Tag: اقبال ڈے

  • سندھ حکومت کا عام تعطیل کا اعلان

    سندھ حکومت کا عام تعطیل کا اعلان

    کراچی: وفاقی حکومت کے بعد سندھ حکومت نے بھی 9 نومبر کو اقبال ڈے پر عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے 9نومبر کو اقبال ڈے پر عام تعطیل کا اعلان کردیا ، چیف سیکریٹری سندھ فخرعالم نے نوٹیفکیشن جاری کردی۔

    یاد رہے وفاقی حکومت نے یوم اقبال کے موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا اور اس حوالے کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔

    واضح رہے کہ ہر سال 9 نومبر کو پورے پاکستان میں شاعرمشرق علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کو یوم اقبال کے طور پر منایا جاتا ہے۔

  • وہ پرندے جو شاعرِ مشرق کے درسِ خودی کا وسلیہ بنے

    وہ پرندے جو شاعرِ مشرق کے درسِ خودی کا وسلیہ بنے

    حکیمُ الاّمت ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں فطری مظاہر، خاص طور پر چرند پرند کی حرکا ت و سکنات، ان کی قوت و طاقت، عادات اور خوبیوں کو مثال بنا کر پیش کیا اور ان کے ذریعے اسلامیانِ ہند بالخصوص نوجوانوں کو درسِ خودی دیتے ہوئے محنت اور لگن سے اپنے مقصد کی تکمیل اور منزل کی جانب بڑھنے کا پیغام دیا۔

    شاعرِ مشرق نے پرندوں کی معرفت نہ صرف انسانی جذبات کو خوبی سے پیش کیا بلکہ اس کے ذریعے کئی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا راستہ بتایا ہے۔

    انھوں نے اپنی شاعری میں کئی پرندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے خاص طور پر مسلمانوں کو فکروعمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

    شاہین
    علامہ اقبال کی شاعری کا ایک خوش رنگ پرندہ شاہین ہے جس کی بلند پرواز، قوت و طاقت اور عزم کا اظہار ان کے کلام میں یوں ملتا ہے۔

    برہنہ سَر ہے توعزم بلند پیدا کر
    یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

    شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
    پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد

    شہباز
    شاعرِ مشرق نے اس پرندے کے شکار کرنے کی صلاحیت، قوتِ پرواز اور جھپٹنے کی تیزی سے ہمیں سبق دیتے ہوئے بتایا ہے۔

    نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
    شکار مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں

    ایک اور شکاری پرندے باز کا ذکربھی شاہین اور شہباز کی طرح علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی کو بیان کرتا ہے۔

    بلبل و طاؤس
    اقبال نے بلبل و طاؤس کو مغربی تہذیب کی چمک دمک اور اس کے ظاہر کی رعنائی و دل کشی سے جوڑا ہےاور کئی مقامات پرانھوں نے نوجوانوں کےلیے اسے اپنے پیغام کا وسیلہ بنایا ہے۔

    کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
    بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ

    کرگس
    یہ پرندہ مردار خور، مگر بلند پرواز ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ خود دار و بلند عزم مومن کی صفات کرگس جیسی نہیں ہوسکتیں۔ وہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پرواز کرے، مگر اس میں وہ عزم اور حوصلہ، ہمت و دلیری کہاں جو شاہین کا وصف ہے۔

    پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
    کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

    عقاب
    یہ بھی بلند پرواز پرندہ ہے جس کی طاقت کو اقبال نے جوانوں میں ولولہ، ہمّت اور عزم پیدا کرنے کے لیے اپنے شعر میں یوں پیش کیا ہے۔

    عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
    نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

    ان پرندوں کے علاوہ تیتر، چرخ، چکور،طوطی، قمری،الّو،مرغ جیسے پرندوں کا ذکر علامہ اقبال کی شاعری میں ملتا ہے اور وہ ان کے ذریعے مسلمان قوم کو کوئی درس اور تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔

  • جب شاعرِ مشرق کو کسی شعر پر داد نہ ملی!

