Tag: الطاف حسین حالی

  • مولانا حالی کے ایک سفر کی روداد

    مولانا حالی کے ایک سفر کی روداد

    مولانا حالی جب اینگلو عربک اسکول دہلی میں فرسٹ اورینٹل ٹیچر تھے تو موسمی تعطیلات میں جو اس وقت ایک مہینے کی ہوا کرتی تھیں، انہوں نے خاص طور پر ایک تفریحی سفر ریاست الور کا کیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تفریح کے لئے خاص الور ہی کو مولانا نے کیوں منتخب کیا۔

    بہرحال اس سفر میں وہ علی گڑھ، فیروز آباد، اٹاوہ، مین پوری، کان پور، ہمیر پور اور باندی کوٹی ہوتے ہوئے الور پہنچے۔ علی گڑھ میں سرسید کے مہمان رہے اور علی گڑھ کالج دیکھنے کا ان کا یہ تیسرا موقع تھا۔ اس کا حال بیان کرتے ہوئے مولانا کے ایک ایک لفظ سے اس محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے جو مولانا کو علی گڑھ اور سرسید کی ذات سے تھی۔ راستے میں مولانا جن جن مقامات سے گزرے، ان کی مختصر کیفیت بیان کی ہے۔ (محمد اسماعیل)

    سفر کا مختصر احوال
    ایام تعطیل میں دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کی غرض سے ہم کو چند مقامات میں دورہ کرنے کا اتفاق ہوا اور ہم دہلی سے علی گڑھ پہنچے اور جناب آنریبل سید احمد خاں بہادر کی کوٹھی پر ٹھہرے۔

    علی گڑھ
    اب کی دفعہ ہم نے مدرسۃ العلوم کو تیسری بار دیکھا اور اس کی روز افزوں ترقی دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ مدرسے کو دیکھ کر ہم کو اس بات کا پورا یقین ہو گیا کہ اولوالعزم اور مستقل مزاج آدمی اپنے ارادوں کی مزاحمت سے اور زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سوا جو عناد اور دشمنی سے اس مدرسے کے مخالف ہیں، باقی سب مسلمان رفتہ رفتہ اس کی قدر کرتے جاتے ہیں اور جن عمدہ اصول پر اس مدرسے کی بنیاد قائم کی گئی ہے، اب ان کی خوبی و عمدگی سب سے پر ظاہر ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے طلبہ کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بہت سے بے خبر اور ناواقف لوگ جو اپنی اولاد کو یہاں بھیجتے ہوئے جھجکتے تھے اور ان کے مذہب و عقائد کے بدل جانے سے ڈرتے تھے، وہ اب نہایت اطمینان اور دلجمعی سے اپنی اولاد کو وہاں بھیجنے لگے ہیں۔

    یہ بات تحقیق ہو گئی ہے کہ بانی مدرسۃ العلوم کے مذہبی اعتقادات اور رایوں کو مدرسۃ العلوم کی تعلیم میں کچھ بھی دخل نہیں ہے۔ اس امر کا یہاں تک خیال رکھا جاتا ہے کہ رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ جو مطبع علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ سے چھپ کر شائع ہوتا ہے، اس کی کوئی کاپی مفت یا بہ قیمت کسی طالب علم کو نہیں دی جاتی۔ طلبائے مدرسہ کے افعال و اخلاق کی نگرانی پر یہاں وہ لوگ مامور ہیں جو جمہور اہل اسلام کے طریقے سے سرِ مو تجاوز کرنے کو بھی کفر جانتے ہیں۔ علی گڑھ میں ہم بعض ایسے دوستوں سے بھی ملے جو چند سال پہلے اس مدرسے کو ’’دارالکفر‘‘ سمجھتے تھے، لیکن اب حد سے زیادہ اس کے مداح اور ثنا خواں ہیں اور اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں۔

    مدرسے میں دو چار کے سوا، جو کہ مریض تھے، ہم نے سب مسلمان طالب علموں کو روزہ دار پایا۔ افطار کے وقت نماز کے چبوترے پر، جو بالفعل عارضی طور پر بنایا گیا ہے، سب جمع ہوتے تھے اور نہایت لطف کے ساتھ روزہ افطار ہوتا تھا۔ نماز عشا کے بعد جناب مولوی محمد امیر صاحب تراویح میں قرآن سناتے تھے اور اکثر طالب علم ان کا قرآن سنتے تھے۔ ایک روز جناب مولوی سید فرید الدین احمد خاں بہادر نے اور دوسرے روز ہمارے جلیل القدر میزبان (یعنی سید احمد خاں صاحب) نے بھی روزہ افطار کی تقریب میں اپنے دوستوں کو بلایا تھا اور ان دونوں صحبتوں میں ہم بھی شریک تھے۔

    مدرسہ العلوم کی تعمیر نہایت شد و مد سے جاری ہے اور جس قدر کام اس میں ہو چکا ہے اور ہورہا ہے، اس کو دیکھ کر بے انتہا تعجب ہوتا ہے۔ مدرسۃ العلوم کے حامیوں اور کار پردازوں کی سرگرمی اور کوشش دیکھ کر ان لوگوں کے دل میں بھی، جو مسلمانوں کی ترقی سے مایوس ہیں، ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور یہ امید ہوتی ہے کہ اس قوم کی ترقی کا اگرذمہ دار ہو سکتا ہے تو یہی مدرسہ ہو سکتا ہے۔ علی گڑھ میں پانچ روز ٹھہر کر ہم فیروز آباد، اٹاوہ، مین پوری اور کانپور ہوتے ہوئے ہمیرپور میں پہنچے۔

