Tag: الزائمر

  • وہ خاتون جن کی یادداشت سنہ 1994 سے آگے نہیں بڑھ سکی

    وہ خاتون جن کی یادداشت سنہ 1994 سے آگے نہیں بڑھ سکی

    انگلینڈ میں ایک خاتون الزائمر کی ایسی نایاب قسم کا شکار ہیں جس میں 1994 کا سال ان کے لیے آخری یادداشت ہے، اس کے بعد سے انہیں کچھ یاد نہیں رہتا۔ سنہ 2020 میں وہ 1994 کے سنہ میں موجود ہیں۔

    انگلینڈ کی کاؤنٹی لنکن شائر سے تعلق رکھنے والی مچل فلپوٹس نسیان یا الزائمر کی ایک ایسی قسم کا شکار ہیں، جو کروڑوں افراد میں سے کسی ایک میں ہی نظر آتی ہے۔

    ان کے ساتھ یہ بدقسمتی 2 ٹریفک حادثات کے بعد ہوئی، پہلا حادثہ سنہ 1985 میں ہوا جب وہ ایک موٹر سائیکل پر سفر کر رہی تھیں، اس کے 5 سال بعد یعنی 1990 میں دوسرا حادثہ ہوا اور دونوں دفعہ حادثے کے دوران ان کے سر پر ہی چوٹ لگی تھی۔

    4 سال بعد 1994 میں ڈاکٹروں نے مچل میں مرگی کی تشخیص کی جو کہ سر کی چوٹوں کا نتیجہ تھا اور وہاں سے حالات بدتر ہونے لگے۔

    مچل کو اکثر مرگی کے دوروں کا سامنا ہوا اور وہ باتیں بھولنا شروع ہوگئی، اس کی وجہ سے وہ اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں جہاں ایک دن انہوں نے ایک ہی دستاویز کی بار بار فوٹو کاپی بنائی، کیونکہ انہیں یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ وہ پہلے بھی ایسا کر چکی ہیں۔

    اب 26 سال بعد بھی دماغی طور پر وہ 1994 میں ہی پھنسی ہوئی ہیں اور ان کی یادیں اس سال سے آگے بڑھ ہی نہیں سکیں۔

    ہر صبح جب وہ بیدار ہوتی ہیں تو خود کو 56 سال کی بجائے 26 سال کم عمر تصور کرتی ہیں، ان کے خیال میں فورسٹ گمپ ایک نئی فلم ہے جو 1994 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    ویسے تو ہر گزرے دن کی کوئی یاد ان کے ذہن میں نہیں رہتی مگر اکثر اوقات وہ کسی نئی یاد بننے کے چند منٹ بعد ہی اسے بھول جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کسی سے ملتی ہیں اور ممکن ہے کہ چند سیکنڈ بعد وہ یہ بھول جائیں کہ وہ کس سے بات کررہی ہیں، اور کیوں کررہی ہیں۔

    چیزیں یاد رکھنے کے لیے وہ کاغذ کے ٹکڑوں کا سہارا لیتی ہیں۔

    مچل نے اپنے پورے گھر میں نوٹ لگائے ہوئے ہیں جبکہ اپنے فون پر کیلنڈر کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، حالانکہ اکثر وہ الجھن کا شکار ہوجاتی ہیں کہ موبائل فونز ہوتے کیا ہیں کیونکہ 1994 میں وہ عام نہیں تھے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ ہر صبح بیدار ہو کر سوچتی ہیں کہ یہ 1994 چل رہا ہے، یہ وہ آخری سال ہے جو ان کو مکمل طور پر یاد ہے۔

    مچل کا یہ عارضہ نہ صرف ان کی بلکہ ان کے پیاروں کی زندگی کو بھی جہد مسلسل بنائے ہوئے ہے۔ مچل کے شوہر روز صبح اٹھ کر انہیں شادی کی تصاویر دکھا کر ثابت کرتے کہ وہ شادی شدہ ہیں۔

