Tag: الرجی

  • الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی عموماً دو اقسام کی ہوتی ہے اس کی ایک قسم کا تعلق سانس اور دوسری کا جِلد سے ہے، جو حساس لوگوں کو مخصوص چیزوں کو چھونے سے ہونے لگتی ہے۔

    یہ بظاہر ایک عام سا مرض ہے، جسے زیادہ تر لوگ کوئی خطرناک مرض نہیں سمجھتے لیکن در حقیقت یہ ایک خطرناک مرض کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    مرض میں مبتلا افراد بظاہر نارمل نظر آتے ہیں، مگر وہ بر وقت ایسی چیزوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، جن کے سامنے آتے ہی انہیں الرجی ہونے لگتی ہے۔

    ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بیماریوں والے بیکٹیریاز اور وائرسز سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایسے ہی کسی بھی عنصر کے مخالف ایک مضبوط مدافعتی رد عمل ہوتا ہے جو اکثر لوگوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا، یہ عنصر الرجی کہلاتا  ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ یہ کیفیت قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    الرجی ہے کیا اور کیوں ہوتی ہے؟

    صحت جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ الرجی دراصل انسان کے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    صحت جرنل میں مدافعتی نظام سے متعلق بتایا گیا کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، جو عام افراد کو سمجھ نہیں آتا، لیکن اس کی آسان تشریح یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جو جسم کی بیرونی چیزوں سے حفاظت کرتا ہے۔

    مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے مٹی، دھول، جانوروں کی جلد کے وائرسز، ہوا میں شامل نمی اور دیگر کئی چیزیں انسانی جسم میں داخل ہوکر ’الرجن‘ کا وائرس پیدا کرتی ہیں، جسے امیونوگلوبلین ای ( آئی جی ای) اینٹی باڈیز بھی کہا جاتا ہے جو بڑھ کر الرجی بن جاتا ہے۔

    الرجی کن چیزوں سے ہوتی ہے؟

    الرجی ایک حساس بیماری ہے، جو مختلف لوگوں کو بہت ہی حساس اشیاء سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی پھولوں، دُھول، مٹی کے ذرات، پالتو جانوروں اور پرندوں کے قریب رہنے سے بھی ہوتی ہے، کچھ خاص کھانوں اور پھلوں سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ روزہ مرہ کے استعمال میں آنے والی چیزوں میں بوسیدہ اور ملی ہوئی چیزوں سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی کے باعث ہونے والی چند بیماریاں

    نزلہ، زکام، کھانسی، ناک کا بند رہنا، یا بہتے رہنا۔ سانس ٹھیک سے نہ لے پانا، استھما۔ سینے میں درد، خارش، جلد میں خرابی، خشکی، بہت ہی گرمی لگنا، جلد پر سرخ دانے نکلنا۔ سر درد، آنکھوں کا لال رہنا، آنکھوں میں پانی رہنا۔ پیٹ کی خرابیاں، ہاضمے کی شکایات وغیرہ۔

    احتیاطی تدابیر

    الرجی عارضی ہو یا دائمی، اس کا مستقل علاج موجود نہیں ہے، یعنی اگر آپ کسی بھی قسم کی الرجی میں مبتلا ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔

    اگر اس کی ویکسین دستیاب ہے تو باقاعدگی سے ویکسین استعمال کریں، تاہم احتیاط کرنے سے ہی الرجی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

  • جان لیوا الرجی کے علاج کی دوا منظر عام پر آگئی

    جان لیوا الرجی کے علاج کی دوا منظر عام پر آگئی

    لندن : برطانیہ میں خشک میوہ جات سے ہونے والی جان لیوا الرجی کے علاج کیلئے ایک دوا منظر عام پر آئی ہے جو الرجی سے موت کے خطرے کو کسی حد تک کم کرسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ٹرائل کے دوران ’شولائیر‘ نامی دوا کو مونگ پھلی اور کاجو جیسے خشک میوہ جات سے الرجی والے مریضوں کے لیے استعمال کرنے کا جائزہ لیا گیا۔

