Tag: اقتباسات

  • "کباب میں ہڈی کون ہوا؟”

    "کباب میں ہڈی کون ہوا؟”

    بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے۔ پس جمہوریت اور آئین کو کھایا نہیں جا سکتا۔

    اس پر ایک چٹورا ہونٹ چاٹتا ہمارے پاس آیا اور بولا کہ اگر جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ ہم نے کہا کہ جمہوریت اصل میں جوتیوں میں دال بٹنے کا معاملہ ہے۔ اس پر چٹورا بھڑکا اور بولا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ چپل سے چلے جوتی تک پہنچ گئے اور کباب سے چل کر دال پہ آرہے ہیں۔ میں نے آپ سے صرف اتنا پوچھا کہ جمہوریت اگر چپلی کباب نہیں ہے تو پھر کون سا کباب ہے۔

    اس نے پھر پوچھا کہ ’ڈکٹیٹر شپ‘ کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ کباب میں ہڈی…! اس میں وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا کہ تمہیں یاد ہے کہ جب ایوب خان صاحب نے گول میز کانفرنس بلائی تھی تو لیڈر اچکنیں سلوا سلوا کر وہاں پہنچے تھے۔ وزارتوں کا اچھا خاصا نقشہ جم گیا تھا، مگر مولانا بھاشانی اڑ گئے کہ میں کانفرنس میں شامل نہیں ہوں گا۔ اس پس منظر میں ذرا سوچو کہ کباب میں ہڈی کون ہوا۔

    ہم واقعی سوچ میں پڑ گئے۔ ٹالتے ہوئے بولے کہ یار یہ ٹیڑھی کھیر ہے، وہ تڑپ کر بولا، تمہارے منہ میں گھی شکر، اصل میں جمہوریت ٹیڑھی کھیر ہے۔

    (انتظار حسین کی تصنیف ’قطرے میں دریا‘ سے اقتباس)

  • شمالی ورجینیا کا ایک قصبہ جہاں جگنو روشنی بکھیرتے ہیں!

    شمالی ورجینیا کا ایک قصبہ جہاں جگنو روشنی بکھیرتے ہیں!

    میں شمالی ورجینیا کے جس قصبے میں رہتا ہوں، اس میں ہر طرف ہریالی ہے۔ گھر کے چاروں طرف اتنے اور ایسے اونچے اونچے درخت ہیں کہ جنگل کا گمان ہوتا ہے۔ سڑکوں کے اطراف گھاس کے قطعات اور رنگ برنگے پھول نظر آتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتا ہوں تو خوش آواز پرندے گیت گاتے ملتے ہیں۔ سہ پہر کو واپسی پر تتلیاں استقبال کرتی ہیں۔ مغرب کے بعد جگنو روشنی بکھیرتے ہیں۔ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں، حقیقت کا بیان ہے۔

    گھر کے عقب میں ایک ندی بہتی ہے۔ سردیوں میں سکڑ جاتی ہے، لیکن گرمیوں میں خوب شور مچاتی ہے۔ سال کا بیش تر حصہ موسم خوش گوار رہتا ہے۔ اکثر بادل چھائے رہتے ہیں۔ ہفتے میں ایک دو بار بارش ہو جاتی ہے۔ صبح یا شام کو ہوا تیز چلتی ہے تو خنکی ہو جاتی ہے۔ محلہ صاف ستھرا ہے اور کئی اقوام کے تارکین وطن آباد ہیں۔ ہم سائے ہم درد ہیں۔ بجلی پانی جانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس قصبے کی آبادی صرف 40 ہزار ہے، لیکن بہترین اسکول، اپنا کالج اور کئی اسپتال ہیں۔ ڈاک خانہ، لائبریری اور عجائب گھر ہے۔ مسجد اور امام بارگاہ بھی ہے۔ گرمیوں میں سورج نو بجے غروب ہوتا ہے، لیکن بہت سی دکانیں پانچ بجے اور باقی سات بجے تک بند ہو جاتی ہیں، سپر مارکیٹس کا وقت نو بجے ہے۔ بعض میڈیکل اسٹور 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ ہر گلی محلے میں دکان نہیں ہوتی۔ کاروباری علاقہ مخصوص ہے، جہاں رہایش نہیں ہوتی۔ شمالی ورجینیا میں ایسے ہر مقام پر مفت بے حساب پارکنگ دست یاب ہوتی ہے۔ آٹے دال اور دوا سمیت ہر شے خالص ملتی ہے۔ کھانے پینے کے ہر شے پر استعمال کی آخری تاریخ درج ہوتی ہے۔ مسلمان دکانوں کے علاوہ دوسرے سپر اسٹورز پر بھی حلال گوشت مل جاتا ہے۔

    نہ کوئی فون چھینتا ہے، نہ گاڑی چوری ہوتی ہے، نہ کبھی کوئی پولیس والا دکھائی دیا۔ ڈاکیا گھر کے باہر کتابوں کے پیکٹ رکھ جاتا ہے۔ کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ شراب ہر اسٹور میں بکتی ہے، لیکن آج تک کسی کو نشے میں دھت نہیں دیکھا۔ ہمارے محلے میں زیادہ ہندوستانی پاکستانی نہیں، لیکن کہیں ملیں بھی تو آنکھیں نہیں ملاتے۔ باقی ہر قوم کے واقف اور اجنبی سب مسکرا کے ملتے ہیں۔ ہیلو ہائے اور ’گڈ مارننگ‘ ضرور کہتے ہیں۔ سڑک کی صفائی کرنے والا محنت کش میکسیکن ہر صبح ”یو ہیو اے بلیسڈ ڈے“ کہتا ہے۔

