Tag: اقوال

  • مجھے امید ہے!

    مجھے امید ہے!

    آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ آپ جملے کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں، مجھے امید ہے!

    مجھے امید ہے کہ میری ترقی ہوجائے گی یا میرے پاس جلد نئی گاڑی ہوگی، یا میرا کام ہو جائے گا۔ آپ نے ایسی تمام باتوں کی ذہن میں تصویر بنائی ہو گی۔ امید سے ہماری کیا مراد ہے؟ آپ کو یہ بات دل چسپ لگے گی کہ نہایت اہم عناصر، اعتماد، پیار اور امید پر سے بندھے ہوتے ہیں۔ پس اس طرح امید زندگی کا ایک نہایت اہم پہلو ہے۔ اب ہم امید پر روشنی ڈالیں گے۔ امید بنیادی طور پر یہ احساس ہے کہ آپ کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ عام لغات میں اس کا اسی قسم کا مطلب لکھا ہوتا ہے۔ ہم یہ لفظ اکثر اس وقت بھی استعمال کرتے ہیں جب ہم توقع بھی نہیں کرتے کہ ہماری خواہش پوری ہو جائے۔ دوسرے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ کہہ دیتے ہیں کہ مجھے امید ہے لیکن اندرونی طور پر آپ کو یقین نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسا کہتے ہیں، مجھے امید کہ مجھے ملازمت مل جائے گی یا میرا کام مکمل ہو جائے گا، حالانکہ اندرونی طور پر آپ کو یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو جائے گا لیکن پھر بھی آپ امید کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا لفظ امید واقعی پُراثر ثابت ہو تو آپ مقصد حاصل کرنے کے بارے میں یقین کر لیں کہ آپ مقصد حاصل کر لیں گے اور مقصد سے لگاؤ پیدا کر لیں۔ اس طرح آپ کا لفظ امید بہت پُراثر ہو جائے گا اور مقصد حاصل کرنے میں آپ کو کامیابی سے ہم کنار کرے گا۔

    امید دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور چیز ہے، کیونکہ یہ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم مثبت انداز میں سوچیں اور ہمیں پختہ یقین دلاتی ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ مثبت سوچنے والے انسان کے لیے امید ایک غیرفانی اعتماد ہے۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ آج نہیں تو کل میرا کام مکمل ہو جائے گا۔ لیکن جو آدمی پر امید نہیں ہوتا وہ سب کچھ چھوڑ کر ناکامی کو اپنا مقدر سمجھ لیتا ہے۔ یہ دنیا کی تلخ ترین حقیقتوں میں سے ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ جو کہ مشکلات میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں وہ امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور جو کوئی بھی معاملہ ہو وہ اسے بیکار سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ منفی سوچتے ہیں کہ ان کے حالات کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتے۔ امید ایک بہت طاقت ور چیز ہے جو آپ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہم سب لوگوں کو اپنی زندگیوں میں امید کو شامل کر لینا چاہیے اور ہمیشہ یہی گمان کرنا چاہیے کہ ہمارا مقصد خواہ کوئی بھی ہو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔

    کامیابی کے لیے امید اور عمل دونوں ضروری ہیں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ایک ’’عملی‘‘ امید ہوتی ہے اور ایک امید بغیر عمل کے ہوتی ہے۔ بغیر عمل کے امید تب ہوتی ہے جب آپ مثبت الفاظ استعمال تو کرتے ہیں لیکن آپ کو ان پر یقین نہیں ہوتا۔ آپ کہہ سکتے ہیں، مجھے امید ہے کہ میرا انعام نکل آئے گا لیکن درحقیقت آپ کو اس پر یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہوگا۔ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپ کو ان پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ایسی صورت حال میں امید کرنا ہی معجزے سے کم نہیں لگتا۔ عملی امید کا یہ مطلب ہے کہ جب آپ کسی چیز کی خواہش کرتے ہیں کہ ایسا ہو جائے تو آپ کو پورا یقین ہوتا ہے کہ حقیقتاً ایسا ہو جائے گا کیونکہ آپ حقیقت پسندانہ طریقے سے سوچتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ عملی امید سے مراد یہ ہے کہ آپ یہ ارادہ کر لیتے ہیں کہ آپ اپنا مقصد حاصل کر لیں گے اور آپ کو اس بارے میں علم بھی ہوتا ہے اور یقین بھی ہوتا ہے۔

    (رابن سیجر کی تحریر کا اردو ترجمہ)

  • بیش قیمت موتی جن کا کوئی بدل نہیں!