    مچل کے شوہر کا کہنا ہے کہ یہ میرے لیے بہت زیادہ جھنجھلا دینے والا ہوسکتا تھا مگر میں تحمل سے کام لیتا ہوں اور پرسکون رہتا ہوں، کیونکہ مجھے مچل سے محبت ہے، میں خوش قسمت ہوں کہ ہم دونوں کی ملاقات اس کے حادثات سے قبل ہوئی تھی، جو اسے یاد ہے، اسی طرح ہماری متعدد تصاویر اسے ہمارے رشتے کو یاد رکھنے میں مدد دیتی ہیں، ورنہ وہ سب کچھ بھول چکی ہوتی۔

    مچل کے مطابق انہیں روزانہ ہر چیز کو بار بار یاد کرنا یا سیکھنا پڑتا ہے۔

  • سست زندگی گزارنا بڑھاپے میں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟

    سست زندگی گزارنا بڑھاپے میں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟

    آج دنیا بھر میں بڑھاپے میں یادداشت کو خراب کرنے والی بیماری الزائمر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال اور سست زندگی گزارنا بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اس مرض سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو الزائمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ 60 لاکھ افراد اس بیماری سے متاثر ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر 8 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ فشار خون زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کے تناسب میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر فعال رہنا بھی دماغ کے لیے فائدہ مند ہے اور یادداشت کی خرابی سے بچا سکتا ہے۔ چھوٹی موٹی دماغی مشقیں جیسے ریاضی کی مشقیں زبانی حل کرنا، حساب کرنا، چیزوں کو یاد کرنا، پزل حل کرنا بھی دماغ کو چست اور فعال رکھتا ہے۔

  • یادداشت کی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام کریں

    یادداشت کی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام کریں

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف جسمانی اعضا بشمول دماغ کی کارکردگی میں کمی آتی جاتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ بڑھاپے میں دماغ کو لاحق ہونے والے امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کاموں میں حصہ لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر فعال رہنا نہ صرف جسم کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ دماغ کو بھی فعال رکھتا ہے، اور دماغ جتنا زیادہ فعال رہے گا اتنا ہی اس کی بوسیدگی کا خطرہ کم ہوگا۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جسم اور دماغ کو فعال رکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ باقاعدگی سے ورزش ہی کی جائے بلکہ گھر کے روزمرہ کے کام انجام دینے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 70 اور 80 سال کی عمر میں گھر کے مختلف کام سر انجام دینا دماغ کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے جس سے یادداشت کم کرنے والے امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا سے تحفظ مل سکتا ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ہفتے میں مجموعی طور پر 45 منٹ کی چہل قدمی 65 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے دماغ کو صحت مند رکھتی ہے۔

    تاہم حالیہ تحقیق کے مطابق بغیر کسی خاص ورزش کے روزانہ کے امور انجام دیتے ہوئے بھی دماغ کو صحت مند رکھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹی موٹی دماغی مشقیں جیسے ریاضی کی مشقیں زبانی حل کرنا، حساب کرنا، چیزوں کو یاد کرنا، پزل حل کرنا بھی دماغ کو چست اور فعال رکھتا ہے۔

  • بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچنا بے حد آسان

    بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچنا بے حد آسان

    آج دنیا بھر میں بڑھاپے میں یادداشت کو خراب کرنے والی بیماری الزائمر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ 60 لاکھ افراد اس بیماری سے متاثر ہیں۔

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اس مرض سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو الزائمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر 8 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں


    اسباب کیا ہیں؟

    طبی ماہرین کے مطابق خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ فشار خون زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کے تناسب میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

    علاوہ ازیں مندرجہ ذیل وجوہات بھی دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی ہیں جن کی طرف طرف توجہ دے کر الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض سے حفاظت کی جاسکتی ہے۔

    درمیانی عمر میں ہونے والا بلند فشار خون

    موٹاپا

    بالوں کا جھڑنا

    ذہنی دباؤ

    ذیابیطس

    جسمانی طور پر غیر متحرک رہنا

    تمباکو نوشی

    تنہائی کی زندگی گزارنا

    مزید پڑھیں: دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات


    الزائمر کی علامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر کے آغاز کی 4 علامات ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان پر نظر رکھی جائے تو الزائمر کی شروعات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

