Tag: اقوال زریں

  • تین قسم کے لوگ اور دنیا میں‌ کام یابی کے اصول

    تین قسم کے لوگ اور دنیا میں‌ کام یابی کے اصول

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ لوگ آپ کے مرنے کے بعد آپ کو کس طرح یاد کریں گے اور یاد بھی کریں گے یا نہیں؟ یا آپ بھی ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی طرح اس بھیڑ میں گم ہوجائیں گے جو اس دنیا میں آئے اور چلے گئے۔

    زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور وہ بھی بہت مختصر اور ناقابلِ اعتبار۔ زندگی کا ہر ورق انمول اور اس کا ہر صفحہ قیمتی ہے، جو لمحہ گزر گیا وہ واپس آنے والا نہیں اور جو آیا نہیں اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اس ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک حال ہے، اس کا صحیح اور دانش مندانہ استعمال آپ کی زندگی کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ جس نے بھی اس کی اہمیت اور حقیقت کو جانا اس کے قدموں میں دولت، شہرت اور عزّت آگری اور جس نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیا، ناکامی، نامرادی اور پشیمانی اسے ہاتھ آئی۔

    اس دنیا میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو کچھ کر دکھاتے ہیں، دوسرے وہ جو کسی کو کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دنگ رہ جاتے ہیں، تیسرے وہ جن کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہوا؟

    انسان کے لیے قدرت کا سب سے عظیم تحفہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جیسی چاہے گزارے، اس کا اسے اختیار ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی کی فلم کا خود ہی ڈائریکٹر، رائٹر اورکمپوزر ہے۔ مگر ساتھ ہی قدرت کا یہ قانون بھی ہے کہ انسان جو بوئے گا وہی کاٹے گا، ایکشن کا رِی ایکشن اور عمل کا ردِ عمل لازمی ہے، اس میں امیر غریب، کالے گورے، ہندو مسلم یا شیعہ سنی کا کوئی فرق نہیں۔ فطرت کے اصول سب کے لیے برابر اور یکساں ہیں۔

    موسموں کی تبدیلی، بیماریوں کا لاحق ہونا، حادثات کا وقوع، قدرتی آفات اور ناگہانی واقعات، زندگی میں اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز یہ سب فطری ہیں اور یہ دنیا میں ہر جگہ اور ہر آدمی کے لیے یکساں ہیں، موسم کسی خوب صورت حسینہ کو دیکھ کر انگڑائی نہیں لیتا، بیماری کسی امیر شہزادے کو دیکھ کر اپنا راستہ نہیں بدلتی، قدرتی آفتیں کسی خاص قوم اور شہر کاحصہ نہیں، رنج و غم اور خوشی و مسرت رنگ و نسل اور زبان و مذہب کی تفریق نہیں کرتیں، انہیں حالات میں کچھ لوگ ترقی اور کام یابی کے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی بھر کفِ افسوس ملتے رہتے ہیں۔

    آپ نے کسانوں کو فصل اگاتے ضرور دیکھا ہوگا!
    اگر کسان فطرت کے اصولوں پر عمل نہ کرے تو وہ کبھی فصل نہیں کاٹ سکتا اور فطرت جس طرح سہل، سادہ اور ہمہ گیر ہے اسی طرح فطرت کے اصول بھی ہیں۔ یہ فطری اصول کسانوں اور کاشت کاروں کو خوب معلوم ہیں لہٰذا وہ ان پر عمل کرکے انتہائی آسانی کے ساتھ اپنی فصلیں کاٹتے ہیں، فصل لگانے اور کاٹنے کے حسب ذیل اصول ہیں:

    ٭فصل کاٹنے سے پہلے فصل بونا ضروری ہوتا ہے:
    یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب تک مٹی میں بیج نہ ڈالا جائے، کچھ نہیں ہوگا۔ بعینہٖ اگر ہم اپنی زندگی کا کوئی ہدف اور مقصد طے نہیں کرتے تو کچھ نہیں ہوگا۔ کسان فصل اگاتا ہے اور رسک اٹھاتا ہے، اسے نہیں پتہ کہ وہ فصل کاٹ بھی پائے گا یا نہیں۔ پتہ نہیں کون سی آفت اس کی کھیتی کو تباہ کردے مگر پھر بھی وہ رسک لیتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے رسک لینا ضروری ہوتا ہے۔

