Tag: العزیزیہ اسٹیل ملز

  • آج نواز شریف اور آصف زرداری دونوں بے نقاب ہو چکے: فواد چوہدری

    آج نواز شریف اور آصف زرداری دونوں بے نقاب ہو چکے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آج پاکستان میں بہت بڑے مافیا بے نقاب ہو چکے ہیں، یہ مافیا نواز شریف اور آصف زرداری ہیں۔

    فواد چوہدری نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نے نواز شریف کو طویل سماعت کے بعد سزا سنائی، پاناما لیکس کا معاملہ اپریل 2016 میں سامنے آیا تھا، عمران خان کی قیادت میں پاناما کیس کے لیے طویل سیاسی جدوجہد لڑی۔

    [bs-quote quote=”نواز شریف کے دور میں اکنامک ریفارمز ایکٹ آیا جس کا نا جائز استعمال ہوا، ریفارمز کے ذریعے کوئی ادارہ پوچھ نہیں سکتا تھا کہ پیسا کہاں سے آیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”فواد چوہدری”][/bs-quote]

    وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہل میٹل کیس میں آج نواز شریف کو 7 سال اور 25 ملین ڈالر جرمانے کی سزا ہوئی ہے، فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں ٹیکنیکل بنیاد پر بری کیا گیا، کیوں کہ رقم حسن نواز کو منتقل ہو گئی تھی، حسن نواز کے گرفتار ہونے کے بعد ہی فلیگ شپ ریفرنس آگے بڑھے گا۔

    فواد چوہدری نے کہا ’2010 تک ہل میٹل مل ڈھائی لاکھ تک خسارے میں تھی، 2010 میں پنجاب میں ن لیگ کی حکومت آئی تو مل نے سونے کے انڈے دینا شروع کر دیے، مل کے ذریعے نواز شریف کو 9 لاکھ ڈالر براہ راست نواز شریف کو بھجوائے گئے، ان کے اکاؤنٹس سے 83 کروڑ مریم نواز کے اکاؤنٹ میں گیا۔‘

    انھوں نے کہا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور پھر ٹرائل کورٹ میں صفائی کا موقع ملا، لیکن وہ کہیں بھی ذرائع آمدن پر منی ٹریل نہیں دے سکے، کسی بھی فورم پر اپنے پیسوں کی وضاحت نہ کر سکے۔


    یہ بھی پڑھیں:  العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کو سات سال قید کی سزا، کمرہ عدالت سے گرفتار


    وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں آصف زرداری کے کیس کی بھی تفصیلات سامنے آئی ہیں، ’ٹھگز آف پاکستان ٹو‘ اومنی گروپ اور دیگر کا کیس ہے۔ منی لانڈرنگ کے لیے جعلی کمپنیاں بنائی گئیں جو پیسوں کی رولنگ کر رہی تھیں۔

    فواد چوہدری نے کہا ’نواز شریف کے دور میں اکنامک ریفارمز ایکٹ آیا جس کا نا جائز استعمال ہوا، ریفارمز کے ذریعے کوئی ادارہ پوچھ نہیں سکتا تھا کہ پیسا کہاں سے آیا، 2015 تک کئی ملین ڈالرز نواز شریف کے اکاؤنٹس میں بھجوائے جاتے رہے، نیب سیکشن 9 کے تحت پیسا کہاں سے آیا نہیں بتایا گیا تو یہ کرپشن تصور ہوگی۔ اگر پیسا کرپشن کا نہیں تو اس کی رسیدیں موجود ہوتیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ میں بھی پاکستان کے لوگوں کا پیسا لگا ہے، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف نیب خود فیصلہ کرے گا۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کو سات سال قید کی سزا، کمرہ عدالت سے گرفتار

    العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کو سات سال قید کی سزا، کمرہ عدالت سے گرفتار

