Tag: البرٹ کامیو

  • البرٹ کامیو: ’’خوش کُن موت‘‘ کے تخلیق کار کا تذکرہ

    البرٹ کامیو: ’’خوش کُن موت‘‘ کے تخلیق کار کا تذکرہ

    ’’اجنبی‘‘ البرٹ کامیو کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی اطلاع ملتی ہے۔ لیکن وہ اپنی ماں کے کفن دفن تک تمام معاملات میں جذباتی طور پر قطعی لاتعلق نظر آتا ہے جیسے وہ کوئی پتّھر یا مشین ہو۔ اس ناول کی ایک حیران کن بات یہ ہے کہ مصنّف نے اس ماجرے کو بھی قطعی غیر جذباتی انداز میں بیان کیا۔ آج کامیو بھی اس دنیا میں نہیں‌ ہے، لیکن اس کی کہانیاں اور فکر و فلسفہ آج بھی ہمیں زندگی کے مختلف پہلو اور کئی روپ دکھا رہا ہے۔

    کامیو کے متذکرہ بالا ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں انسانی زندگی، وہاں پھیلتی رشتوں، معاشرتی اور ریاستی معاملات سے بے تعلقی کا ایک مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ انسان کی اس بیگانگی کو اتنی شدت سے بیان کرتے ہوئے البرٹ کامیو دراصل اس انسان کا احیاء چاہتا ہے جو جذبات کو بیان اور احساسات کا اظہار کرے اور کسی واقعے پر ردعمل دیتا ہو۔ کامیو کو بھی اکثر جدید دنیا میں ’’انسان دوست ادب‘‘ تخلیق کرنے والا کہا گیا۔

    البرٹ کامیو نے الجزائر میں 1913ء میں اس وقت آنکھ کھولی جب اس کے وطن پر فرانس کا قبضہ تھا۔ الجزائر کے باشندوں نے آزادی کی خاطر جدوجہد کی اور طویل عرصہ تک جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کے بعد فرانسیسیوں کو اپنی سرزمین سے نکالنے میں کام یاب ہوگئے۔

    اس شہرۂ آفاق فلسفی ادیب نے فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی۔ کامیو نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو بھی کھو دیا۔ پیٹ بھرنے کے لیے اسے مختلف کام کرنا پڑے اور گزر بسر کے لیے بڑی مشکل اٹھائی۔ البرٹ کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا۔ وہاں جرمنی نے قبضہ کرلیا اور اسی زمانے میں البرٹ کامیو اپنے تخلیقی جوہر اور فہم و فراست کی وجہ سے ایک اخبار میں مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں البرٹ کامیو نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا سفر طے کیا اور ایک فلسفی قلم کار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ کئی مضامین لکھے اور متعدد کتابیں‌ تصنیف کیں۔ 1957ء میں‌ البرٹ کامیو کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    الجیریا میں‌ کامیو نے دورانِ‌ تعلیم ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ٹی بی کے مریض سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کرلیا اور البرٹ اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کرنے میں‌ کام یاب رہا۔

    وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ شہرت رکھتا ہے جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ شامل کیا اور اسے مؤثر ہی نہیں ہر خاص و عام کے لیے سہل انداز میں پیش کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کا یہ فلسفی اور ناول نگار 1960ء میں آج ہی کے دن سڑک پر ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگیا تھا۔

  • البرٹ کامیو اور انیس ناگی

    البرٹ کامیو اور انیس ناگی

    انیس ناگی کامیو کے فلسفۂ لایعنیت کے حامی تھے، ان کے نالوں میں کامیو کی تحریروں کی پرچھائیاں ملتی ہیں کامیو الجزائرکے مشہور فلسفی اور معروف ناول نگار تھے۔

    سارتر کی طرح وہ بھی وجودیت کے حامی تھے اور انفرادی آزادی کے بڑے پُرجوش حامی تھے۔ ان کے ناول’’ دی پلیگ‘‘ (The Plague)،’’ دی فال‘‘ (The Fall) اور’’ دی آؤٹ سائیڈر‘‘ (Outsider) اب تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کی کتاب سسی فس کی کہانی (Myth of Sisfus) کو بھی بہت پذیرائی ملی۔