    فیروزآباد
    فیروزآباد ضلع آگرہ کا ایک مشہور قصبہ ہے جس میں سرکاری تھانہ اور تحصیل بھی ہے۔ یہ قصبہ جیسا کہ مشہور ہے، فیروز خواجہ سرا کا آباد کیا ہوا ہے، لیکن یہ ایک غیر محقق بات ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ فیروز شاہ کا آباد کیا ہوا ہو، جیسے فیروز پور یا حصار فیروزہ وغیرہ۔ یہاں کھجور کے پٹھے کی پنکھیاں ایسی عمدہ بنتی ہیں کہ ہندوستان میں شاید ہی کہیں اور بنتی ہوں۔ سادی پنکھیاں جن میں کسی قدر ریشم کا کام بھی ہوتا ہے۔ ایک روپیہ قیمت کی ہم نے بھی یہاں دیکھیں۔ اس کے سوا یہاں کی کوئی بات ذکر کے قابل نہیں ہے۔ یہاں کے مسلمان جو پہلے بہت آسودہ اور مرفہ الحال تھے، اب اس قدر پست حالت میں ہیں کہ وہاں کے ذی اعتبار باشندوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں آتا۔

    اٹاوہ
    اٹاوے میں ہم کو زیادہ ٹھہرنے کی مہلت نہیں ملی اور نہ اپنے شفیق میزبان کے مکان کے سوا کہیں جانے کا اتفاق ہوا۔

    مین پوری
    مین پوری میں ہم دو روز ٹھہرے۔ خوش قسمتی سے ہم کو ایک دن اور ایک رات جناب مرزا عابد علی بیگ صاحب سب آرڈنیٹ جج کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا۔ یہاں بھی طریقۂ معاشرت میں ہم نے وہی انوار و برکات مشاہدہ کئے جو علی گڑھ میں کئے تھے۔ جناب مرزا صاحب بھی اسی ’’مردود گروہ‘‘میں سے ہیں جو قومی ہمدردی کو راس الحسنات اور مخ العبادات جانتا ہے۔ جب ہم ان کے دولت خانے سے رخصت ہو کر ڈاک گاڑی پر پہنچے تو ان کے دو آدمی ہمارے ساتھ تھے، جن سے کوچ بان کو معلوم ہوا کہ وہ صدرِ اعلیٰ کے ہاں سے آئے ہیں۔ اس بات نے ہم کو بہت تکلیف میں ڈالا کیوں کہ گاڑی کا کوچ بان اتفاق سے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی نہایت متقی بھی تھا۔ اس نے یہ بات معلوم ہونے پر راستے میں ہم کو پانی پینے کے لئے اپنا کٹورا تک نہیں دیا اور ہم سے برابر ایسا پرہیز کرتا رہا جیسے بعض ہندو مسلمان سے کرتے ہیں۔ اوّل تو ہم کو اس سے بہت تعجب ہوا، لیکن پھر یاد آیا کہ ہم نے اپنے عالی قدر میزبان کے ہاں برابر دو وقت میز پر کھانا کھایا تھا اور اسی لئے ہم سے پرہیز کرنا ضروری تھا۔

    ہمیرپور
    جب ہم کانپور میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں سے ہمیر پور تک اونٹ گاڑی کے سوا کوئی سواری نہیں جاتی، اس لیے لاچار اسی میں جانا پڑا اور اتفاقاً ہم کو اوپر کے درجے میں جگہ ملی۔ ہم کو یاد نہیں کہ ہم نے کبھی کسی سواری یا پیدل جانے میں ایسی تکلیف اٹھائی ہو جیسی اس اونٹ گاڑی میں ہمیں پہنچی۔

    ریل کے زمانے سے پہلے یہی سواریاں نہایت غنیمت سمجھی جاتی تھیں مگر اب تو ان کے نام سے ہول آتی ہے۔ افسوس کہ یورپ کی صنعتیں روز بروز ہم کو پرلے درجے کا آرام طلب اور راحت پسند بناتی جاتی ہیں، اور اب وہ تمام اسباب اور ذریعے مفقود ہیں جن کے باعث سے کبھی کبھی ہم کو جفا کشی اور محنت کرنے کا بھی موقع ملتا رہے۔

    ہمیر پور کو جاتے ہوئے پچھم کی طرف سڑک سے کسی قدر فاصلے پر ہم نے ایک مندر دیکھا جو بیربر کا بنایا ہوا مشہور ہے۔ گو یہ مندر کچھ زیادہ شاندار نہیں ہے مگر اس سنسان جنگل میں ایک ایسے زمانے کو یاد دلاتا ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں ’’طلائی زمانہ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ اب ہم جمنا سے اتر کر ہمیر پور پہنچے۔ ہمیر پور راجا ہمیر سنگھ کا آباد کیا ہوا مشہور ہے، جس کے خاندان کی عمارتوں کے کھنڈر اب تک وہاں موجود ہیں۔ یہ قصبہ کان پور سے چالیس میل جانب جنوب بہت بلندی پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں جمنا اور جنوب میں بیدونتی ندی بہتی ہے اور مشرق میں ایک میل پر جاکر دونوں مل گئی ہیں۔ مغرب میں ایک نالہ ہے جو بیدونتی میں جاکر گرتا ہے۔ یہ نالہ برسات میں جاری ہو جاتا ہے اور ویسے ایام میں خشک رہتا ہے اور اس لحاظ سے ہمیر پور کو کبھی جزیرہ اور کبھی جزیرہ نما کہا جا سکتا ہے۔

    قدیم باشندے یہاں کے زیادہ تر ہندو ہیں۔ شریف مسلمانوں میں صرف ایک سیدوں کا خاندان ہے جو اکثر خانہ نشین اور بزرگوں کے متروکے پر قانع ہے۔ اس خاندان کے جتنے آدمی میں نے دیکھے ہیں، سب پرانی روش کے بھولے بھالے سیدھے سادے سید ہیں، جن پر زمانۂ حال کی چھینٹ بھی نہیں پڑی۔ اس مقام کی رونق زیادہ تر سرکاری ملازموں سے ہے، اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ یہاں سرکاری ملازموں میں جس قدر پردیسی مسلمان ہیں، وہ برخلاف عام مسلمانوں کے باہم برادرانہ محبت اور برتاؤ رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے درد اور دکھ میں شریک ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے تعصباتِ بے جا میں سب گرفتار ہیں۔ حقیقت میں ہمیر پور ایک ایسے گوشے میں واقع ہے جہاں زمانے کے شور و شغب کی آواز بہت کم پہنچتی ہے۔ مدرسۃ العلوم کا نام وہاں کے اکثر مسلمانوں نے کبھی کان سے بھی نہیں سنا اور جنہوں نے سنا ہے، ان کے ذہن میں اس کی ایسی ہول ناک صورت سمائی ہوئی ہے کہ اس کے نام سے پناہ مانگتے ہیں۔