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنادیا گیا ہے،  نواز شریف کو العزیزیہ میں مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتار کرلیا ہے، ان کی درخواست پر انہیں لاہور کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے معززجج محمد ارشد ملک نےسابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا مختصرفیصلہ سنایا، انہیں فلیگ شپ میں بری کیا گیا ہے جبکہ العزیزیہ میں سات سال کی سزا سنائی گئی ہے۔

    احتساب عدالت سے سزا پانے والے مجرمان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا جاتا ہے، نواز شریف نے استدعا کی تھی کہ انہیں لاہور  منتقل کیا جائے۔ احتساب عدالت نےنواز شریف کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اب اڈیالہ کے بجائے لاہور منتقل کیا جائے گا۔اس حوالے سے نیب کے حکام کا موقف تھا کہ ریفرنس یہاں فائل کیا گیا ہے تو انہیں یہیں کی جیل میں رکھا جائے۔

    فیصلے کے اہم نکات


    • نواز شریف کو العزیزیہ سات سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے
    • ڈھائی کروڑ ڈالر کا ایک جرمانہ عاید کیا گیا ہے۔
    • ڈیڑھ ارب ملین کا جرمانہ الگ سے عاید کیا گیا ہے
    •  نواز شریف کی پاکستان میں موجود تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے
    • ساتھ ہی ساتھ انہیں دس سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نا اہل قراردیا گیا ہے۔
    • احتساب عدالت کے اس فیصلے میں نواز شریف کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کوبھی مفرور مجرم قراردیتے ہوئے دائمی وارنٹ جاری کردیے ہیں

     ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو نواز شریف اور ان کی ٹیم العزیزیہ ریفرنس میں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو دوسری جانب نیب بھی فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا سوچ رہی ہے۔

    اس موقع پر مسلم لیگ (ن) سینئر رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی احتساب عدالت کے باہر موجود تھی، جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، احسن اقبال، مرتضی جاوید عباسی، رانا تنویر، راجا ظفر الحق، مشاہد اللہ خان اور خرم دستگیر سمیت دیگر شامل ہیں۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں پیش کردہ شواہد اور وکلا کی جرح کے بعد فیصلہ 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔ العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں۔

    نوازشریف مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار جج محمد بشیر اور 60 مرتبہ محمد ارشد ملک کی عدالت میں پیش ہوئے۔

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    یاد رہے کہ 19 دسمبر کو احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کی جانب سے 24 دسمبر کو ڈیڈ لائن مقرر کرنے کے سبب کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    کیس کا پس منظر


    سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان  کے خلاف تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں، جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پاناما لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔

    کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

    بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

  • نوازشریف کے خلاف ریفرنسز پرفیصلہ کل سنایا جائے گا

    نوازشریف کے خلاف ریفرنسز پرفیصلہ کل سنایا جائے گا

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کا محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کل فیصلہ سنائیں گے جبکہ نوازشریف خود بھی عدالت جائیں گے۔ العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

    احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں۔

    نوازشریف مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار جج محمد بشیر اور 60 مرتبہ محمد ارشد ملک کی عدالت میں پیش ہوئے۔

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا


    یاد رہے کہ 19 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    کیس کا پس منظر


    سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکل اس وقت شروع ہوئی جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پاناما لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔

    کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

    بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں معزز جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کی۔

    نیب نے مقدمے میں شہادتیں مکمل ہونے سے متعلق عدالت کوآگاہ کردیا ، ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب سردارمظفرنے شہادتیں مکمل ہونے کا بیان دیا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے آج کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل


    نیب پراسیکیوٹرواثق ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس وائٹ کالرکرائم کا ہے،عام کیس نہیں، یہ بڑے منظم طریقے سے کیا گیا جرم ہے۔

    معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کا بیان کل یوایس بی میں فراہم کر دیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ نےکل بھی یہ ہی کہنا ہے کہ مکمل نہیں ہوسکا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یوایس بی میں عدالت کو بیان فراہم کرنے کا مقصد ٹائم بچانا ہے۔

    نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کا علم پاناما لیکس کے بعد ہوا، سپریم کورٹ میں کیس سے پہلے اثاثوں کو ظاہرنہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان کو سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور نیب میں وضاحت کا موقع ملا، ملزمان کی طرف سے پیش کی گئی وضاحت جعلی نکلی۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ کیس میں جس جائیداد کا ذکر ہے وہ تسلیم شدہ ہے، ملزم نے بے نامی دار کے
    ذریعے اثاثے چھپائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیس کی تحقیقات میں یہ سوال اٹھایا گیا یہ اثاثے بنائے کیسے گئے، 2001 میں العزیزیہ کی ویلیو6 ملین ڈالراور2005میں ہل میٹل کی ویلیو5 ملین پاؤنڈ بتائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ 2010 سے2017 میں 187.1ملین کی رقم نوازشریف کوبھیجی گئی، کسی بھی جگہ پرملزمان کی طرف سے ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیرون ممالک سے بھی تعاون اس طرح سے نہیں ملا جوملنا چاہیے تھا، ریاست ماں کی طرح ہے، اسے سوال پوچھنے کا حق حاصل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہرفورم پرملزمان کا موقف بدلتا رہا، کیس کو نیارخ دینے کی کوشش کی گئی، حکمرانوں کے پاس اتنی زیادہ دولت اکٹھی ہوجائے توسوال پوچھا جاتا ہے۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ حکمرانوں سے سوال پوچھنے کی روایت خلفائے راشدین کے دورسے چلی آ رہی ہے، جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ یہاں بھی توجواب ہی دیا ہے کہ ہماری طرف سے جواب ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اس کیس میں ملزم نے ہرپلیٹ فارم پرالگ رخ سے بیان دیا، اس کیس کی تفتیش 2 اگست 2017 سے شروع ہوئی۔

    واثق ملک نے کہا کہ کیس کے تفتیشی افسرمحبوب عالم تھے، 3ملزمان ہیں، یہ ریفرنس 15 ستمبر 2017 کو دائرہوا، اس کیس میں چارج فریم 19 اکتوبر2017 کو ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ اس کسی میں ضمنی ریفرنس 14 فروری 2018 کو دائر ہوا، اس ریفرنس میں ٹوٹل 26 گواہان تھے، 22 کا بیان ریکارڈ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کیس بینفشل آنراوربےنامی دارسے متعلق ہے، یہ وہ کیس نہیں کہ اس کا کوئی مالک نہیں، اس کیس سے جڑے تمام افراد کواپنے دفاع کے لیے مواقع ملے۔

    واثق ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کودفاع میں ثبوت دینے کے لیے موقع دیا، پھربات جےآئی ٹی تک آ گئی اورنیب میں وضاحت پیش کرنے کا موقع ملا۔

    انہوں نے کہا کہ اس کیس میں جومنی ٹریل پیش کی گئی وہ غلط ثابت ہوئی، اس کیس میں تمام اثاثے مانے گئے ہیں کہ ہمارے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں اصل مالک کوچھپایا گیا ہے، یہ کیس ملزم نوازشریف کے خلاف ہے، کیس اس کے خلاف ہے جو 3 مرتبہ وزیراعظم، 2 بار وزیراعلی، وزیرخزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہا۔

    واثق ملک نے بتایا کہ گواہ جہانگیراحمد نے تینوں ملزمان کا 1996 سے 2016 کا ٹیکس ریکارڈ پیش کیا جبکہ گواہ طیب معظم نے نوازشریف کے 5 اکاؤنٹس کا ریکارڈ پیش کیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ اکاؤنٹس پاکستانی روپےاورغیرملکی کرنسی کے تھے، ان اکاؤنٹس سے پتہ چلتا ہے کتنی رقم آئی اور گئی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یاسرشبیرنے نوازشریف اورمریم کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں جبکہ سدرہ منصور نے مہران رمضان ٹیکسٹائل کا ریکارڈ پیش کیا۔

    واثق ملک نے کہا کہ نورین شہزادی نے نوازشریف، حسین نوازکے اکاؤنٹ اوپننگ فارم پیش کیے، حسین نواز کے اکاؤنٹ میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سےترسیلات کا ریکارڈ دیا۔