    جب شاعرِ مشرق کو کسی شعر پر داد نہ ملی!

    ایک زمانہ تھا جب کسی ہم عصر کے فن و تخلیق پر تبصرہ کیا جاتا تو تعریف اور سراہنے میں بخل سے کام نہیں لیا جاتا تھا، لیکن اسی طرح اصلاح و بہتری کی غرض سے تنقید بھی کی جاتی تھی۔

    اردو ادب میں نام وَر شخصیات اور مشاہیر نے آپس میں کسی موضوع پر گفتگو کے دوران اختلاف اور بحث کرتے ہوئے بھی شائستگی اور احترام کو ملحوظ رکھا۔ ایسی ہی کسی مجلس میں اکثر احباب میں سے کوئی شوخی اور ظرافت پر آمادہ ہوجاتا تو محفل زعفران زار بھی ہو جاتی تھی۔

    ادبی تذکروں میں مشاہیر سے منسوب ایسے ہی مختلف دل چسپ واقعات اور لطائف ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں‌ ہم شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جو اقبال سے منسوب ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک مرتبہ علامہ اقبال تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے۔ اس سفر کے دوران انھیں اردو کے مشہور فکشن رائٹر سیّد سجّاد حیدر یلدرم کے ساتھ تانگے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔

    دونوں حضرات پیارے صاحب رشید لکھنوی کے گھر پہنچے۔ دورانِ گفتگو اقبال نے اپنی ایک مشہور غزل انھیں سنائی۔ اقبال کی اس غزل کو پیارے صاحب رشید بڑی خاموشی سے سنتے رہے اور کسی بھی شعر پر داد نہ دی۔ جب وہ اپنی پوری غزل سنا چکے تو پیارے صاحب نے فرمایا،

    ”اب کوئی غزل اردو میں بھی سنا دیجیے۔ ” اس واقعے کو علّامہ اقبال اپنے دوستوں میں ہنس ہنس کے بیان کرتے تھے۔

  • اقبال کی غزل گوئی

    اقبال کی غزل گوئی

    علّامہ کو شاعرِ مشرق، اور فلسفی شاعر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ ان کی وہ نظمیں‌ ہیں‌ جو ہندوستان کے مسلمانوں میں‌ حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنے، خاص طور پر نوجوانوں‌ کو اسلامی طرزِ فکر اور مقصدِ حیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں‌۔ لیکن اقبال نے ابتدا غزل گوئی سے کی تھی۔

    اقبال نے حضرت داغ دہلوی کے رنگ میں بھی غزلیں کہی ہیں جو سہل ممتنع اور اقبال کی سادہ بیانی کا نمونہ ہیں۔ آئیے اقبال کو ایک غزل گو شاعر کے طور پر پڑھتے ہیں۔

    غزل
    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    ایک اور غزل ملاحظہ کیجیے

    نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
    مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

    تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

    تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
    مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

    کھنچے خود بخود جانبِ طور موسیٰ
    کشش تیری اے شوقِ دیدار کیا تھی

    کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
    فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی

  • یومِ اقبال: شاعرِ مشرق کی شخصیت اور فن کا مطالعہ بھی دانش ورانہ فکر کا متقاضی ہے

    یومِ اقبال: شاعرِ مشرق کی شخصیت اور فن کا مطالعہ بھی دانش ورانہ فکر کا متقاضی ہے

    اقبال دانش وَر شاعر ہیں جنھیں صرف فنّی یا لسانی پیمانوں پر پرکھنا ناکافی ہوگا، اس لیے ان کا مطالعہ بھی ایک دانش ورانہ رویّے کا تقاضا کرتا ہے۔

