Tag: اقبال بانو

  • اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو بامِ عروج پر پہنچانے والی اقبال بانو سُر اور ساز ہی نہیں اردو زبان کی لطافت اور چاشنی سے بھی خوب واقف تھیں۔ ان کا تلفظ نہایت عمدہ اور ادائیگی کا انداز پُراثر تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا جس نے ان کی گائیکی کو بے مثال بنا دیا تھا۔ آج اس گلوکارہ کی برسی ہے۔

    اقبال بانو کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک ان کا اثر رہتا۔ برصغیر پاک و ہند کی یہ منفرد اور بے مثال گلوکارہ 21 اپریل 2009ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو عروج پر لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز سترہ برس کی عمر میں‌ کرنے والی اقبال بانو نے 1952 میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر ملتان میں قیام پذیر ہوئیں۔

    انھوں نے یہاں اپنی گائیکی سے اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور باذوق حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی آواز گونجی تو مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ اقبال بانو کی آواز میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ لوگوں تک پہنچی تو یہ کلام ہر خاص و عام میں‌ ایسا مقبول ہوا کہ ایک نعرے کی صورت میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔

    اقبال بانو کی گائی ہوئی غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسا گیت اقبال بانو کی آواز میں‌ امر ہوگیا۔

    فیض احمد فیض کا انقلابی کلام گانے کے بعد اقبال بانو کی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ دورِ آمریت تھا جس میں‌ ایک فن کار کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ نجی محافل میں‌ شرکت کرتی رہیں اور ان کی آواز میں فیض کی یہ مشہور نظم فرمائش کرکے سنی جاتی تھی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کا اعتراف کیا۔

  • اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ تلفظ اور ادائی ہی نہیں انھیں شعر کا بھی خوب فہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا گایا ہوا کلام سامعین کے دل میں اتر جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور باکمال گلوکارہ نے 21 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج اقبال بانو کی برسی ہے۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    انھوں نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ایک گھریلو عورت کا تذکرہ!

    ایک گھریلو عورت کا تذکرہ!

    سُر اور لے، دھن اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور شعری نزاکتوں کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ اقبال بانو کا تلفظ عمدہ اور شعر کا فہم خوب تھا۔ شاعری سے لگاؤ رکھنے والی اقبال بانو کی آواز میں غزل سننے والے جیسے ساکت و جامد ہو جاتے اور دیر تک محفل پر ان کا اثر رہتا تھا۔ اپنے وقت کی اسی مشہور و معروف مغنیہ سے متعلق یہ پارہ آپ کے لیے پیش ہے

    میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں عارضی طور پر اسلام آباد منتقل ہو چکا تھا۔

    ایک ویک اینڈ پر واپس لاہور آرہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اقبال بانو بھی اس فلائٹ پر ہیں۔ وہ میرے برابر نشست پر آ بیٹھیں اور تب انہوں نے ادب کے بارے میں گفتگو کی اور نہ ہی گلوکاری کا تذکرہ چھیڑا بلکہ ایک گھریلو عورت کی مانند اپنے گھر کے معاملات اور بال بچوں کے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔

    ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے میرے بیٹے نے آنا تھا۔ اسے کالج میں کچھ تاخیر ہو گئی تو انہوں نے بصد اصرار مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا اور کہنے لگیں آپ پہلے میرے ہاں چلیں گے، پھر میرا ڈرائیور آپ کو چھوڑ آئے گا۔

    انہوں نے مجھے اپنے بچوں سے ملایا اور خاطر مدارت میں کچھ کسر نہ چھوڑی۔ میں ان کی گھریلو شفقت اور محبت کو آج تک نہیں بھلا پایا۔

    ان سے آج تک کچھ شکایت نہیں ہوئی۔ یہ پہلی شکایت ہے کہ وہ ہم سے نظر بچا کے نہایت خاموشی سے دشتِ تنہائی میں گُم ہو گئیں۔ البتہ ان کے گیتوں کی چھم چھم اس دشت تنہائی میں جو کہ مرگ ہے، اس کے سناٹے میں اب بھی گونجتی سناتی دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