    جس کے بعد محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس دوا کے استعمال سے مریضوں کی موت کے خدشات میں کافی حد تک کمی آئے گی۔

    Xolair

    محققین کا کہنا ہے کہ’شولائیر‘ نامی دوا الرجی کے مریضوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرسکتی ہے لیکن ابھی اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ یہ دوا مکمل طور پر جان لیوا انفیلیکسس کا شکار نہیں ہونے دے گی۔

    محققین کے مطابق ’شولائیر‘ نامی دوا ان مریضوں کیلئے ہے جو کبھی کسی غلط فہمی یا بھول کر خشک میوے کا استعمال کرلیتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ’شولائیر‘ گزشتہ 20 سال سے دمہ کے مریضوں کو بطور انجکشن دی جارہی ہے لیکن ابھی تک ایسے ہزاروں برطانوی شہریوں کے لیے تجویز نہیں کی گئی ہے جو کھانے سے ہونے والی الرجی کا شکار ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانوی شہری ندیم عدنان لپیروس کی 15 سالی بیٹی نتاشا نے طیارے میں دوران سفر ایک سینڈوچ کھالیا تھا جس کے پیکٹ پر درج اس کے اجزاء میں موجود میوے کا ذکر نہیں تھا، نتاشا کو گری دار میوے سے الرجی تھی، سینڈوچ کھانے بعد نتاشا کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ الرجی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی گئی۔

    allergies

    نتاشا کے والد ندیم عدنان لپیروس کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کو خشک میوے سے الرجی تھی اگر اسے بروقت الرجی کی یہ دوا مل جاتی تو میری 15 سالہ بیٹی کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں اس دوا پر مزید تیزی سے کام کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کو اس کا فائدہ پہنچے، انہوں نے افسردہ لہجے میں کہا کہ اولاد کی زندگی بہت انمول ہوتی ہے۔

  • موسم بدلتے ہی الرجی کیوں ہوجاتی ہے؟ احتیاط اور علاج

    موسم بدلتے ہی الرجی کیوں ہوجاتی ہے؟ احتیاط اور علاج

    ہمارے جسم میں الرجی کی علامات اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہمارا قوت مدافعت کا نظام اپنے ماحول میں موجود چیز پر حملہ آور ہوتا ہے۔

    اس صورتحال میں جلد کی سرخی، سوجن اور بہت خراب صورتحال میں الٹیاں، پیچش اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، بچوں کو عموماً خوراک کی مختلف اقسام سے بھی الرجی ہوتی ہے۔

    اکثر لوگوں کو ہر سال موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی ہاتھ پیروں کی جلد پھٹنے یا جسم کے مختلف حصوں پر دھبوں کی شکایات رہتی ہے حالانکہ یہ مسئلہ اتنا سنجیدہ نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف کا باعث بنتا ہے کیونکہ عموماً لوگ گھریلو ٹوٹکوں سے ہی علاج کرلیتے ہیں تاہم اگر الرجی زیادہ بڑھ جائے تو اس کا باقاعدہ علاج کروانا ضروری ہے۔

    جلد کی الرجی کے بارے میں ہر شخص کیلئے معلومات کا ہونا ضروری ہے تاکہ جلد کے عام دانے اور الرجی کا آسانی سے تعین کرکے اس کا علاج کیا جاسکے۔

    الرجی الرجین (پیدا کرنے والے مادے) کی نمائش سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا کھانا جس سے آپ کو الرجی ہو بہت سی علامات کا سبب بن سکتی ہے، آپ اپنے منہ اور گلے میں کھجلی یا خارش کا تجربہ کرسکتے ہیں۔

    الرجی

    الرجی کی علامات اور اقسام

    یہ بات ذہن نشین رہے کہ کم و بیش مختلف علامات کے ساتھ جلد کی الرجی کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جیسا کہ جلد کے مختلف حصوں میں جلن، لالی یا سوجن اور درد یا خارش کا ہونا۔

