیشکش

    گزشتہ روز طالبان کے حکومت بنانے سے متعلق برطانوی وزیر دفاع بین ویلس نے کہا تھا کہ اگر افغانستان میں طالبان نے حکومت تشکیل دی تو عالمی برادری کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔

    بین ویلس نے کہا کہ عالمی قوانین پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ بھی افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرے گا، لیکن اگر حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تو تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی۔

  • ترکی کو کابل ایئر پورٹ پر فوجی رکھنے پر طالبان کی وارننگ

    ترکی کو کابل ایئر پورٹ پر فوجی رکھنے پر طالبان کی وارننگ

    کابل: افغان طالبان نے کابل ایئر پورٹ پر فوجی رکھنے پر ترکی کو وارننگ دے دی ہے، طالبان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے ملک کے ساتھ ایک قابض جیسا سلوک کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی نے امریکا سے بات چیت کے بعد کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے افغانستان میں اپنے کچھ فوجی اہل کار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جس پر طالبان نے ردِ عمل میں خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے والے کسی بھی ملک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا ایک ’قابض‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

    عرب نیوز کے مطابق نیٹو کے رکن ترکی کے افغانستان میں 500 سے زائد فوجی اہل کار موجود ہیں، جن میں سے کچھ سیکیورٹی فورسز کو تربیت دے رہے ہیں، جب کہ دیگر حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ترکی گزشتہ 20 سال سے نیٹو کے ساتھ افغانستان میں رہ رہا ہے، اور اگر وہ اب بھی رہنا چاہتا ہے تو ہم بغیر کسی شک و شبے کے اسے ایک قابض تصور کریں گے اور اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔

    افغانستان میں بڑھتی کشیدگی، حامد کرزئی نے بڑی پیش گوئی کردی

    ترجمان نے کہا کہ طالبان ہمیشہ سے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے، تاہم طالبان نے انقرہ کی جانب سے ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے پیش کی گئی تجویز کو مسترد کیا ہے، ترجمان کا کہنا تھا ترکی اور ہمارے درمیان بہت کچھ مشترک ہے اور وہ مسلمان ہیں لیکن اگر وہ مداخلت کریں گے اور اپنے فوجی رکھیں گے تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔

    یاد رہے کہ جمعے کو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا تھا کہ انقرہ کا واشنگٹن کے ساتھ ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت نیٹو کے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے ترکی کے کچھ فوجی اہل کار افغانستان میں تعینات رہیں گے۔

    خیال رہے کہ ایئر پورٹ کی سیکیورٹی عسکری اور سویلین پروازوں کے لیے بہت اہم ہوتی ہے اور اسے افغانستان میں سفارت کاروں اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے ایک محفوظ گزرگاہ سمجھا جاتا ہے۔

  • افغان طالبان کا عید پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان، کابل اسکول دھماکے میں ہلاکتیں 58 ہوگئیں

    افغان طالبان کا عید پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان، کابل اسکول دھماکے میں ہلاکتیں 58 ہوگئیں

    کابل: افغان طالبان نے عید پر 3 روز ہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا، مسلح افراد کو حکم جاری کر دیا گیا، دوسری طرف کابل اسکول حملے میں جاں بحق طلبہ کی تعداد 58 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان طالبان محمد نعیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عید کے دنوں میں حکومتی فورسز پر حملے نہیں کیے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ تہوار کو پُر امن اور محفوظ ماحول میں منانے کے لیے تمام مسلح افراد کو حملے روکنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

    سربراہ افغان مفاہمتی کونسل عبداللہ عبداللہ نے سیز فائر کا خیر مقدم کیا، انھوں نے کہا حکومت بھی جنگ بندی کا جلد باقاعدہ اعلان کرے گی۔

    واضح رہے کہ افغان دارالحکومت کابل میں اسکول دھماکے میں ہلاک افراد کی تعداد 58 ہوگئی ہے، اقوامِ متحدہ، یونیسیف اور پاکستان نے واقعے کی شدید مذمت کی، افغان حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت طالبات کی ہے جن کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔

    دھماکے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، یہ حملہ ہفتے کو کابل کے سید الشہدا نامی اسکول کے قریب کیا گیا تھا، طلبہ اسکول سے نکل رہے تھے کہ 3 زور دار دھماکے ہوئے، جس کے بعد طلبہ کی خون آلود کتابیں اور بستے جا بہ جا بکھرے دکھائی دیے۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسکول میں صبح کے وقت لڑکے اور دوپہر میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