    انہوں نے کہا کہ گواہ شیراحمد خان نے ملزمان کے اکاؤنٹس کی جائزہ رپورٹ پیش کی، ہل میٹل کا 97 فیصد منافع پاکستان بھجوایا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب مل کم منافع کما رہی تھی توبھی زیادہ پیسے بھجوائے جا رہے تھے، معزز جج محمد ارشد ملک نے استفسار کیا کہ نیب نے ان رقوم کو منجمد کیا یا کچھ بھی نہیں؟۔

    معزز جج نے سوال کیا کہ کیا یہ رقوم اب بھی بینک میں موجود ہیں؟ نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اب تو اکاؤنٹس میں بہت کم رقوم موجود ہیں ، منجمد نہیں کی گئی۔

    نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں 3 پٹیشن دائر کی گئیں، ایک پٹیشن عمران خان، دوسری شیخ رشید اور تیسری سراج الحق نے دائرکی۔

    واثق ملک نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن دائر ہوئیں تو ملزمان کی جانب سےسی ایم ایزجمع کرائی گئیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے ایک سی ایم اے جے آئی ٹی کے بعد فائل کی گئی، سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو فیصلہ دیا اور جے آئی ٹی بنائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کوسوالات دیے گئے جن کی معلومات حاصل کرنی تھی، جے آئی ٹی نے 2 ماہ میں رپورٹ جمع کرانی تھی۔

    واثق ملک نے کہا کہ ملزمان نےعدالت اورتحقیقاتی کمیٹی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، ملزمان دسمبر 2000 میں سعودی عرب منتقل ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پاکستان سے جانے کے کچھ عرصے بعد العزیزیہ اسٹیل قائم کی گئی، ملزمان خود کہتے ہیں پاکستان سے خالی ہاتھ سعودی عرب گئے۔

    احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ جلدی سے اپنے دلائل ختم کریں ، پھروکیل صفائی کے دلائل سننے ہیں، دونوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوگا۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے خطاب میں کہا العزیزیہ کے لیے سعودی بینکوں سے قرض لیا، نوازشریف نے کہا العزیزیہ کچھ عرصے کے بعد فروخت کردی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ ناجائزذرائع سے پیسہ کمانے والے اپنے نام کمپنیاں نہ اثاثے بناتے ہیں، نوازشریف کے بیان کوبچوں کے کفالت میں ہونے کے تناظرمیں پیش کرتا ہوں۔

    معزز جج نے ریمارکس دیے کہ نا جائزدولت ہوتی تو حسین نوازاپنے نام پرکمپنی نہ بناتے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نےکہا العزیزیہ مل 64 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

    واثق ملک نے کہا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ پاناماکیس کے آخرمیں ظاہر کی گئی، سعودی عرب سے آنے والی رقوم سے متعلق سوال پرایچ ایم ای کو ظاہر کیا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے وقت صرف ایون فیلڈ فلیٹس کا معاملہ تھا، حسین نوازکا انٹرویواثاثوں سے متعلق تھا۔

    انہوں نے کہا کہ حسین نوازنے بتایا العزیزیہ فروخت ہوئی تو ایون فیلڈ فلیٹس خریدے، حسین نواز نے کہا 2005 میں اثاثوں کی تقسیم کے بعد والد کا کاروبارسے تعلق نہیں۔

    واثق ملک نے کہا کہ حسین نوازکے بیان سے ظاہرہے 2005 سے پہلے نوازشریف کا کاروبار سے تعلق تھا، حسین نوازنے کہا کہ شرعی طورپرمیرا سارا کچھ میرے والد کا ہے۔

    فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو سوال نامہ فراہم کر دیا گیا


    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کو تحریری سوال نامہ فراہم نہ کرنے اور پہلے دفاع کو حتمی دلائل دینے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے نیب کی دونوں درخواستوں کومسترد کردیا تھا۔