    بیش قیمت موتی جن کا کوئی بدل نہیں!

    مختلف نام ور اور اپنے شعبے کی کام یاب شخصیات سے ہم کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر ہوتے ہیں، لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ انھوں نے یہ مقام کس طرح حاصل کیا۔

    خاص طور پر مشہور ادیب، دانشوروں، تعلیم و تدریس سے وابستہ لوگوں اور سماج میں اپنے نظریات سے انقلابی تبدیلی لانے والوں یا مختلف معاشروں میں فلاح و بہبود کے کام کرنے کے لیے مشہور شخصیات کی زندگی اور ان کے افکار ہمارے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ کام یابی اور ناکامی دراصل نتائج ہیں جن کی لازمی طور پر وجوہات ہوتی ہیں۔ اگر آپ کام یاب لوگوں کی زندگی کا طور، ان کے اصول اور ان کی صفات کو اپنا لیں تو آپ کی زندگی سنور سکتی ہے اور کسی بھی شعبے میں آپ کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

    ہیرے موتی جیسی یہ بیش قیمت باتیں آپ بھی ذہن نشین کرلیں، یہ آپ کے بہت کام آئیں گی۔

    ٭ چھوٹے کنکر ہٹانے کے بعد ہی تم پورا پہاڑ ہلا سکتے ہو۔
    کنفیوشس

    ٭ میرے سہانے خواب سچے ثابت نہیں ہوئے تو کیا ہوا؟ میرے ڈراؤنے خواب بھی تو جھوٹے نکلے۔
    جارج پیسٹ

    ٭ تم کسی بھوکے شخص کو گانا سناؤ گے تو وہ پیٹ سے گانا سنے گا۔
    خلیل جبران

    ٭ کچھ لوگ چاہتے ہیں، کچھ لوگ خواہش کرتے ہیں، اور کچھ لوگ کر کے دکھاتے ہیں، آپ ان میں سے کون ہیں؟
    مائیکل جارڈن

    ٭ ان لوگوں کے لیے کام یاب بنو جو تمہیں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔
    بل گیٹس

    ٭ میں آج تک ایسے مضبوط شخص سے نہیں ملا جس کا ماضی آسان ہو۔
    محمد علی

  • ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری‘

    ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری‘

    لندن: آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کی آج 58 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، شاہی خاندان سے الگ ہونے کے بعد بھی وہ مرتے دم تک شہزادی ہی کہلائی جاتی رہی کیونکہ وہ دلوں کی شہزادی تھی۔

    لیڈی ڈیانا حقیقی معنوں میں ایک شہزادی تھی۔ اس نے ساری زندگی ایک وقار اور تمکنت کے ساتھ گزاری۔ اس کے اندر ایک عام لڑکی تھی جو فطرت اور محبت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ شاہی محل کی اونچی دیواروں میں قید تھی۔

    گو کہ دنیا کی نظر میں اس کی زندگی پریوں کی داستان جیسی تھی لیکن اس کے قریبی جاننے والوں کے مطابق شاہی محل میں گزارا جانے والا زندگی کا حصہ اس کی زندگی کا تکلیف دہ حصہ تھا۔

    ڈیانا نے اپنے کئی انٹرویوز میں ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عام لوگوں کی طرح زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے لیکن شاہی قاعدے قانون اس کے پیروں کی زنجیر تھے جنہوں نے اسے سانس بھی لینا دوبھر کردیا تھا۔

    ستم بالائے ستم، اسے محبت کی محرومی کا غم بھی تھا۔ اس کے شوہر شہزادہ چارلس اور اس کے درمیان کبھی محبت و الفت کا رشتہ قائم نہ ہوسکا کیونکہ چارلس جب تک ڈیانا کا شوہر رہا، اپنی محبوبہ کمیلا پارکر کے غم میں گھلتا رہا جسے وہ غیر شاہی خاندان کی ہونے کے باعث نہ اپنا سکا تھا۔