    آج علّامہ اقبال کا یومِ پیدائش ہے۔ شاعرِ مشرق اور حکیمُ الامّت علّامہ اقبال نہ صرف برصغیر میں اپنے فن و شخصیت میں ہر لحاظ سے ممتاز ہوئے بلکہ ایک مردِ قلندر، صوفی، فلسفی شاعر اور مصلح قوم کی حیثیت سے بالخصوص اسلامیانِ ہند اور عالمِ اسلام کے مختلف طبقات کے ظاہری اور باطنی امراض کی نشان دہی کرتے ہوئے ان میں بیداری کی نئی روح پھونکنے کی کوشش کی۔

    اقبال کا فکری اثاثہ اور اشعار ہر عمر اور طبقے کے لیے ایک پیغام کی صورت عام ہوئے، لیکن ان کی فکر اور فلسفے کا مرکز و محور نوجوان ہیں۔

    علّامہ اقبال نے اپنی شاعری سے نوجوانوں‌ کی تعلیم و تربیت، انھیں شعور و آگاہی دینے اور بیدار و خبردار رکھنے کے ساتھ آدابِ زندگی اور طریقِ زیست سکھایا۔ وہ اپنے بے نظیر تخیّل اور دانش ورانہ و حکمت آمیز اندازِ بیان کے سبب اردو کے عظیم شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

    استعارات، تلازمات، کنایات، علامات اور تشبیہات ہر زبان کی شعری و ادبی روایات ہوتی ہیں اور اقبال کی شاعری میں یہ علامات اور استعارات خاص مفہوم میں استعمال ہوئی ہیں‌ اور اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بنی ہیں جو ان کی شاعری کا بنیادی وصف اور جوہر ہے۔

    اقبال کی شاعری نوجوانوں سے بنیادی طور پر جدوجہد اور سعی و عملِ پیہم کا مطالبہ کرتی ہے۔ اپنی فکر کے اظہار کے لیے اقبال نے اردو کی شعری لسانیات میں شان دار اضافہ کیا۔ وہ نظم اور غزل دونوں‌ پر یکساں قادر تھے، لیکن نظم نگاری ان کا وہ حوالہ ہے جس نے انھیں برصغیر اور دنیا بھر میں‌ ایک فلسفی شاعر کی شناخت دی۔ ان کی نظموں میں زبردست نغمگی اور والہانہ پن ہے۔

    شیخ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ نور محمد زیادہ پڑھے لکھے یا خوش حال نہیں تھے، لیکن اقبال نے ابتدائی تعلیم مکتب اور بعد میں اسکولوں میں‌ حاصل کی۔ وہ پرائمری، مڈل اور میٹرک کے امتحانوں میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوئے اور وظیفہ لیا۔ ایف اے پاس کرکے بی اے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، اقبال نے 1899ء میں فلسفہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اسی کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1905ء میں وہ مزید تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج میں داخلہ لیا۔

    اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے یہ شعر سنایا۔

    موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
    قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

    اس وقت ان کی عمر محض 17 سال تھی اور اس شعر نے جیّد شعرا کو چونکا دیا۔ اس کے بعد اقبال انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ 1900ء میں انجمن کے ایک جلسے میں انھوں نے اپنی مشہور نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھی جو اپنے اچھوتے انداز اور کمال سوز و گداز کی وجہ سے اتنی مقبول ہوئی کہ اجلاس میں یتیموں کی امداد کے لیے روپوں کی بارش ہونے لگی اور آنسوؤں کے دریا بہہ گئے۔ بعد کے برسو‌ں میں‌اقبال شعرائے ہند کے درمیان صفِ اوّل میں نظر آئے۔ ان کی شاعری میں اردو اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو ان کے زبان و بیان پر عبور اور قدرتِ اظہارِ بیان کا ثبوت ہے۔

    اقبال نے کیمبرج اور میونخ یونیورسٹیوں سے فلسفہ میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں۔ لندن سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔ اسی عرصے میں ان کی ملّی نظموں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو ان کی شہرتِ دوام کا باعث بنا۔ ان میں ’’شکوہ‘‘، ’’شمع و شاعر‘‘، ’’خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ انجمن کے جلسوں میں پڑھی گئیں۔ 1910ء میں فارسی مثنوی’’اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی اور پھر تین سال بعد ’’رموز بے خودی‘‘ منظر عام پر آئی جو ’’اسرار خودی‘‘ کا تتمّہ تھی۔ اس کے بعد اقبال کی شاعری کے مجموعے یکے بعد دیگرے شائع ہوتے رہے۔ آخری مجموعہ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

