Tag: العزیزیہ اسٹیل ملز

  • نوازشریف کےخلاف العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسزکی سماعت 9 اگست تک ملتوی

    نوازشریف کےخلاف العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسزکی سماعت 9 اگست تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کے بیٹوں کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت 9 اگست تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے 9 اگست تک ملتوی کردی۔

    احتساب عدالت کی جانب سے ریفرنسز کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہونے کے باعث ملتوی کی گئی۔

    ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ریفرنسز کی منتقلی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور میاں گل حسن اورنگزیب نے نوازشریف کے خلاف دیگر دو ریفرنسز کی منتقلی سے متعلق درخواست پرسماعت کی تھی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرد جرم عائد ہوجائے تو ریفرنس منتقل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی صرف اسی بناء پر کسی جج کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کسی ایک کیس میں فیصلہ دیا ہے۔

    سردار مظفرعباسی کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر 10 ماہ سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز سن رہے ہیں اوران کا تجربہ بھی دیگر دستیاب ججزسے زیادہ ہے۔

    احتساب عدالت نے 3 اگست کو شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے7 اگست تک ملتوی کردی تھی۔

    نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو قید کی سزا اورجرمانہ

    واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواشریف کو 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 13 جولائی کو جب لندن سے وطن واپس لوٹے تو دونوں کولاہور ایئرپورٹ پرطیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیرکارروائی کے7 اگست تک ملتوی

    العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیرکارروائی کے7 اگست تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کے بیٹوں کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت 7 اگست تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے 7 اگست تک ملتوی ہوگئی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے ریفرنسزدوسری عدالت منتقلی کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائرکررکھی ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامرفاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پرمشتمل دو رکنی بینچ نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس دوسری عدالت منتقل کرنے کی اپیلوں پرسماعت کی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ بہترین انصاف کے لیے شفاف ٹرائل کی تمام شرائط پوری کرنا ضروری ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کسی بددیانتی کا نہیں بلکہ جانبداری اور غیرجانبداری کا ہے۔

    خواجہ حارث کا مزید دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اعلیٰ معیار کا انصاف فئیرٹرائل کے تفاضے پورے کرنے سے ہی ممکن ہے۔

    نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو قید کی سزا اورجرمانہ

    واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواشریف کو 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 13 جولائی کو جب لندن سے وطن واپس لوٹے تو دونوں کولاہور ایئرپورٹ پرطیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 30 جولائی تک ملتوی

    العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 30 جولائی تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 30 جولائی تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغازپرمعزز جج محمد بشیر نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیس منتقلی کی درخواست کا کیا ہوا جس پرانہوں نے جواب دیا کہ درخواست مختلف فورم سے ہوتے ہوئے آپ کے پاس واپس آ گئی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت کہہ چکی کیس منتقلی کا اختیاراحتساب عدالت کے پاس نہیں ہے،عدالت کے سامنے کوئی حکم امتناع موجود نہیں کہ کارروائی روکی جائے۔

    سردارمظفرنے کہا کہ کوئی قانونی قدغن نہیں کہ آپ کیس کوآگے نہ بڑھا سکیں، ساری شہادتیں آپ کے سامنے ریکارڈ ہوئیں، آپ کو ہی ٹرائل مکمل کرنا ہوگا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جب تک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا مزید دلائل نہیں دے سکتے۔

    خواجہ حارث نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ نےغیرموثرقرار دے کردرخواست خارج کردی تھی، عدالت نے کہا نیب کورٹ میں ٹرائل چل چکا اب درخواست غیرموثرہے۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ خواجہ صاحب بتائیں جیل ٹرائل کے معاملے میں کیا کیا جائے، خواجہ حارث نے کہا کہ ہم جہاں بھی گئے پراسیکیوٹروہاں موجود ہوتے تھے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جب تک درخواست پرفیصلہ نہیں ہوتا کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے، فاضل جج نے سوال کیا کہ جیل ٹرائل پرآپ کی کی رائے ہے؟۔

    خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ضروری تھا حکومت تمام اسٹیک ہولڈرزکواعتماد میں لیتی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کورٹ کی سماعتوں کے لیے مشاورت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    سردار مظفر نے کہا کہ 16بی کے تحت فیڈرل گورنمنٹ کے پاس اختیار ہے وہ جگہ تبدیل کردے۔

    بعدازاں احستاب عدالت نے سزایافتہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 30 جولائی تک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جگہ معاون وکیل پیش ہوئے تھے۔

    احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے تھے کہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث سے جیل ٹرائل اور دیگردو ریفرنسز کا طے کریں گے۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

    نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو قید کی سزا اورجرمانہ

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے رواں ماہ 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو 11، مریم نوازکو 8 اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید سنائی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت جاری ہے جہاں ان کے وکیل خواجہ حارث واجد ضیاء پر جرح کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کے دوران نیب پراسیکیوٹر سردارمظفرعباسی نے کہا کہ جو دستاویزعدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں اس پرجرح کیوں کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ عبداللہ قائد اہلی اورطارق شفیع پارٹنرتھے، پروفیشنل لائسنس کی 2016 میں تصدیق کرائی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ پروفیشنل لائسنس کی نوٹری پبلک دبئی کورٹ سے تصدیق کرائی گئی، پاکستان قونصل خانے نے بھی پروفیشنل لائسنس کی تصدیق کی اورپروفیشنل لائسنس پرایڈریس، ای میل ، فون نمبرواضح تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو بتایا کہ قطری شہزادے کو لکھا اپنے خط کی تصدیق کے لیے متعلقہ ریکارڈ لے آئیں، ہمیں کوئی شک نہیں کہ حماد بن جاسم نے خط نہیں لکھے۔

    دوسری جانب نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت آج دن 2 بجے ہوگی جہاں مریم نواز کے وکیل امجدپرویز اپنے حتمی دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نے 29 جون کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو 3 جولائی کو طلب کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف عدالت پہنچ گئے، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، رانا ثنااللہ اور پرویز رشید بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء پرخواجہ حارث کی جرح

    جے آئی سربراہ واجد ضیاء نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے مالی سال کا آغازیکم سے 30جون تک ہوتا ہے، ٹیکس سرٹیفکیٹ کے لیے یکم جولائی 2010 سے 30جون2011 کاعرصہ بنتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 5جولائی 2010 سے 30جون 2011 تک ڈالرحسین نوازکی طرف سے تحفہ تھے، بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق 11لاکھ 50ہزار 459 امریکی ڈالرموصول ہوئے تھے۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ 18اکتوبر 2012 تک یہ رقم امریکی ڈالر اکاؤنٹ میں موجود رہی، نواز شریف نے رقم ویلتھ اسٹیٹمنٹ مالی سال 2010 ،2011 میں ظاہرکرنا تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 2011کی اسٹیٹمنٹ کا مجھے یاد ہے وہ امریکی ڈالرمیں نہیں روپوں میں تھی، معلوم نہیں رقم روپوں میں ظاہرکرنے کے لیے کیا کرنسی ایکسچینج ریٹ لاگوکیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ 30جون2011 کوجوکرنسی ریٹ ہوگا شاید وہی لاگوکیا ہوگا، جےآئی ٹی نے اس بات کا تعین نہیں کیا امریکی ڈالرپرکیا ریٹ لاگوکیا گیا۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ نوازشریف کے ڈالر اکاؤنٹ میں اسٹیٹمنٹ روپوں میں بطورتحائف ظاہرکی گئی، یہ رقم حسین نوازکی طرف سے بطورتحفہ بھیجی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ 19اکتوبر 2012 کوتین چیکس کے ذریعے رقوم نکلوائی گئیں، ان چیک کے ذریعے 9 لاکھ ڈالرکی رقم نکلوائی گئی جبکہ 15 نومبر2012 کو2 لاکھ ڈالرکی رقم نکلوائی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ ان چیکس میں ادائیگی پاکستانی روپوں میں کی گئیں، تمام چیکس سے ادائیگی نوازشریف کے دوسرے اکاؤنٹ میں ہوئی، جس تاریخ کوادائیگی ہوئی ڈالرریٹ کے مطابق کرنسی ایکسچینج کا اطلاق ہوا۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں بول رہے ہیں، واجد ضیاء بچے تونہیں ہیں، جج صاحب بیٹھےہیں، واجد ضیاء خود موجود ہیں یہ کیوں بول رہے ہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے ایکسچینج ریٹ کا تعین کیا، نوازشریف نے اسٹیٹمنٹ میں رقم درست ایکسچینج ریٹ کا اطلاق کرلے ظاہرکی۔