    الزائمر کے مریض میں پہلی علامت غیر ضروری طور پر بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہوتی ہے۔

    دوسری علامت الفاظ کی ادائیگی میں مشکل اور غیر مناسب الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے۔

    تیسری علامت لکھتے ہوئے الفاظ کے ہجے بھول جانا ہے۔

    آخری علامت کسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آنا ہے۔


    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین کے مطابق ایسے کئی اسباب ہیں جو الزائمر کا سبب بنتے ہیں اور ان سے بچاؤ حاصل کرکے الزائمر کے خطرے میں کسی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درجہ حرارت پر پکائے جانے والے کھانوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو الزائمر کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تیز آنچ پر زیادہ دیر تک پکائے ہوئے کھانے میں گلوکوز اور پروٹینز پر مشتمل ایڈوانس گلائیکیشن اینڈ پروڈکٹس نامی پیچیدہ مرکب تشکیل پاتا ہے، جسے سائنسی زبان میں اے جی ای بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب انسانی یادداشت کو متاثر کرتا ہے۔

    ایسے تمام کھانے جن میں نمک کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہے وہ بھی دماغی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ نمکین کھانے ذہانت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی بھی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔

    علاوہ ازیں جسمانی طور پر فعال رہنا بھی دماغ کے لیے فائدہ مند ہے۔ چھوٹی موٹی دماغی مشقیں جیسے ریاضی کی مشقیں زبانی حل کرنا، حساب کرنا، چیزوں کو یاد کرنا، پزل حل کرنا بھی دماغ کو چست اور فعال رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: یہ آسان پہیلی حل کر کے اپنے دماغ کو فعال کریں

  • بڑھاپے میں یادداشت کو خراب کرنے والی وجوہات

    بڑھاپے میں یادداشت کو خراب کرنے والی وجوہات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ طرز زندگی میں معمولی تبدیلیوں سے بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی کے مرض ڈیمینشیا سے کافی حد تک تحفظ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

    ڈیمینشیا 70 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونے والا مرض ہے جو دماغی خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے اور بالآخر یہ خلیات مر جاتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 5 کروڑ افراد ڈیمینشیا اور الزائمر کا شکار ہیں۔ سنہ 2050 تک یہ تعداد بڑھ کر 13 کروڑ سے زائد ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں 10 لاکھ افراد الزائمر کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی 9 وجوہات کی طرف توجہ دے کر ان امراض سے حفاظت کی جاسکتی ہے جو کہ یہ ہیں۔

    درمیانی عمر میں ہونے والا بلند فشار خون

    موٹاپا

    بالوں کا جھڑنا

    ذہنی دباؤ

    ذیابیطس

    جسمانی طور پر غیر متحرک رہنا

    تمباکو نوشی

    تنہائی کی زندگی گزارنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ ڈیمینشیا کی تشخیص بہت بعد میں ہوتی ہے مگر دماغی خلیات کی خرابی کا عمل بہت پہلے سے شروع ہوچکا ہوتا ہے۔

    ان کے مطابق مندرجہ بالا عوامل کی طرف توجہ دے کر دماغی خلیات کو خرابی سے بچایا جاسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فضائی آلودگی جان لینے اور بھاری مالی نقصان پہنچانے کا سبب

    فضائی آلودگی جان لینے اور بھاری مالی نقصان پہنچانے کا سبب

    فضائی آلودگی اس وقت دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی اس وقت دنیا میں اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 15 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    دوسرے نمبر پر بھارت 11 لاکھ اموات کے ساتھ موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    یاد رہے کہ کسی شہر میں فضائی آلودگی وہاں کے رہنے والوں کو مختلف سانس کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے مسائل، ہائی بلڈ پریشر حتیٰ کہ دماغی بیماریوں جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا تک میں مبتلا کر سکتی ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق کے دوران کیے جانے والے ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودہ ذرات الزائمر سمیت مختلف دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی نہ صرف طبی مسائل کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ کسی ملک کی معیشت کے لیے بڑے خسارے کا سبب بھی بنتی ہے۔ سنہ 2013 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف ممالک کی معیشتوں کو مجموعی طور پر 225 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    اس سے قبل چین میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔

    ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور یوں قومی پیداوار اور معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    کچھ عرصہ قبل ورلڈ بینک نے فضائی آلودگی کے نقصانات کے حوالے سے ایک تفصیلی انفو گرافک جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کس طرح منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    انفو گرافک میں فضائی آلودگی کو ہر 10 میں سے 1 موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

    آئیے آپ بھی وہ انفو گرافک دیکھیئے۔

    info


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر

    خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر

    کیا آپ کو لگتا ہے کہ مرد عورتوں کی نسبت زیادہ ذہین، چالاک اور سمجھدار ہوتے ہیں؟ ایک عام خیال ہے کہ خواتین کی عقل ’آدھی‘ ہوتی ہے اور زیادہ تر افراد اپنے فیصلوں میں خواتین کی شمولیت سے پرہیز کرتے ہیں۔

    اگر آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے یہ جان کر آپ کو شدید دھچکہ لگے کہ سائنس نے آپ کی اس غلط فہمی کو دور کردیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک ریسرچ سے ثابت ہوا کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں بہترین یادداشت کی حامل ہوتی ہیں۔ تحقیق کے لیے کیے جانے یادداشت سے متعلق ٹیسٹوں میں خواتین نے تمام مردوں کو بری طرح فیل کردیا۔

    مزید پڑھیں: یادداشت میں بہتری لانے کے لیے یہ اشیا کھائیں

    نارتھ امریکن مینوپاز سوسائٹی کے جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق خواتین مینوپاز کی عمر یعنی تقریباً 50 سال کی عمر سے قبل بہترین یادداشت کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ تمام چیزوں کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ یاد رکھتی ہیں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ماضی کے واقعات کو مدنظر رکھتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی یادداشت میں بھی خرابی واقع ہوتی جاتی ہے۔ اس خرابی کا آغاز 45 سال کی عمر کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: چہل قدمی بہترین یادداشت کا سبب

    طبی ماہرین کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ خواتین میں یادداشت سے متعلق امراض جیسے ڈیمینشیا وغیرہ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خواتین میں ڈیمینشیا اور یادداشت کی خرابی میں مبتلا ہونے کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق بڑھاپے میں ہر 6 میں سے 1 خاتون ڈیمینشیا یا الزائمر کا شکار ہوسکتی ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 11 میں سے صرف ایک شخص کی ہے۔

  • جلتی بجھتی روشنی سے الزائمر کا علاج

    جلتی بجھتی روشنی سے الزائمر کا علاج

    الزائمر بڑھاپے میں دماغ کو اپنا نشانہ بنانے والی ایک عام بیماری ہے جو یادداشت کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے اور غائب دماغ رہنے لگتا ہے۔

    حال ہی میں ماہرین نے الزائمر کے لیے ایک انوکھا علاج دریافت کیا ہے۔ اس طریقہ علاج کے لیے ٹمٹماتی اور جلتی بجھتی ایل ای ڈی روشنیاں استعمال کی گئیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے دماغ میں بیٹا ایملوائیڈ پلاک نامی وہ مادہ کم ہوسکتا ہے جو الزائمر اور یادداشت کی خرابی کا سبب بنتا ہے۔

    ماہرین نے اس طریقہ علاج کی فی الحال چوہوں پر کامیاب آزمائش کی ہے، تاہم وہ تذبذب میں ہیں کہ آیا یہ طریقہ انسانوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا یا نہیں۔

    مزید پڑھیں: زیتون کا تیل الزائمر سے بچاؤ میں معاون

    انہوں نے کہا کہ چونک ممالیہ ہونے کے باعث چوہوں کے جسم کے کئی افعال انسانوں سے ملتے جلتے ہیں، لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ چوہوں پر کیے جانے والے طبی تجربات کا انسانوں پر ویسے ہی یکساں اثر ہوگا۔

