Tag: السیسی

  • ٹرمپ اور السیسی میں فون پر گفتگو، غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی پر کوئی بات نہیں ہوئی

    ٹرمپ اور السیسی میں فون پر گفتگو، غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی پر کوئی بات نہیں ہوئی

    واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر عبدالفتاح السیسی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان فون پر بات ہوئی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق مصر کے صدر نے ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ کے بحران پر بات چیت کے لیے دعوت دی، صدر السیسی نے کہا کہ دنیا ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل، فلسطین تنازع کا مستقل اور تاریخی حل کرانے کی منتظر ہے۔

    مصری صدارتی دفتر کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کے مسائل اور تنازعات پر تبادلہ خیال کیا اور دو طرفہ سرمایہ کاری اور معاشی تعلقات مضبوط کرنے پر اتفاق کیا، دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو امریکا، مصر سرکاری دوروں کی دعوت بھی دی۔

    تاہم دوسری طرف روئٹرز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور السیسی کے درمیان غزہ سے فلسطینیوں کی مصر اور اردن منتقلی کی ٹرمپ کی تجویز پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

    واضح رہے کہ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں بار بار غزہ سے فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں منتقل کرنے کے منصوبے پر بات کی ہے، اس کے بعد ہفتہ کو دونوں رہنماؤں کے درمیان کی گئی یہ پہلی فون کال تھی، ٹرمپ کے منصوبے کو سیسی اور دیگر عرب رہنماؤں نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

    ٹرمپ نے عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی، چین، کینیڈا، میکسیکو پر اضافی ٹیرف عائد

    یاد رہے کہ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کی صفائی کے منصوبے کی تجویز کے بعد گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں سیسی سے بات کریں گے، لیکن مصر نے بعد میں اس بات کی تردید کی کہ یہ کال نہیں ہوئی تھی۔

  • مصر کے حکمران کا ٹی وی ڈراموں کے خلاف کریک ڈاؤن

    مصر کے حکمران کا ٹی وی ڈراموں کے خلاف کریک ڈاؤن

    قاہرہ: مصر پر عبدالفتح السیسی گزشتہ 5 سال سے حکمران ہیں، تاہم گزشتہ 3 سال سے مصر میں میڈیا کے لیے پابندیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور میڈیا حکومتی زنجیروں کے گرد جکڑا دکھائی دیتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 میں جب سیسی اقتدار میں آئے تو انہوں نے میڈیا کو تاکید کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور کہا کہ وہ ایسے پروگرامز پیش کریں جو ہماری اقدار و اخلاقیات کی مثبت تصویر پیش کریں۔

    تاہم سیسی کے میڈیا سے تعلقات اس وقت خراب ہوگئے جب سنہ 2016 میں مصر کے دو جزیرے سعودی عرب کے حوالے کرنے کے معاملے پر پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا۔ مختلف اخبارات نے بھی اس کی مذمت میں لکھنا شروع کیا تو ایک دن ایک اخبار کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور حکومت پر تنقید کرنے والے 2 صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

    یہ صرف آغاز تھا جس کے بعد مصر میں بڑے پیمانے پر صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوگیا۔

    پابندیاں کس حد تک؟

    مصر کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات انٹرویوز میں کہ چکی ہیں کہ سیسی کی حکومت میں ان کے لیے پابندیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنی حسنی مبارک کے دور میں تھیں۔

    اب ٹی وی کے لیے ممنوعہ موضوعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ حکومت کی جانب سے 2 واٹس ایپ گروپ بھی بنائے گئے ہیں جن پر ٹی وی پروگرامز کے لیے ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔

    مختلف نجی کمپنیاں ٹی وی چینلز اور اخبارات کو خرید رہی ہیں اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ نجی کمپنیاں حکومتی ایما پر ایسا کر رہی ہیں-

    ایک نامور مصری فلم ڈائریکٹر خالد یوسف کا، جو مصری پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں، کہنا ہے کہ حکومت ڈراموں کے مواد میں مداخلت کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے کچھ بظاہر نجی پروڈکشن فرمز بھی قائم کی ہیں جو مخصوص بیانیے کی ترویج کرتی ہیں۔

    یوسف فی الوقت پیرس میں مقیم ہیں، ’حکومت نہیں چاہتی کہ لوگ سوچیں‘۔

    کئی پروڈیوسرز کا کہنا ہے کہ حسنی مبارک کی حکومت کے آخری وقت میں انہوں نے پولیس کی زیادتیوں پر بھی ڈرامے بنائے، اب ایسا ناممکن ہے۔

    سنہ 2017 میں سیسی نے میڈیا کے لیے قواعد و ضوابط کی ایک سپریم کونسل قائم کی تھی جس کا صدر بذات خود سیسی نے مقرر کیا۔ اس کونسل کی ڈرامہ کمیٹی کو ہدایت دی گئی کہ وہ مصری ٹی وی پر چلنے والے تمام ڈراموں کا جائزہ لیا کرے۔

