Tag: البیرونی

  • ابو ریحان البیرونی اور زمین کا رداس

    ابو ریحان البیرونی اور زمین کا رداس

    قدرت نے البیرونی کو علومِ قطعیہ میں تحقیق و تدقیق ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔

    البیرونی وہ مسلمان ماہرِ محقق، سائنس داں، سیاح تھا جس نے صدیوں‌ پہلے زمین کا رداس معلوم کرلیا تھا اور حیرت انگیز طور پر جدید سائنس بھی یہی شمار بتاتی ہے جو البیرونی نے بتایا تھا۔

    البیرونی اور جغرافیۂ عالم، مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیف ہے جس میں‌ وہ اس عظیم شخصیت کے بارے میں‌ لکھتے ہیں‌ کہ ریاضی اور ریاضیاتی علوم کے میدان میں اس کی فکری و تجربی کاوشیں بے پناہ ہیں۔ ہیئت، علمِ پیمائشِ ارض (جیوڈیسی)، علمِ معدنیات، نباتیات، علمُ الانسان، غرض کوئی شعبۂ علم ایسا نہیں جس سے اسے دل چسپی نہ رہی ہو اور جس سے متعلق اس نے کچھ نہ کچھ نہ لکھا ہو۔

    اس کی فلسفیانہ بصیرت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس بصیرت کو جلا ملی تھی مذہب سے، اور اسی کے سہارے اس نے چند اہم مسائل پر غور و فکر کیا تھا۔ ریاضیاتی علوم کا وجدانی اور استخراجی طرزِ تحقیق اور طبیعی اور نیچرل سائنس کا تجربی اور استقرائی طرزِ استدلال ہمیں البیرونی کی تحقیقات اور نگارشات میں موضوع کے اعتبار سے جہاں جس کی ضرورت ہوئی، برابر ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمانۂ حال میں جدید اصولِ تحقیق کو برتنے والے عالم البیرونی کو اپنے سے بہت قریب پاتے ہیں۔

    البیرونی مؤرخ بھی تھا۔ وہ ایک ایسا مؤرخ تھا جو تہذیبوں اور ان کے تاسیسات کا مطالعہ کرتا تھا، اور اس سلسلے میں اس کا منہاجِ تحقیق زمانۂ حال کے اصولِ تحقیق سے کسی طرح کمتر نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنے زمانے کی فنِ تاریخ نگاری کا مقلد نہ تھا، وہ مجتہد تھا۔ اختراعی و تخلیقی صلاحیت کے وافر ذخیرے کے ساتھ اس کا مطالعہ غیر معمولی طور پر وسیع اور گہرا تھا۔ ایک ایسے عہد میں جب کتابیں بڑی تعداد میں چھپتی نہ تھیں، علمی جرائد کا وجود نہ تھا اور جو معلومات دستیاب تھیں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں بڑی دشواریاں تھیں ہمیں جب البیرونی جیسا متبحر عالم ملتا ہے جو مختلف علوم میں مجتہدانہ نظر اور منہاجاتِ تحقیق میں منفرد فکر کا حامل تھا تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ شاید عظیم شخصیت کا نظریہ صحیح ہو، یعنی یہ کہ ہر عہد میں ایک ایسی استثنائی شخصیت ضرور ہوتی ہے جو اپنی غیر معمولی ذہانت اور مضبوط قوّتِ ارادی سے حالات کا رخ موڑ دیتی ہے اور اپنے عہد پر اپنی شخصیت کا دوامی نقش چھوڑ جاتی ہے۔ علمی دنیا میں بھی ایسی شخصیتوں کی مثالیں ملتی ہیں اور اس لحاظ سے البیرونی بلا شبہ نابغۂ روزگار تھا۔