    ٭جو ہم بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں:
    کسان اچھی طرح جانتا ہے کہ زمین میں چاول کا بیج ڈال کر گیہوں نہیں کاٹ سکتا، لہٰذا اسے جو فصل چاہیے اسی کا بیج ڈالتا ہے، آپ بھی انجینئرنگ پڑھ کر ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔ دینی و مذہبی کتابیں پڑھ کر سائنس داں نہیں بن سکتے، عربی پڑھ کر فرنچ اور فرنچ پڑھ کر عربی نہیں بول سکتے، لہٰذا جو آپ پڑھیں گے، نتیجہ بھی اسی کا آئے گا۔

    ٭جتنا ہم بوتے ہیں اس سے کئی گنا پاتے ہیں:
    آم کے ایک بیج کو زمین میں لگایا جاتا ہے، جب آم کا پیڑ پھل دیتا ہے تو ہزاروں آم ہر سال پیدا ہوتے ہیں۔ مکئی کا ایک دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے اور مکئی کے ہزاروں دانے ملتے ہیں، زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آپ جو تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ اللہ تعالیٰ دولت، شہرت اور عزت عطا کرتا ہے، قدرت کی سخاوتیں اور فیاضیاں ایک کے بدلے ہزاروں اور سو کے بدلے لاکھوں دیتی ہیں۔

    ٭بیج بونے اور فصل کاٹنے کے درمیان وقفہ ہوتا ہے:
    ایک کسان بیج ڈالنے کے بعد بیٹھ نہیں جاتا، وہ اپنے پودوں کی مسلسل پرورش کرتا ہے، اس کی حفاظت و صیانت کرتا ہے اور پودے کے بڑے ہونے اور پھر اس کے پھل دینے کا انتظار کرتا ہے۔ کام یابی حاصل کرنے کے لیے بھی ہمیں اپنے مقصد اور مشن کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ہر روز اس کے لیے مشقت اور جانفشانی اٹھانی پڑتی ہے اور ایک مدت تک انتظار کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر محنت کا پھل سامنے آتا ہے۔ کسی بھی شعبہ میں کام یابی راتوں رات نہیں ملا کرتی، بلکہ وہ ایک طویل مدت تک مسلسل تگ و دو اور عملِ پیہم کا نتیجہ ہوتی ہے۔

    کام یابی کے بھی یہی اصول ہیں اور ان اصولوں پر جو بھی عمل کرے گا وہ کام یاب ہوگا۔

    مان لیجیے آپ کو امریکہ جانا ہے، اگر آپ نے رات بھر نماز پڑھی، سفر کی کام یابی کی رو رو کر دعا مانگی اور صبح ایئرپورٹ پر پہنچے اور لندن کی فلائٹ پر بیٹھ گئے تو کیا آپ امریکہ پہنچ جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ اس طرح زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کے جو اصول و ضوابط ہیں ان پر کوئی بھی عمل کرے گا خواہ وہ ظالم ہو، مشرک و کافر ہو یا ملحد ہو کام یاب ضرور ہوگا۔ جس طرح روحانی ترقی اور معراج کے اپنے اصول اور طریقے ہیں اسی طرح دنیاوی ترقی کے بھی نمایاں فطری اصول موجود ہیں، جن کو اختیار کرنا کام یابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔

    دنیا کا کوئی شعبہ ہو، سیاست کا میدان ہو یا تجارت کا، تعلیم کا شعبہ ہو یا کھیل کا، سماجی خدمت ہو یا خالص دینی اور مذہبی نشر و اشاعت کا مشن، ہر ایک میں کام یابی کے اصول سبھی لوگوں کے لیے برابر ہیں، اس میں مذہب اور دین کا کوئی دخل نہیں، اس کو دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب طبعی اور فطری قوانین ہیں۔ ان پر جو بھی عمل کرے گا اس کو اس کا رزلٹ ملے گا۔

    کسی بھی فرد یا جماعت یا ادارہ یا قوم کے لیے کام یابی اور کامرانی مقاصد کے تعین، ان کے حصول کی مسلسل کوشش، اپنے مشن سے لگاؤ اور سچی محبت، اپنی ہر حرکت اور ہر عمل کی پوری ذمہ داری لینے، شکوہ و شکایات کی عادت چھوڑنے، منفی بات، خیالات اور افراد سے دور رہنے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے، مواقع اور وقت کا صحیح استعمال اور ایک مخصوص جہت اور ڈائرکشن میں چلتے رہنے پر منحصر ہے۔