    دلی سے ہمیر پور تک
    دلی سے ہمیر پور تک ہم کو شریف مسلمانوں کی اکثر صحبتوں میں بیٹھنے اور ان کی بات چیت سننے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً تمام مجلسوں کا رنگ ہم نے ایک ہی اصل پر دیکھا۔ وہی بے جا شیخی اور تعلی اور ہر ایک پہلو سے اپنی تعریف نکالنی، لوگوں کے عیب ڈھونڈنے اور ان کو برائی سے یاد کرنا، حاضرین کی خوشامد اور غائبین کی بد گوئی، بات بات میں فحش اور دشنام سے زبان کو آلودہ کرنا، اور سب سے زیادہ خود غرضی اور تعصب کا بازار ہر جگہ گرم پایا۔

    آگرے سے باندی کوٹی تک
    مراجعت کے وقت ہم ایک دن آگرے میں ٹھیر کر الور پہنچے۔ یہاں ہم کو راجپوتانہ اسٹیٹ ریلوے میں بیٹھنا پڑا۔ چونکہ یہ سرکاری ریل ہے، اس لیے ہم کو امید تھی کہ اس میں زیادہ آرام ملے گا، مگر بر خلاف اس کے سب سے زیادہ اسی میں تکلیف اٹھانی پڑی۔ اوّل تو اس میں انٹرمیڈیٹ کلاس کے نہ ہونے سے بڑا نقص ہے۔ کیوں کہ متوسط الحال آدمیوں کے لیے یہ درجہ فرسٹ کلاس کا حکم رکھتا ہے۔ دوسرے گاڑیاں اس قدر چھوٹی ہیں کہ ایک کمرے میں صرف چار آدمی آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ باوجود اس کے ایک ایک کمرے میں آٹھ آٹھ ادمی بٹھائے جانے کا حکم ہے۔ اور اس پر غضب یہ ہے کہ جب تک ایک کمرہ میں پورے آٹھ آدمی نہیں بیٹھ لیتے، تب تک دوسرا کمرہ نہیں کھولا جاتا، حالاں کہ اکثر اسی کلاس کی پانچ پانچ سات سات گاڑیاں ٹرین میں بالکل خالی جاتی ہیں۔

    ہم رات کی ٹرین میں سوارہوئے تھے اور ہماری گاڑی کے کسی کمرے میں آٹھ آدمی سے کم نہ تھے۔ نیند کے مارے ایک دوسرے پر گرا پڑتا تھا اور تمام راستے مسافروں میں باہم تکرار ہوتی رہی۔ علاوہ ان ’’خوبیوں‘‘ کے یہ ریل اور ریلوں کی نسبت سست رفتار بھی بہت ہے۔ صبح کے سات بجے ہم باندی کوٹی میں پہنچے اور دس بجے تک یہاں ٹھیرے رہے۔ یہاں تقریبا ڈیڑھ میل طول اور اسی قدر عرض کے میدان میں بالکل سنگین عمارتیں اس قدر بنائی گئی ہیں کہ بجائے خود ایک شہر آباد ہو گیا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ یہاں کسی قدر سرکاری فوج رکھی جائےگی۔

    الور
    وہاں سے چل کر ساڑھے بارہ بجے ہم الور پہنچے اور دوپہر تک نئی سرائے میں جو کیڈل صاحب پولیٹکل ایجنٹ کے عہد میں تیار ہوئی ہے، ٹھہرے۔ اس سرائے کی عمارت بالکل سنگین ہے۔ ظاہراً ہندوستان میں یہ پہلی سرائے ہے جس کے نقشے میں ہر ایک مسافر کی آسائش اور تمام ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ رات کو ہمارے ایک معزز دوست نے ہم کو اپنے مکان پر بلا لیا اور پانچ روز تک ہم ان ہی کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ الور کو ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شہر کی آبادی دامن کوہ میں واقع ہوئی ہے اور اسی وجہ سے شہر کا شمالی حصہ جنوبی حصے سے کسی قدر بلند ہے۔ یہاں کے بازار اگرچہ بہت وسیع نہیں مگر پُر رونق ضرور ہیں اور عمارتیں اکثر سنگین ہیں۔

    شہر کی عام عمارتیں کچھ زیادہ امتیاز نہیں رکھتیں، لیکن سرکاری محلوں سے راج کی پوری پوری شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ خصوصاً وہ محل جو موتی ڈونگری کے باغ میں مہا راجا بنے سنگھ نے بنوایا ہے۔ عمارت کی خوبی کے علاوہ وہ ایک ایسے موقع پر واقع ہوا ہے جس سے اس کی شان اور عظمت دس گنی ہو گئی ہے۔ محل کے اوپر کے درجے پر چڑھ کر جس طرف نظر ڈالیے، زمین اور پہاڑ اور فرشِ زمردیں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اب تک وہاں بارش کم ہوئی تھی مگر پھر بھی وہاں کی قدرتی فضا دیکھنے کے قابل تھی۔

    یہاں ایک اور مقام بھی کمال دل کش اور روح افزا ہے جو سیلی سیڑھ کے نام سے مشہور ہے۔ شہر سے تقریبا ًچھ میل کے فاصلے پر ایک سیتلا کا مندر ہے۔ جس کو وہاں کے لوگ سیلی سیڑھ کہتے ہیں۔ (سیلی سیڑھ کے لفظی معنی ٹھنڈی سیتلا کے ہیں۔) یہاں دو طرف سے پہاڑ آ کر مل گیا ہے اور ایک مثلث کی سی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ اس مثلث کے گوشے میں ایک بڑا اور نہایت مستحکم بند باندھا گیا ہے جس میں وقتاً فوقتاً بارش کا پانی دونوں پہاڑوں سے جھر جھر کر اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔ اور یہاں سے الور تک ایک پختہ نہر بنی ہوئی ہے جس کے ذریعہ سے بند کا پانی رستے کے تمام کھیتوں کو سیراب کرتا ہوا شہر تک پہنچتا ہے اور وہاں جا کر الور کے تمام باغات اور اس کے تمام سواد کو سال بھر تک سر سبز و شاداب رکھتا ہے۔ بند کے ایک جانب پہاڑ پر ایک نہایت پختہ گؤ گھاٹ تقریبا پاؤ میل اونچا بنا ہوا ہے۔ جو پہاڑ کی چوٹی پر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہاں سرکاری محل بنے ہوئے ہیں۔ یہ مہاراجا بنے سنگھ کی ایک نمودار یادگار ہے جو ہمیشہ ان کے عہد حکومت کو یاد دلائے گی۔