    علاج منہگا ہے اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ ہفتوں بعد ملتا ہے، لیکن اسپتالوں کی ایمرجینسی 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ نام پتا بعد میں پوچھتے ہیں، طبی امداد پہلے فراہم کرتے ہیں۔ کوئی حادثہ ہو جائے، تو ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس چند منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ ایمبولینس میت ڈھونے والا ’کیری ڈبا‘ نہیں، جان بچانے والی گاڑی ہوتی ہے۔سڑکوں پر اسپیڈ بریکر نہیں ہوتے۔ سائیکل چلانے والوں کے لیے بیش تر سڑکوں پر الگ لین بنی ہے۔ اسٹریٹ لائٹس رات بھر روشن رہتی ہیں۔ سگنل آدھی رات کے بعد بھی کام کرتے ہیں اور قانون پسند شہری ان کا احترام کرتے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی سگنل پر کبھی کبھی خیرات مانگنے والے مل جاتے ہیں، لیکن نہ گاڑی کے سامنے آتے ہیں، نہ انگلی سے شیشہ بجاتے ہیں، نہ کچھ کہتے ہیں۔ بس ایک پلے کارڈ لے کر کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کو گانا بجانا آتا ہے تو اپنا ساز لے کر میٹرو اسٹیشن کے سامنے پہنچ جاتا ہے۔

    ہر سڑک پر راستہ بتانے والے بورڈ لگے ہیں۔ ٹریفک کی علامتوں کے علاوہ جگہ جگہ حد رفتار کی نشان دہی کی گئی ہے۔ عام طور پر سر راہ اشتہاری بورڈ نہیں لگائے جاتے۔ ہر آبادی کی طرح ہمارے قصبے کے برابر سے بھی ہائی وے گزرتی ہے۔ اس ہائی وے پر آپ ایک لین میں رہتے ہوئے ایک رفتار سے سیکڑوں میل سفر کر سکتے ہیں۔ نہ کوئی ہارن بجاتا ہے، نہ ڈپر مارتا ہے۔ سپر ہائی وے پر کوئی پیٹرول پمپ تک نہیں ہوتا۔ ایندھن لینا ہے یا کچھ کھانا پینا ہے، تو ہائی وے سے اتریں اور قریبی کمرشل ایریا جائیں۔

    ہمارے گھر سے چار قدم پر بس اسٹاپ ہے جہاں آٹھ مختلف روٹس کی بسیں ہر چند منٹ بعد ٹھیرتی ہیں۔ بہت سے بس اسٹاپ پر بینچیں لگی ہوتی ہیں اور بارش سے بچنے کے لیے سائبان ہوتے ہیں۔ اسکول بس رکتی ہے، تو آگے پیچھے کی تمام گاڑیاں ٹھیر جاتی ہیں۔ جب تک اسکول بس دوبارہ نہ چلے، کوئی گاڑی حرکت نہیں کرتی۔

    شمالی ورجینیا کے اسکول اچھی پڑھائی کے لیے مشہور ہیں۔ بارہویں تک تعلیم مفت ہے۔ فیس، کتابوں کاپیوں اور لیپ ٹاپ کے لیے ایک پیسا نہیں دینا پڑتا۔ کوئی یونیفارم نہیں۔ بچہ جو مرضی کپڑے پہن آئے۔ اسکول وین بھی مفت، لیکن یہ سہولت ایک میل سے کم فاصلے پر رہنے والے بچوں کے لیے دست یاب نہیں۔ انہیں پیدل اسکول آنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بڑے رقبے پر ہیں۔ کئی عمارتیں اور کئی میدان۔ لیب اور جمنازیم۔ ہر بچے کے لیے روزانہ ورزش، بھاگ دوڑ اور کھیل میں حصہ لینا لازم ہے۔ محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کہتا ہے کہ آپ ہم سے اپنی زبان میں بات کریں۔ اسکول یا اسپتال میں کوئی آپ کی زبان جاننے والا نہیں تو وہ ایسا شخص بھرتی کرتے ہیں۔

    چہار جانب درختوں کے باوجود قصبے میں کئی پارک ہیں۔ ایک پارک ایک مربع میل کا ہے۔ کسی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو بہتے پانی کا رخ بدلنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو کوئی جانور یا پرندہ مارنے کی اجازت نہیں۔ کئی تنظیمیں ہیں جو مالک سے بچھڑ جانے والے پالتو جانوروں کو سنبھالتی ہیں۔ انہیں بچوں کی طرح پالتی ہیں۔ کوئی گود لینا چاہے تو مفت فراہم کرتی ہیں۔ صبح سویرے لوگ جاگ جاتے ہیں اور سر شام سو جاتے ہیں۔ صبح اور سہ پہر ایک دو گھنٹوں کے سوا زیادہ ٹریفک نہیں ملتا۔ کسی گاڑی یا گھر سے تیز موسیقی بلند نہیں ہوتی۔ مسجد، امام بارگاہ یا گرجا گھر پر لاؤڈ اسپیکر نہیں لگایا جاتا۔

    (مصنّف: مبشر علی زیدی)

  • کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے دنیا کو تدبّر اور فہم و فراست کا درس دیتے ہوئے کئی خرد افروز مضامین یادگار چھوڑے ہیں جنھیں بہت سراہا گیا۔

    برٹرینڈ رسل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت کی اور وہ بارہا بھارت کے سامراجی عزائم کے خلاف بولا۔