    ان ساری کتابوں میں جہاں کامیو نے انفرادی آزادی کی حمایت میں دلائل دیے وہاں وہ یہ منطق بھی پیش کرتے ہیں کہ انفرادی آزادی کے بغیر حیاتِ انسانی جن سماجی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتی ہے، اس کے نتیجے میں زندگی مطلق طور پر لایعنیت اور بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ زندگی کی اس بے معنونیت (Absardity) کو ختم کرنے کا نسخۂ کیمیا وہ اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں۔

    کامیو کا ناول طاعون (The Plague) دراصل دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا گیا، جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا تھا۔ فرانس نے خود الجزائر کو اپنی نوآبادی بنا رکھا تھا اور کامیو نے اس استعماریت کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کی لیکن اس نے جرمنی کے فرانس پر قبضے کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی۔ جنگ کے بعد طاعون پھیل گیا تھا۔ کامیو نے طاعون کو جنگ کے استعارے کے طور پر استعمال کیا۔

    جنگ کتنی خوفناک چیز ہے اور اس کے کتنے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسانوں کی زندگیاں کس طرح بے معنیٰ ہو جاتی ہیں، اس کا اظہار کامیو نے بڑے ارفع طریقے سے اپنے اس ناول میں کیا ہے۔

    اس طرح اپنے ناول ’’اجنبی‘‘ (Outsider) میں بھی اس نے مغائرت (Alienation) کے پس پردہ محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔ انسان کس طرح اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن جاتا ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو اجنبیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کامیو نے انتہائی نفاست سے محاکمہ کیا ہے۔ اب ذرا انفرادی آزادی پر بات ہو جائے۔

    سارتر اور کامیو اس نظریے کے حامی ہیں کہ جب تک اشتمالیت اور وجودیت (Communism and Existentialism) کو ساتھ ملا کر نہیں چلایا جاتا، اس کرۂ ارض کے انسانوں کو حقیقی مسرت سے سرفراز نہیں کیا جا سکتا۔ ان دو فلسفوں کا مرکب ہی انسانی زندگی کے لیے سکھ کا پیغام لا سکتا ہے۔

    ان کے خیال میں مارکسزم انفرادی آزادی کو کچل دیتا ہے جس سے انسان کی روح تک تڑپ اٹھتی ہے۔ کامیو کہتا ہے کہ موت ایک لایعنی چیز ہے لیکن اگر زندگی موت سے بھی لایعنی ہو جائے تو پھر جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر انسان کو خاموشی سے اس دنیا کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔

    کامیو کے ناول سسی فس کی کہانی لایعنیت کا استعارہ ہے۔ سسی فس یونانی اساطیری کردار ہے جس کو آگ چرانے کی سزا دی گئی تھی۔ یہ سزا کیا تھی۔ ایک ڈھلوان سے دوسری ڈھلوان تک پتھر لڑکھانے کی سزا تھی۔ کامیو کے نزدیک یہ ایک لایعنی عمل تھا۔ اس کو بنیاد بنا کر کامیو انسانی زندگی کی بے معنویت کی مختلف شکلیں پیش کرتا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی کی گاڑی چلانے والے کروڑوں لوگ دراصل ایک لایعنی زندگی گزار رہے ہیں۔

    ان کا اسلوبِ حیات مجبوریوں کی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے اور ان زنجیروں سے انہیں موت تک نجات نہیں ملتی۔ وہ ان زنجیروں کو توڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ غلامی کا طوق ان کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ جسے وہ صرف دیکھ سکتے ہیں، اس سے نفرت کر سکتے ہیں اور کبھی کبھی ان کے دل میں بغاوت کا خیال بھی آتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ شاید لایعنی زندگی گزارنا ہی ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔

    بسا اوقات کامیو کی تحریریں قاری کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیتی ہیں۔ قاری کو کہیں امید کا سورج نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن کامیو اتنا بھی قنوطی نہیں۔ وہ کافکا کی طرح ہر چیز کا منفی پہلو سامنے نہیں لاتا۔ اس کی تحریروں میں رجائیت کی روشنی بھی ملتی ہے۔