    الور کا سواد نہایت دل کش اور دل ربا ہے اور تمام باغات سے گھرا ہوا ہے۔ موتی ڈونگری کے باغ کے سوا جو کہ مشہور ہے، ایک کمپنی باغ بھی ہے جو مہاراجا شیو دھیان سنگھ نے حضور ڈیوک آف ایڈنبراکی تشریف آوری کے زمانے میں تیار کروایا تھا۔ یہ بھی ایک عمدہ پارک ہے۔ اس کے سوا کیڈل گنج، شفاخانہ اور اسکول وغیرہ کی عمارتیں جو کیڈل صاحب کے عہد میں بنی ہیں، نہایت عمدہ اور شہر کے لئے باعث زینت ہیں۔ ریاست الور کے پولیٹکل حالات جس قدر ہم کو معلوم ہوئے ہیں، ان سے ریاست کی آئندہ بہبودی اور ترقی کی بہت کچھ امید ہوتی ہے۔

    مہاراجا منگل سنگھ جو تقریبا دو ڈھائی برس سے با اختیار ہوئے ہیں ان کی تعریف میں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر سابق جب سال گزشتہ کے ختم پر اجمیر میں تشریف لئے گئے تھے تو انہوں نے میو کالج کے طالب علموں سے خطاب کر کے ایک لمبی اسپیچ کی تھی جس میں مہاراجا منگل سنگھ کی شہ سواری، گولہ اندازی، بہادری، جفاکشی، شائستگی اور عالی دماغی کی نہایت تعریف کرکے مخاطبین کو ان کی پیروی کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔

    مہاراجا صاحب نے اس نہایت قلیل زمانے میں جو دو ڈھائی برس سے زیادہ نہ ہو گا کئی ایسے کام کئے ہیں جن کا ایک نوجوان ہندوستانی رئیس سے وقوع میں آنا نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے جنوبی ہندوستان کا ایک سفر اختیار کیا جس میں کسی قدر بحری سفر اور جزیرہ سیلون کی سیاحت بھی شامل تھی، اور بہت شوق سے اپنا سفر نامہ بھی تیار کرایا۔ پھر با اختیار ہونے کے وقت خزانہ بالکل خالی تھا بلکہ ریاست کسی قدر مقروض تھی، مگر اب سنا جاتا ہے کہ خزانے میں تقریبا سات آٹھ لاکھ روپیہ جمع ہے۔ ہر جمعرات کے دن ایک عام دربار مقرر کیا جس میں تمام ریاست کے مستغیثو ں کو اجازت دی گئی کہ خود مہاراجا کے روبرو حاضر ہوکر عرض معروض کریں۔ اور معمولی دربار جو ہر روز تین گھنٹے سے چار گھنٹے تک رہتا ہے اور جس میں کونسل کی تجویزات اور فیصلے پیش ہوتے ہیں یہ اس عام دربار کے علاوہ ہے۔ پولس اور مال کا ازسرنو انتظام کیا جس کی وجہ سے تقریباً پانچ سو روپے ماہوار کا اضافہ، پولس اور عملہ مال کی تنخواہوں میں کیا گیا۔ سررشتہ تعلیم میں بھی روزبروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔

    ایک بڑا اسکول شہر میں عام رعایا کی تعلیم کے لئے ہے جس میں انٹرنس تک پڑھائی ہوتی ہے اور جو لڑکے یہاں سے انٹرنس پاس کرتے ہیں ان کو وظیفہ دے کر کسی کالج میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اگلے برس دو لڑکوں نے انٹرنس پاس کیا تھا، وہ دونوں لڑکے اجمیر کے گورنمنٹ کالج میں ترقی تعلیم کے لئے بھیج دیے گئے اور آٹھ روپیہ ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔ اس کے سوا ایک اور اسکول شہر میں ہے جو خاص ٹھاکروں اور سرداروں کی اولاد کے لئے مخصوص ہے۔ اس مدرسے کی حالت ابھی تک کچھ اچھی نہیں ہے۔ علاقہ الور کے دیہاتی مدارس کی ٹھیک تعداد ہم کو یاد نہیں رہی، لیکن غالباً سو سے زیادہ اور ڈیڑھ سو سے کم ہے۔ چودہ مدرسے زنانے بھی ہیں جن میں ہندو مسلمان دونوں قوموں کی لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں۔

    سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آرام طلبی اور سستی اور کاہلی جو ہندوستانی رئیسوں کی سرشت میں داخل ہے، وہ مہاراجا کے مزاج میں بالکل نہیں ہے۔ اور سادگی اور بے تکلفی ایسی ہے کہ اہل یورپ میں بھی ایسی نہیں دیکھی گئی۔ البتہ شکار کا شوق جس قدر ہونا چاہئے اس سے کسی قدر زیادہ ہے۔ باقی تعیش، لہو و لعب اور مسکرات سے، جہاں تک ہم نے سنا ہے، بہ کلی نفرت ہے اور یہ تمام باتیں بشرطیکہ استقلال کے ساتھ قائم رہیں، ایسی ہیں جو انسان کی ترقی کی اصل اصول ہیں۔ پانچ روز الور میں ٹھہر کر ہم رمضان کی انتیسویں تاریخ دن کی ریل میں الور سے روانہ ہوئے اور شام کو دلّی پہنچ گئے۔