    شوہر کی بے اعتنائی نے ڈیانا کو مزید غمزدہ کردیا تھا۔ وہ کہتی تھی، ’شادی کے اس بندھن میں 3 افراد جڑے تھے، سو یہ ایک خاصا پرہجوم بندھن تھا‘۔

    آئیں لیڈی ڈیانا کے کچھ خیالات جانتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی اس کے لیے کیا تھی اور وہ اسے کیسے گزارنا چاہتی تھی۔

    وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔

    مجھے صرف ڈیانا کے نام سے بلاؤ، شہزادی ڈیانا کے نام سے نہیں۔

    محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری ہے۔

    میں اصولوں پر نہیں چلتی، میں دماغ کی نہیں، دل کی سنتی ہوں۔

    اگر آپ اس شخص کو ڈھونڈ لیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں، تو اسے کبھی نہ جانے دیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا، ’میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا پسند کروں گی‘۔

    ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا میری زندگی کا اہم حصہ ہے، اور یہی میری منزل ہے۔

    کروڑوں دلوں کی دھڑکن یہ خوبصورت شہزادی 31 اگست 1997 کو پیرس میں کار کے سفر کے دوران جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئی اور اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئی۔

  • ہارورڈ یونیورسٹی کے یہ سبق آپ کی زندگی بدل دیں گے

    ہارورڈ یونیورسٹی کے یہ سبق آپ کی زندگی بدل دیں گے

    دنیا بھر میں تعلیمی ادارے نہ صرف اپنے طلبا کو علم کی دولت سے روشناس کرواتے ہیں بلکہ انہیں زندگی گزارنا اور زندگی کے مشکل مرحلوں سے نمٹنا بھی سکھاتے ہیں۔

    استاد اور تعلیمی ادارے ہر انسان کی شخصیت پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور جو کچھ ہم ان سے سیکھتے ہیں وہ تاعمر ہمارے ساتھ رہتا ہے۔

    دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہارورڈ یونیورسٹی بھی اپنے طالب علموں کو تعلیم کے علاوہ بھی زندگی کے مختلف سبق سکھاتی ہے، آج ہم ایسے ہی کچھ اقوال آپ کو بتانے جارہے ہیں جو اس ادارے کے طلبا نے یہاں کی جاگتی دیواروں سے سیکھے۔

    اگر آپ ابھی سوئیں گے تو خواب دیکھیں گے، لیکن اگر آپ پڑھنے کو سونے پر ترجیح دیں گے تو یہ خواب حقیقت میں بدل جائیں گے۔

    جب آپ سوچتے ہیں کہ وقت گزر گیا، بہت دیر ہوگئی، تب بھی وقت باقی ہوتا ہے۔

    پڑھائی کی مشقت اور تکلیف عارضی ہے، لیکن جہالت کی تکلیف مستقل اور دائمی ہے۔

    زندگی ساری عمر پڑھنے کے لیے نہیں ہے، لیکن اگر آپ یہ وقت بھی نہیں گزار سکتے تو پھر آخر آپ زندگی میں کیا کرسکتے ہیں؟

    آج لطف اندوز ہونا اور مزے کرنا کل آپ کو رونے پر مجبور کرسکتا ہے۔

    حقیقت پسند وہی ہیں جو مستقبل کے لیے کوئی خدمت انجام دیں۔

    آج آپ کی تنخواہ اسی کے برابر ہے جو کل آپ نے تعلیم حاصل کی۔

    صرف محنت سے ہی آپ اچھا کما سکتے ہیں۔

    آپ کو ان میں سے کون سا قول سب سے زیادہ پسند آیا؟

  • ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘

    ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘

    دنیا بھر کی نامور اور مشہور خواتین نہ صرف اپنے کارناموں سے دوسری خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں بلکہ ان کے کہے ہوئے الفاظ بھی دوسروں کی زندگیوں میں امید کی کرن جگاتے ہیں۔

    آج جبکہ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو ہر اہم موقع کی طرح آج بھی گوگل نے اپنا ڈوڈل خواتین کے نام کیا ہے، اور دنیا بھر کی معروف خواتین کے کچھ اقوال پیش کیے ہیں۔