    اس نے کہا، ’’بھارتی حکومت بین الاقوامی معاملات میں بلند نظری کی پرچارک ہے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت نے کشمیر کے معاملے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساس نامرادی چھا جاتا ہے۔‘‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارتی حملے کو ’’ننگی جارحیت‘‘ قرار دیا۔ رسل کو پاکستان اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوسے بھی محبت تھی۔ اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا:’’میں عرصے سے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ایک آزاد پالیسی ہے۔‘‘

    1965ء کے بعد ویت نام کا مسئلہ رسل کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ معاملہ سیاہ رخ امریکہ کی درندگی اور بربریت کی شرمناک مثال ہے۔ چورانوے سالہ زرد رو بوڑھا فلسفی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس ظلم و تشدد کے خلاف آہنی دیوار بن کر ڈٹ گیا۔ اس نے ویت نام کے قومی محاذ آزادی کے ریڈیو سے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اگر یہ سب کچھ امریکہ میں آپ کے والدین، بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہوتا، تو آپ کیا محسوس کرتے؟ میں یہ سوال اس لیے پوچھتا ہوں کیونکہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس بات کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے کہ یہ مجرمانہ جنگ جاری رہے گی یا نہیں۔‘‘

    ویت نام کی جنگ میں ’’مہذب‘‘ برطانیہ، امریکہ کا حواری رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں رسل جو لیبر پارٹی کا ممتاز رکن تھا، یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: ’’میں خود کو عہدِ حاضر کی سب سے زیادہ شرم ناک غداری کا مرتکب پاتا ہوں۔ ہٹلر کم از کم انسانیت کا دعویٰ تو نہیں کرتا تھا، لیکن یہ لوگ جو حکومت کی کرسیوں کو ناپاک کر رہے ہیں، انتخابات سے پہلے انسانیت کے اعلیٰ ترین نظریات کا پرچار کرتے تھے۔‘‘

    اس تقریر کے فوراً بعد اس نے لیبر پارٹی کی رکنیت کا کارڈ پھاڑ دیا۔ بعد ازاں اس نے ویت نام میں جنگی جرائم کی تفتیش اور جنگی مجرموں کو انسانی ضمیر کے روبرو پیش کرنے کی خاطر دنیا بھر کے ممتاز دانشوروں اور قانون دانوں پر مشتمل ایک ٹریبونل قائم کیا۔ جس میں پاکستان کے قانون دان محمود علی قصوری، فرانسیسی فلسفی سارتر، فرانسیسی دانشور سمون دی بوار کے علاوہ امریکہ، جاپان اور فرانس کے جنگ دشمن تحریک کے علم بردار شامل تھے۔ ٹریبونل کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز2 مئی 1967ء کو اسٹاک ہوم میں ہوا۔ رسل خرابی صحت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکا اور سارتر نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ ٹریبونل نے حاصل شدہ شہادتوں کی بنا پر 10 مئی 1967ء کو امریکہ اور اس کے اتحادی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا کو مجرم قرار دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جانسن اور جنرل مورلینڈ کو ’’سزائے موت‘‘ کا حکم سنایا۔ بلاشبہ ان قومی مجرموں کو جسمانی طور پر سزا دینا ممکن نہ تھا۔ تاہم ایسی گہری ملامت انصاف پسند عالمی ضمیر کی آوازیں بن کر ضرور گونجیں۔ آخری ایام میں وہ اسرائیل کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا۔

    رسل کی زندگی جنگ، ظلم ، ناانصافی اور ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف جدوجہد میں بسر ہوئی۔اسے جولائی 1955ء میں تخفیفِ اسلحہ کے مسئلہ پر جنیوا سربراہ کانفرنس سے پر امن مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی، لیکن جب روس نے ایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں امریکی تجاویز مسترد کردیں تو بوڑھا امن پسند فلسفی مایوس ہوا۔

    رسل جب تک زندہ رہا، ظلم کے خلاف سینہ سپر رہا۔ اٹھانوے برس کی عمر میں موت نے اس جری سپاہی کی تلوار اس سے چھین لی۔ 2 فروری 1970ء کو وہ انتقال کر گیا۔ 5 فروری کو اس کی وصیت کے مطابق اس کی نعش کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اس موقع پر کوئی مذہبی تقریب نہیں ہوئی۔ کسی شخص نے کوئی لفظ نہیں کہا اور نہ ہی موسیقی کی دھنیں بجائی گئیں۔ آخری رسوم کی ادائیگی کے وقت اس کی بیوی اور ایک بیٹے کے علاوہ کوئی درجن بھر سوگوار موجود تھے۔

    (ظفر سپل فلسفی، ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں، یہ اقتباس ان کی کتاب ’’فلسفۂ مغرب‘‘ سے لیا گیا ہے)

  • اودے پور کا فرضی طلسم

    اودے پور کا فرضی طلسم

    نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیعُ الاوّل 1349 ہجری، 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبان قلم سے سنیے۔

    اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مؤرخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مؤرخ ہیں۔

    شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں۔ مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرۂ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے، پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے اورنگ زیب پر ایک نظر کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔

    مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہا رانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجود مہارانا کے والد 1911 کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھہرے کیونکہ ان کے ہاں‌ یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاؤ کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہو جائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔

    میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام تاریخِ اودے پور رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کیے ہیں جن میں سے ایک غرور شکن ہے اور دوسرا اودے پور کا فرضی طلسم ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا بہت جلدی شائع ہو جائے گی۔