    استغاثہ کے گواہ نےعدالت کوبتایا کہ ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی، ایکسچینج ریٹ روزانہ کی بنیاد پرتبدیل ہوتے ہیں۔

    واجد ضیاء پر جرح مکمل ہونے پرتفتیشی افسر کا بیان قلمبند کیا جائے گا جس کے بعد ملزم نواز شریف کا 342 کے تحت بیان قلمبند کیا جائے گا۔

    العزیزیہ اسٹیل مل ریفریس کی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ واجد ضیا بچے تو نہیں ہیں اور خود موجود ہیں، جج صاحب بھی بیٹھے ہیں، آپ کیوں بول رہے ہیں۔

    سماعت کے دوران گواہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے ایکس چینج ریٹ کا تعین کیا، نوازشریف نے اسٹیٹمنٹ میں رقم درست ایکس چینج ریٹ کا اطلاق کرلے ظاہر کی۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ایکس چینج ریٹ روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتے ہیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا نواز شریف العزیزیہ اسٹیل کا مالک ہے؟ آپ کو کیسے پتہ چلا نواز شریف العزیزیہ اسٹیل کے مالک ہیں۔

    واجد ضیا نے خواجہ حارث کے جواب میں کہا کہ شہباز شریف کے بقول اسٹیل مل میں 3 شیئر ہولڈرز ہیں، حسین نواز،رابعہ نواز اور عباس شریف مل کے حصے دار ہیں۔ جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ تینوں حصّے دار ہیں لیکن نواز شریف مالک تو نہیں ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ نواز شریف، حسین نواز کی صورت میں مالک ہیں، شہباز شریف اپنی بیٹی رابعہ شہباز کی صورت میں مالک ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ایسی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں یا نوازشریف کو شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے نوازشریف کاروباری یا مالی معاملات چلاتے ہوں یا مالی اداروں سے ڈیل کرتے ہوں، نوازشریف کا العزیزیہ کی کسی دستاویز پر دستخط کرنے کی کوئی دستاویز نہیں ملی، اور نہ ہی کسی گواہ نے بیان دیا نواز شریف العزیزیہ مل کے مالک ہیں۔

    جس پر خواجہ حارث نے واجد ضیا سے سوال کیا کہ کیا کسی نے کہا کہ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل مل کے شیئر ہولڈر ہیں؟

    واجد ضیا نے جواب دیا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ حسین نواز، نواز شریف کے شیئر ہولڈر ہیں، شہباز شریف نے کہا رابعہ شہباز میری اور عباس شریف شیئر ہولڈر ہیں، شیئرہولڈر بھی مالک ہونے کی ایک قسم ہے۔

    واجد ضیا کا عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ شیئر ہولڈنگ کی بات آ جائے تو واضح ہوجائے گا، شہباز شریف نے بالواسطہ اشارہ دیا نوازشریف شیئر ہولڈر ہیں، نوازشریف، شہباز شریف نے بیان دیا تھا کہ العزیزیہ میاں شریف نے قائم تھی۔

    میاں شریف نے حسین نواز، رابعہ شہباز اور عباس شریف کو شیئر ہولڈر بنایا، شہبازشریف کے بیان مطابق مل بکی تو وہ رقم حسین نواز کو جائے گی۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے مل کے قیام میں حصہ ڈالنے کی بھی کوئی دستاویزنہیں ملی، شواہد نہیں ملے جو ظاہر کریں کہ العزیزیہ کے لیے رقم پاکستان سے گئی۔