    احتساب عدالت کی جانب سے گزشتہ روز نواز شریف کو 342 کے تحت بیان قلمبند کروانے کے لیے سوال نامہ فراہم کردیا گیا تھا۔ نواز شریف کو دیا گیا سوال نامہ 62 سوالات پر مشتمل ہے۔

  • نوازشریف کی 3 دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    نوازشریف کی 3 دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف طبعیت کی ناسازی کے باعث اسلام آباد روانہ نہیں ہوسکے۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے نوازشریف کی 5 دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف اہلیہ کے انتقال کے باعث دکھ اور کرب میں ہیں، 5روز کے لیےحاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد میاں صاحب کو ایڈجسٹمنٹ میں تھوڑا وقت لگے گا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، ہم یہاں موجود ہیں، نواز شریف کی جانب سے ابراہیم ہارون نمائندے کے طور پر پیش ہوں گے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کی 3 دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    یاد رہے کہ 19 ستمبر کو احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے درمیان گرما گرمی دیکھی گئی تھی۔

    خواجہ حارث نے ایم ایل اے کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی تھی جس پر عدالت نے دلائل کے بعد دستاویزات کی فہرست کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تھا۔

    نوازشریف کےخلاف ریفرنسزکی سماعت 6 ہفتوں میں مکمل کرنےکا حکم

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاورفلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتے کی مہلت دی تھی۔

  • نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر کی صبح 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت نمبرٹو کے جج ملک ارشد نے نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا جبکہ نیب کے گواہ واجد ضیاء بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرگواہ واجد ضیاء نے کہا کہ خواجہ صاحب مکمل تکنیکی ٹرمزسے متعلق سوالات کررہے ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی نے سعودی حکام سے فنانشل اسٹیٹمنٹ مانگی تھی؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے مجھے ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سعودی حکام کولکھا گیا ایم ایل اے والیم 10میں موجود ہے، والیم 10 سیلڈ ہے اوراس وقت میرے پاس دستیاب نہیں ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیٹ پرافٹ سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے ایسا کچھ پیش نہیں کیا، دکھا دیں کہاں پیش کیا ؟۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ جب دستاویزات آپ نے نہیں دیں تو پھران پر جرح کیوں کررہے ہیں؟۔

    گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ کومہ اور فل اسٹاپ لگا نے سے بھی معنی تبدیل ہو جاتا ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت غلطیاں ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ جب رپورٹ کو حتمی شکل دے رہے تھے تواورکون موجود تھا؟ جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی ممبران رپورٹ کی تصحیح کر رہے تھے۔

    جیل نے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سیکیورٹی خدشات ہے نوازشریف کوکل پیش نہیں کرسکتے، کل اسلام آباد میں ایک دھرنا ہونے جا رہا ہے۔

    معزز جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو دوبارہ 3 ستمبر کو کرنے کا حکم دے دیا۔

    احتساب عدالت میں خواجہ حارث نے آج کی کارروائی کے خلاف بھی درخواست کردی جس کی سماعت پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے کہا کہ خواجہ حارث کو عدالت چھوڑ کر جانا نہیں چاہیئے تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کے ساتھ ہم نے حسین نواز سے متعلق سوال کا جواب دیا، عدالت نے مخالف فریق کو بہت لچک دی۔

    کورٹ میں نواز شریف کے وکلا اور نیب وکلا کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی۔ نواز شریف کے معاون وکیل نے کہا کہ اونچا بولنے سے کچھ نہیں ہوگا۔

    پراسکیوٹرجنرل نیب نے کہا کہ تماشے نہ کریں، یہاں بدمعاشی نہیں چلے گی۔

    احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی استدعا منظور کرلی جس کے بعد العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر کی صبح 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آپ ہردو منٹ بعد بیچ میں نہ بولیں جس پرنیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ جہا ں پرضرورت ہوگی وہاں پرمیں بولوں گا۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی کا کہنا تھا کہ جن سوالوں کا کیس سے تعلق نہیں وہ سوال آپ نہ کریں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ایک سوال بار بار کررہے ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ جو سوال کررہا ہوں اگرغیرمتعلقہ ہیں توبعد میں نکال دیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ مجھے فرد جرم پڑھنے دیں استغاثہ کا کیس سمجھ آجائے گا۔