    اپنے مقصد و ہدف کی سچی چاہت، اپنی صلاحیت و قابلیت اور وسائل و ذرائع پر مکمل بھروسہ اور اعتماد اور اس کے حصول میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا اور چاہے جیسے بھی سخت اور سنگین حالات ہوں اپنے مشن اور مقصد سے نہ ہٹنا اور ہمت نہ ہارنا یقینا کام یاب لوگوں اور کام یاب قوموں کی علامتیں اور صفات ہیں اور کسی بھی شعبہ میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے ان اوصاف و خصائص کو اختیار کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان کے بغیر کوئی بھی شاندار کام یابی حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اور یہی کامیابی کے آفاقی اور ابدی اصول ہیں۔

    (مضمون از نقی احمد ندوی)

  • حرف جگمگاتے ہیں، راستہ بتاتے ہیں!

    حرف جگمگاتے ہیں، راستہ بتاتے ہیں!

    انسان اپنے تجربات سے تو بہت کچھ سیکھتا ہی ہے، لیکن وہ اپنی قوتِّ مشاہدہ اور گئے وقتوں کے قابل و ذہین لوگوں کی فکر و دانش پر مبنی باتوں‌ اور ان کی نصیحتوں پر غور کرے جو کہ کتابوں‌ میں‌ محفوظ ہیں‌ تو زندگی کے کئی محاذ اس کے لیے آسان اور کئی راز اس پر کُھل سکتے ہیں۔ دنیا اور اس کے تماشوں کو دیکھنا ہی نہیں، ان کی حقیقت کو جاننا اور ان میں‌ پوشیدہ سبق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ تجربے سے پہلے مشاہدہ اور اس کے ساتھ مطالعے کی عادت ہماری زندگی میں توازن اور کام یابی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ یہاں‌ ہم حکمت و دانائی کی کچھ باتیں‌ آپ کے مطالعے کے لیے پیش کررہے ہیں۔ یہ دنیا کی مختلف قابل، ذہین اور کام یاب شخصیات سے منسوب اقوال ہیں۔

    ’’اُس شخص کے سامنے کبھی فریاد نہ کیجیے جو آپ کو تکلیف پہنچائے، اُسے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ تمھارا بہت شکریہ تم نے مجھے اپنے سے بہتر آدمی کی تلاش کا موقع فراہم کیا۔‘‘

    ’’حاسدوں سے کبھی نفرت نہ کرو، کیوں کہ یہ دل سے تمھیں خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘

    ’’انتقام یا بدلہ لینے کے لیے اپنا وقت ضایع مت کرو، جو لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں، ان کے لیے نفرت کی اس آگ میں‌ جلنا ہی سب سے بڑی سزا ہے۔‘‘

    ’’لوگوں کے منصوبے نہیں، ان کے نتائج پر نظر رکھو۔‘‘

    ’’حوصلہ کبھی مت ہارو، کام یابی کا دن دُور نہیں۔‘‘

    ’’ہمیشہ یاد رکھو تمھاری موجودہ حالت سدا رہنے والی نہیں ہے، اس سے بہتر چیزیں ابھی آنے والی ہیں۔‘‘

    ’’یہ بتانے کے لیے میرے جنازے پر مت آنا کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتے تھے، یہ بات مجھے اِس وقت بتاؤ جب میں زندہ ہوں۔‘‘

    ’’کبھی غصّے کے عالم میں جواب مت دو، کبھی بہت زیادہ خوشی کی حالت میں وعدہ نہ کرو اور کبھی کوئی فیصلہ نہ کرو جب تم غم کی حالت میں ہو۔‘‘

    ’’ہمّت نہ ہارو، ہر چیز کی ابتدا اُس کا سب سے مشکل حصّہ ہوتا ہے۔‘‘

    ’’جب تم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہو تو اچھی چیزیں خود لوٹ کر تمہاری طرف آتی ہیں۔ یہ قانونِ قدرت ہے۔‘‘

  • امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    لندن: برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ٹیوب اسٹیشن پر آنے والے مسافر کبھی بھی ناامید نہیں ہوتے، کیونکہ ان کی مایوسی و ناامیدی کو ختم کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے یہ اسٹیشن انہیں روز کسی بڑے مفکر کا کوئی قول سناتا ہے۔