    سماعت کے دوران واجد ضیا نے بتایا کہ نواز شریف سے پوچھا پیسے باہر گئے ہیں تو انہوں نے کہا نہیں گئے، نوازشریف کے العزیزیہ اسٹیل مل کی فروخت میں شامل ہونے کی دستاویز بھی نہیں ملی۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ فروخت کی رقم نوازشریف کے اکاؤنٹ میں جانے یا نقدی کی بھی دستاویز نہیں ملی اور نہ ہی کسی نے کہا کہ نواز شریف مل کی فروخت میں شامل رہے، کسی نے نہیں کہا کہ نواز شریف کو مل فروخت ہونے کے بعد مل کی رقم ملی۔

    نواز شریف کے وکیل صفائی خواجہ حارث، جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر کل بھی جرح جاری رکھیں گے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اپنا بیان قلمبند کروایا تھا جس کے بعد عدالت نے سماعت 5 جون تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    یاد رہے کہ رواں ماہ 15 مئی کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ حسین نواز نے ہل میٹل کا 88 فیصد منافع نوازشریف کو بھیجا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    احتساب عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ 20اپریل کوایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے کے طورپرکام کررہا تھا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا، عدالت عظمیٰ نے گلف اسٹیل کے قیام، فروخت، واجبات سے متعلق سوالات پوچھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ سرمایہ قطرسے کیسے برطانیہ، سعودی عرب گیا؟ یہ بھی سوال شامل تھا، سپریم کورٹ نے پوچھا قطری شہزادے حماد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت اور حسین نوازکی جانب سے والد کوکروڑوں کے تحائف سے متعلق سوال کیے گئے۔

    واجد ضیاء نے نے عدالت کو بتایا کہ یہ وہ سوال ہیں جن سے متعلق تفتیش کرنی تھی جبکہ لندن فلیٹس سے متعلق بھی سوالات پوچھے گئے، برطانیہ میں کمپنی کا سوال پوچھا گیا جوریفرنس سے متعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیش کرنی تھی نوازشریف اثاثوں کے مالک ہیں یا بےنامی دار، جےآئی ٹی کو60 دنوں میں حتمی رپورٹ کی ہدایات دی گئیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ عدالتی حکم پرجے آئی ٹی کے ناموں کوحتمی شکل دی گئی، مجھے جےآئی ٹی سربراہ اور دیگر5 افراد کوبطورممبرشامل کیا، 10جولائی2017 کوجے آئی ٹی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی۔


    خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہرفقرے پراعتراض نہ اٹھائیں، ہم بھی جواب دیں گے بیان بہت لمبا ہوجائے گا، اپنا اعتراض لکھ لیں بعد میں اس پربحث کرلیں، درست ہو یاغلط آپ نے ہربات پراعتراض کرنا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میری قانونی ذمہ داری ہے اعتراض بنتا ہے تو اٹھاؤں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس طرح سے بیان ریکارڈ نہیں ہوسکتا۔

    واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی نے یواے ای اورسعودی عرب کوایم ایل ایزبھجوائے، صرف یواے ای نے ایم ایل ایزکا جواب دیا جبکہ سعودی عرب سے ایم ایل ایزکا کوئی جواب نہیں آیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع درخواستوں کے تجزیے سے کام شروع کیا، درخواست گزارکی درخواست اورملزمان کی متفرق درخواستوں کا جائزہ لیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ایف بی آر، ایس ای سی پی سے ریکارڈ جمع کیا، جےآئی ٹی نے متعلقہ افراد کے بیانات بھی قلمبند کیے، طارق شفیع، نوازشریف، شہبازشریف، حسن اورحسین نوازکے بیانات قلمبند کیے۔