    ان میں سے کچھ خوبصورت اقوال آپ کے لیے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔

    فریڈا کوہلو

    فریڈا کوہلو خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی معروف میکسیکن آرٹسٹ ہیں۔ ان کا قول ہے، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔

    مے جیمسن

    مے جیمیسن طبیعات داں اور خلا میں جانے والی پہلی افریقی نژاد خاتون ہیں۔ آج گوگل نے ان کا یہ قول پیش کیا ہے، ’دوسروں کے محدود تصورات تک محدود مت رہو‘۔

    یوکو اونو

    گلوکار اور سماجی کارکن جان لینن کی اہلیہ اور معروف آرٹسٹ یوکو اونو کہتی ہیں، ’اکیلا دیکھا جانے والا خواب صرف ایک خواب رہتا ہے، لیکن مل کر دیکھا جانے والا خواب حقیقت بن جاتا ہے‘۔

    میری کوم

    معروف بھارتی باکسر میری کوم کہتی ہیں، ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘۔

    مرینہ سویٹیوا

    روسی شاعرہ مرینہ سویٹیوا کا یہ قول گوگل ڈوڈل کی زینت بنا، ’پر اسی وقت آزادی کی نشانی ہیں جب انہیں اڑنے کے لیے کھولا جائے، علاوہ ازیں پشت پر ٹکے وہ صرف ایک بھاری بوجھ ہیں‘۔

  • ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کے اس دنیا میں آتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا اور سنتا ہے وہ اس کی شخصیت اور کردار پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    بہت بچپن میں پیش آنے والے واقعات بھی بچوں کے لاشعور میں بیٹھ جاتے ہیں جو عمر کے کسی نہ کسی حصہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ اپنے بچے کی کسی خاص خطوط پر تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اسے بچپن ہی سے اس چیز سے روشناس کروائیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    مثال کے طور پر اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بڑا ہو کر فٹبالر بنے، تو اسے بہت چھوٹی عمر سے ہی سے ہی فٹبال کھیلنا سکھائیں، خود بھی اس کے سامنے کھیلیں، ٹی وی پر فٹبال میچ دکھتے ہوئے اس اپنے ساتھ بٹھائیں۔

    اسی طرح اگر آپ اپنے بچے کو مطالعہ کی عادت ڈلوانا چاہتے ہیں تو اسے بچپن سے ہی باتصویر کتابوں سے روشناس کروائیں۔

    یہ ایک نہایت آزمودہ طریقہ ہے۔ اگر آپ دنیا کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والے افراد کے بچپن میں جھانکیں گے تو وہ اپنے بچپن سے ہی اس میدان سے آشنا ملیں گے جس میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا جادو دکھایا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    اکثر شاعر، ادیب یا مصوروں نے اپنے بچپن میں خاندان کے کسی فرد کو کتابوں یا رنگوں سے الجھے ہوئے پایا اور ان کی ملکیت کتابوں اور رنگوں سے کھیلا۔ یہی وہ عادت ہے جو کسی حد تک بچے کے فطری میلان کی بھی تشکیل کرتی ہے۔

    امریکا میں رہائشی ایک ماں میگھن ایلڈرکن بھی انہی خطوط پر اپنی ننھی بیٹی کی تربیت کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی بڑی ہو کر ایک مضبوط عورت بنے جس پر معاشرہ فخر کرسکے۔

    بچپن سے ہی تربیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی کے اسکول کے لنچ باکس میں ایک خاص قسم کا نیپکن رکھنا شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یہ نیپکن کوئی معمولی نیپکن نہیں تھا، بلکہ اس پر میگھن تاریخ پر اثر انداز ہونے والی کسی مشہور خاتون کی تصویر بناتی اور ان کا کوئی قول لکھتی جو شخصیت اور کردار کی تعمیر اور زندگی کو حوصلے سے بسر کرنے سے متعلق ہوتا۔

    میگھن چونکہ ایک ادارے میں اسی تخلیقی کام سے منسلک ہیں لہٰذا ان کے لیے روزانہ ایک ڈرائنگ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی ہر روز بے تابی سے لنچ ٹائم کا انتظار کرتی ہے کہ کب وہ لنچ باکس کھولے اور نیپکن پر لکھا قول پڑھے۔ اس قول سے صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کے دوستوں کو بھی دلچسپی ہے اور وہ ہر روز شوق سے اسے پڑھتے ہیں۔