    البیرونی نے یہ رداس کیسے معلوم کیا؟ ملاحظہ کیجیے۔ یقینا وہ کیسے عظیم لوگ تھے، جنھوں نے جدید آلات اور آج کی طرح‌ کمپیوٹر کے بغیر زمین سے متعلق تقریباً درست پیمائشیں، کیمیا گری کے فارمولے اور ریاضی کے اصول وضع کیے ہوں گے، جن کی بنیاد پر آج سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہی ہے آج ناسا اپنے خلائی سیارے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے زمین کا رداس 6371 کلومیٹر بتاتا ہے، جو ابو ریحان البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل ناپ لیا تھا، اور وہ لکھتا ہے کہ یہ رداس 6335 کلومیٹر ہے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ البیرونی نے یہ پیمائش کیسے کی؟ البیرونی سے پہلے مامون الرشید نے ماہرین کے دو گروپوں کو زمین کی پیمائش کا کام سونپا تھا۔ ان ماہرین نے صحرا میں شمال اور جنوب کی طرف سفر کیا اور دوپہر کے وقت سورج کے زاویے کی بار بار پیمائش کر کے زمین کا ریڈیئس معلوم کیا۔

    البیرونی بھی ان ماہرین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا اور زمین کی پیمائش مزید صحت اور درستی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن سرمائے اور صحرا میں سفر جیسے مشکل اور خطرناک کام کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ تب الیبرونی نے الجبرا اور جیومیٹری کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی پیمائش کی اور ایک ایسے طریقے کا کھوج لگایا جو نسبتاً آسان اور نتائج کے حوالے سے انتہائی کارگر تھا۔

    اس دور کے تاریخی تذکروں اور البیرونی کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے افق کا زاویہ ناپنے کے لیے پہاڑی کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ پہاڑی کی بلندی ناپنے کا تھا۔ البیرونی نے متعلقہ فارمولے سے پہاڑی کی بلندی معلوم کی۔ اور پھر زاویے معلوم کرنے کے لیے البیرونی نے اسطرلاب (Astrolabe) نامی آلہ استعمال کیا جس کے درمیان گھڑی کی سوئی جیسی ناب لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اس نے زاویہ نوٹ کر لیا۔ اس کے بعد البیرونی نے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر آلے کی مدد سے دور نظر آنے والے افق ( وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں) کا زاویہ معلوم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پیمائش کے لیے البیرونی کافی عرصہ تک نندنہ کے قلعے میں قیام پذیر رہا اور کئی بار یہ عمل دہرایا۔ افق کا زاویہ معلوم کر لینے کے بعد البیرونی نے حساب کتاب کیا اور زمین کا رداس دریافت کیا۔

  • فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    چندر گپت موریہ نے ہزار ہا سال پہلے خطّۂ ہندوستان میں ایک مستحکم اور وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ محققین نے قبلِ مسیح کے تہذیبی آثار اور مخطوطات کا جائزہ اور عمیق نظری سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے ایک مضبوط نظامِ حکومت کی حامل ترقّی یافتہ سلطنت کہا ہے۔

    اس زمانے میں یونان کا میگستھنیز نامی ایک سفیر وہاں آیا اور اس نے ہندوستانی تہذیب پر اپنی ایک تصنیف انڈیکا کے نام سے چھوڑی ہے۔ اس کے بعد چین کے فاہیان اور ہیون سانگ نامی سیّاحوں کے سفر ناموں سے بھی قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں‌ مدد ملتی ہے۔

    قدیم زمانے سے ہی ہندوستان علم و ادب اور تہذیب و مذہب کا گہوارہ رہا ہے۔میگستھنیز کی کتاب انڈیکا کو چندر گپت موریہ کے عہد کا ایک اہم ماخذ تصور کیا جاتا ہے جس کی مدد سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ہندوستان پر سکندرِاعظم کے حملے کی تمام تفصیلات اس میں موجود ہیں۔

    یہ سفر نامہ تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔میگستھنیز کے بعد ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں فاہیان، ہیون سانگ، ابوریحان البیرونی اور ابنِ بطوطہ وغیرہ اہم نام ہیں۔ جنہوں نے اپنے رودادِ سفر میں اس عہد کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے۔