  • الطاف حسین حالی: اردو زبان و ادب کا محسن

    الطاف حسین حالی: اردو زبان و ادب کا محسن

    پانی پت کی ایک گنجان بستی میں صوفی بو علی شاہ قلندر کی درگاہ ہے۔ یہ علاقہ پچ رنگا اچار کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس درگاہ کے پھاٹک کی بائیں جانب مولانا الطاف حسین حالی کی قبر ہے۔ وہی الطاف حسین حالی جو مرزا غالب کے شاگرد تھے اور یادگارِ غالب ان کی تصنیف کردہ ایک نہایت معتبر اور مقبول سوانح عمری ہے۔

    مرزا غالب کے کئی شاگردوں میں حالی کا نام اس لیے زیادہ مشہور ہوا کیوں کہ وہ شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ تنقید نگار بھی تھے۔ ان کی کتاب ‘یادگارِ غالب’ نے جس طرح مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعرانہ عظمت اور ان کی شخصیت کا تعار‌ف کرایا اس نے حالی کی کتاب کو کلاسک کا درجہ دے دیا۔ آج الطاف حسین حالی کا یومِ وفات ہے۔ حالی 1914 میں آج ہی کے دن پانی پت میں انتقال کرگئے تھے۔

    حالی نے صرف تنقید ہی نہیں لکھی بلکہ اپنی شاعری سے اردو ادب کی مختلف جہات اور رجحانات کا بھی اضافہ کیا جسے بعد میں آنے والوں نے اپنایا اور ان میں بلاشبہ اقبال، جوش، فیض احمد فیض اور ان جیسے دوسرے بڑے شاعر شامل ہیں۔

    خواجہ الطاف حسین حالی کو اردو ادب کا پہلا مصلح اور محسن بھی کہا جاتا ہے۔ حالی نے اس زمانے میں ادبی اور معاشرتی سطح پر بدلتے ہوئے رجحانات اور زندگی کے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نظم و نثر کے ذریعے کوشش کی۔ ان کی تین سوانح عمریوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں فن اور شخصیت کے ساتھ تنقید کا رنگ بھی شامل ہے اور "حیاتِ سعدی، "یادگارِ غالب” اور "حیاتِ جاوید” اسی سے مملو ہیں۔ حالی کی ایک کتاب "مقدمۂ شعر و شاعری” اردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھنے والی ایسی کتاب ہے جو اس فن کے اصول بھی بتاتی ہے اور شاعری کے معیار پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

    الطاف حسین حالی ایک مصلح قوم بھی تھے۔ ان کی مسدس ( مثنوی مدؔ و جزرِ اسلام) ایک مقبول کتاب ہے جو میں وہ قوم کی زبوں حالی کا نوحہ سناتے ہیں۔ مسدس نے ہندوستان میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی اس کی مثال شاذ ہی ملے گی۔

    الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر لگ بھگ نو سال تھی جب والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش اور تربیت ان کے بڑے بھائی نے پدرانہ شفقت سے کی۔ حالی نے ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی اور قرآن حفظ کیا۔ 17 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد ان کو روزگار کی فکر لاحق ہوئی تو دہلی آ گئے۔ حالی کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پانی پت اور دہلی میں انھوں نے کسی فارسی، عربی، فلسفہ و منطق اور حدیث و تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ادب میں اپنے ذوق و شوق اور مطالعہ کی بدولت کمال حاصل کیا۔ دہلی کے قیام کے دوران مرزا غالب کے قریب ہوگئے۔ اس کے بعد وہ خود بھی شعر کہنے لگے۔ 1857 کے ہنگاموں میں حالی کو دہلی چھوڑ کر پانی پت واپس جانا پڑا۔ کئی سال بے روزگاری اور پھر شیفتہ نے انھیں اپنے بچّوں کا اتالیق رکھ لیا اور حالی کی شاعرانہ ذہن سازی میں شیفتہ کی صحبت کا بھی بڑا دخل رہا۔ شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے۔ پھر دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرس ہو گئے اور اس عرصہ میں ان کی کتابیں بھی شایع ہوتی رہیں جن میں‌ "مقدمۂ شعر و شاعری” نے جدید تنقید کی بنیاد رکھی۔ نثر میں "حیاتِ جاوید” 1901ء میں شائع ہونے والی سر سیّد کی وہ سوانح عمری ہے جسے ایک دستاویز بلکہ مسلمانوں کی تہذیبی تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے۔ 1887ء میں 75 روپے ماہوار وظیفہ پانے لگے اور ملازمت سے مستعفی ہو کر پانی پت چلے گئے۔ 1904ء میں حکومت نے انھیں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔ حالی کو دائمی نزلہ لاحق تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس پر قابو پانے کے لیے افیون استعمال کی جاسکتی ہے اور حالی نے بھی یہ کیا، لیکن فائدہ کے بجائے نقصان ہوا۔ ان کی بصارت بھی دھیرے دھیرے زائل ہوتی گئی اور جسمانی پیچیدگیاں لاحق ہوئیں۔

    حالی نے عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کے لیے بہت کچھ لکھا۔ ان میں "مناجاتِ بیوہ” اور "چپ کی داد” مشہور ہیں۔ شاعری میں حالی نے غزلوں، نظموں اور مثنویوں کے علاوہ قطعات، رباعیات اور قصائد بھی لکھے۔

  • اسلام اور مزاح….

    اسلام اور مزاح….

    خواجہ الطاف حسین حالی اردو زبان و ادب اور برصغیر کے مسلمانوں کے ایک عظیم محسن ہیں۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت کو شاعر، نثر نگار، نقّاد اور مصلح قوم بھی مانا جاتا ہے جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔

    یہاں ہم مزاح کے عنوان سے حالی کے ایک نہایت معلوماتی، مفید اور اصلاحی مضمون سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں جسے پڑھ کر اس پر غور و فکر کرنا آج ہمارے لیے پہلے سے کہیں‌ زیادہ ضروری ہوگیا ہے اور اس کی روشنی میں‌ ہمیں‌ معاشرے میں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار، شخصیت اور رویّوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ اس مضمون میں غور کیا جائے تو ہم یہ جان سکیں گے کہ آج ہماری ذہنی پستی، گراوٹ اور اخلاقی حالت کے زوال کے اسباب کیا ہیں۔ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
    ” مزاح جب تک مجلس کا دل خوش کرنے کے لیے (نہ کہ کسی کا دل دکھانے کے لیے) کیا جائے، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا ایک سہانی خوشبو کی لپٹ ہے جس سے تمام پژ مردہ دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔

    ایسا مزاح فلاسفہ و حکما بلکہ اولیا و انبیا نے بھی کیا ہے۔ اس سے مرے ہوئے دل زندہ ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے تمام پژ مردہ کرنے والے غم غلط ہو جاتے ہیں۔ اس سے جودت اور ذہن کو تیزی ہوتی ہے اور مزاح کرنے والا سب کی نظروں میں محبوب اور مقبول ہوتا ہے۔ بَرخلاف اس کے جب وہ اس حد سے بڑھنے لگتا ہے تو دم بہ دم ہول ناک ہوتا ہے اور آخر کو اس سے بجائے محبّت کے دشمنی اور بجائے خوشی کے غم پیدا ہوتا ہے۔ وہ اخلاق کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ یا لکڑی کو گھن۔

    اسلام نے انسان کی تہذیب اور اصلاح میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اس نے مزاح کو صرف وہیں تک جائز رکھا ہے جس سے خوشی حاصل ہوتی ہو اور اخلاق پر برااثر نہ پڑتا ہو۔ آں حضرتﷺ فرماتے ہیں کہ ’’میں بھی مزاح کرتا ہوں، مگر کوئی بات بے جا نہیں کہتا۔‘‘ آپﷺ خود بھی کبھی کبھی مزاح فرماتے تھے اور اگر کوئی دوسرا شخص کوئی لطیف مزاح کرتا تھا تو مسکرا کر خاموش ہو جاتے تھے لیکن ہر وقت یا بہت مزاح کرنے کو ناپسند کرتے تھے اور سخریت و استہزا کی سخت ممانعت کرتے تھے۔

    یعنی کسی کی حقارت یا پردہ دری کرنی جس پر لوگ ہنسیں یا کسی کی نقل اتارنی یا کوئی اور ایسی بات کرنی جس سے دوسرا شخص ذلیل ہو اور فحش اور سب و لعن کو نہایت مبغوض سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ بتوں کو بھی سَب کرنے سے منع فرماتے تھے۔

    ایک بار چند آدمی کفّار کے ان مقتولوں کو جو بدر میں مارے گئے تھے برائی سے یاد کر رہے تھے، آپ سُن کر ناراض ہوئے اور ان کو سخت ممانعت کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ طعن کرنے والا، لعنت کرنے والا، فحش بکنے والا اور بے ہودہ گو مومن نہیں ہے۔

    آپﷺ کی ممانعت کا طریقہ ایسا مؤثر تھا کہ جس کو ایک مرتبہ نصیحت کی وہ ساری عمر کے لیے اس برائی سے باز آگیا۔ کتبِ احادیث میں اکثر مثالیں ایسے لوگوں کی موجود ہیں جنھوں نے صرف آپ کی ایک بار کی ممانعت پر تمام عمر فحش وغیرہ زبان سے نہیں نکالا۔

    مثلاً ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنے ماں باپ کو گالی دینا گناہِ عظیم ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا کہ ’’حضرت ایسا کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوگا؟‘‘

    فرمایا، ’’جو شخص کسی کو ماں باپ کی گالی دے کر اس سے اپنے ماں باپ کو گالیاں دلواتا ہے حقیقت میں وہی ان کا گالیاں دینے والا ہے۔‘‘

    اسلام کی یہ تعلیم عرب میں اس قدر پھیلی کہ فحش اور بے شرمی کی باتیں وہاں سے گویا بالکل مفقود ہو گئیں۔”

  • ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی غیر مذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔

    حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سیّد سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سر سیّد کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔ ہماری اس تحریر میں چند پردہ نشین مردوں کے نام بھی آئیں گے جو ظاہراً دوستی کا دَم بھرتے تھے، لیکن ان کے دل حالی سے صاف نہ تھے۔ بقول میر انیس ”میں نے تو ایک دل بھی نہ دیکھا جو صاف ہو۔“

    حالی کی مخالفت ادیبوں اور شاعروں کا مرغوب مشغلہ تھا۔ اگرچہ سر سیّد، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد اور علّامہ اقبال کی طرح حالی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا، مگر حالی کی شخصیت اور فن کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔

    مذہبی لوگ حالی کو سر سیّد کی بانسری اور نیچری کہتے تھے۔ حالی نے جو اُردو شاعری کی پاکیزگی کی مہم کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو کھلتا تھا کیوں کہ وہ حالی کو اہلِ دلّی اور لکھنؤ نہیں مانتے تھے، وہ حالی کو پانی پت کا ایک معمولی شاعر جانتے تھے۔

    ”دلّی دلّی کیسی دلّی، پانی پت کی بھیگی بلی“

    حالی کی مخالفت ان کی موضوعاتی نظموں سے شروع ہو چکی تھی۔ مسدسِ حالی کی عوام میں پذیرائی ان کے مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہو رہی تھی جو فن برائے فن وہ بھی بطور تفنّن کے قائل تھے۔ حالی ایسی شاعری کو عفونت میں سنڈاس سے بدتر بتا رہے تھے اور ایسے شاعروں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ تھے جیسا کہ انھوں نے مسدس میں اعلانیہ کہا تھا:

    یہ ہجرت جو کر جائیں شاعر ہمارے
    کہیں مِل کے خس کم جہاں پاک سارے

    مقدمہ شعر و شاعری میں چوما چاٹی کی شاعری پر شدید رد عمل نے لکھنؤ اور دلّی کے رومانی شعرا کو حالی کے مقابل کر دیا۔ درجنوں حالی کو دشنام اور نازیبا خطوط ملنے لگے۔ مختلف روزنامے اور رسالے مستقل طور پر حالی کے خلاف صف آرا ہو گئے جن میں حسرت موہانی کا اردوئے معلّیٰ اور سجاد حسین لکھنوی کا اودھ پنج پیش پیش تھے۔ حالی کے خلاف سوقیانہ ہجو لکھی جانے لگیں۔ اودھ پنج کے سرورق پر کئی سال تک یہ شعر چھپتا رہے:

    ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
    میدانِ پانی پت کی طرح پائمال ہے