    میگھن ہر روز کسی مشہور خاتون سیاستدان، ادیبہ، مصورہ، اداکارہ یا سماجی کارکن کا ایک قول اپنی بیٹی کو دیتی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی بیٹی کا شمار بھی ایک دن انہی خواتین میں ہوگا جو اپنے ملکوں کے لیے باعث افتخار بنیں۔


    4

    انہوں نے اپنی بیٹی کو ملالہ یوسفزئی سے بھی روشناس کروایا جس کا قول ہے، ’ہم اپنی آواز کی اہمیت اس وقت جانتے ہیں جب ہم خاموش کروا دیے جاتے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار


    7

    امریکی خاتون اول مشل اوباما کا قول، ’آپ کوئی فیصلہ خوف کی بنیاد پر، یا اس بنیاد پر نہیں کر سکتے کہ آگے کیا ہوگا‘۔


    2

    امریکا کی سابق سیکریٹری خارجہ میڈیلین البرائٹ کا قول، ’مجھے اپنی آواز کو مستحکم بنانے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے، اور اب میں خاموش نہیں ہوں گی‘۔


    6

    بیسویں صدی کی میکسیکو سے تعلق رکھنے والی مصورہ فریڈا کاہلو کا قول، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔


    1

    مشہور امریکی مصنفہ لوئیسا مے کا قول، ’میں طوفانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں، کیونکہ اس سے میں سیکھ رہی ہوں کہ کشتی کو کیسے چلایا جاتا ہے‘۔


    5

    برطانوی مصنفہ میری شیلی کا قول، ’میں بے خوف ہوں، اس لیے طاقتور ہوں‘۔


    8

    ہالی ووڈ فلم سیریز ہیری پوٹر کی کردار ہرمائنی کا قول، ’میں دنیا میں کچھ اچھا کرنا چاہتی ہوں‘۔


    خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون مے جیمیسن کا قول، ’دوسرے لوگوں کے محدود خیالات کی مناسبت سے خود کومحدود مت کریں‘۔


    3

    امریکی اداکارہ لوسی بال کا قول، ’میں ان کاموں پر پچھتانا پسند کروں گی جو میں نے انجام دیے بجائے ان کاموں کے جن کا مجھے پچھتاوا ہو کہ میں نے کیوں نہ کیے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حضرت امام حسینؓ کے چند سنہرے اقوال

    حضرت امام حسینؓ کے چند سنہرے اقوال

    حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے چھوٹے نواسے اور حضرت علی ؓ و فاطمہ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ’حسین‘ نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔

    امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’حسین منی و انا من الحسین‘ یعنی ’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘۔


    حضرت امام حسینؓ کی چند سنہری باتیں

    حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔

    ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا، خود ایک ظلم ہے۔

    اگر لوگ موت کو عقل سے اس کی واقعی شکل کے ساتھ تصور کرتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

    جو شخص اپنی موت میں تاخیر چاہتا ہو ،اورچاہتا ہو کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔

    سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے کسی قسم کی توقع نہ ہو۔

    ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں بہتر ہے۔

    زندگی کا کوئی اعتبار نہیں جس قدر ممکن ہو دوسروں کے کام آؤ۔

    اگر دنیا میں انقلاب لانا چاہتے ہو تو تکذیب نفس کا آغاز خود سے کرو، دنیا خود بدل جائے گی۔

    نیک لوگ اپنے انجام سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔

    ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی قربانیاں دینی پڑے گی۔

    جو تمہیں دوست رکھتا ہے وہ برائی سے روکے گا اور جو تمہیں دشمن رکھے گا وہ تمہیں برائی پر ابھارے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    دنیا کے ذہین ترین ناموں میں سے ایک، عظیم ترین فلسفی سقراط کا نام کسی شخص کے لیے انجان نہیں ہے۔ اسے دنیائے فلسفہ کا عظیم ترین معلم مانا جاتا ہے۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد سے 470 سال قبل یونان میں پیدا ہونے والے سقراط نے یونانی فلسفے کو نئی جہت دی اور دنیا بھر میں فلسفی، منطق اور نظریات پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سقراط کے خیالات انقلابی تھے اور ایسے نظریات کی نفی کرتے تھے جس میں غلامی اور انسانی حقوق چھیننے کی حمایت کی جاتی ہو۔