    جلد کے دھبے سوجن، خارش اور خون بھی نکل سکتا ہے۔ الرجین کے ساتھ رابطے کے فوراً بعد جلد کے سرخ، خارش والے دھبے بن جاتے ہیں۔ الرجی کی وجہ سے گردن یا گلے میں جلن یا سوجن کا احساس ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ آنکھوں میں پانی یا خارش ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے وہ سوج جاتی ہیں، جلد کی جلن یا سوزش اور شدید دردناک احساسات اور خارش، یہ جلد کی الرجی کی سب سے عام علامات میں سے ہیں۔

    الرجین کی عام اقسام:

    جانوروں کی مصنوعات جن میں پالتو جانوروں کی خشکی، کیڑوں کا فضلہ اور کوڑا شامل ہے اور ادویات میں پینسلن اور سلفا دوائیں عام محرک ہیں۔

    کھانے کی اشیاء میں گندم، گری دار میوے، دودھ اور انڈے عام الرجین جبکہ کیڑوں کے ڈنک ان میں شہد کی مکھیاں، بھڑ و مچھر وغیرہ شامل ہیں۔

    کسی کھانے کا سڑنا یا ہوا سے پیدا ہونے والی پھپھوندی الرجک رد عمل کو متحرک کرسکتی ہے۔
    مخصوص نباتات جن میں گھاس، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے جرگوں کے ساتھ ساتھ پوائزن آئیوی اور پوائزن اوک جیسے پودوں سے خارج ہونے والی رطوبتیں پودوں کی الرجی کی عام وجوہات ہیں۔
    دیگر الرجین میں لیٹیکس دستانے، کنڈوم اور نکل جیسی دھاتیں بھی عام الرجین ہیں۔

    الرجی کا علاج اور احتیاط

    اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے یا آپ کا معدہ اسے برداشت نہیں کر پاتا تو کسی ماہر ڈاکٹر سے چیک کروائیں۔ اگر آپ ڈاکٹر کو چیک کرائے بغیر کچھ کھانوں سے پرہیز شروع کر دیتے ہیں تو یہ آپ کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح آپ کے جسم کو کچھ ضروری اجزاء جیسے کہ وٹامن اور پروٹین وغیرہ نہیں ملیں گے۔

    جن لوگوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے شدید الرجی ہے، ان کے لیے کوئی خاص علاج نہیں ہے، ماسوائے اس کے کہ وہ ان چیزوں سے مکمل پرہیز کریں جو الرجی کا باعث بنتی ہیں مگر جن لوگوں کو زیادہ شدید الرجی نہیں ہے یا جن کا معدہ کھانوں کی تھوڑی بہت مقدار برداشت کرسکتا ہے۔

    وہ ان کھانوں کو کبھی کبھار اور تھوڑی مقدار میں استعمال کرسکتے ہیں، نیز بعض صورتوں میں ایک شخص کو مکمل طور پر یا کچھ عرصے کے لیے اس کھانے سے پرہیز کرنا پڑتا ہے جسے اس کا معدہ ہضم نہیں کر پاتا۔

  • الرجی ہے تو گھبرائیں نہیں یہ گھریلو ٹوٹکے آزمائیں

    الرجی ہے تو گھبرائیں نہیں یہ گھریلو ٹوٹکے آزمائیں

    بیماری چاہے کسی بھی قسم کی ہو وہ تکلیف دہ ہوتی ہے مگر الرجی ایسی بیماری ہے جس کے سبب اکثر لوگوں کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    اگر کسی شخص کو دھول مٹی سے، دھوئیں سے یا بہت تیز خوشبو سے الرجی ہے تو ایسی صورتحال میں وہ فوراً ہی بیمار ہوجاتا ہے اور اسے سردرد، کھانسی، متلی یا دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    الرجی اور بیماریاں صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے آتی ہیں۔ الرجی کو ایک سے دوسرے شخص تک پھیلنے سے پہلے گھریلو ٹوٹکوں کے ذریعے بھی روکا جاسکتا ہے۔