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو پانچویں صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی تعلیم کی غرض سے چندر گپت کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ یہاں پندرہ برسوں تک رہا اور مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو فاہیان ژوان (Fahein Zuhan) میں درج کیا ہے جس میں ہندوستان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔

    اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بقول فاہیان: ”ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ راجا نرم دل، مشفق اور رعایا پر مہربان ہے۔ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے ہیں اور عمّالِ سلطنت کو سالانہ مشاہرے دینے کا رواج ہے۔ شراب نوشی اور گوشت خوری کا رواج نظر نہیں آتا۔قانون نرم اور حصولِ انصاف آسان ہے۔ بدھ مت عام لوگوں کا مذہب ہے لیکن اب اس پر برہمن مت دوبارہ غلبہ حاصل کر رہا ہے۔” (بحوالہ:‌ اردو ادب میں سفر نامہ لاہور، 1989)

    چنڈالوں کا ذکر اس انداز سے کیا ہے:
    ” گندے لوگوں، کوڑھیوں اور اچھوتوں کو چنڈال کہتے ہیں۔ یہ لوگ سب سے الگ تھلگ شہر کے باہر رہتے ہیں یا بازار میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی آمد کا اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ لوگ راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے نزدیک نہ آنے پائیں۔ گوشت کا کاروبار صرف چنڈال لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی شہر سے باہر۔”
    (بحوالہ: ہمارا قدیم سماج، سیّد سخی حسن نقوی)

    ہیون سانگ ساتویں صدی عیسوی میں ہرش وردھن کے زمانے میں چین سے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے راجا ہرش وردھن کے علاوہ کا مروپ، گاوڑ، مگدھ، چالوکیوں اور پلوؤں کی سلطنتوں کا سفر کیا۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو سیوکی (Sioki) نامی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ ہرش وردھن کے دربار میں 8 برسوں تک رہا۔ اس نے اپنی کتاب میں حکومتِ ہرش کو خاص جگہ دی ہے۔ ہیون سانگ کے بیان کے مطابق قنوج اس وقت ایک قلعہ بند، خوب صورت شہر تھا۔ ہرش وردھن نے 643ء میں ایک بہت بڑی مذہبی مجلس کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑے بڑے راجاؤں اور مختلف دھرموں کے عالموں نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ہیون سانگ نے بودھ مت کے فاہیان فرقے کے پیغام کی توضیح کی تھی۔

    ہیونگ سانگ نے یہاں تک لکھا ہے کہ راجا ہرش وردھن ہر پانچ سال کے بعد پریاگ کے مقام پر ایک مذہبی میلہ کا انعقاد کرتا تھا جو تین مہینے تک مسلسل لگا رہتا تھا۔ شاہی خزانے کی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی حتیٰ کہ ہرش وردھن اپنے جسم کا لباس بھی تقسیم کر دیتا تھا۔

    ہیون سانگ نے اپنی کتاب میں ذات پات کی بھید بھاؤ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرا اور برہمن عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ شودر لوگ زراعت پیشہ تھے۔ معاشرے میں چھوت چھات جیسی لعنت موجود تھی۔ ایک شہر یا گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اچھوتوں کو باآوازِ بلند برہمنوں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔

    ہیون سانگ کی تحریروں سے ہمیں نالندہ میں واقع ایک بودھ یونیورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی ایک مشہور درس گاہ تھی اس میں تقریباً دس ہزار طلبا زیرِ تعلیم تھے۔ جس کے اخراجات حکومتِ وقت اور دو سو گاؤں مل کر برداشت کرتے تھے۔

    اس نے اپنے سفر نامے میں بطور خاص متنازع خطّہ وادئ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس نے کشمیر کے متعلق صرف پندرہ صفحات سیاہ کیے ہیں جس میں بڑی قطعیت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمیں پہلی مرتبہ اس بودھ کونسل کی اطلاع بہم پہنچاتی ہے جس میں بودھ دھرم کے بڑے فرقے (مہایان) فرقے کی مقدس کتاب ترتیب دی گئی۔ یہ بودھ مت کی تیسری کونسل تھی جس کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس کونسل کی تمام کارستانی تانبے کی تختیوں پر نقش کروائی گئی۔