    اس کمیٹی نے خاصا فعال کردار ادا کیا۔ اس نے مختلف ڈراموں میں مختلف منفی پہلوؤں کی نشاندہی کرنا شروع کی جس میں کرداروں کی سگریٹ نوشی بھی شامل تھی۔صرف ایک ہفتے کے دوران اس کمیٹی نے مختلف ڈراموں میں اپنے قواعد و ضبواط کی 948 خلاف ورزیاں نوٹ کیں۔

    پابندیوں کا یہ سلسلہ آزادانہ کام کرنے والی ویب سائٹس کے لیے بھی ہے۔ اب تک سینکڑوں نیوز اور بلاگنگ ویب سائٹس کو بند کیا جا چکا ہے جبکہ 2018 میں منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت حکومت غلط خبریں پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کرنے اور ان کے چلانے والوں کو سزا بھی دے سکتی ہے۔

    حکومت کی جانب سے بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں ٹی وی چینلز اور اخبارات کے لیے وقتاً فوقتاً ہدایات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔

    رواں برس اپریل میں ایک کینسر اسپتال کے باہر ہونے والے دھماکے میں، جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے، ہدایات جاری کی گئیں کہ اس دھماکے کی محدود کوریج کی جائے۔ ٹی وی چینلز اور اخباروں نے حکم کی تعمیل کی۔

    اسی طرح سیسی کے خلاف مظاہروں پر اکسانے والے ایک اداکار کی خبر نہ لگانے کی بھی ہدایت کی گئی، مذکورہ اداکار اس وقت اسپین میں مقیم ہے۔

    ان پابندیوں کا اثر عوام پر بھی پڑا ہے، اکثر افراد کا ماننا ہے کہ حکومتی پابندیوں کے باعث معیاری ٹی وی پروگرامز میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے ان کی تفریح کے ذرائع محدود ہوگئے ہیں۔

  • مصر: صدر السيسی کے خلاف بڑا احتجاج، مظاہرین کی التحریر اسکوائر جانے کی کوشش

    مصر: صدر السيسی کے خلاف بڑا احتجاج، مظاہرین کی التحریر اسکوائر جانے کی کوشش

    قاہرہ: مصر میں صدر عبدالفتاح السیسی کی برطرفی کے لیے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس کا دائرہ وقت کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے.

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ رات ہزاروں مظاہرین ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے.

    مظاہرین صدر السیسی سے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے، مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ استعفے تک گھر نہیں‌ جائیں‌گے.

    اس احتجاج کے پس منظر میں جلا وطن مصری  اداکار محمد علی کے صدر  پر عاید کرپشن کے الزامات ہیں، محمد علی ہی کی اپیل پر صدر کے خلاف احتجاج شروع ہوا. مصری صدر کی جانب سے ان تمام الزامات کو بے بنیاد اور سازش قرار دیا جاچکا ہے.

    مظاہرین نے جب قائرہ کے مشہور  زمانہ التحریر اسکوائر جانے کی کوشش کی، تو ساہ لباس اہل کاروں نے انھیں‌ روک دیا. اس موقع پر اہل کاروں اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا.

    مصر میں‌ میڈیا پر پابندیوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں‌کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، اطلاعات کے مطابق پوليس اور سکيورٹی دستوں نے مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے آنسو گيس استعمال کی۔

    خیال رہے کہ کئی عشروں تک مصر پر حکومت کرنے والے حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں میں‌ بھی التحریر اسکوائر کو خصوصی اہمیت حاصل تھی.

  • مصری ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان، السیسی کو 2030 تک اقتدار مل گیا

    مصری ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان، السیسی کو 2030 تک اقتدار مل گیا

    قاہرہ: مصر میں الیکشن کمیشن نے ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کردیا جس کے تحت فوجی صدر السیسی کی سنہ دو ہزار تیس تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کے ریفرنڈم میں رجسٹرڈ ووٹرز میں سے چوالیس اعشاریہ تین تین فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم میں ڈالے گئے ووٹوں کے اٹھاسی اعشاریہ تین فیصد رائے دہندگان نے آئینی ترامیم کی منظوری دی۔

    مصری پارلیمنٹ نےآئین میں ترامیم گزشتہ ہفتے منظور کی تھیں۔ جن کی منظوری کے بعد السیسی کے دوہزارتیس تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار ہوگئی۔

    مصری الیکشن کمیشن نے منگل کے روز سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کی گئی نیوز کانفرنس میں ریفرینڈم کے نتائج کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ ریفرینڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح 44.33 فی صد رہی ہے اور 88.83 فی صد ووٹروں نے آئینی ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔

    خیال رہے کہ 2011 میں حسنی مبارک کی تیس سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد سے ہی ملک کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا، ماہرین نے مارچ 2018 میں مصر میں صدارتی انتخابات خطے کے مستقبل کے لیے اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔

    عبدالفتح السیسی نےدوسری بارصدر کےعہدے کا حلف اٹھا لیا

    یاد رہے 2013 نے صدرمحمد مرسی کے خلاف عرصے سے جاری احتجاج کے بعد آرمی چیف جنرل عبدالفتح السیسی نے جولائی میں ان کی حکومت کو ہٹا دیا تھا۔

    27 مارچ 2014 کو مصر کے آرمی جنرل عبدالفتح السیسی نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے فوج سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