    اس میں کامیو کا بھی کوئی قصور نہیں۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے جبر و ستم کی داستانیں رقم ہوتی ہوئی دیکھیں۔ وہ الجزائر کے عوام پر فرانسیسی مظالم دیکھ کرناقابلِ بیان کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے ان مظالم پر شرم آتی ہے۔

    البرٹ کامیو کی موت 47 برس کی عمر میں ایک کارحادثے میں ہوئی تھی۔ موت کا یہ انداز بھی لایعنی تھا۔ انیس ناگی نے ان گنت کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے جنون کی حد تک ادب سے محبت کی۔ وہ ایک عمدہ شاعر، باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’زرد آسمان‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔

    وہ ایک سخت گیر نقاد تھے اور کسی بھی ادب پارے پر تحسین کے چند کلمات ادا کرنا ان کے لیے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ وہ وجودیت اور انفرادی آزادی کے علمبردار تھے۔ تنقید میں ان کی کئی کتابیں قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کو متأثر کیا۔ ان میں ’’ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری، تنقیدِ شعر‘‘ کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو پر لکھی گئی ان کی کتاب انتہائی لاجواب ہے۔ اگر تخلیقی تنقید پڑھنی ہو تو پھر ادب کے قاری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

    انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے وہ کچھ ڈھونڈ نکالا جو شاید دوسرے نقاد نہیں ڈھونڈ سکے۔ مثال کے طور پر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے مارکسزم دریافت کرلیا۔ مارکسی فلسفے کے اہم ترین نکات کا انہوں نے جس طرح منٹوکے افسانوں سے رابطہ جوڑا وہ انہی کا کمال ہے۔

    جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے تو اس میں وہ واضح طور پر کامیو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ ’’دیوار کے پیچھے میں اور وہ اور زوال‘‘ میں جا بجا ہمیں البرٹ کامیو کے فلسفے کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ یعنی انفرادی آزادی۔ اجتماعی آزادی کافی نہیں، انفرادی آزادی بھی مقدم ہے لیکن انفرادی آزادی کی حد کیا ہے؟ اس کی کوئی واضح شکل نظر نہیں آتی۔

    بعض اوقات تو قاری کو اس امر کا شدید احتجاج ہوتا ہے کہ انیس ناگی لامحدود انفرادی آزادی کے حامی ہیں۔ اور یہ انفرادی آزادی انارکی کی حدوں کو چھوتی نظرآتی ہے۔ یعنی ایسی آزادی جس میں کسی نظم و ضبط کی کوئی پابندی نہیں۔ کیا ایسی زندگی بنی نوع انسان کے لیے جائز ہے یا قابل قبول ہے؟

    اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ بہرحال انیس ناگی باغیانہ روش کے حامی تھے اور انہوں نے ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔ ان کے اس باغیانہ پن میں بھی البرٹ کامیو کے ناول ’’باغی‘‘ (The Rebel) کو کئی ایک مقامات پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔

    ’’میں اور وہ‘‘ وجودی فکر کا نمائندہ ناول ہے۔ ان کا ناول زوال بھی کامیو کے ناول (The Fall) کے سائے میں لکھا گیا ہے۔ کامیو اور انیس ناگی کی ایک اور مماثلت یہ ہے کہ دونوں خاصی حد تک ہم شکل تھے اور مرحوم انیس ناگی کو اس بات پر فخر بھی تھا۔

    ناگی صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے مترجم بھی تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیے۔ خاص طور پر پابلو نیرودا کی نظموں کا جتنا شان دار ترجمہ انہوں نے کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ کامیو اور انیس ناگی کا نام ان کے کام کی وجہ سے ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

    (از قلم: عبدالحفیظ ظفر)

  • عالمی شہرت یافتہ ادیب اور ناول نگار البرٹ کامیو کا تذکرہ

    البرٹ کامیو نے الجزائر میں 1913ء میں اس وقت آنکھ کھولی جب اس کے وطن پر فرانس کا قبضہ تھا۔ الجزائر کے باشندوں نے آزادی کی خاطر جدوجہد کی اور طویل عرصہ تک جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کے بعد فرانسیسیوں کو اپنی سرزمین سے نکالنے میں کام یاب ہوگئے۔

    کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے پیٹ بھرنے کی خاطر مختلف کام کرنا پڑے اور گزر بسر کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کا قبضہ ہوگیا اور اسی زمانے میں وہ اپنے تخلیقی جوہر اور فہم و فراست کے سہارے متحرک ہوا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں البرٹ کامیو نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا سفر طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے خوب شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کئی کتابیں‌ تصنیف کیں۔ 1957ء میں‌ البرٹ کامیو کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    الجیریا میں‌ کامیو نے دورانِ‌ تعلیم ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ٹی بی کے مریض سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کرلیا اور البرٹ اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کرنے میں‌ کام یاب رہا۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بھی بنایا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کا یہ فلسفی اور ناول نگار 1960ء میں آج ہی کے دن ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگیا تھا۔

  • ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی ہونی چاہیے؟

    ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی ہونی چاہیے؟

    یوں تو ہر باشعور شخص زندگی سے متعلق کوئی خاص نظریہ اور اپنا نقطۂ نظر رکھتا ہے، لیکن ایک تخلیق کار زندگی کو کئی زایوں سے دیکھتا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے، اس کے رنگ بہت متنوع ہیں اور یہ کئی حوالوں سے بہت سفاک یا نہایت دردناک بھی ہوسکتی ہے۔

    یہاں‌ ہم کسی بچھڑ جانے والے سے متعلق اپنے رویّوں کی ایک جھلک فرانس کے نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو کی تحریر میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کامیو کے ناول سے لی گئی سطور ہیں جس کا ترجمہ محمد عمر میمن نے زوال کے نام سے کیا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی کہ ہونی چاہیے؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے، ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں۔”

    "سب کچھ ہو چکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے وہ لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟”

    "وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم باطمبنانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انھیں اسناد تقسیم کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انھیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیوں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔ نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انھیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی درد ناک موت سے، اپنے جذبات سے، اور چوں کہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبت کرتے ہیں!”

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • کار حادثہ جو موت کا فلسفہ بیان کرنے والے البیر کامیو کی موت کا سبب بنا

    کار حادثہ جو موت کا فلسفہ بیان کرنے والے البیر کامیو کی موت کا سبب بنا

    البیر کامیو الجزائر کا ایک مشہور و معروف فلسفی اور ناول نگار تھا جسے وجودیت کا پرچارک اور انفرادی آزادی کا پُرجوش حمایتی کہا جاتا ہے۔ اسے 1957ء میں ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔

    البیر کامیو فرانس میں ایک کار حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہو گیا تھا۔ یہ 1960ء کی بات ہے۔

    اس کا وطن فرانس کی نو آبادی تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس کے والد مارے گئے تھے جن کے بعد اس کی ماں کو محنت مزدوری اور گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنا پڑا۔

    کامیو نے اپنے تخلیقی سفر میں‌ ہمیں‌ ’’دی پلیگ‘‘ (The Plague)،’’دی فال‘‘ (The Fall) اور’’دی آئوٹ سائیڈر‘‘ (Outsider) جیسے ناول دیے جو متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ ہوئے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ان ناولوں‌ میں‌ کامیو نے انفرادی آزادی کی حمایت میں دلائل اور یہ منطق بھی پیش کی کہ اس آزادی کے بغیر انسان جن سماجی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتا ہے اس کے نتیجے میں زندگی مطلقاً لایعنیت اور بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

    البیر کامیو اپنے نظریات اور مخصوص فلسفیانہ طرزِ نگارش کے سبب ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوا جس کے ناول دی فال کو معروف افسانہ نگار، مترجم اور اسکالر محمد عمر میمن نے زوال کے نام سے اردو میں‌ منتقل کیا۔ اس ناول سے ایک اقتباس باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    "کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے؟ ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں؟

    سب کچھ ہو چکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے وہ لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟ وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم بااطمینانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انھیں اسناد تقسیم کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انھیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیوں کہ ہمارا حافظہ کم زور ہے۔ نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انھیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی درد ناک موت سے، اپنے جذبات سے، اور چوں کہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبّت کرتے ہیں!”