    اقبال نے عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1930ء میں مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس میں ان کو صدر چنا گیا۔ اسی جلسہ میں انھوں نے قیام پاکستان کا مبہم خاکہ پیش کیا جو بعد میں ہندوستان سے الگ پاکستان کے قیام کے مطالبہ کی اساس بنا۔ وہ 1938ء میں‌ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ انھوں‌ نے اپنے کلام سے اقوامِ مشرق میں‌ بیداری کی نئی لہر پھونکنے کی کوشش کی۔ اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔ انھیں‌ بیسویں صدی کا عظیم اردو شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔

    علاّمہ اقبال نے اپنی شاعری میں فطرت اور حیات، خاص طور پر چرند پرند کی حرکا ت و سکنات، ان کی قوّت و طاقت، عادات اور خوبیوں، خصائل اور اسی طرح ان کی کم زوریوں یا صفات و عاداتِ بد کو استعاروں اور علامات کی صورت اور مخصوص معنوں میں‌ برت کر نوجوانوں‌ کو درسِ خودی دیا ہے اور خود آگاہی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کی بدولت شاعر کی نظر میں‌ وہ مادّی و روحانی ترقّی کی نئی رفعتوں سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

    حکیم ُالامت نے پرندوں کی معرفت نہ صرف انسانی جذبات کو خوبی سے پیش کیا بلکہ اس کے ذریعے مسلمانوں‌ اور بالخصوص نوجوانوں‌ کو کئی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا راستہ سجھانے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کو فکروعمل پر آمادہ کرتے ہوئے علّامہ اقبال کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جس میں انھوں‌ نے پرندوں کو مثال بنایا ہے۔

    شاہین
    علامہ اقبال کی شاعری کا ایک خوش رنگ پرندہ شاہین ہے جس کی بلند پرواز، قوت و طاقت اور عزم کا اظہار ان کے کلام میں یوں ملتا ہے۔

    برہنہ سَر ہے توعزم بلند پیدا کر
    یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

    شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
    پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد

    شہباز
    شاعرِ مشرق نے اس پرندے کے شکار کرنے کی صلاحیت، قوتِ پرواز اور جھپٹنے کی تیزی سے ہمیں سبق دیتے ہوئے بتایا ہے۔

    نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
    شکار مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں

    ایک اور شکاری پرندے باز کا ذکربھی شاہین اور شہباز کی طرح علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی کو بیان کرتا ہے۔

    بلبل و طاؤس
    اقبال نے بلبل و طاؤس کو مغربی تہذیب کی چمک دمک اور اس کے ظاہر کی رعنائی و دل کشی سے جوڑا ہےاور کئی مقامات پرانھوں نے نوجوانوں کےلیے اسے اپنے پیغام کا وسیلہ بنایا ہے۔

    کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
    بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ

    کرگس
    یہ پرندہ مردار خور، مگر بلند پرواز ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ خود دار و بلند عزم مومن کی صفات کرگس جیسی نہیں ہوسکتیں۔ وہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پرواز کرے، مگر اس میں وہ عزم اور حوصلہ، ہمت و دلیری کہاں جو شاہین کا وصف ہے۔

    پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
    کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

    عقاب
    یہ بھی بلند پرواز پرندہ ہے جس کی طاقت کو اقبال نے جوانوں میں ولولہ، ہمّت اور عزم پیدا کرنے کے لیے اپنے شعر میں یوں پیش کیا ہے۔

    عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
    نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

    ان پرندوں کے علاوہ تیتر، چرخ، چکور، مرغ جیسے پرندوں کا ذکر بھی اقبال کی شاعری میں ملتا ہے جن کی مدد سے اقبال نے مسلمان قوم کو کوئی نہ کوئی درس دیا اور حسنِ عمل کی تلقین کی۔

  • اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں،شاہد آفریدی

    اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں،شاہد آفریدی

    کراچی : قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی کا کہنا ہے اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے اقبال کی یاد میں خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں، میری نظر میں یہی بہترین طریقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اقبال ڈے کی چھٹی کے حوالے سے کہا اقبال کوخراج عقیدت ان کے نظریے آگے لے کر چلنے سے دیا جاسکتا ہے، ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں ان کو تعلیم سے ہمکنار کریں۔

    شاہد آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے اقبال کی یاد میں خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں، میری نظر میں یہی بہترین طریقہ ہے۔

    یاد رہے یوم اقبال پر 9 نومبر کو عام تعطیل بحال کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی گئی ، حکومت کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی  قرارداد کی مخالفت کی تھی۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما  احسن اقبال نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا پاکستان میں پہلےہی 52 قومی تعطیلات ہیں جوبہت زیادہ ہیں، علامہ اقبال نےمحنت کادرس دیا ہے، ہربات پرچھٹی کا نہیں، ایک دن کی چھٹی سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں : یوم اقبال پرعام تعطیل بحالی کی قرارداد پیش، حکومت اوراحسن اقبال کی مخالفت

    پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے حزبِ اختلاف کے رہنما احسن اقبال کی حمایت کرتے ہوئے ان کے موقف کو درست  قرار دیا اور کہا کہ ہرچیز پرچھٹی کا تاثر ختم ہونا چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہرچیز پرچھٹی کردیں، اقبال ڈے پر ہمیں چھٹی نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے بارے میں بتانا چاہیے۔

    واضح رہے کہ 9 نومبر کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے، علامہ اقبال برصغیر پاک و ہند کے عظیم شاعر تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا، ان کے اس تصور کو پاکستان کے خواب سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

    علامہ اقبال کا بیش تر کلام جوانوں میں عقابی روح پھونکنے، ان میں غیرتِ ملی کو بیدار کرنے اور انہیں ہمہ وقت آمادہٗ عمل رہنے کے فلسفے پر مشتمل ہے۔

  • اقبال ڈے پر تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے: محکمہ تعلیم سندھ

    اقبال ڈے پر تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے: محکمہ تعلیم سندھ

    کراچی: محکمہ تعلیم سندھ کا کہنا ہے کہ یوم اقبال کے موقع پرسندھ کے تمام سرکاری تعلیمی ادارے معمول کےمطابق کھلے رہیں گے، سندھ حکومت کے چھٹیوں کے شیڈول میں اقبال ڈے کو تعطیل کے طور پر رکھا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم سندھ نے وضاحت جاری کی ہے کہ اقبال ڈے پر صوبے کے تمام تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھلیں گےاور اس موقع پر کوئی چھٹی نہیں ہوگی۔

     اس سے قبل سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ تعطیلات کے نوٹی فکیشن میں اقبال ڈے شامل ہونے کے سبب ابہام پیدا ہوا تھا کہ سندھ میں کل تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔

    سال کے اوائل میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت سے 9 نومبر کو صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں تعطیل ہوگی۔

    تاہم اب سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم نے وفاقی حکومت کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ سندھ میں تمام تعلیمی اداروں میں تدریس کا عمل معمول کے مطابق جاری رہے گا۔

    یاد رہے کہ یوم اقبال پر 9 نومبر کو عام تعطیل بحال کرنے کی قرارداد دو روز قبل قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی ، تاہم موجودہ وفاقی حکومت کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی قرارداد کی مخالفت کی تھی۔

    مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں یوم اقبال کے موقع پر تعطیل ختم کردی گئی تھی ، سابقہ حکومتی جماعت کا موقف تھا کہ پاکستان میں سالانہ عام تعطیلات کی تعداد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے، ایک دن کام بند ہونے سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جو براہ راست قوم پر اثرا نداز ہوتا ہے۔