    بے تحاشہ غور و فکر اور ہر شے کو منطقی انداز میں پرکھنے کی وجہ سے سقراط نے دیوتاؤں کے وجود سے بھی انکار کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلیل جبران کے اقوال

    سقراط کے خیالات کی وجہ سے نوجوان اس کے پاس کھنچے چلے آنے لگے جس کی وجہ سے یونان کے بر سر اقتدار طبقے کو محسوس ہوا کہ اگر سقراط کا قلع قمع نہ کیا گیا تو انہیں بہت جلد نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے اس پر مقدمہ درج کر کے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس وقت سزائے موت کے مجرم کو زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔

    زہر پینے کے بعد سقراط نے نہایت آرام و سکون سے اپنی جان دے دی۔

    وہ اپنے بارے میں کہتا تھا، ’میں کوئی دانش مند نہیں، لیکن ان احمق لوگوں کے فیصلے سے دنیا مجھے ایک دانش مند کے نام سے یاد کرے گی‘۔

    مزید پڑھیں: ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    زہر کا پیالہ پینے کے بعد اس نے کہا، ’صرف جسم مر رہا ہے، لیکن سقراط زندہ ہے‘۔

    آج ہم سقراط کے ایسے اقوال پیش کر رہے ہیں جو یقیناً آپ کے علم و دانش میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

    اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔

    خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔

    سب سے مہربانی سے ملو۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔

    میں کسی کو کچھ بھی نہیں سکھا سکتا۔ میں صرف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔

    ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔

    اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

    بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔

    علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔

    سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔

    اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

    تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔

    میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔

    حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔

    موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

    تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔

    میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

    مزید پڑھیں: عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

  • امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    لندن: برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ٹیوب اسٹیشن پر آنے والے مسافر کبھی بھی ناامید نہیں ہوتے، کیونکہ ان کی مایوسی و ناامیدی کو ختم کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے یہ اسٹیشن انہیں روز کسی بڑے مفکر کا کوئی قول سناتا ہے۔

    جب مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں تو ان کے کانوں کو بیتھووین کی موسیقی سنائی دیتی ہے، سامنے ہی ایک چھوٹی سی لائبریری نظر آتی ہے جبکہ دیوار پر کسی مفکر کا قول لکھا ہوتا ہے جو انہیں زندگی کی جدوجہد میں نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    اسٹیشن کی سامنے کی دیوار پر ایک سفید بورڈ لٹکایا گیا ہے جس پر سیاہ مارکر سے سقراط سے لے کر پائلو کوہلو تک کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔

    یہ کام دراصل اسٹیشن کی انتظامیہ نے شروع کیا ہے۔ 2004 سے شروع ہونے والے اس سلسلہ میں اب ایک لائبریری اور چند بینجوں کا بھی اضافہ ہوچکا ہے جہاں اگر لوگ چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کر سکتے ہیں۔

    oval-4

    اسٹیشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا نسلی و صنفی امتیاز پر مبنی اقوال لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

    ذرا تصور کریں، جب آپ صبح اٹھیں، اور دیر سے اٹھنے اور آفس یا کلاس کے لیے لیٹ ہونے پر خود کو کوستے ہوئے، بھاگتے ہوئے ٹیوب اسٹیشن میں داخل ہوں، اور سامنے ہی ایک رومی بادشاہ مارکوس کا قول لکھا نظر آئے، کہ ’جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو سوچیں کہ آپ کس قدر خوش نصیب ہیں، جو زندہ ہیں، جو سوچ سکتے ہیں، جو چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور جو محبت کرسکتے ہیں‘، تو کیا اس قول کو پڑھنے کے بعد بھی آپ خود کو برے القاب سے نوازیں گے؟

    oval-2

    ایک مسافر کا کہنا ہے کہ وہ روز اس ٹیوب سے سفر کرتی ہے اور جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو اسے انتظار ہوتا ہے کہ آج اسے کس کا قول پڑھنے کو ملے گا۔