    نوازشریف کےخلاف ریفرنسزکی سماعت 6 ہفتوں میں مکمل کرنےکا حکم

    واضح رہے کہ تین روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتے کی مہلت دی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت نمبرٹو کے جج ملک ارشد نے نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا جبکہ نیب کے گواہ واجد ضیاء بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء سے کہا کہ نیٹ پرافٹ کا سوال ہے جوان کومعلوم ہے بتا دیں۔

    گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ سوال غیرمتعلقہ ہے جس پرخواجہ حارث نے کہا کہ میرے پاس اختیار ہے کہ کیش فلوسے متعلق سوال پوچھوں۔

    خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ ہردو منٹ بعد بیچ میں نہ بولیں جس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جہا ں پرضرورت ہوگی وہاں پرمیں بولوں گا۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے کہا کہ جن سوالوں کا کیس سے تعلق نہیں وہ سوال آپ نہ کریں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سوال بار بار کررہے ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جو سوال کررہا ہوں اگرغیرمتعلقہ ہیں توبعد میں نکال دیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے فرد جرم پڑھنے دیں استغاثہ کا کیس سمجھ آجائے گا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پروسیڈنگ فرد جرم کی روشنی میں آگے بڑھتی ہے، فرد جرم سے باہرنہیں جاسکتے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جےآئی ٹی میں کیش فلوکا معاملہ زیربحث آیا، مجھے کیش فلو کا مطلب سمجھ آ گیا تھا، جےآئی ٹی رکن عامر عزیزنے ہمیں کیش فلوسے متعلق سمجھایا۔

    معزز جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ سادہ الفاظ کا استعمال کریں تاکہ مجھے بھی سمجھ آئے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ کے پاس ہل میٹل کے آپریشن،حاصل کیش سے متعلق مواد ہے جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ اس متعلق کوئی قابل اعتباردستاویزات نہیں ملیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جنوری تاجولائی2011 کا کیش فلو ایک سورس دستاویزکے ذریعے ملی، دوران دلائل نیب پراسیکیوٹرکی مداخلت پرخواجہ حارث نشست پر بیٹھ گئے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جو اکاؤنٹ میں نے تیار ہی نہیں کیے ان کا جواب کیسے دوں؟ یہ جے آئی ٹی کی پروڈکٹ نہیں ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جرح کیا 100صفحات پر کی جارہی ہے؟ جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا کہ ابھی تو 100صفحات بھی نہیں ہوئے۔

    بعدازاں احتساب عدالت سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روز نوازشریف کے وکیل نے دوران سماعت گواہ واجد ضیاء کو بددیانت کہا تھا جس پر نیب پراسیکیوٹرکا کہن تھا کہ عدالت میں کسی کو بد دیانت کہنا غلط ہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں جس پرواجد ضیاء نے کہا تھا کہ آپ نےمجھے بد دیانت کہہ دیا توالفاظ واپس نہ لیں۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ آپ ایک بات کہہ دیتے ہیں بعد میں معذرت کر تے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا تھا کہ اگرآپ کو قبول نہیں تو میں اپنے الفاظ پرقائم ہوں۔

    معزز جج نے ریمارکس دیے تھے کہ حسین نوازعدالت میں موجود نہیں ہیں، مسئلے کو اٹھانےکی ضرورت نہیں ہے جس پرنوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ واجد ضیاء کے بیان سے حسین نواز کا ذکر نکال دیں تو بچتا کیا ہے؟۔

    نوازشریف کےخلاف ریفرنسزکی سماعت 6 ہفتوں میں مکمل کرنےکا حکم

    واضح رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتے کی مہلت دی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت نمبرٹو کے جج ملک ارشد نے نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا جبکہ نیب کے گواہ واجد ضیاء بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ 22 جون 2017 کا قطری خط لکھنے سے قبل حسین کا بیان قلمبند ہوچکا تھا؟۔