    البتہ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا کہ کچھ طبی تجربات چوہوں پر تو کامیاب ہوگئے پر جب انہیں انسانوں پر آزمایا گیا تو وہ ناکام ہوگئے۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب دماغ میں ان روشنیوں کو ٹمٹاتے ہوئے داخل کیا گیا تو اس سے دماغ میں برقی حرکت میں اضافہ ہوگیا اور صرف ایک گھنٹے کے اندر بیٹا ایملوائیڈ پلاک مادے میں کمی دیکھی گئی۔

    alzheimer-2

    ماہرین کے مطابق ایک ہفتے تک لگاتار اس طریقہ علاج کے بعد اس مادے میں خاصی کمی دیکھی گئی اور مجموعی طور پر یادداشت میں بہتری آئی۔

    یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق الزائمر موت کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 60 سال کی عمر کے افراد میں ہر 9 میں سے ایک شخص الزائمر کا مرض کا شکار ہے۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درجہ حرارت پر پکائے جانے والے کھانوں میں بھی ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو الزائمر کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تیز آنچ پر زیادہ دیر تک پکائے ہوئے کھانے میں گلوکوز اور پروٹینز پر مشتمل ایڈوانس گلائیکیشن اینڈ پروڈکٹس نامی پیچیدہ مرکب تشکیل پاتا ہے، جسے سائنسی زبان میں اے جی ای بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب انسانی یادداشت کو متاثر کرتا ہے۔

    ایسے تمام کھانے جن میں نمک کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہے وہ بھی دماغی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ نمکین کھانے ذہانت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی بھی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔

  • دانتوں کی فلنگ کروانے کے جھنجھٹ سے نجات پائیں

    دانتوں کی فلنگ کروانے کے جھنجھٹ سے نجات پائیں

    دانتوں کی تکلیف جہاں نا قابلِ برداشت ہوتی ہے وہاں ان کی فلنگ، صفائی اور دیگر علاج بھی انتہائی مہنگا ہوتا ہے جب کہ خراب دانت چہرے کی وجاہت اور دلکشی کو بھی ماند کردیتے ہیں۔

    مسلسل مشاہدے، تحقیق اور تجربات کے بعد میڈیکل سائنس اس قابل ہو گئی ہے کہ دانتوں میں نمو کا نظام خود بہ خود فعال کر سکیں جس کے بعد مریضوں کو دانتوں کی فلنگ کے لیے ڈینٹسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    teeth-post-5

    کنگز کالج لندن میں محقیقین کی ایک ٹیم نے چوہوں پر کیے جانے والے ایک تجربے سے پتہ چلایا کہ ایک کیمیکل دانتوں کے گودے میں موجود خلیوں کو بڑھنے اور دانتوں میں ہوجانے والے چھوٹے چھوٹے سوراخوں کو بھرنے میں مدد دیتا ہے۔

    کھانے میں میٹھی اشیاء کے بے تحاشہ استعمال اور دانتوں کی صفائی پر توجہ نہ دینے کے باعث دانتوں میں کیڑا لگنے کی شکایات عام ہیں اس کیویٹی کی وجہ سے دانت میں سوراخ ہوجاتا ہے جو اگر جڑ تک پہنچ جائے تو درد نہایت تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

    teeth-post-1
    اپنی تحقیق کے دوران محقیقن نے دریافت کیا کہ چوہوں کے کیویٹی لگے دانتوں میں ٹائڈگلوسپ نامی دوا لگانے سے چوہوں کے دانتوں میں بننے والی سراخوں کو صفر اعشاریہ ایک تین ملی میٹر تک بھرا جا سکا۔