    وہ بتاتی ہے کہ ایک دن بورڈ پر برازیلین مصنف پائلو کوہلو کا مشہور قول جو ان کی شہرہ آفاق کتاب ’الکیمسٹ‘میں شامل ہے، لکھا تھا، ’دنیا میں صرف ایک چیز آپ کو اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے سے روک سکتی ہے، اور وہ ہے ناکامی کا خوف‘۔ اسے پڑھنے کے بعد اس میں کام کرنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کا نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔

    اس بورڈ پر مشہور افراد کے اقوال کے ساتھ کبھی کبھار انتقال کر جانے والی شخصیات کو خراج تحسین، مختلف کھیلوں میں قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی، یا شاہی خاندان کے افراد کی سالگراہوں پر تہنیتی پیغامات بھی درج کیے جاتے ہیں۔

    oval-3

    ایک بار آسکر وائلڈ کے ایک قول کے ذریعہ معاشرے کی تلخ تصویر بیان کی گئی، ’آج کل لوگوں کو ہر شے کی قیمت تو پتہ ہے، لیکن کسی شے کی قدر نہیں‘۔

    لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن پر شروع ہونے والا یہ رجحان آہستہ آہستہ اب دوسری جگہوں پر بھی پھیلتا جارہا ہے۔ لندن کے کئی ریستورانوں، شراب خانوں، بس اور ٹرین اسٹیشنز پر بھی اس رجحان سے متاثر ہو کر اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے اقوال لکھے جارہے ہیں۔

    oval-1

    جیسے شہر کے ایک پب کے باہر نصب بورڈ پر لکھا گیا، ’شراب ہر سوال کا جواب ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شراب پینے کے بعد سوال یاد نہیں رہے گا‘۔

    اسی طرح ایک کیفے کے باہر گاہکوں کو تنبیہہ کی گئی، ’اگر آپ نے بدمزاجی سے بات کی تو ہم آپ کو بدمزہ ترین کافی پلائیں گے‘۔

    oval-6

    اقوال سے سجے یہ بورڈز گاہکوں، مسافروں اور دیگر غیر متعلقہ افراد کی توجہ کا فوراً مرکز بن جاتے ہیں اور وہ اس کی تصاویر کھینچ کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں یا اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرلیتے ہیں، یوں روشنی اور امید پھیلانے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔

  • ‘مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے’

    ‘مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے’

    انسانیت کے عظیم محسن عبدالستار ایدھی رخصت ہوگئے۔ ان کی عمر 88 برس تھی اور 2013 سے وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔

    ایدھی کی زندگی کا مقصد دکھ میں مبتلا افراد کی مدد کرنا تھا، انہیں اس پر فخر تھا اور وہ ساری زندگی یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

    ایک بار ان سے کسی نے پوچھا تھا، کہ آپ ہندؤوں اور عیسائیوں کی میتیں کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے‘۔

    7

    وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔

    ایدھی نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے تھے، ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ ہیں‘۔

    رسمی تعلیم ان کے لیے یوں بھی غیر اہم تھی کیونکہ وہ مانتے تھے کہ لوگ پڑھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے، لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے۔

    1

    ایدھی کو مولانا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ لوگ انہیں ڈاکٹر کہیں۔ ان کی یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی سند دی۔

    قائد اعظم نے ہمیں 69 سال پہلے کام، کام اور صرف کام کا درس دیا۔ اس سبق پر اگر کسی نے صحیح معنوں میں عمل کیا تو وہ ایدھی ہی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک بغیر چھٹی کیے کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ریکارڈ بننے کے بعد بھی وہ آخری وقت تک جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، کام کرتے رہے۔

    9

    وہ کہتے تھے، ’میری زندگی کے 4 اصول ہیں، سادگی، وقت کی پابندی، محنت اور دانائی‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن میں ایک بھارتی لڑکی گیتا نے بھی پرورش پائی۔ گیتا بچپن میں اپنے خاندان سے بچھڑ کر غلطی سے سرحد پار کرکے پاکستان آئی اور یہاں ایدھی کے وسیع دامن نے اسے پناہ دی۔