    حالی کو خالی، جعلی، مالی، خیالی اور ڈفالی جیسے ناموں سے یا د کیا جانے لگا۔ لکھنؤ اور دلّی کے اہلِ زبان کہتے تھے، یہ پانی پتی شخص کس جرأت سے اہلِ زبان کے ہم زبان ہی نہیں بلکہ مسیحائے زبان ہونے کی کوششیں کررہا ہے۔ حالی ان تمام حملات کا خاموشی سے جواب دے رہے تھے اور ہمہ تن دن رات چمنستانِ شعر کی پاکیزگی میں مصروف تھے۔

    اردو دنیا اور دنیائے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معاصرین پر تخریبی تنقید نظر آتی ہے جیسے والٹیر کا حملہ شیکسپیئر پر، سودا کا حملہ میر پر، شیفتہ کا حملہ نظیر پر رجب علی بیگ کا حملہ میر امن پر وغیرہ۔ چنانچہ ہر ادب اور ہر دور میں تخریبی تنقید نظر آتی ہے۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سیّد صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلّیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔ حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے، مگر زینُ العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کر کے حسرت اور اُردوئے معلّیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے، کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے، حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔

    اتنے میں سیّد صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ”ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا، اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کردیتی تھی۔

    سچ تویہ ہے کہ لعن و طعن، گالی و شنام، طنز و اعتراضات کے طوفان کو حالی نے ایک نرالے طریقے سے زیر کیا۔

    کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چُپ
    سب کچھ کہا اُنھوں پر ہم نے دَم نہ مارا

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • زبان، دل کی امین اور روح کی ایلچی!

    زبان، دل کی امین اور روح کی ایلچی!

    اے میری بلبل ہزار داستان! اے میری طوطیِ شیوہ بیان! اے میری قاصد! اے میری ترجمان! اے میری وکیل! اے میری زبان، سب بتا۔ تُو کس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا ہے اور تیرے ہر پھل میں ایک نیا مزہ ہے۔

    کبھی تُو ایک ساحر، فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد، نہ جادو کا اتار۔ کبھی تو ایک افعیِ جاں گداز ہے، جس کے زہر کی دارو، نہ کاٹے کا منتر۔

    تُو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی اور کبھی اپنی شوخیوں سے ماں باپ کا دل دکھاتی تھی۔ تُو وہی زبان ہے کہ جوانی میں کہیں اپنی نرمی سے دلوں کا شکار کرتی تھی اور کہیں اپنی تیزی سے سینوں کو فگار کرتی تھی۔

    اے میری زبان دشمن کو دوست بنانا اور دوست کو دشمن کر دکھانا تیرا ایک کھیل ہے جس کے تماشے سیکڑوں دیکھے اور ہزاروں دیکھنے باقی ہیں۔

    ارے میری بنی بات کی بگاڑنے والی، میرے بگڑے کاموں کو سنوارنے والی۔ روتے کو ہنسانا اور ہنستے کو رلانا، روٹھے کو منانا اور بگڑے کو بنانا نہیں معلوم تُو نے کہاں سیکھا؟ اور کس سے سیکھا؟ کہیں تیری باتیں بِس کی گانٹھیں ہیں۔ اور کہیں تیری بول شرب کے گھونٹ ہیں۔ کہیں تُو شہد ہے اور کہیں حنظل۔ کہیں تو زہر ہے اور کہیں تریاق۔

    اے زبان ہمارے بہت سے آرام اور بہت سی تکلیفیں۔ ہمارے ہزاروں نقصان اور ہزاروں فائدے، ہماری عزت، ہماری ذلّت۔ ہماری نیک نامی، ہماری بدنامی، ہمارا جھوٹ، ہمارا سچ تیری ایک ہاں اور ایک نہیں پر موقوف ہے۔ تیری اس ہاں اور نہیں نے کروڑوں کی جانیں بچائیں اور لاکھوں کا سَر کٹوایا۔

    اے زبان تُو دیکھنے میں تو ایک پارۂ گوشت کے سوا نہیں، مگر طاقت تیری نمونۂ قدرتِ الٰہی ہے۔ دیکھ اس طاقت کو رائیگاں نہ کر۔ اور اس قدرت کو خاک میں نہ ملا۔ راستی تیرا جوہر ہے اور آزادی تیرا زیور۔ دیکھ اس جوہر کو برباد نہ کر اور اس زیور کو زنگ نہ لگا۔

    تُو دل کی امین ہے اور روح کی ایلچی۔ دیکھ دل کی امانت میں خیانت نہ کر۔ اور روح کے پیغام پر حاشیے نہ چڑھا۔

    اے زبان! تیرا منصب بہت عالی ہے اور تیری خدمات نہایت ممتاز۔ کہیں تیرا خطاب کاشفِ اسرار ہے اور کہیں تیرا لقب محرمِ راز۔ علم ایک خزانہ غیبی ہے۔ اور دل اس کا خزانچی۔ حوصلہ اس کا قفل ہے۔ اور تو اس کی کنجی دیکھ اس قفل کو بے اجازت نہ کھول۔ اور اس خزانے کو بے مواقع نہ اٹھا۔ وعظ و نصیحت تیرا فرض ہے اور تلقین و ارشار تیرا کام۔

    ناصحِ مشفق تیری صفت ہے اور مرشد بَرحق تیرا نام۔ خبردار! اس نام کو عیب نہ لگانا اور اس فرض سے جی نہ چرانا، ورنہ یہ منصب عالی تجھ سے چھن جائے گا اور تیری بساط میں وہی ایک گوشت کا چھچڑا رہ جائے گا۔ کیا تجھ کو یہ امید ہے کہ تو جھوٹ بھی بولے اور طوفان بھی اٹھائے۔ تُو غیبت بھی کرے اور تہمت بھی لگائے۔ تُو فریب بھی دے اور چغلیاں بھی کھائے اور پھر وہی زبان کہلائے۔ نہیں! ہرگز نہیں!