    ذیل میں آپ کو ان چیزوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو عام طور پر باورچی خانے یا فریج میں موجود ہوتی ہیں اور الرجی کی صورت میں ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    ادرک: یہ ایسی چیز ہے جو عموماً ہر گھر میں موجود ہوتی ہے، اس میں اینٹی ہسٹامائنز شامل ہوتے ہیں جس سے جسم کو قوت مدافعت ملتی ہے۔ یہ الرجی کے ساتھ کھانسی اور چھینکوں کو بھی کم کرتی ہے۔

    نیم: یہ جراثیم کش خصوصیت کا حامل ہوتا ہے، خارش ہونے پر نیم کے تیل اور ناریل کے تیل کو یکجا کرکے لگانے سے افاقہ ہوتا ہے۔ اس کے کیپسول اور پاؤڈر مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ جلد کی الرجی کو روکنے میں بھی مددگار ہے۔

    ہلدی: چوٹ لگنے پر بھی ہلدی کا استعمال کیا جاتا ہے، اس سے سوزش میں کمی آتی ہے جب کہ اس کی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات جسم میں قوت مدافعت بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    تلسی: اگر کسی کو الرجی ہو تو وہ تلسی کے پتے چبا سکتا ہے جو کہ فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ تناؤ کو بھی کم کرتا ہے۔ یہ بھی قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔

    پودینہ: یہ ایسی ہری سبزی ہے جو عام طور پر گھروں میں موجود ہوتی ہے، کھانسی اور سانس کی نالی کے حوالے سے کسی بھی مسئلے کے لیے اس کا استعمال سود مند ہوتا ہے جب کہ اس کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے۔ پودینے کا تیل لگانا بھی اچھا ہے، اسے ابال کر اس پانی کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

  • ٹیسٹ کروائے بغیر انجکشن لگانے کا خوفناک انجام

    ٹیسٹ کروائے بغیر انجکشن لگانے کا خوفناک انجام

    قاہرہ: مصر میں الرجی ٹیسٹ کے بغیر اینٹی بائیوٹک انجکشن لینے پر 2 بہنیں جان کی بازی ہار گئیں، حکام نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق مصر کے ساحلی شہر اسکندریہ میں الرجی ٹیسٹ کے بغیر اینٹی بائیوٹک انجکشن لینے پر 2 سگی بہنیں جان کی بازی ہار گئیں، دونوں بہنوں ایمان اور سجدہ کو سردی لگنے پرمعمول کا نزلہ زکام ہوا۔

    والدہ نے ڈاکٹر سے رجوع کیا جس نے دوائیں تجویز کیں، فارمیسی پر فارماسسٹ نے بتایا کہ ڈاکٹر کے نسخے میں لکھی گئی دوا دستیاب نہیں، اس کی جگہ متبادل دوا تجویز کی گئی۔ والدہ نے قریبی فارمیسیوں پر ڈاکٹری نسخے میں لکھی گئی دوا تلاش کی مگر وہ نہیں ملی۔

    بعد ازاں فارمیسی پر کام کرنے والی ایک خاتون نے دونوں بہنوں کو الرجی ٹیسٹ کیے بغیر اینٹی بائیوٹک انجکشن دیا جس سے ان کی طبعیت بگڑی اور الٹیاں آنے لگیں۔ انہیں اسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں کچھ دیر بعد دونوں چل بسیں۔

    پولیس میں رپورٹ درج کروائے جانے پر پبلک پراسیکیوشن نے فارماسسٹ اور فارمیسی پر کام کرنے والی خاتون کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا، دونوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے جبکہ فارمیسی کو سیل کردیا گیا ہے۔

    ادویات کے مصری مرکز کے ڈائریکٹر محمود فواد نے بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، جنوری 2022 سے اب تک لاپرواہی کے باعث 28 اموات ہوچکی ہیں۔

    محمود فواد کا کہنا تھا کہ انجکشن دینا کس کا اختیار ہے؟ انجکشن دینا ڈاکٹر کا اختیار ہونا چاہیئے لیکن ڈاکٹر اپنے مریضوں کو یونہی چھوڑ دیتے ہیں اور مریض بھی اپنی آسانی کے لیے فارمیسی کا رخ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ سنہ 2016 کے دوران پارلیمنٹ کی ہیلتھ کمیٹی سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس سلسلے میں کوئی قانونی طریقہ کار وضع کیا جائے۔

