Tag: اقبال اور غالب

  • اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’’تغزل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

    صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47 ہے۔ ان میں سے 10 مصوتے (Vowels) ہیں اور 37 مصمتے (Consonants) ان مصمتوں میں 6 عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں، /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/ کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ (Stop) ہے، باقی تمام آوازیں صفیری (Fricatives) ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’’رگڑ‘‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6 آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہر چند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔

    فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر لگایا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں۔

    اقبال کی ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’’اظہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6 بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں، خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/ کی تکرار 8 بار، /ا/ کی 21 بار، /م/ کی 12 بار، /و/ کی 22 بار، اور /ش/ کی 6 بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے/ی/، /اَی/ اور /اَے / ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7 ’’سرسراتی‘‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/ کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/ اور 9 انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں۔

    مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization) سے مرتب ہوتے ہیں اور 6 صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں۔۔۔ فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!

    (مضمون نگار مسعود حسین خان، ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘)

  • علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    جہانِ سخن میں‌ مرزا غالب اور علامہ اقبال کا شہرہ و چرچا آج بھی ہے اور ہوتا رہے گا۔ انھیں آفاقی شاعر، عظیم سخن ور، فلسفی اور مفکر کہا جاتا ہے، لیکن اردو زبان و ادب کے نام ور نقاد ان شعرا کی فکر اور کمالِ فن کا جائزہ لیتے ہیں تو مختلف جہات اور ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو غالب شناسی اور اقبالیات کا موضوع ہیں، تاہم یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ان شعرا کی فکری اساس کا مشترک اور اہم ترین پہلو انسان کی عظمت اور شان ہے۔

    یہاں‌ ہم اقبال اور غالب کے وہ مشہور اشعار قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں جو ان کی فکری اساس اور نکتہ رسی کا مظہر ہیں۔

    اردو کے بعض ناقد کہتے ہیں کہ اقبال کا غالب اور حالی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، لیکن مرزا غالب اپنے مفکرانہ انداز اور فلسفیانہ مضامین کے باوجود صرف غزل گو شاعر ہیں اور ان کے کلام میں‌ کوئی مخصوص پیغام نظر نہیں آتا۔ اقبال نے مفکرانہ شاعری غالب ہی سے سیکھی، لیکن اپنے کلام کے ذریعے مخصوص نظامِ فکر کے پرچارک بنے اور تسلسل کے ساتھ استدلال نے ان کی شاعری کو بامقصد اور پیغام آفریں بنایا۔

    اس ضمن میں‌ یہ اشعار دیکھیے۔

    فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں‌
    موج ہے دریا میں‌ اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (علّامہ اقبال)

    آبرو کیا خاک اس گُل کی جو گلشن میں‌ نہیں
    ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں ‌نہیں (مرزا غالب)

    ستاروں سے آگے جہاں‌ اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (علّامہ اقبال)

    ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
    ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا (مرزا غالب)