    بقول ڈاکٹر مشتاق حیدر:
    “آج تک یہ شان دار تہذیبی تودہ، مذہبی خزانہ، پُر نور صحیفہ اور پُراسرار امانت کسی جنگل کی گہرائی میں خاموشی سے محوِ آرام ہے جیسے کسی محرمِ راز کا انتظار کر رہا ہو جس کی آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اور سینے میں معرفت کے دیے جگمگا رہے ہوں، جس کے سامنے یہ اپنا ساکت وجود کھولے اور ایک سیلابِ نور بن کر ابھرے۔ اگر ہیون سانگ ہمیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے تو عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل گمنامی کی نذر ہو جاتا۔” (اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت از مرتب خواجہ محمد اکرام الدّین)

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو بدھ مت کا پیروکار اور ایک مصلح تھا، اس نے بدھ مت کے ان مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے ہندوستان کا سفر کیا جو آج کے دور میں‌ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کی سرحدوں میں آثار اور کھنڈرات کی صورت موجود ہیں یا ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔

    فاہیان کا یہ سفر قدیم دور کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل کسی بھی عالم اور مصنّف کا نشان اور ذکر نہیں‌ ملتا جو چین سے ہندوستان آیا ہو، محققین کا خیال ہے کہ فاہیان 399ء سے 412ء تک ہندوستان میں رہا۔

    (شیخ ظہورعالم کے مضمون سے ماخوذ)

  • البیرونی، قرآنی آیات اور جغرافیۂ عالم

    البیرونی، قرآنی آیات اور جغرافیۂ عالم

    قدرت نے البیرونی کو علومِ قطعیہ میں تحقیق و تدقیق ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔

    ریاضی اور ریاضیاتی علوم کے میدان میں اس کی فکری و تجربی کاوشیں بے پناہ ہیں۔ ہیئت، علمِ پیمائشِ ارض (جیوڈیسی)، علمِ معدنیات، نباتیات، علمُ الانسان، غرض کوئی شعبۂ علم ایسا نہیں جس سے اسے دل چسپی نہ رہی ہو اور جس سے متعلق اس نے کچھ نہ کچھ نہ لکھا ہو۔

    اس کی فلسفیانہ بصیرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس بصیرت کو جلا ملی تھی مذہب سے، اور اسی کے سہارے اس نے چند اہم مسائل پر غور و فکر کیا تھا۔ ریاضیاتی علوم کا وجدانی اور استخراجی طرزِ تحقیق اور طبیعی اور نیچرل سائنس کا تجربی اور استقرائی طرزِ استدلال ہمیں البیرونی کی تحقیقات اور نگارشات میں موضوع کے اعتبار سے جہاں جس کی ضرورت ہوئی، برابر ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمانۂ حال میں جدید اصولِ تحقیق کو برتنے والے عالم البیرونی کو اپنے سے بہت قریب پاتے ہیں۔

    ایک اور اہم بات جس کی طرف لوگوں کی نظر کم جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ البیرونی کا نقطۂ نظر اس مسئلہ کے بارے میں کہ زمین متحرک ہے یا سورج، عالمانہ اور حکیمانہ تھا۔ ایک متبحر عالم علمی معاملوں میں اپنی رائے میں محتاط ہوتا ہے، جو بات ثابت نہیں ہو سکتی وہ نہ تو اس کا اقرار کرتا ہے اور نہ انکار۔ یہی رویہ البیرونی کا اس مسئلہ سے متعلق تھا کہ زمین متحرک ہے یا سورج۔ کتابُ الہند میں بھی اس نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور استیعاب میں بھی جہاں اس نے اصطرلاب زورقی کے متعلق لکھا ہے۔ استیعاب میں وہ لکھتا ہے:

    "ابو سعید سنجری نے ایک بڑا اصطرلاب بنایا تھا جس کا عمل مجھ کو بہت پسند آیا اور میں نے ابو سعید کی بہت تعریف کی، کیونکہ جن اصولوں پر اس نے اس کو قرار دیا تھا وہ کرۂ ارض کو متحرک تسلیم کرتے ہیں۔ میں اپنی جان کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ عقدہ ایسی شبہ کی حالت میں ہے کہ اس کا حل کرنا نہایت دشوار اور اس کا رد کرنا نہایت مشکل ہے۔ مہندسین اور علمائے ہیئت اس عقدہ کے رد میں بہت پریشان ہوں گے۔”

    اگر اہل یورپ حرکتِ زمینی سے متعلق البیرونی کے خیالات سے واقف ہوتے تو شاید وہ بطلیموس کے مؤقف کو حرفِ آخر نہ تصور کرتے اور کوپرنیکس سے بہت پہلے یہ ثابت ہو جاتا کہ آسمان نہیں بلکہ زمین متحرک ہے۔ ایک فلسفی کے طرزِ فکر پر غور و فکر کر کے اس نے اس مسئلہ سے متعلق شک کا دروازہ کھول دیا تھا اور اس عقیدہ کی بنیاد کھوکھلی کر دی تھی جس پر صدیوں سے ماہرینِ علم ہیئت کا ایمان تھا۔

    البیرونی نہ تو مسلم فلاسفہ کے طرز کا فلسفی تھا اور نہ متکلمین کے طرز کا۔ پھر بھی ہم اسے فلسفی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کائنات کے وجود اور مابعد الطبیعی امور پر اس نے فلسفیانہ بحثیں کی ہیں۔ ابنِ سینا سے اس کا جو سوال و جواب ہوا تھا اس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ وہ مشائی فلسفے کی روایت کا قائل نہ تھا، عالَم کو قدیم نہیں مانتا تھا اور جزو لاتیجزی کے نظریے کے ماننے والوں پر ارسطو کا جو اعتراض تھا اسے غلط تصور کرتا تھا۔

    ارسطو پر اس کا یہ اعتراض بھی تھا کہ آخر وہ کس دلیل سے اس عالم کے وجود سے انکار کرتا ہے جو اس عالم سے جدا ہے جب کہ اس عالم کے امکان کی بہت سی دلیلیں ہیں اور اس کے خلاف جو دلیلیں ہیں انہیں رد کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے وجود کی دلیلیں اس کے عدم کی دلیلوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ اور ہیئت پر البیرونی کی جو تصنیفات ہیں ان میں بھی سائنسی اور تاریخی مباحث کے ساتھ فلسفۂ علم کائنات اور مابعد الطبیعات پر اس کے خیالات مل جاتے ہیں۔ کتابُ الہند میں جہاں اس نے ہندوؤں کے عقائد و افکار بیان کیے ہیں وہیں اکثر ہمیں ان عقائد و افکار پر تبصرہ کے ساتھ اس کے اپنے مابعد الطبیعی اور فلسفیانہ تصورات اور تشریحات بھی ملتی ہیں۔

    آثارِ باقیہ میں زمانۂ تاریخِ انسانی کے ادوار اور قوانینِ قدرت میں یک رنگی اور استحکام سے متعلق اس کی جو بحثیں ہیں ان سے اس کی ژرف نگاہی اور علمی تعمق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے، اسی کے ساتھ "جہاں وہ قوانینِ قدرت کی مضبوطی کا پورے طور پر معتقد ہے وہاں عالمِ فطرت کی رنگا رنگ کیفیتوں اور پیچیدہ و لا ینحل حالتوں کا خیال بھی اس کے دماغ میں موجود رہتا ہے اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ موجودات میں بسا اوقات ایسی طبیعیی کیفیتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جو بادیُ النّظر میں ممکنات سے خارج معلوم ہوتی ہیں اور جن کے اسباب و علل کے معلوم کرنے سے اکثر انسانی عقل عاجز رہ جاتی ہے۔”