    مولانا نجم الغنی‌ صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔

    رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شایستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔

    مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، نجمی تخلص تھا۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ و جاوید ہیں۔

  • نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    آگرے کی گائیکی پر خاکسار نے خاص ریاض کیا۔

    اُن دنوں خیال آیا کہ والد صاحب کی الماری پر جو مرمّت طلب طنبورہ پڑا ہے، اس کی مرمّت کرانی چاہیے۔ اس کے تونبے میں ایک دراڑ تھی، زنہار ہمّت نہ ہوئی کہ والد صاحب سے اس خواہش کا ذکر کروں، وہ ہر گز اجازت نہ دیتے۔

    ماڈل ٹاؤن میں مکانات کی تعمیر کا ایک ٹھیکے دار نصیر خاں تھا، جس کی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوئی تھی۔ یہ داغ کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض شعر واقعی اچھے نکال لیتا تھا لیکن وزن اس کے بعض مصرعوں کا ٹھیک نہ ہوتا تھا۔ اس کی عمر چالیس کے قریب تھی اور راقم کی پندرہ۔

    اس نے شاعری میں راقم کو استاد کیا۔ وقتاً فوقتاً ایک اٹھنی بطور اجرتِ اصلاح یا نذرانۂ شاگردی دیا کرتا تھا۔ راقم نے سوچا کہ طنبورہ مرمّت کرانے کا کام نصیر خاں کی مدد سے نکالا جائے۔

    ایک صبح والد صاحب جب کالج کو روانہ ہوئے۔ نصیر خاں تانگے پر طنبورہ رکھ کر اس کو دھنی رام اسٹریٹ میں پرتاب سنگھ کی دکان پر لے گیا۔ وہاں مرمّت میں کئی روز لگے۔ راقم بے تاب سنگھ بن کر یاد دہانی کو وہاں جاتا رہا، ٹوٹا ہوا تونبا مرمت یوں کرتے ہیں کہ اس کو کھول کر اس کے جوڑ بٹھا کر اندر مہین بوریا گوند سے جما دیتے ہیں۔ جب ٹھیک سے پیوستہ ہو جاتا ہے تو اس کو پھر اپنی جگہ جما کر باہر رنگ و روغن کر دیتے ہیں۔ کئی روز بعد نصیر خاں تانگے پر طنبورہ لے کر آیا۔ چوری چوری میں نے اس کو اپنے کمرے میں رکھا۔

    دو ایک روز میں والد صاحب کو خبر ہوئی تو اس جسارت پر حیران رہ گئے۔ خفا ہوئے تو راقم نے مزید جرأت کی اور کہا کہ مجھ کو پونا کے میوزک کالج میں داخل کرا دیجیے، اس کے جواب میں ناصحِ مشفق نے سمجھایا کہ اہلِ فن جس محلے میں رہتے ہیں وہاں کی آمد و رفت میں ایک خاص خطرہ ہے۔ لیجیے ہمارا خواب پریشاں ہو کر رہ گیا، لیکن اب مانتا ہوں کہ اچھا ہی ہوا۔ خطرۂ خاص سے قطع نظر گانے بجانے کے پیشے میں آج کل بھارت اور پاکستان دونوں میں جو سیاست ہے، اس سے اللہ بچائے۔

    ایک تفریحی شغل کے طور پر سنگیت کا جو مزہ ہم نے لیا، اس میں یک گونہ آزادی رہی۔ پھر یہ کہ زندگی کے مشاغل میں بھی تنوع رہا۔ راگ سے روٹی کمانی نہ پڑی۔ راگ وسیلۂ فرحت ہی رہا۔

    (ممتاز ماہرِ موسیقی، ادیب اور محقق داؤد رہبر کی یادوں سے ایک ورق)

  • "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہماری ایک غیبت سوسائٹی ہے جس میں ہم لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ملنے والوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ تعریف یا اچھائیاں تو مقابل بیٹھ کر کرنے سے ہی سننے والے کو خوش کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی کے طرزِ تکلّم پر یا ان کے عادات و اطوار پر اعتراض کریں تو صاحب موصوف کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بفرضِ محال وہ آپ کی باتوں کا منہ توڑ جواب نہ دیں جو ان کی انسانیت کو ظاہر کرے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ مستقبل میں وہ آپ سے ملنے سے کترانے لگیں گے اور اگر رشتے ناتے کی ایسی ڈور آپ کے بیچ ہے کہ میل ملاقات قطع نہیں کی جاسکتی تو بادلِ نخواستہ آداب سلام کی رواداری کا سلسلہ بنا رہے گا۔

    آپسی محبت و خلوص آپ کی کڑوی سچائی کے زہر میں گھل جائے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ہم کو غیبت سوسائٹی بنانے کی ترغیب دی۔

    یہ تو انسانی فطرت ہے کہ دنیا میں، چاہے دینوی معاملہ ہو یا دنیاوی سب کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔ ہر فرد کسی بھی مسئلے پر جداگانہ طریقے سے غور کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک اپنی بات کو صحیح تصور کرتا ہے اور دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جس دلیل پر اختلافِ رائے ہو یا ہم اوروں کو اپنی رائے سے متفق کرنا چاہیں تو ناخوش گوار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔

    مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہماری غیبت سوسائٹی سے انحراف کرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ غیبت اور جھوٹ گناہ ہے۔ لوگوں کی خوشی کے لیے دونوں کا سہارا غلط ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ ان دونوں کو مصلحت کے تحت اپنایا جائے تو حالات خوش گوار رہتے ہیں۔ اگر ہماری بات صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ جناب انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن صبح سے شام تک میں سچ اور صاف گوئی سے کام لے کر دیکھوں گا۔

