Tag: البرٹ آئن اسٹائن

  • بیسویں صدی کے عظیم ماہرِ طبیعیات آئن اسٹائن کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے عظیم ماہرِ طبیعیات آئن اسٹائن کا تذکرہ

    البرٹ آئن سٹائن کے نام سے کون واقف نہیں۔ انھیں انسانی تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں سے ایک اور بیسویں صدی کا سب سے بڑا ماہرِ طبیعیات مانا جاتا ہے جو 18 اپریل 1955ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آئن اسٹائن کی وجہِ شہرت ان کا عمومی اضافیت کا وہ نظریہ ہے جسے دنیا عمومی نظریۂ اضافت کہتی ہے۔ اس سائنس دان نے کششِ ثقل کے بارے میں 1915ء میں اپنا مقالہ پیش کیا تھا جسے آج جدید طبیعیات میں کششِ ثقل کی قابلِ اعتماد وضاحت مانا جاتا ہے۔

    آئن اسٹائن کی پیدائش ایک یہودی جوڑے کے گھر ہوئی تھی جو جرمنی کے شہر اُولم میں مقیم تھا۔ 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہونے اس بچّے نے ایک کیتھولک عیسائی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ والد اپنے کاروبار کے سبب اٹلی چلے گئے اور 16 سال کی عمر میں‌ آئن اسٹائن بھی اٹلی پہنچ گیا جہاں اس نے خاصا وقت گزارا اور تعلیم کے ساتھ ملازمت کے لیے بھی کوشاں رہا۔

    فزکس میں دل چسپی اور سائنسی تحقیق نے اسے 1906ء میں زیورخ یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی میں کام یاب کروایا، اور سائنسی مقالات کی وجہ سے اسے شناخت ملنے لگی، اس کے علمی و تحقیقی کام کو دیکھتے ہوئے زیورخ یونیوسٹی نے نظریاتی طیبیعیات میں اسے ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔

    بعد ازاں پراگ یونیوسٹی سے پروفیسر کے درجے میں‌ ملازمت کی پیشکش ہوئی، تو وہ پراگ چلا گیا۔ اگلے برسوں میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کروایا جس کے سبب اسے بہت شہرت اور اہمیت حاصل ہوگئی اور پھر برلن یونیورسٹی سے پروفیسر اور ایک نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر کے لیے پیشکش کردی گئی اور یوں وہ جرمنی چلا آیا اور پھر جنگِ عظیم چھڑ گئی جس کے بعد ہٹلر اقتدار میں آگیا اور تب آئن اسٹائن نے ایک موقع پر امریکا جانے کا فیصلہ کیا اور وہیں انتقال کیا۔ آئن اسٹائن کو 1922 میں‌ نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت وہ ستون ہے جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کا دماغ دیگر انسانوں کی نسبت بڑا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    تاہم وہ کیا چیز تھی جس نے آئن اسٹائن کو دنیا کا عظیم سائنسداں بنایا؟ اسی بات کو جاننے کے لیے جب آئن اسٹائن کی موت کے بعد ان کے دماغ پر تحقیق کی گئی تو اس میں دنگ کردینے والے حقائق سامنے آئے۔

    آئن اسٹائن سنہ 1955 کی ایک صبح 76 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد ایک ڈاکٹر تھامس ہاروے کو ان کا چیک اپ کرنے کے لیے بلایا گیا جنہوں نے آئن اسٹائن کی موت کی تصدیق کی۔

    گو کہ آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں کہہ دیا تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفن کیا جائے اور ان کا جسم سائنسدانوں کو مختلف تجربات کے لیے نہ دیا جائے تاہم ماہرین کم از کم ان کے دماغ کی جانچ کرنا چاہتے تھے اسی لیے ان کی موت کے ساڑھے 7 گھنٹے بعد ان کے دماغ کو جسم سے علیحدہ کرلیا گیا۔

    ایسے میں آئن اسٹائن کے ڈاکٹر تھامس نے موقع دیکھ کر ان کا دماغ چرا لیا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔

    تھامس نے اس عظیم دماغ کو 240 ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف جارز میں ڈال دیا اور اسے 40 برس تک اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپائے رکھا۔

    بالآخر 40 برس بعد تھامس اس دماغ کو منظر عام پر لے آیا اور تحقیق کے لیے اسے سائنسدانوں کے حوالے کردیا۔