    (مستنصر حسین تارڑ کے مضمون سے انتخاب)

  • غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ اقبال بانو کا تلفظ عمدہ اور شعر کا فہم خوب تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی گائیکی پُراثر تھی۔ ان کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک اقبال بانو کا اثر رہتا۔

    آج برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور بے مثال گائیک کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    اقبال بانو نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔

  • اقبال بانو کی 81 ویں سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    اقبال بانو کی 81 ویں سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    معروف غزل گائیک و گلوکارہ اقبال بانو کی 81 ویں سالگرہ پر گوگل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کردیا۔

    بھارت کے شہر نئی دلی میں سنہ 1935 میں پیدا ہونے والی اقبال بانو کو بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤ تھا جسے پروان چڑھانے میں ان کے والد نے اہم کردار ادا کیا۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت استاد چاند خان سے حاصل کی اور سنہ 1950 میں اپنی فنی زندگی کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا۔ سنہ 1952 میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آگئیں اور ملتان میں رہائش پذیر ہوئیں تاہم شوہر کی وفات کے بعد ملتان سے لاہور منتقل ہوگئیں۔

    اقبال بانو کوغزل گائیکی کے ساتھ ساتھ کلاسیکل، نیم کلاسیکل، ٹھمری اور دادھرہ میں بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ اردو، پنجابی، فارسی زبانوں پر مکمل عبور رکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف زبانوں میں غزل گائیکی میں اپنی خصوصی مہارت سے نمایاں مقام حاصل کیا۔

    اقبال بانو نے معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ اپنے خوبصورت انداز میں گا کر اسے شہرت دوام بخش دی۔ برصغیر سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی اردو سمجھی جاتی ہے وہاں یہ نظم جبر کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ثابت ہوتی رہی ہے۔

    انہوں نے فلم گمنام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ اور ناگن جیسی سپر ہٹ فلموں میں گیت گائے۔ فلم قاتل میں ان کی آواز میں گایا ہوا گیت پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا، انہیں سنہ 1990 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

    اقبال بانو 21 اپریل 2009 کو 74 برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔

  • غزل گائیک اقبال بانو کو گزرے دس برس بیت گئے

    غزل گائیک اقبال بانو کو گزرے دس برس بیت گئے

    لاہور: پاکستان کی معروف غزل گائیک و گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے‘ ان کی آواز میں گایا فیض احمد فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ آج بھی پاکستان کے عوام دلوں کی آواز ہے۔

    بھارت کے شہر نئی دلی میں سن1935 میں پیدا ہونے والی اقبال بانو کو بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤتھا جسے پروان چڑھانے میں ان کے والد نے اہم کردارادا کیا، انتھک محنت اور باقاعدہ تربیت کے بعد موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والی اقبال بانو نے جو گایا کمال کردیا۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت استاد چاند خان سے حاصل کی اور1950 میں اپنی فنی زندگی کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا۔ 1952 میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آئیں اور پنجاب کے شہر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی بعد ازاں شوہر کی وفات ہوئی تو آپ اہل خانہ کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئیں۔

    اقبال بانو کوغزل گائیکی کے ساتھ ساتھ کلاسیکل، نیم کلاسیکل، ٹھمری اوردادھرہ میں بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ اردو، پنجابی ، فارسی زبانوں پر مکمل عبور رکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف زبانوں میں حاصل ہونے والی خصوصی مہارت سے دنیائے موسیقی میں نمایاں مقام حاصل بنایا۔

    مزید ویڈیوز : اقبال بانو کی 6 مشہورغزلیں

    انہوں نے گمنام ، قاتل ، انتقام، سرفروش، عشق لیلی اور ناگن جیسی سپرہٹ فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا جبکہ  فلم قاتل میں ان کی آواز میں گایا ہواگیت ’’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے، تولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔

    انہیں 1990 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ اقبال بانو 21اپریل 2009 کو 74 برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد جہانِ فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