    البیرونی مسلمان تھا، اور اس کی بعض تصنیفات میں قرآنی آیات بطور شاہدِ حق اور دلیلِ قطعی کے مباحثِ متعلقہ کے ساتھ اس طرح پرو دی گئی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات انہی مواقع کے لیے نازل کی گئی تھیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کا قرآن اور دیگر علوم نقلی کا مطالعہ گہرا تھا اور قرآن فہمی میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھا۔

    البیرونی ان مدعیانِ علم و حکمت میں سے نہ تھا جنہیں مذہب کو عقلِ انسانی کا پابند رکھنے پر اصرار تھا۔ وہ عقلِ انسانی کی حدود سے خوب واقف تھا، تاریخِ اسلام میں جب عقل و مذہب کا معرکہ شروع ہوا تھا تو مسائلِ الٰہی کے سلسلے میں کیسی کیسی موشگافیاں ہوئی تھیں اور یہ سب اس کی نظر میں تھیں لیکن وہ خود اپنی خداداد ذہانت سے کام لے کر اس نتیجہ پر پہونچا تھا کہ مذہبِ الٰہی عقل کا مخالف نہیں ہوسکتا البتہ وہ اس کا قائل نہ تھا کہ عقل انسانی ہمیشہ صراطِ مستقیم پر رہتی ہے۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ عقلِ انسانی کو امورِ الٰہی کے تابع رہنا چاہیے اور اگر کبھی ایسی نشانیاں نظر آئیں جو ہماری فہم و ادراک کے مطابق نہ ہوں تو ان نشانیوں کا انکار نہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے وہ الرّازی جیسے فلاسفہ کی انتہا پسندانہ روشن خیالی اور بے روک تعقل پسندی کا مخالف ہے۔ اسی طرح وہ ان لوگوں کا بھی مخالف ہے جو محض جہالت، تعصب اور تنگ نظری کی بنا پر کوئی نہ کوئی مذہبی پہلو نکال کر سائنس اور فلسفہ کی مخالفت کرتے ہیں۔

    البیرونی مؤرخ بھی تھا۔ وہ ایک ایسا مؤرخ تھا جو تہذیبوں اور ان کے تاسیسات کا مطالعہ کرتا تھا، اور اس سلسلے میں اس کا منہاجِ تحقیق زمانۂ حال کے اصولِ تحقیق سے کسی طرح کمتر نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنے زمانے کی فنِ تاریخ نگاری کا مقلد نہ تھا، وہ مجتہد تھا۔ اختراعی و تخلیقی صلاحیت کے وافر ذخیرے کے ساتھ اس کا مطالعہ غیر معمولی طور پر وسیع اور گہرا تھا۔ ایک ایسے عہد میں جب کتابیں بڑی تعداد میں چھپتی نہ تھیں، علمی جرائد کا وجود نہ تھا اور جو معلومات دستیاب تھیں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں بڑی دشواریاں تھیں ہمیں جب البیرونی جیسا متبحر عالم ملتا ہے جو مختلف علوم میں مجتہدانہ نظر اور منہاجاتِ تحقیق میں منفرد فکر کا حامل تھا تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ شاید عظیم شخصیت کا نظریہ صحیح ہو، یعنی یہ کہ ہر عہد میں ایک ایسی استثنائی شخصیت ضرور ہوتی ہے جو اپنی غیر معمولی ذہانت اور مضبوط قوّتِ ارادی سے حالات کا رخ موڑ دیتی ہے اور اپنے عہد پر اپنی شخصیت کا دوامی نقش چھوڑ جاتی ہے۔ علمی دنیا میں بھی ایسی شخصیتوں کی مثالیں ملتی ہیں اور اس لحاظ سے البیرونی بلا شبہ نابغۂ روزگار تھا۔