  • کون سی عام غذا بچوں کو الرجی سے بچا سکتی ہے؟ اہم تحقیق

    کون سی عام غذا بچوں کو الرجی سے بچا سکتی ہے؟ اہم تحقیق

    شمالی کیرولائنا: امریکی محققین نے ایک ریسرچ کے نتائج میں انکشاف کیا ہے کہ مونگ پھلی اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کو نوزائیدہ بچوں کی غذا میں شامل کرنا ان کی بتدریج نشوونما میں اضافے اور مختلف الرجیز سے بچنے کا سبب بنتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دی لانسیٹ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی زندگی میں بچوں کی خوراک میں مونگ پھلی کو شامل کرنے سے مستقبل میں مختلف الرجیز کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    ریسرچ اسٹڈی میں 146 ایسے بچوں کو شامل کیا گیا تھا جنھیں مونگ پھلی سے الرجی تھی، جن کی عمریں ایک سے تین کے درمیان تھیں، اس گروپ میں سے 96 بچوں کو روزانہ مونگ پھلی کا پروٹین پاؤڈر دیا جاتا تھا، جس کی خوراک 6 مونگ پھلی کے برابر تھی۔

    جب کہ دوسرے گروپ کے بچوں کو جو کے آٹے کا پلیسبو دیا گیا جو کہ چھ ماہ بعد حساسیت کا شکار ہوئے اور اس میں الرجی کی حد زیادہ تھی۔

    جن بچوں کو مونگ پھلی کا پاؤڈر ملا انھوں نے الرجی میں کمی ظاہر کی یعنی اس تھراپی کے ختم ہونے کے چھ ماہ بعد کوئی الرجک رد عمل نہیں ہوا۔

    نتائج سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی بچوں کو مونگ پھلی سے تیار کردہ مصنوعات کھانے کا عادی کیا جائے تو وہ مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی سے متاثر نہیں ہوتے۔

  • کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز لگوانے کے بعد بعض افراد میں الرجی کی شکایت سامنے آئی تاہم اب نئی تحقیق نے اس حوالے سے حوصلہ افزا پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز سے الرجی کا شدید ردعمل کبھی کبھار سامنے آسکتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔

    میسا چوسٹس جنرل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایم آر این اے ویکسینز اپنی طرز کی اولین ویکسینز ہیں اور ان کی افادیت حیران کن ہے جبکہ تمام افراد کے لیے محفوظ ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ان ویکسینز سے متعلق الرجک ری ایکشن کے بارے میں مستند تفصیلات جمع کی جائیں، کیونکہ یہ ویکسین پلیٹ فارم مستقبل میں وباؤں سے متعلق ردعمل کے لیے بھی بہت اہم ثابت ہوگا۔

    اس تحقیق کے دوران 52 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو ایم آر این اے کووڈ ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کروایا گیا تھا، ان میں سے 2 فیصد میں الرجی ری ایکشن نظر آیا جبکہ اینافائیلیکس کی شرح ہر 10 ہزار افراد میں 2.47 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اینافائیلیکس کی اس شرح کا موازنہ عام بائیوٹیکس ادویات کے استعمال سے کیا جاسکتا ہے، فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی کووڈ 19 ویکسینز کی تیاری کے لیے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔

    اینافائیلیکس سے مراد ایسا شدید الرجک ری ایکشن ہے جس میں مختلف علامات جیسے جلد پر نشانات، نبض کی رفتار کم ہوجانا اور شاک کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن سے الرجی کے ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن میں لوگوں کو ویکسین کے استعمال سے قبل اینافائیلیکس کا سامنا ہوا تھا۔

    تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شدید الرجی کے تمام کیسز جلد صحت یاب ہوگئے اور کسی کو بھی شاک یا سانس لینے میں مدد فراہم کرنے والی نالی کا سہارا نہیں لینا پڑا۔