    2

    بولنے اور سننے سے معذور اس لڑکی کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کی عمارت میں خصوصی طور پر مندر بنایا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی اسے اپنی بیٹی بلاتیں اور آنے جانے والوں کو مندر میں جوتوں سمیت جانے سے سختی سے منع کرتیں۔

    ایدھی نے ایک بار کہا تھا، ’خدا نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہمیں ان سب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میرا مقصد ہر اس شخص کی مدد کرنا ہے جو مشکل میں ہے‘۔

    ایدھی اسی مذہب کے پیروکار تھے جس کی تبلیغ دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر اور ہر ولی نے کی۔ وہ کہتے تھے، ’میرا مذہب انسانیت ہے اور یہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے‘۔

    2

    انہیں نوبیل انعام دلوانے کی مہم کئی بار چلائی گئی۔ گزشتہ برس نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں نوبیل کے لیے نامزد کیا، لیکن ایدھی کو نوبیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، بس پوری دنیا میں انسانیت سے محبت چاہیئے‘۔

    ایدھی کو کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر کئی بے بنیاد الزامات بھی لگے، لیکن ایدھی نے کسی کو جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا، کیونکہ وہ سوچتے تھے، ’محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، میری انسانیت کی خدمت ہی میری ان سے محبت کا اظہار ہے اور تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا‘۔

    11

    ایدھی خواتین کی خودمختاری کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے، ’لڑکیوں کو گھر میں بند مت کرو، انہیں باہر جانے دو اور کسی قابل بننے دو تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں‘۔

    5

    ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا میں بھی کام کیا۔ 2004 کے سونامی میں ایدھی نے انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں بھی اپنی بے لوث خدمات فراہم کیں۔

    وہ مانتے تھے کہ اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ’لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں کہ 40 سال قبل میں نے ان کی والدہ کو دفنایا، یا ہڑتال اور کرفیو میں ان کے والد کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنایا‘۔

    کروڑوں روپے کی جائیداد رکھنے والے ایدھی اسے اپنانے سے انکاری تھے۔ وہ اسے عوام کی دولت مانتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے دو جوڑوں میں گزاری۔ ان کے پاس ایک ہی جوتا تھا جسے وہ پچھلے 20 سال سے استعمال کر رہے تھے۔

    6

    ان کا کہنا تھا، ’اگر دولت کو اپنے اوپر خرچ کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے اپنوں سے بھی دور کردیتی ہے۔ تکبر، خود غرضی اور برتری دولت کے منفی اثرات ہیں‘۔

    زندگی کے بارے میں بھی ایدھی ایک واضح نظریہ رکھتے تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں۔ وہ کہتے تھے، ’اگر تم صحت مند ہو، تو ’کیوں‘ اور ’کیسے‘جیسے الفاظ کبھی تمہاری رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں‘۔

    مرنے سے قبل ایدھی نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کردیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے جسم کا ہر اعضا عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ مرنے سے قبل انہوں نے یہ بھی وصیت کردی تھی، کہ میرے جنازے سے عام آدمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ کسی کا راستہ بند ہو، نہ کسی کو اپنا کام چھوڑنا پڑے۔

    7

    انہوں نے ایک بار کہا تھا، ‘لوگ مرجاتے ہیں تو صرف ایک ہی جگہ جاتے ہیں، آسمان میں۔ چاہے آپ کہیں بھی انہیں دفنا دیں وہ اسی جگہ جائیں گے، آسمان میں‘۔۔

    آج جبکہ ان کی تدفین ایدھی ویلج میں کی جارہی ہے اور کچھ لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلو میں دفنایا جائے، تو شاید یہ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں، اور دنیا میں لاوارث لڑکیوں اور ان بچوں کی مسکراہٹ میں زندہ ہیں جنہیں ایدھی ہوم نے پناہ دی، اس شخص کی آنکھوں کی روشنی میں زندہ ہیں جسے ان کی عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی گئیں، اور اگر ہم بھی انسانیت کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو یقین مانیئے کہ ایدھی زندہ ہے۔