    سائنسدانوں نے اس دماغ کی جانچ پڑتال کی تو نہایت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ماہرین نے دیکھا کہ آئن اسٹائن کے دماغ کی ایک جھلی پیرائٹل اوپرکیولم غائب تھی۔

    دماغ کو ایک حد میں رکھنے والی اس جھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئن اسٹائن کے دماغ کا یہ حصہ عام دماغ سے 20 فیصد بڑا ہوگیا تھا۔

    دماغ کی اس غیر معمولی نشونما کی وجہ سے آئن اسٹائن میں ریاضی کو سمجھنے اور مختلف تصورات قائم کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ آئن اسٹائن کے دماغ میں عام دماغ کی نسبت 17 فیصد زیادہ نیورونز موجود تھے۔ ان اضافی نیورونز نے آئن اسٹائن کی دماغی کارکردگی میں اضافہ کردیا تھا جبکہ وہ اپنے تصورات کو تعمیری صورت میں ڈھالنے پر بھی قادر ہوگئے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام کیفیات ایک غیر معمولی دماغ کی نشانی ہیں جنہیں ’ابنارمل‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ آئن اسٹائن خوش قسمت تھے کہ ان کی ’ابنارملٹی‘ نے انہیں دنیا کا عظیم سائنسداں بنا دیا۔

    آئن اسٹائن کہا کرتے تھے، ’دنیا کا ہر شخص ذہین ہوتا ہے، لیکن اگر آپ کسی مچھلی کی صلاحیتوں کا اندازہ اس کے درخت پر چڑھنے سے لگانا چاہیں تو وہ ساری عمر اپنے آپ کو نالائق گردانتی رہے گی‘۔

    آپ اس عظیم سائنسداں کی بات سے کتنے متفق ہیں؟

  • اپنے گھر میں اپنا ذاتی آئن اسٹائن رکھنا چاہیں گے؟

    اپنے گھر میں اپنا ذاتی آئن اسٹائن رکھنا چاہیں گے؟

    کیا آپ کو سائنس پڑھنے یا اپنے بچوں کو پڑھانے میں مشکل پیش آتی ہے؟ تو آپ کی یہ مشکل پروفیسر آئن اسٹائن حل کرسکتے ہیں۔

    انیسویں صدی کے معروف سائنسدان آئن اسٹائن نے کہا تھا، ’اہم یہ ہے کہ سوال پوچھا جائے، کسی شے کا تجسس بھی ایک قابل توجیہہ وجود ہے جس کا جواب تلاش کیا جانا ضروری ہے‘۔

    ان کے مطابق جب تصورات اور معلومات کو یکجا کردیا جائے تو آپ آسمان کو چھو سکتے ہیں۔

    اب ایسے ذہین اور قابل پروفیسر کو کون اپنے گھر میں نہ رکھنا چاہے گا؟ سو آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ سائنس سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اپنے گھر میں اپنا ذاتی پروفیسر آئن اسٹائن رکھ سکتے ہیں۔

    پروفیسر آئن اسٹائن دراصل 14 انچ کا ایک چھوٹا سا روبوٹ ہے جو چہرے کے تاثرات کا حامل اور مصنوعی ذہانت سے بھرپور ہے۔ یہ آپ کو آپ کے اسمارٹ فون کے ذریعے سائنس پڑھا سکتا ہے۔

    یہ منفرد روبوٹ ہینسن روبوٹکس نامی کمپنی نے ایجاد کیا ہے جو آپ کی ذہانت کو چیلنج کرسکتا ہے۔

    دیکھنے میں یہ روبوٹ بالکل حقیقی آئن اسٹائن جیسا ہے اور اپنے چہرے پر زندگی سے بھرپور تاثرات بھی رکھتا ہے۔ اس سے گفتگو کرنا یقیناً آپ کے لیے ایک دلچسپ اور منفرد تجربہ ہوگا۔

    آپ کے اسمارٹ فون سے ایک ایپ کے ذریعے چلنے والا یہ روبوٹ آپ کو مختلف سوالات اور ذہانت پر مبنی کھیلوں کی بنیاد پر آپ کو آئی کیو پوائنٹس بھی دے گا یعنی آپ کی ذہانت میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔

    فی الحال یہ روبوٹ صرف امریکا، برطانیہ اور ہانگ کانگ میں دستیاب ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی قیمت بھی نہایت کم ہے اور آپ باآسانی اسے خرید سکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