  • مونگ پھلی کی الرجی: علامات، احتیاط اور علاج

    مونگ پھلی کی الرجی: علامات، احتیاط اور علاج

    مونگ پھلی کی الرجی نہایت احتیاط کی متقاضی ہوتی ہے، اس کی معمولی سی مقدار بھی خطرناک ردعمل کا باعث بن سکتی ہے اور الرجی کا حملہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق حال ہی میں بچوں میں مونگ پھلی کی الرجی یا اینفیلیکسس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ماہرین کے مطابق بالغ افراد یا بچوں میں مونگ پھلی سے الرجی ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

    اس کی حساسیت اگر ہلکی بھی ہو تو اس کا خطرہ مستقبل میں زیادہ ہوسکتا ہے۔

    علامات

    مونگ پھلی کھانے کے کچھ دیر بعد اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے، اس کی ممکنہ طور پر یہ علامات ہوسکتی ہیں۔

    مونگ پھلی کے کھانے سے جلد پر خارش، سرخ پن یا سوجن ہو جاتی ہے، منہ اور گلے یا ان کے آس پاس خارش بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسہال، پیٹ میں درد، متلی یا قے کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔

    مونگ پھلی کھانے سے گلے میں تنگی محسوس ہوتی ہے، سانس میں تکلیف بھی ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے کھانے سے ناک کے بہنے کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔

    اینفیلیکسس کی علامات

    شدید الرجی یا اینفیلیکسس ایک ہنگامی صورتحال ہے، اس کی علامات میں گلے میں سوجن جو سانس لینا دشوار کر دے، بلڈ پریشر میں شدید کمی (جھٹکا)، تیز نبض اور چکر آنا یا ہوش ختم ہونا شامل ہیں۔

    وجوہات

    مونگ پھلی کی الرجی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کا مدافعتی نظام غلطی سے مونگ پھلی کے پروٹین کو کسی نقصان دہ چیز کے طور پر شناخت کرتا ہے۔

    مونگ پھلی کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ رابطے مدافعتی نظام کو خون کے دھارے میں روگسوچک کیمیکلز جاری کرنے کا سبب بنتے ہیں، مونگ پھلی کے نقصانات مختلف طریقوں سے ہوسکتے ہیں۔

    مونگ پھلی یا اس میں شامل کھانے کی اشیا سے براہ راست رابطہ، کبھی کبھی جلد سے براہ راست رابطہ الرجک رد عمل کو متحرک کرسکتا ہے، مونگ پھلی کا آٹا یا کھانا پکانے کے دوران اس کا تیل استعمال کرتے وقت سانس لینے کی صورت میں بھی الرجک ردعمل ہوسکتا ہے۔

    مونگ پھلی کی الرجی میں خطرے کے عوامل مندرجہ ذیل ہیں۔

    بچوں میں خاص طور پر نوزائیدہ بچوں میں کھانے کی الرجی زیادہ پائی جاتی ہے۔ جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے، آپ کا نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور آپ کے جسم میں ایسی کھانوں پر رد عمل ظاہر کرنے کا امکان کم ہوتا ہے جو الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

    کچھ بچے بڑے ہوتے ہی مونگ پھلی کی الرجی سے چھٹکارا پاتے ہیں تاہم اس کا امکان بھی موجود ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یہ دوبارہ ہوجائے۔

    اگر کسی کو پہلے ہی ایک کھانے سے الرجی ہے تو دوسرے کھانے سے الرجی پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے، اسی طرح الرجی کی ایک اور قسم کا ہونا، جیسے بخار وغیرہ کھانے کی الرجی پیدا ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    بچاؤ کیسے کیا جائے؟

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کی تصدیق کے مضبوط ثبوت موجود ہیں کہ 4 سے 6 ماہ کی عمر میں خطرے سے دو چار بچوں کی خوراک میں مونگ پھلی شروع کرنے سے کھانے کی الرجی پیدا ہونے کے خطرے میں 80 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔

    مونگ پھلی کی الرجی پیدا ہونے کا خطرہ ان بچوں میں ہوتا ہے جو ہلکے سے شدید ایگزیما، انڈے کی الرجی یا دونوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے بچے کی غذا میں مونگ پھلی شامل کرنے سےقبل اپنے بچے کے ڈاکٹر سے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کرلیں۔

    مونگ پھلی سے الرجی کا شکار افراد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کے کھانوں میں مونگ پھلی نہ ہو، پروسسڈ شدہ کھانے کی اشیا پر ہمیشہ لیبل پڑھیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان میں مونگ پھلی یا ان کی کوئی مصنوعات نہ ہو۔

  • ناک: اردو محاوروں سے لے کر طبی پیچدگیوں تک!