    واجد ضیاء نے عدالت میں الدارآڈٹ بیورورپورٹ کی کاپی پیش کرتے ہوئے کہا کہ آڈٹ بیورو کی رپورٹ 2010 سے 2014 تک ہے جبکہ رپورٹ کی کاپی سی ایم اے 432 کے ساتھ منسلک ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاپیاں گواہ نے خود تیارنہیں کیں، واجد ضیاء نے کہا کہ حسین نوازکی طرف سے رپورٹ 2010 سے 2015 تک کی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نوازاس عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے، استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسین نوازسے منسوب بیان اس عدالت میں قابل قبول شہادت نہیں ہے، حسین نوازکی فراہم کردہ کاپی والیم 6 میں شامل ہے۔

    کیویوای ہولڈنگ لمیٹڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں مارچ 2008کی اسٹیٹمنٹ اور13 مئی 2017 کوسیکرٹری خارجہ کولکھا گیا خط عدالت میں پیش کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اصل خط نہیں پیش کیا گیا، یہ کاپی ہے، واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 15مئی 2017 کوخط سے بتایا گیا آپ کا خط پہنچا دیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ وزارت خارجہ کے افسرآفاق احمد نے خط پہنچ جانے کا بتایا، آفاق احمد نےعدالت میں اس سے متعلق بیان نہیں دیا، سیکرٹری خارجہ سے خط کی باقاعدہ ڈیلیوری رپورٹ مانگی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 18مئی 2017 کوآفاق احمد نے مجھے دوسراخط بھیجا، 18مئی کے خط کی تصدیق شدہ کاپی پیش کردی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آفاق احمد گواہ کے طورپرپیش ہوئے خط کا ذکرنہیں کیا جبکہ پیش کی گئی کاپی سے یہ واضح نہیں ہوتا یہ آفس کاپی ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 24 مئی 2017 کو ہی سیکرٹری خارجہ کو بھی خط لکھا جبکہ 30 مئی 2017 کے خط کی کاپی پہلے پیش کرچکا ہوں۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران قطری شہزادے کا11جون 2017 اور 26 جون 2017 کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ کوریئرسروس کا اصل لفافہ بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، 6 جولائی2017 کا قطری شہزادے کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ 4 جولائی کا خط رپورٹ کا حصہ نہیں مگراصل موجود ہے۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے قائد کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔


    شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں توسیع

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا۔

    عدالت عظمیٰ نے نوازشریف اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کوٹرائل مکمل کرنے کی تاریخ میں 9 جون تک کی توسیع کردی تھی۔

    یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 8 مئی کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو 10 مئی کو العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نااہل وزیراعظم نوازشریف کےخلاف ضمنی ریفرنسز کی سماعت  کل صبح 9بجے تک ملتوی

    نااہل وزیراعظم نوازشریف کےخلاف ضمنی ریفرنسز کی سماعت کل صبح 9بجے تک ملتوی

    اسلام آباد : نا اہل سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز کے ضمنی ریفرنسز کی سماعت کل صبح 9بجے تک ملتوی کردی ، گواہ عبدالحنان، رضوان خان اور سنیل کل اپنا بیان ریکارڈکرائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سابق وزیراعظم کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز کے ضمنی ریفرنسزپر سماعت کررہے ہیں۔

    نا اہل وزیراعظم نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ہمراہ ضمنی ریفرنسز میں پیشی کے لیے احتساب عدالت پہنچے۔

    عدالت میں ضمنی ریفرنسز کی سماعت کے آغاز پر نوازشریف کے وکیل سپریم کورٹ میں مصروفیات کے باعث پیش نہ ہوسکے جس کے بعد سماعت پہلے ساڑھے 11 بجے تک اور پھر 1 بجے تک ملتوی کردی گئی۔


    نوازشریف کو وقفے کے بعد حاضری سے استثنیٰ


    خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے احتساب عدالت سے استدعا کی کہ وقفے کے بعد کی حاضری سے نوازشریف کو استثنیٰ دیا جائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانونی تقاضا ہے کہ گواہوں کے بیانات کے موقع پرملزم موجود ہو۔

    احتساب عدالت نے نا اہل سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو وقفے کے بعد دوبارہ حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔

    نواز شریف کیخلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ، العزیزیہ اسٹیل ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے 5گواہان کے بیانات قلمبند اور جرح بھی مکمل کر لی گئی، باقی 3 گواہان کے بیانات کل قلمبند کئے جائیں گے۔


    گواہ نوید الرحمان کابیان قلمبند


    عدالت میں ایک بجے کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو گواہ نویدالرحمان کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہے، نوید الرحمان پاکستان ہائی کمیشن لندن میں اسپیشل سیکیورٹی گارڈ ہیں۔

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ نوید الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ میں پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں سیکیورٹی گارڈ ہو۔

    گواہ نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ 24 جنوری کو نیب تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوکربیان قلمبند کرایا، میں نے رائل میل وصول کی اورآگے سی آر سیکشن میں بھجوائی۔

    خواجہ حارث نے گواہ پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بیان کس نے لیا تھا جس پر نویدالرحمان نے جواب دیا کہ میرا بیان کامران صاحب نے لیا تھا۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ انہیں جانتے ہیں وہ کون ہیں؟ جس پر استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نہیں میں انہیں جانتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے بتایا آپ کا کام میل وصول اورسی آرسیکشن بھیجنا ہے، گواہ نے جواب دیا کہ جی میں نے بتایا تھا، نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے تو بیان میں نہیں لکھا کہ آپ نے ایسا کچھ بتایا۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفر نے کہا کہ ان کو پہلے بیان تو دکھائیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ درمیان میں نہ بولیں مجھے سوال کرنے دیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ بیان میں نہیں لکھا گواہ نے یہ بتایا میرا کام رائل میل موصول کرنا ہے، جج محمد بشیر نے کہا کہ خواجہ حارث ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ بات واقعی بیان میں نہیں لکھی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ کا کام رائل میل کےعلاوہ بھی کوئی میل وصول کرنا ہے جس پر گواہ نے جواب دیا کہ جی میرا کام ڈی ایچ ایل اوررائل میل وصول کرکےسی آرسیکشن بھیجنا ہے۔

    اس موقع پر گواہ سے جرح کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ انتہائی ڈھیٹ پراسیکیوٹر ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس طرح کے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب سردارمظفر نے کہا کہ آپ کو اپنی عزت کا خیال نہیں مگرمجھے ہے، آپ سینئروکیل ہیں لیکن ٹرائل آپ کی مرضی کا نہیں ہوسکتا، آپ کا یہی طریقہ ہے اسی وجہ سے کیس خراب کرتے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم ایسے لوگ نہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کریں، آپ کے والد کو جانتا ہوں خواجہ سلطان بڑے وکیل تھے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب سردارمظفر نے کہا آپ شاید مجبوری سے وکالت میں آئے مگرمیں شوق سے وکیل بنا، کیس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے قانونی نکات پر بولتا رہوں گا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب ان کی تقریر ختم ہو جائےتو مجھے بلا لیں۔


    گواہ ذکی الدین کا بیان


    استغاثہ کے دوسرے گواہ ذکی الدین نے عدالت میں بتایا کہ بطورقونصلراسسٹنٹ پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔

    گواہ ذکی الدین نے کہا کہ جو میل آتی ہے اس کو ڈائری نمبرلگاتا ہوں، 24 جنوری کونواز شریف کے خلاف شامل تفتیش ہوا، مجھے نوید الرحمان نے میل دی تھی، کیس سے متعلق 12 لفافوں کو ڈائری نمبر لگایا۔

    احتساب عدالت نےکیس کی سماعت کل صبح 9بجےتک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نے دونوں ریفرنسز میں مجموعی طور پر 8 گواہوں کو بیانات ریکارد کروانے کے لیے طلب کررکھا ہے۔

    نیب کی جانب سے فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں آف شور کمپنیوں اور العزیزیہ اسٹیل ملز کی تشکیل کے حوالے سے دستاویزی شواہد کو ضمنی ریفرنسز کا حصہ بنایا گیا ہے۔

    فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں نوازشریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    حسن اور حسین نواز کو عدم حاضری کے باعث احتساب عدالت پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