    قومی اسمبلی میں قرارداد پیش ہونے پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کے احترام میں چھٹی کی جائے توغلط ہوگا، علامہ اقبال کا ادب ہم سب کے دل میں ہے ، علامہ اقبال توکہتےتھے کہ دن کے24 گھنٹے، اور ہفتے کے ساتوں دن محنت کرنی چاہیے۔

    تاہم سندھ حکومت نے سال رواں کے آغاز پر جو سالانہ تعطیلات کا شیڈول جاری کیا تھا ، اس میں اقبال ڈے کو اسکولوں میں تعطیل کا دن قرار دیا گیا تھا ۔ شیڈول میں لکھا ہے کہ 14 اگست ، یومِ پاکستان اور عید میلاد النبیﷺ پر تعلیمی اداروں میں تقاریب کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔

  • یوم اقبال پرعام تعطیل بحالی کی قرارداد پیش، حکومت اوراحسن اقبال کی مخالفت

    یوم اقبال پرعام تعطیل بحالی کی قرارداد پیش، حکومت اوراحسن اقبال کی مخالفت

    اسلام آباد : یوم اقبال پر 9 نومبر کو عام تعطیل بحال کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی گئی ، حکومت کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی  قرارداد کی مخالفت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں 9 نومبریعنی یومِ اقبال پر ماضی کی طرح عام تعطیل بحال کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی گئی، قراردادمسلم لیگ ن کےنثارچیمہ نے پیش کی۔

    علامہ اقبال نےمحنت کادرس دیا ہے، چھٹی کا نہیں


    مسلم لیگ ن کے رہنما حسن اقبال نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا پاکستان میں پہلےہی 52 قومی تعطیلات ہیں جوبہت زیادہ ہیں، علامہ اقبال نےمحنت کادرس دیا ہے، ہربات پرچھٹی کا نہیں، ایک دن کی چھٹی سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

    احسن اقبال کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کے احترام میں چھٹی کی جائے توغلط ہوگا، علامہ اقبال کا ادب ہم سب کے دل میں ہے ، علامہ اقبال توکہتےتھے کہ دن کے24 گھنٹے، اور ہفتے کے ساتوں دن محنت کرنی چاہیے۔

    اقبال ڈے پر اقبال کا پیغام لوگوں تک پہنچانا چاہیے، شیریں مزاری


    پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے حزبِ اختلاف کے رہنما احسن اقبال کی حمایت کرتے ہوئے ان کے موقف کو درست  قرار دیا اور کہا کہ ہرچیز پرچھٹی کا تاثر ختم ہونا چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہرچیز پرچھٹی کردیں، اقبال ڈے پر ہمیں چھٹی نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے بارے میں بتانا چاہیے۔

    حکومت کی جانب سے بھی قرارداد کی مخالفت کی گئی، علی محمدخان نے کہا نثارچیمہ قراردادمیں ترمیم کرلیں کہ چھٹی نہیں ہوگی، نثارچیمہ قرارداد واپس لے لیں تاکہ ترمیم کی جا سکیں۔ علی محمدخان کی درخواست پر ن لیگ کے نثار چیمہ نے قرارداد واپس لے لی۔

    کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا


    دوسری جانب ترجمان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ 9 نومبرکی چھٹی سےمتعلق خبرمیں کوئی صداقت نہیں، وزارت داخلہ کی جانب سے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔

    واضح رہے کہ 9 نومبر کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے، علامہ اقبال برصغیر پاک و ہند کے عظیم شاعر تھے جنہوں  نے سب سے پہلے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا، ان کے اس تصور کو پاکستان کے خواب سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

    علامہ اقبال کا بیش تر کلام جوانوں میں عقابی روح پھونکنے، ان میں غیرتِ ملی کو بیدار کرنے اور انہیں ہمہ وقت آمادہٗ عمل رہنے کے فلسفے پر مشتمل ہے۔