    ناک: اردو محاوروں سے لے کر طبی پیچدگیوں تک!

    آپ نے ‘‘ناک’’ سے متعلق مختلف محاورے سنے ہی ہوں گے۔ ناک بھوں چڑھانا، ناک کٹوا دی، ناک میں دم کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ اردو زبان و ادب میں ‘‘ناک’’ پر کچھ لکھا جائے یا ادیب و شاعر اسے خاطر ہی میں‌ نہ لائیں، مگر طبی دنیا اسے کسی صورت نظرانداز نہیں‌ کرسکتی. جب بھی انسانی صحت اور علاج معالجے کی بات ہو گی طبی محققین، سائنس داں اور ماہر معالجین ناک کو ضرور موضوعَ بحث بنائیں‌ گے. ہماری جسمانی صحت اور نظامِ تنفس میں یہ عضو مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

    ناک ایک حسّاس عضو ہے، جو ہمارے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے۔ یہ نظامِ تنفس کا حصّہ ہے جس کے ذریعے تازہ ہوا ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ اسی کی بدولت ہم سونگھ کر ماحول یا اشیا کو جانتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ یعنی خوش بُو، بد بُو کی پہچان اور فضا میں کثافتوں کا اندازہ کرنے کے ساتھ ماحول کی مختلف حالتوں کا سونگھ کر ادراک کرنا اسی عضو کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔

    ناک کی اندرونی دیواریں نرم، نم اور نہایت حساس ہوتی ہیں، جب کہ اس کے اندر موجود بال سانس لینے کے عمل میں داخل ہو جانے والی گرد اور دیگر باریک ذرات کو جسم کے اندر جانے سے روکنے کا کام کرتے ہیں۔

    انسانی ناک کے اندر نہایت باریک رگیں موجود ہیں، جن میں خون کی گردش جاری رہتی ہے۔ ہماری ناک عموماً نزلہ، زکام، چھینکوں کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ نزلے کی وجہ سے اکثر ناک بند ہو جاتی ہے اور ہمیں سونگھنے میں مشکل پیش آتی ہے یا یہ کہہ لیں کہ انسان کسی قسم کی بُو محسوس نہیں کر پاتا۔

    بعض لوگوں کا جسمانی نظام جراثیم، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور استعمال کی مختلف اشیا کو کسی وجہ سے قبول نہیں کرتا اور ایسا ہونے کی صورت میں ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اسے ہم الرجی یا جسم کی حساسیت کہتے ہیں۔ ایسی کسی بھی الرجی کی وجہ سے زیادہ تر ہماری جلد متأثر ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات یہ ناک اور پھیپھڑوں کے لیے بھی مسئلہ پیدا کرتی ہے۔

    آپ نے غور کیا ہو گا کہ اکثر لوگ معمولی دھواں یا گرد و غبار بھی برداشت نہیں کر پاتے اور فوراً چھینکنے لگتے ہیں۔ بعض افراد کی ناک گردوغبار کے علاوہ بعض سبزیوں یا پھلوں، پھولوں کو سونگھنے، مشروبات کی خوش بُو یا کھانوں کی مہک کی وجہ سے، مختلف اقسام کے پاؤڈر، کیمیکل، پالتو پرندوں اور جانوروں کے بالوں، پَروں کی وجہ سے بھی متأثر ہوسکتی ہے۔ اکثر ایسے افراد کو ناک کی سوزش کا مسئلہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی حساسیت ہوتی ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ الرجی اگر شدت اختیار کر جائے تو کئی طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