    ٹائڈ گلوسپ دراصل وہ مالیکول ہے جس سے تیار کی گئی دوا کو الزائمر کے مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں تجویز کیا جاتا ہے تا ہم اس دوا کے اثرات کا مشاہدہ کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ ٹائڈ گلوسپ استعمال کرنے والے کے دانتوں میں لگنے والی کیویٹی خود بہ خود بھرنے لگی۔

    teeth-post-2

    جس کے بعد اس مالیکیول کو معمولی تبدیلی کے ساتھ تجربہ گاہ میں چوہوں پر آزمایا گیا جس نے حیرت انگیز نتائج دیئے اسپنج میں ملی ٹائڈ گلوسپ کو دانتوں کی خالی جگہ پر رکھا جائے اور اسپنج کے خاتمے کے بعد دانت میں ڈینٹائن مادہ بھر دیا جائے تو دانت مکمل طور پر درست ہو جاتا ہے۔

    محقیقن کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج کی سب سے اہم بات اسپنج ملی داو کا ٹھیک اس وقت ختم ہونا ہے جب دانتوں میں لگا جرثومہ اپنی موت آپ مر چکا ہوتا ہے جس کے بعد ڈیناٹئن مادے سے سوراخ کو بھر دیا جاتا ہے۔

    teeth-post-4

    واضح رہے دانتوں میں کیویٹی لگنے کا عمومی طریقہ علاج پارے کے ساتھ ایک سے زیادہ دھاتوں سے بنے مواد کو ملا کر فلنگ کرنا ہے اس مواد کو املگم کہا جاتا ہے اس کے علاوہ سرامک پاؤڈر کے زریعے بھی دانتوں میں لگی کیویٹی کو بھرا جاتا ہے۔

    تاہم سائنس دانوں کی نئی تحقیق کے بعد دانتوں کے امراض میں مبتلا افراد کو نہ صرف یہ کہ درد کے کرب سے بچاؤ ممکن ہوگا بلکہ ڈینٹسٹ کے پاس چکر لگانے سے بھی جان چھوٹ جائےگی۔

    محقیقن کا خیال ہے کہ تین سے چار سالوں کے اندر اندر یہ طریقہ علاج ہر ایک کے لیے بآسانی دستیاب ہوگا اور داندان سازی کے طریقہ علاج میں انقلاب برپا کردے گا۔

  • الزائمر کا عالمی دن: پاکستان میں 10 لاکھ افراد الزائمر کا شکار

    الزائمر کا عالمی دن: پاکستان میں 10 لاکھ افراد الزائمر کا شکار

    اسلام آباد: پاکستان میں الزائمر کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت 10 لاکھ سے زائد افراد یادداشت کی کمزوری یعنی الزائمر کے مرض میں مبتلا ہیں۔

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اس مرض سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو الزائمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر 8 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

    :سبب

    طبی ماہرین کے مطابق خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ فشار خون زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کے تناسب میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

    :علامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر کے آغاز کی 4 علامات ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان پر نظر رکھی جائے تو الزائمر کی شروعات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

    الزائمر کے مریض میں پہلی علامت غیر ضروری طور پر بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہوتی ہے۔

    دوسری علامت الفاظ کی ادائیگی میں مشکل اور غیر مناسب الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے۔

    تیسری علامت لکھتے ہوئے الفاظ کے ہجے بھول جانا ہے۔

    آخری علامت کسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آنا ہے۔

    :بچاؤ

    ماہرین کے مطابق ایسے کئی اسباب ہیں جو الزائمر کا سبب بنتے ہیں اور ان سے بچاؤ حاصل کرکے الزائمر کے خطرے میں کسی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درجہ حرارت پر پکائے جانے والے کھانوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو الزائمر کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تیز آنچ پر زیادہ دیر تک پکائے ہوئے کھانے میں گلوکوز اور پروٹینز پر مشتمل ایڈوانس گلائیکیشن اینڈ پروڈکٹس نامی پیچیدہ مرکب تشکیل پاتا ہے، جسے سائنسی زبان میں اے جی ای بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب انسانی یادداشت کو متاثر کرتا ہے۔

    ایسے تمام کھانے جن میں نمک کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہے وہ بھی دماغی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ نمکین کھانے ذہانت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی بھی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