    جب مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں تو ان کے کانوں کو بیتھووین کی موسیقی سنائی دیتی ہے، سامنے ہی ایک چھوٹی سی لائبریری نظر آتی ہے جبکہ دیوار پر کسی مفکر کا قول لکھا ہوتا ہے جو انہیں زندگی کی جدوجہد میں نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    اسٹیشن کی سامنے کی دیوار پر ایک سفید بورڈ لٹکایا گیا ہے جس پر سیاہ مارکر سے سقراط سے لے کر پائلو کوہلو تک کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔

    یہ کام دراصل اسٹیشن کی انتظامیہ نے شروع کیا ہے۔ 2004 سے شروع ہونے والے اس سلسلہ میں اب ایک لائبریری اور چند بینجوں کا بھی اضافہ ہوچکا ہے جہاں اگر لوگ چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کر سکتے ہیں۔

    oval-4

    اسٹیشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا نسلی و صنفی امتیاز پر مبنی اقوال لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

    ذرا تصور کریں، جب آپ صبح اٹھیں، اور دیر سے اٹھنے اور آفس یا کلاس کے لیے لیٹ ہونے پر خود کو کوستے ہوئے، بھاگتے ہوئے ٹیوب اسٹیشن میں داخل ہوں، اور سامنے ہی ایک رومی بادشاہ مارکوس کا قول لکھا نظر آئے، کہ ’جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو سوچیں کہ آپ کس قدر خوش نصیب ہیں، جو زندہ ہیں، جو سوچ سکتے ہیں، جو چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور جو محبت کرسکتے ہیں‘، تو کیا اس قول کو پڑھنے کے بعد بھی آپ خود کو برے القاب سے نوازیں گے؟

    oval-2

    ایک مسافر کا کہنا ہے کہ وہ روز اس ٹیوب سے سفر کرتی ہے اور جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو اسے انتظار ہوتا ہے کہ آج اسے کس کا قول پڑھنے کو ملے گا۔

    وہ بتاتی ہے کہ ایک دن بورڈ پر برازیلین مصنف پائلو کوہلو کا مشہور قول جو ان کی شہرہ آفاق کتاب ’الکیمسٹ‘میں شامل ہے، لکھا تھا، ’دنیا میں صرف ایک چیز آپ کو اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے سے روک سکتی ہے، اور وہ ہے ناکامی کا خوف‘۔ اسے پڑھنے کے بعد اس میں کام کرنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کا نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔

    اس بورڈ پر مشہور افراد کے اقوال کے ساتھ کبھی کبھار انتقال کر جانے والی شخصیات کو خراج تحسین، مختلف کھیلوں میں قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی، یا شاہی خاندان کے افراد کی سالگراہوں پر تہنیتی پیغامات بھی درج کیے جاتے ہیں۔

    oval-3

    ایک بار آسکر وائلڈ کے ایک قول کے ذریعہ معاشرے کی تلخ تصویر بیان کی گئی، ’آج کل لوگوں کو ہر شے کی قیمت تو پتہ ہے، لیکن کسی شے کی قدر نہیں‘۔

    لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن پر شروع ہونے والا یہ رجحان آہستہ آہستہ اب دوسری جگہوں پر بھی پھیلتا جارہا ہے۔ لندن کے کئی ریستورانوں، شراب خانوں، بس اور ٹرین اسٹیشنز پر بھی اس رجحان سے متاثر ہو کر اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے اقوال لکھے جارہے ہیں۔

    oval-1

    جیسے شہر کے ایک پب کے باہر نصب بورڈ پر لکھا گیا، ’شراب ہر سوال کا جواب ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شراب پینے کے بعد سوال یاد نہیں رہے گا‘۔

    اسی طرح ایک کیفے کے باہر گاہکوں کو تنبیہہ کی گئی، ’اگر آپ نے بدمزاجی سے بات کی تو ہم آپ کو بدمزہ ترین کافی پلائیں گے‘۔

    oval-6

    اقوال سے سجے یہ بورڈز گاہکوں، مسافروں اور دیگر غیر متعلقہ افراد کی توجہ کا فوراً مرکز بن جاتے ہیں اور وہ اس کی تصاویر کھینچ کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں یا اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرلیتے ہیں، یوں روشنی اور امید پھیلانے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