    صبح ہوئی بیوی مسکراتی چائے لے کر آئی، انہوں نے ایک گھونٹ لیا ہوگا کہ اس نے اٹھلا کر پوچھا: "اچھی ہے نا؟” اور انہوں نے منہ بنا کر کہا: بالکل بیکار، گرم پانی کی طرح۔

    بیوی کا چہرہ اتر گیا۔ اس کی خدمت گزاری پر اوس پڑ گئی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ پھر یہ صاحب دفتر پہنچے۔ اپنے سینئر افسر سے مڈبھیڑ ہوئی، صاحب سلامت کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی کے متعلق پوچھا کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کوئی خاص نہیں، آپ کی شرٹ پر تو مناسب نہیں لگتی۔ وہ اپنی ڈریسنگ کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر ٹھنڈے پڑ گئے، مگر تمام دن ان صاحب کے ساتھ گرما گرمی کا برتاؤ جاری رکھا۔

    ابھی دن گزرنے میں بہت وقت باقی تھا مگر ان کے ارادے اٹل کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور منہ پر کہوں گا۔ کھانے کا وقت آ گیا۔ روز کی طرح سب اکھٹے ہوئے اور ایک ساتھی نے جو خود توشہ نہیں لایا تھا ان کی خاطر شروع کی تو یہ بول اٹھے: خوب جناب، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ؟ اور وہ جو محبت سے ان کا خیال کر رہا تھا یک دم خاموش ہو گیا۔ اسی طرح گھر واپس آنے تک مختلف ملنے والوں سے ان کے کام کے بارے میں گل فشانی رہی۔ شام کو اسے احساس ہوا کہ اس کے اطراف اترے چہرے یا خفگی بھرا ماحول چھایا ہے، تب ہی اس کو احساس ہوا کہ کسی کے سامنے اس پر اعتراض سے کشیدگی یا بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم غیبت کے بنیادی نکتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہم خیال لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ گفتگو میں لطف پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا سلسلہ طویل ہوتا ہے۔

    غیبت سے یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات غیبت کرنے میں یہ ہے کہ انسان میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی بری باتوں کا ذکر کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ان کی خصلت، ان کے طور طریقہ اور ان کے برتاؤ پر تنقید کرتے ہیں تو ڈھکے چھپے طریقے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ برائیاں آپ کی شخصیت میں نہیں۔ اتفاقاً اگر دوسروں کی کچھ قابلِ اعتراض باتیں جنہیں غیبت سوسائٹی میں زیرِ بحث رکھا گیا ہو، اپنے حالات سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں، تو اس سوسائٹی کے ممبران سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینک سکتے۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟

    (یہ دل چسپ اور مزاحیہ تحریر، نسیمہ ترابُ الحسن (بھارت) کی ہے جو نثر اور مزاح نگاری کے میدان میں "باتیں کہنے سننے کی” اور خاکوں کے مجموعے "نقوشِ دل” کے لیے پہچانی جاتی ہیں)

  • پہلی عالمی جنگ اور نطشے کی پیش گوئی

    پہلی عالمی جنگ اور نطشے کی پیش گوئی

    بہ قول فرانز کونا، نطشے نے واضح کیا کہ جدید دنیا جس پر علم اور سائنس کا غلبہ ہے، اپنی تہ میں وحشی، قدیمی اور بے رحم قوتیں چھپائے ہوئے ہے۔ کسی مناسب وقت پر آدمی خود اپنی تہذیب کو فتح کر لے گا اور وحشی قوتیں بے مہار ہو جائیں گی۔

    پرومیتھیس کی مانند کوئی یک رخے ذہن کا حامل آدمی اٹھے گا، مطلق مثالیت اور مطلق بربریت کا فرق مٹا دے گا۔ ایسے میں اگر کوئی امید باندھی جا سکتی ہے تو صرف جدید آرٹ سے۔

    جوزف کونراڈ کا قلب ظلمات، کافکا کے کایا کلپ، بھوکا فن کار، تعزیری آبادی، ٹامس مان کا جادوئی پہاڑ اور ای ایم فاسٹر کے سفرِ ہند میں نطشے کی جدلیاتی اسکیم دکھائی دیتی ہے۔
    پہلی عالمی جنگ (1914۔1918 ) نے نطشے کی پیش گوئی درست ثابت کی۔ آسٹریا کے شہزادے کے قتل سے شروع ہونے والی یہ جنگ کسی آسمانی عفریت کی نازل کردہ نہیں تھی، اس کے اسباب خود یورپ نے اپنی جدید، صنعتی، سرمایہ دارانہ، قومی نسل پرستانہ تہذیب کی تشکیل کے دوران میں پیدا کیے تھے۔

    اس سے پہلے جنگیں محدود سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے لڑی جاتی تھی۔ ایرک ہوبسبام کے بہ قول اس جنگ کے مقاصد لامحدود تھے۔ اسٹینڈرڈ آئل، ڈیوچے بینک، ڈی بیرز ڈائمنڈ کمپنی کی حدود کائنات کے آخری سرے تک پھیل رہی تھی، یہاں تک کہ ان کا مزید پھیلنا ممکن نہیں رہا تھا۔ جرمنی اور برطانیہ، اس جنگ کے دو بڑے کھلاڑی تھے اور دونوں کے لیے آسمان آخری حد تھا۔ جرمنی عالمی سیاسی اور بحری طاقت چاہتا تھا جس کی راہ میں برطانیہ رکاوٹ تھا۔ فرانس بھی عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھتا تھا۔