    ہمارا یہ نابغۂ روزگار کئی زبانیں جانتا تھا، مثلاً سنعدی اور خوارزمی (جو فارسی کی دو صورتیں تھیں) عربی، عبرانی، سریانی اور سنسکرت۔

    (کتاب: البیرونی اور جغرافیۂ عالم، از قلم مولانا ابوالکلام آزاد)

  • شہر بغداد کس نے بسایا، کیسے اجڑا؟

    شہر بغداد کس نے بسایا، کیسے اجڑا؟

    دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد قدیم بغداد 775 سے لے کر 932 عیسوی تک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔

    یہ وہ شہر ہے جس کی تاریخ میں‌ مثال دی جاتی تھی، اسے علم و ادب، فنون و ثقافت کا گہوارہ کہا جاتا تھا اور مؤرخین نے اسے مسلم شان و شوکت کی ایک عظیم تہذیب اور برتر ثقافت کی یادگار لکھا ہے۔

    مشہور ہے کہ ابوجعفر بن المنصور نے سن 762 میں بغداد کی بنیاد رکھی اور ان کی بسائی ہوئی یہ بستی چند عشروں‌ بعد دنیا کی تاریخ کا عظیم ترین شہر بن گیا۔ اس زمانے میں بغداد کا چرچا سن کر ہندوستان سے لے کر مصر تک علم و فنون میں‌ یکتا، قابل، باصلاحیت شخصیات اور دانائے وقت یہاں کا رخ کرنے لگے۔ ان میں ادیب و شاعر، فلسفی، مفکر، سائنس دان اور مختلف علوم کے ماہر شامل تھے۔ اس وقت تک وہاں‌ کے مسلمانوں نے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تھا اور پھر یہ شہر ان قابل شخصیات کی آمد کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔

    بغداد نے عباسی خلفا کا زمانہ دیکھا اور یہاں‌ خلیفہ ہارون الرشید اور مامون نے عظیم دارالترجمہ قائم کیا جس میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دیگر زبانوں کی کتب ترجمہ کی گئیں۔ تاریخ دانوں‌ نے لکھا ہے کہ یہ کتب صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور اس کے عروج میں اہم کردار ادا کیا۔

    بغداد میں علما اور فضلا کی عزت اور توقیر بڑھائی جاتی، علمی مشاغل کو اہمیت دی جاتی اور مشہور ہے کہ ایسے باکمالوں کو ان کی کتابوں کے وزن کے برابر سونا یا جواہرات ان کی نذر کیے جاتے تھے۔

    عظیم الشان مساجد، کتب خانے، مدارس، کے علاوہ بغداد میں‌ ہر قسم کے ساز و سامان سے بھرے ہوئے بازار تھے۔ یہ شہر ایک منگول حملہ آور کی افواج کے ہاتھوں‌ تاراج ہوا اور بعض تاریخ‌ نویسوں‌ نے لکھا ہے کہ اسی بربادی نے مغربی تہذیب کو پنپنے کا راستہ دیا۔

    مستعصم باللہ بغداد کے 37 ویں اور آخری خلیفہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے 1258 عیسوی کو مشہور منگول حاکم ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس روز شہر میں‌ خون ریزی اور لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے علم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا گویا ہر نقش اجاڑ دیا۔

    تاریخ کے اوراق میں‌ بغداد کی ایسی کئی عالم فاضل شخصیات کے نام محفوظ ہیں‌ جنھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے اور ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔

    فارسی کے عظیم شاعر شیخ سعدی خاصا عرصہ بغداد میں رہے تھے۔ ان کے علاوہ علم کیمیا کا روشن نام جابر بن حیان، الجبرا کے بانی الخوارزمی، فلسفے اور حکمت کے دو عظیم نام الکندی اور الرازی، مشہور مفکر اور عالم الغزالی، عربی کے مشہور شاعر ابو نواس، تاریخ دان طبری اور کئی عالمِ دین اسی شہر کے باسی تھے جو دنیا کے لیے علم کے خزانے چھوڑ گئے۔