    اگر تُو سچی زبان ہے تو زبان ہے، ورنہ زبوں ہے بلکہ سراسر زیاں ہے۔ اگر تیرا قول صادق ہے تو شہد فائق ہے، ورنہ تھوک دینے کے لائق ہے۔ اگر تو راست گفتار ہے تو ہمارے منہ میں اور دوسروں کے دلوں میں جگہ پائے گی ورنہ گدی سے کھینچ کر نکالی جائے گی۔

    اے زبان! یاد رکھ ۔ ہم تیرا کہا نہ مانیں گے اور تیرے قابو میں ہرگز نہ آئیں گے۔ ہم تیری ڈور ڈھیلی نہ چھوڑیں گے اور تجھے مطلق العنان نہ بنائیں گے۔ ہم جان پر کھیلیں گے، پَر تجھ سے جھوٹ نہ بلوائیں گے۔ ہم سَر کے بدلے ناک نہ کٹوائیں گے۔

    الٰہی! اگر ہم کو رخصتِ گفتار ہے تو زبان راست گفتار دے اور دل پر تجھ کو اختیار ہے، زبان پر ہم کو اختیار دے۔ جب تک دنیا میں رہیں سچّے کہلائیں۔ اور جب تیرے دربار میں آئیں تو سچّے بن کر آئیں (آمین)

    (انشائیہ از خواجہ الطاف حسین حالی)

  • مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے!

    مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے!

    سر سیّد احمد خان ہندوستان میں جس تحریک کے علم بردار تھے، الطاف حسین حالی اسی کے نقیب تھے۔

    سرسؔید نے اردو نثر کو جو وقار اور اعلیٰ تنقید کے جوہر عطا کیے تھے، حالی کے مرصع قلم نے انھیں چمکایا۔ حالی کی انشا پردازی، مضمون اور سوانح نگاری کے کئی نمونے اردو ادب میں‌ یادگار ہیں۔

    سر سیّد کی رفاقت اور صحبت میں‌ حالی کو ان کی زندگی کے مختلف ادوار کو سمیٹنے کا موقع بھی ملا اور انھوں نے اسے حیاتِ جاوید میں‌ اکٹھا کردیا۔ سر سیّد کی ایک یاد حالی نے یوں‌ رقم کی ہے۔

    تیر اندازی کی صحبتیں بھی سر سیّد کے ماموں نواب زین العابدین خان کے مکان پر ہوتی تھیں۔

    وہ (سر سیّد) کہتے تھے کہ "مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیر اندازی ہوتی تھی، یاد نہیں۔ مگر جب دوبارہ تیر اندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔

    اس زمانہ میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد تیر اندازی شروع ہوتی تھی۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں، نواب سید عظمت اللہ خاں، نواب ابراہیم علی خاں اور چند شاہ زادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔

    نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھرکہ جب دلّی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں تیر اندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہو گئی تھی۔

    مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میرا نشانہ جو تودے میں نہایت صفائی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا، ” مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے!”

    یہ جلسہ برسوں تک رہا، پھر موقوف ہو گیا۔”

  • سر سیّد احمد خان اور تیراکی

    سر سیّد احمد خان اور تیراکی

    گرمی اور برسات کے موسم میں اب بھی دلّی کے اکثر باشندے سہ پہر کو جمنا پر جا کر پانی کی سیر دیکھتے ہیں اور تیرنے والے تیرتے بھی ہیں مگر پچاس برس پہلے وہاں اشراف تیرنے والوں کے بہت دل چسپ جلسے ہوتے تھے۔

    سر سید کہتے تھے کہ "میں نے اور بڑے بھائی نے اپنے والد سے تیرنا سیکھا تھا۔ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ ایک طرف دلّی کے مشہور تیراک مولوی علیم اللہ کا غول ہوتا تھا جن میں مرزا مغل اور مرزا طفل بہت سربرآوردہ اور نامی تھے اور دوسری طرف ہمارے والد کے ساتھ سو سوا سو شاگردوں کا گروہ ہوتا تھا۔ یہ سب ایک ساتھ دریا میں کودتے تھے اور مجنوں کے ٹیلے سے شیخ محمد کی بائیں تک یہ سارا گروہ تیرتا جاتا تھا۔

    پھر جب ہم دونوں بھائی تیرنا سیکھتے تھے، اس زمانہ میں بھی تیس چالیس آدمی والد کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان ہی دنوں میں نواب اکبر خاں اور چند اور رئیس زادے بھی تیرنا سیکھتے تھے۔

    زینۃ المساجد کے پاس نواب احمد بخش خاں کے باغ کے نیچے جمنا بہتی تھی، وہاں سے تیرنا شروع ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت سب تیراک زینۃ المساجد میں جمع ہو جاتے تھے اور مغرب کی نماز جماعت سے پڑھ کر اپنے اپنے گھر چلے آتے تھے۔ میں ان جلسوں میں اکثر شریک ہوتا تھا۔”

    (الطاف حسین حالی کی کتاب "سر سیّد کی کہانی سر سیّد کی زبانی” سے انتخاب)

  • جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    شمسُ العلما مولانا نذیر احمد کی نسبت ایک ناواقف آدمی نے ان (سرسیّد) کے سامنے گویا شکایت کرتے ہوئے کہا کہ باوجود مقدور ہونے کے انہوں نے قومی تعلیم میں کچھ مدد نہیں دی۔

    سر سید نے بدمزہ ہو کر ان کے چندوں کی تفصیل بیان کی جو وہ ابتدا سے مدرسے کو دیتے رہے اور جو مقبولیت اور رونق ان کے لیکچروں سے ایجوکیشنل کانفرنس کو ہوئی، اس کا ذکر کر کے کہا۔ یہ شخص ہماری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، اس کی نسبت پھر ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا۔

    الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے ایک اور واقعہ رقم کیا ہے۔

    دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصولی کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی تخصیص نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔

    ایک بار سر سید نے ایک اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا۔ اس نے بہت روکھے پن سے جواب دیا۔ آپ کو اس کام کے لیے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہیے۔ سر سید نے کہا۔
    بے شک ہمیں قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ انسٹیٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو ان کے لیے اس سے زیادہ ذلت کی بات نہ ہو گی کہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔
    وہ انگریز یہ سن کر شرمندہ ہوا اور بیس روپے سر سیّد کو بطور چندہ دے دیا۔