    یورپ کے قوم پرست، سرمایہ دار حکم رانوں نے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے آسمان کو آخری حد سمجھا تھا اور یورپ کے عوام نے موت، بربادی اور دہشت کی آخری حدوں کو دیکھا اور بھگتا۔

    نطشے، مارکس اور کچھ دوسرے مغربی دانشور جدید، مہذب، سائنس و صنعت میں مسلسل ترقی کرتے یورپ کے تاریک اور بھیانک رخ کی نشان دہی کر رہے تھے۔ جنگ، جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کی راست پیداوار تھی جس جدید تہذیب پر یورپ فخر کرتا تھا، اس کے ضمن میں، بہ قول فرائیڈ، جنگ نے واضح کیا کہ دنیا بھر میں تہذیب و جدیدیت و ترقی کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے یورپ سے متعلق ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔“

    یعنی اس جنگ نے جدید تہذیب سے متعلق ازالۂ التباس (disillusionment) کر دیا۔ فرائیڈ کی مایوسی کا ایک سبب، سفید یورپی نسل کی ذہنی، فکری، جمالیاتی اور سائنسی و فنّی ترقی میں یقین بھی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وحشی اور کم مہذب اقوام میں جنگیں جدید عہد میں بھی ممکن ہیں مگر:

    سفید نسل کی عظیم حکم ران قومیں جو بنی نوع انسان کی قیادت کر رہی ہیں، جن کے مفادات دنیا بھر میں پھیلے ہیں اور جنہوں نے فطرت کو قابو پا کر ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے، نیز فن کارانہ اور سائنسی ثقافت کے معیارات تخلیق کیے ہیں، وہ اپنے اختلافات کو کسی دوسری طرح سے طے کریں گی۔

    (ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب جدیدیت اور نوآبادیات سے اقتباس)

  • پنکھا قلی اور لاہور میں بجلی کی فراہمی کا آغاز!

    پنکھا قلی اور لاہور میں بجلی کی فراہمی کا آغاز!

    جولائی 1912ء میں لاہور میں پہلی مرتبہ بجلی کی آمد ہوئی۔ بجلی کی ایک کمپنی لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ اس کمپنی کے چیئرمین لاہور کے مشہور و معروف صنعت کار لالہ ہرکشن لال تھے۔

    روزنامہ پیسہ اخبار میں 25 جولائی 1912ء کو شائع شدہ ایک خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر لوئیس ڈین (Louis Dane) نے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے برقی طاقت کے اسٹیشن کو اپنے ”دستِ مبارک“ سے کھولنا منظور فرمایا تھا۔

    نومبر 1912ء میں کمپنی کی برقی طاقت کی بہم رسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اور لوئیس ڈین کے ہاتھوں یہ رسم انجام دی گئی۔

    لاہور الیکٹرک کمپنی، دہلی میں قائم شدہ بجلی کمپنی کی نسبت لوگوں سے زیادہ رقم وصول کرتی تھی۔ دوسرے یہ کہ لوکل گورنمنٹ کو بجلی جس ریٹ پر مہیا کی جاتی تھی عوام کو اس سے مہنگی بجلی فروخت کی جاتی تھی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ سرکاری دفاتر کو چار آنے فی یونٹ اور پبلک کو چھ آنے اور آٹھ آنے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کی جاتی تھی جو نہ صرف پبلک سے زیادتی بلکہ اصولِ تجارت کے بھی خلاف تھا۔ اس ضمن میں روزنامہ پیسہ اخبار کی دلیل یہ تھی کہ لاہور الیکٹرک کمپنی ایک تو بینک سے قرض لے کر اپنا کام چلا رہی ہے۔ دوّم اس کمپنی کا سات لاکھ روپے کا مجوزہ سرمایہ ہے جس میں سے کمپنی نے صرف سوا لاکھ روپے کے حصص عوام کو فروخت کیے ہیں۔ اخبار نے کمپنی سے کہا کہ اگر وہ عوام کا اعتماد چاہتی ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ عوام کو مناسب قیمت پر بجلی فروخت کرے۔

    1921ء میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیئرمین کے عہدے پر لالہ ہرکشن لال کی جگہ لالہ ملک راج بھلّہ فائز تھے اور 9 ستمبر کو وہی اس عہدے پر فائز تھے، جب کمپنی نے بجلی کا نرخ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ موجودہ نرخ 1912ء میں مقرر کیا گیا تھا اور موجودہ گرانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس نرخ میں اضافہ کر دینا ضروری تھا۔

    کمپنی کا مؤقف یہ تھا کہ مزدوری کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ دوّم آج کل ”پنکھے قلی“ کی اجرت ڈھائی سو فیصد بڑھ گئی ہے اور معمولی سرسوں اور مٹی کے تیل کی قیمت بھی دو سو فیصدی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔

    ”پنکھے قلی“ کون تھے؟ یہ ایک بہت دل چسپ کہانی ہے۔ ہندوستان بھر میں گرمی کے موسم میں کمرے کی چھت پر ایک لکڑی کے تختے پر جھالر نما کپڑا لگا ہوتا تھا، جس میں ایک رسی نیچے لٹک رہی ہوتی تھی۔ اس رسی کو کھینچ کر آگے پیچھے کرنے سے کمرے میں ہوا آتی تھی۔ ہندوستان میں انگریز سپاہیوں کے لیے بارکوں میں اس قسم کے پنکھے لگے ہوا کرتے تھے اور پنکھا کھینچنے والے ہندوستانی مزدور انگریز سپاہیوں کو پنکھا جھلتے اور ان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات ایسے پیش آیا کرتے تھے کہ اگر کوئی ہندوستانی مزدور گرمی کے سبب سو جاتا اور پنکھا چلنا بند ہو جاتا تو گورے سپاہی مزدور کو گولی مار دیتے تھے۔