    جے آئی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی بالکل خط لکھنے سے قبل حسین نوازکا بیان قلمبند ہو چکا تھا۔

    نوازشریف کے وکیل نے دوران سماعت گواہ واجد ضیاء کو بددیانت کہا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ کسی کو بد دیانت کہنا غلط ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں جس پرواجد ضیاء نے کہا کہ آپ نےمجھے بد دیانت کہہ دیا توالفاظ واپس نہ لیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ آپ ایک بات کہہ دیتے ہیں بعد میں معذرت کر تے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگرآپ کو قبول نہیں تو میں اپنے الفاظ پرقائم ہوں۔

    معزز جج نے ریمارکس دیے کہ حسین نوازعدالت میں موجود نہیں ہیں، مسئلے کو اٹھانےکی ضرورت نہیں ہے جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا کہ واجد ضیاء کے بیان سے حسین نواز کا ذکر نکال دیں تو بچتا کیا ہے؟۔

    گواہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ ایسا آرڈر نہیں کہ ذمے دار بندے کا نام ہم ظاہرنہیں کرسکتے جس پراحتساب عدالت کے جج نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 10 جولائی 2017 کے حکم نامے کی کاپی ریکارڈ پرلائیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت پرمعزز جج ارشد ملک نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 6 ہفتے کا وقت لے کر آگئے ہیں پھرجس پرانہوں نے جواب دیا کہ میں نے نہیں لیا وہ توسپریم کورٹ نے 6 ہفتے کا وقت دیا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل کی جانب سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے تھے کہ سماعت 4 سے 5 بجے تک جاری رہے گی، اگر12 یا ایک بجے تک سماعت کریں گے تو6 ہفتے میں ریفرنس کیسے ختم ہوگا۔

    نوازشریف کےخلاف ریفرنسزکی سماعت 6 ہفتوں میں مکمل کرنےکا حکم

    واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتے کی مہلت دی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 27 اگست تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 27 اگست تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 27 اگست تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت نمبرٹو کے جج ملک ارشد نے نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد واپس جیل بھجوا دیا گیا۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری موجودگی میں استغاثہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ ایک ساتھ کیا جائے، جج احتساب عدالت نےکہا تھا میں باقی 2 ریفرنس نہیں سن سکتا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسرمحبوب عالم کا بیان آخرمیں ریکارڈ کرایا جائے۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے احتساب عدالت کو دیا گیا ٹرائل کا وقت آج ختم ہوگیا۔

    احتساب عدالت کے جج ملک ارشد نے کہا کہ رجسٹراراحتساب عدالت آج سپریم کورٹ کوخط لکھ دیں۔

    معززجج نے کہا کہ احتساب عدالت نمبر2 کو ریفرنس گزشتہ ہفتے منتقل ہوا، ریفرنس منتقلی سے متعلق سپریم کورٹ کو خط کے ذریعے آگاہ کریں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرتفتیشی افسر محبوب عالم کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ نواز شریف سنہ 81 سے2017 تک اہم عہدوں پر فائز رہے۔

    نواز شریف، شریف خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔ حسن اور حسین نواز نواز شریف کے زیر کفالت تھے۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ سال 2000 تک حسن نواز اور حسین نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔

    محبوب عالم کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے حربے کے طور پر خاندان کے نام شیئرز رکھنا شروع کیے۔ 2002 – 2001 تک اثاثوں کی مالیت 50.49 ملین ڈالرز کو عبور کر چکی تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزمان نے بیرون ملک جائیداد ظاہر کی نہ رقم منتقل کرنے کا طریقہ بتایا۔