    جون 1921ء میں روزنامہ زمین دار نے لاہور میں الیکٹرک کمپنی کی کار گزاری سے تنگ آ کر ”لاہور میں بجلی کا انتظام“ کے زیرِ عنوان اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا، ”خدا جانے آج کل لاہور کے کارخانۂ برق میں کیا بدانتظامی ہے کہ دن بھر کبھی پنکھے بند ہو جاتے ہیں، کبھی چلنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹوں برقی رو منقطع رہتی ہے اور آج کل شدید گرمی میں سخت مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔

    سب سے زیادہ مشکل ان مطابع کو پیش آتی ہے جو برقی طاقت سے چلتے ہیں۔ زمیندار کے دفتر میں بھی برقی پنکھوں اور برقی روشنی کا انتظام ہے جہاں برقی رو بند ہو جاتی ہے وہیں سب کام رک جاتے ہیں۔ اِدھر اخبار کی طباعت رک جاتی ہے اُدھر دفتر میں عملۂ ادارت و انتظام گرمی کی شدت کی وجہ سے کام نہیں کر سکتا اور پاؤں سے سَر تک پسینہ پڑا بہتا ہے۔ کارخانے کے منتظمین کو چاہیے کہ اپنے فرائض کی طرف مزید توجہ کریں۔

    آج کل گرمی کی بہت گرم بازاری ہے۔ ایسی حالت میں برقی رو کا چند منٹ کے لیے رک جانا بھی قیامت ہے۔ لاہور میں شہر کے اندر بجلی کا استعمال اتنا زیادہ نہیں جتنا شہر سے باہر ہے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، انگریز ہندوستانی حکام و شرفا کے مکانات، مطابع اور جرائد کے دفاتر اور کاروباری دکانیں اور کمپنیاں زیادہ تر شہر کے باہر ہی واقع ہیں۔ برقی رو کے رک جانے سے تمام شہر میں چیخ پکار مچ جاتی ہے اور گرمی کی شدت اپنی طاقت آزماتی ہے۔

    امید ہے کہ کارخانۂ برق کے کار پرداز اس تکلیف و بے قاعدگی کا فوری انسداد کریں گے اور عوام و خواص کے آرام و آسائش کے علاوہ اپنے کاروباری مفاد کو بھی نقصان سے محفوظ رکھیں گے۔“

    (معروف تاریخ دان احمد سعید کی کتاب سے اقتباس)

  • کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں؟ جانیے

    کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں؟ جانیے

    ’’روایت ہے کہ ایک بار تین چار انگریز ڈاکٹروں کے جی میں آیا کہ کسی دور افتادہ افریقی گاؤں چلتے ہیں، جا کر دیکھیں تو سہی کہ اہلِ قریہ بیماروں کا علاج کس طرح کرتے ہیں اور تیمار داری کا کیا انداز اپناتے ہیں۔

    وہاں پہنچے تو یہ جان کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ علاج معالجے کو صرف دو افراد کا آپس کا معاملہ کوئی نہیں سمجھتا۔ یہ نہیں کہ ایک طرف طبیب اور دوسری طرف مریض۔ اور باقی لوگوں کو اس مسئلے سے یا تو کوئی سروکار نہیں یا اگر ہے بھی تو برائے نام۔ اس کے برعکس پورے کا پورا قبیلہ گا بجا کر، ناچ کر، کہانیاں سنا کر، دعوتیں اڑا کر علاج میں حصّہ لیتا ہے۔ اپنے درمیان سے بیماری دور کرنے کا یہ طریقہ نہ صرف انوکھا تھا بلکہ بڑی حد تک اجتماعی عمل تھا۔ گویا اہلِ قبیلہ کو اس مشترکہ کارروائی سے یہ جتانا مقصود تھا کہ اگر ہم میں سے ایک شخص بیمار ہے تو ہم سب بیمار ہیں اور اگر ہم میں کوئی آدمی طبیب ہے تو ہم سب طبیب ہیں اور جب مریض ہی معالج ہے اور معالج مریض تو ہم سب مل جل کر اپنا علاج آپ کریں گے۔

    کیا مذکورہ بالا ماجرے کو قصہ گوئی کے فن یا فنونِ لطیفہ کی معالجانہ توظیف کی اتفاقی مثال سمجھا جائے؟ ایسی بات بالکل نہیں۔ برونو بیٹل ہائیم نے اپنی کتاب The Uses of Enchantment میں لکھا ہے کہ پری کہانیاں باطنی کیفیتوں، الجھنوں اور انتشار کو، ان کی کایا بدل کر، ظاہر کا لباس پہنا دیتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ داخلی کیفیات کہانی کے افراد اور واقعات کا روپ دھار کر سامنے آتی ہیں تو ان کی تفہیم ممکن ہو جاتی ہے۔

    بیٹل ہائیم کے بقول یہی وجہ ہے کہ روایتی ہندو طریقِ علاج میں نفسیاتی اختلال کے شکار آدمی کو نسخے کے طور پر کوئی ایسی پری کہانی تجویز کی جاتی تھی جس میں اس کی مخصوص الجھن کو افسانوی شکل دی گئی ہو، اس توقع پر کہ کہانی کو پڑھنے اور اس کے بارے میں سوچتے رہنے سے ذہنی اختلال میں مبتلا شخص کی الجھن واضح شکل اختیار کرنے لگے گی۔

    کہانی پڑھنے سے پہلے وہ یہ محسوس کرتا رہا تھا کہ کسی ایسی جگہ آ پھنسا ہے جہاں سے باہر جانے کا راستہ کوئی نہیں۔ لیکن کہانی سمجھ میں آتے ہی اسے پتا چلے گا کہ یہ احساس کیوں طاری ہوا تھا اور در پیش مشکل سے نمٹنے کے لیے عمل کی کیا کیا راہیں اس کے سامنے ہیں۔ بھول بھلیاں میں ٹکراتے پھرتے آدمی کے حق میں کہانی ایسی ستلی بن جاتی ہے جس کے سہارے چل کر وہ بھٹکتے رہنے کی اذیت سے آزاد ہو سکتا ہے۔

    اگر ہم دیکھنا چاہیں کہ کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں تو اس کی ایک عمدہ مثال الف لیلہ و لیلہ کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ کہانیوں کے اس سلسلے کا آغاز ہوتے ہی پتا چلتا ہے کہ بیوی کی بے محابا بدکاری کے باعث شہریار نامی بادشاہ صنفِ نازک سے متنفر ہو چکا ہے۔ جب اس پر انکشاف ہوا کہ بھائی کی بیوی بھی کچھ کم بد چلن نہیں تو اس کے تعقل کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور اسے ذہنی مریض بنتے دیر نہ لگی۔ ہر رات وہ کسی باکرہ لڑکی سے ہم بستر ہوتا اور صبح اٹھ کر اسے قتل کرا دیتا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطنت میں ایسی باکرہ لڑکی کوئی نہ بچی جو شاہی سیج کے لائق ہو۔ جب بحران نے اپنی انتہا کو چھو لیا تو وزیرِ مملکت کی بیٹی شہر زاد سامنے آئی۔ وہ اس بے مقصد خوں ریزی کو ختم کر کے بادشاہ کا ذہنی توازن بحال کرنے کا عزم کر چکی تھی۔

    اس کا طریقِ علاج جتنا سادہ تھا، اتنا ہی پُر لطف بھی۔ وہ ہر رات، مسلسل ایک ہزار اور ایک رات، یکے بعد دیگرے کہانیاں سناتی گئی۔ رات ختم ہونے پر کہانی ادھوری رہ جاتی اور بادشاہ کو اشتیاق ہوتا کہ باقی کہانی بھی سنے۔

    کہانیوں کے طلسم کا اسیر ہو کر وہ شہر زاد کی جان لینے سے باز رہتا۔ شہر زاد کی ترکیب کام کر گئی۔

    آخرش ہوش مندی کا بول بالا ہوا اور بادشاہ کے مزاج میں جو وحشت سما گئی تھی وہ جاتی رہی، لیکن خیال رہے کہ بادشاہ نے تقریباً تین برس تک کہانیوں کو بغور سنا۔ کہیں جا کر اس کی شکستہ و ریختہ شخصیت کی از سر نو شیرازہ بندی ممکن ہو سکی۔ گویا کہانیاں سنا کر آئی کو ٹالا جا سکتا ہے۔

    اس موضوع کو الف الیلہ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بغداد کے حمال اور تین لڑکیوں کی طویل افسانہ در افسانہ داستان میں حمال، تین کانے درویشوں، خلیفہ اور اس کے وزیر اور جلاد کی جان بخشی اس امر سے مشروط ہے کہ پہلے وہ اپنی اپنی سرگزشت سنائیں گے اور اگر ان کی آپ بیتیاں سچ مچ بہت ہوش ربا ثابت ہوئیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کانے درویشوں کی کہانیاں اتنی حیرت انگیز تھیں کہ ان سب کی جان بچ گئی۔‘‘

    (ممتاز ادیب، شاعر، مترجم اور مضمون نگار سلیم الرّحمٰن کی تحریر سے اقتباسات)

  • چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

    چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

    اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
    مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

    ایک دن میں دلّی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے مؤثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انہیں الفاظ اور اسی پیرائے میں دہرا دی جاتی تھی۔

    یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا اور جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوب صورت تھا۔ مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کر دی تھی۔ یہ تو اس کی شکل تھی، رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بہ لفظ لکھی جائے۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے، یہ تھی:

    "اے بھائی مسلمانو! خدا کے لیے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگتا ہوں، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا۔

    بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں ۔ میرا کوئی دوست نہیں، اے خدا کے بندو! میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔”

    فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر ان کے قصے کا اثر ہوا ان سے خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔

    یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں ہوں اور وہ مفت خوری سے دن گزارتا ہے۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے، وہ جاہل ہے۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں، وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے۔ بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں۔ آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔

    اس کی صحّت پر مجھے رشک کرنا چاہیے، میں رات دن اسی فکر میں گزار تا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابلِ رشک حالت کس وجہ سے ہے اور آخر کار میں بظاہر اس عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے۔

    وہ حسرت سے کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ میں حسرت سے کہتا ہوں "میرے اتنے دوست ہیں، اس کا کوئی دوست نہیں۔” اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارک باد دینی چاہیے۔

    (مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ، از سجاد حیدر یلدرم)