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت 20 اگست تک ملتوی

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو بھی آج طلب کر رکھا ہے۔

  • العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں منظور

    العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں منظور

    اسلام آباد: العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں منظور کرلی گئی ہیں، ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواستیں منظور کی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق درخواستیں منظور ہونے پر احتساب عدالت کے جج ریفرنسز کی سماعت نہیں کریں گے، ریفرنسز کی سماعت اب احتساب عدالت کے کورٹ روم 2 کے جج کریں گے۔

    واضح رہے کہ نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے بعد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، ہائیکورٹ ڈویژن بنچ نے ریفرنسز منتقلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، ڈویژنل بنچ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا۔

    قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پرمشتمل دو رکنی بنیچ نوازشریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست پرسماعت کررہا ہے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب بتائیں کیا فیئرٹرائل کا حق نہیں مل رہا۔

    جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزارکی استدعا ہے ریفرنسزدوسرے جج کومنتقل کیے جائیں، درخواست گزارریفرنسزکا ٹرائل یا ایک فیصلہ دینے کی بات نہیں کررہا۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ درخواست گزار کے مؤقف پرٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی، ریفرنسزیکجا کرنے کی درخواست میں بھی یہی نکات اٹھائے تھے۔

    جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نےبھی تینوں معاملات کو الگ الگ بیان کیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایون فیلڈ، العزیزیہ اورفلیگ شپ کے الگ الگ والیم ہیں۔

    سردار مطفرعباسی نے کہا کہ حقائق کو دیکھ لیا جائے توتینوں معاملات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، بچوں نے بالغ ہونے کے بعد جائیداد خود بنائی توآکروضاحت کردیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے کہا کہ اتنا سادہ سا کیس ہے کسی کوتو جواب دینا ہوگا۔

    خواجہ حارث کے دلائل

    نوازشریف کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا توجسٹس گل حسن اورنگزیب نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک چارٹ بنا کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ چارٹ سے ظاہر ہوکہ کون سے الزامات مشترکہ ہیں، یہ بھی ظاہر ہو ان سے متعلق ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ آچکا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قطری خط تینوں ریفرنسزکے مشترکہ شواہد میں سے ایک ہے۔

    عدالت نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ جج صاحب خود ریفرنسزکی سماعت سے معذرت کرلیں تو کیا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےایک سے دوسرے جج کیس منتقل کرسکتی ہے۔؟

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا انتظامی بنیاد پرکیس دوسری عدالت منتقل ہوسکتا ہے؟ جس پرنوازشریف کے وکیل نے جواب دیا کہ جب تک جج سماعت سے معذرت نہ کرے دوسری عدالت منتقل نہیں ہوسکتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک جج سے دوسرے جج کوکیس منتقلی کا حکم دے سکتی ہے عدالت نے سوال کیا کہ کیا چیئرمین نیب کے پاس اختیارہے وہ کسی اورعدالت سے کیس منتقل کرسکیں۔؟

    نوازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کے پاس اختیارنہیں کہ دوسری عدالت کیس منتقل کرسکیں، کیس منتقلی کا اختیارسپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا ہے، چیف جسٹس ہائی کورٹ کے پاس بھی کیس منتقلی کا قانونی اختیارنہیں ہے۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد  نوازشریف کی العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنس منتقلی کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کر لیا، جو کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔

    ایون فیلڈ ریفرنس میں کیپٹن صفدر کی سزا کیخلاف درخواست کی سماعت کل ہو گی جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی اپیل پر سماعت پیر کو ہو گی۔

    خیال رہے اس سے قبل احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے9 اگست تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور میاں گل حسن اورنگزیب نے نوازشریف کے خلاف دیگر دو ریفرنسز کی منتقلی سے متعلق درخواست پرسماعت کی تھی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرد جرم عائد ہوجائے تو ریفرنس منتقل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی صرف اسی بناء پر کسی جج کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کسی ایک کیس میں فیصلہ دیا ہے۔

    سردار مظفرعباسی کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر 10 ماہ سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز سن رہے ہیں اوران کا تجربہ بھی دیگر دستیاب ججزسے زیادہ ہے۔