Tag: العزیزیہ ریفرنس

  • نواز شریف کو جیل میں کیا سہولیات حاصل ہوں گی؟

    نواز شریف کو جیل میں کیا سہولیات حاصل ہوں گی؟

    لاہور: محکمۂ داخلہ کی جانب سے العزیزیہ کیس میں 7 سات سزا پانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل میں سہولیات کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کی جانب سے سزا یافتہ قائدِ ن لیگ نواز شریف کو جیل میں بنیادی سہولیات حاصل ہوں گی، اس سلسلے میں نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

    [bs-quote quote=”نواز شریف کے لیے کھانا گھر سے آئے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    محکمہ داخلہ کے اعلامیے کے مطابق بنیادی سہولیات میں میز، 3 کرسیاں، گدا، اخبار اور دیگر ضروری چیزیں شامل ہیں۔

    نواز شریف کے کپڑے، برتن اور کھانا ان کے گھر سے آئے گا، ان کے لیے بیرک کی صفائی بھی کر دی گئی ہے۔

    محکمۂ داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق پاکستان جیل خانہ جات قوانین 1978 کے رول 242 کے تحت نواز شریف کو سہولیات دی گئی ہیں۔

    سپرنٹنڈنٹ کوٹ لکھپت جیل نے رات گئے تک عملے سے سیکورٹی سے متعلق میٹنگ کی، اور جیل کے داخلی و خارجی راستوں پر پولیس پہرہ سخت کرنے کی ہدایات کی۔


    یہ بھی پڑھیں:  العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کو سات سال قید کی سزا، کمرہ عدالت سے گرفتار


    ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو کل صبح خصوصی طیارے سے لاہور لایا جائے گا، کسی بھی نا خوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سات سال قید اور ساڑھے تین ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری کیا گیا ہے۔

    نواز شریف نے استدعا کی تھی کہ انھیں لاہور  کے کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے، احتساب عدالت نے ان کی درخواست قبول کرلی اور انھیں اب اڈیالہ کے بجائے لاہور منتقل کیا جائے گا۔

  • "اب مسلم لیگ ن کی قیادت کون کرے گا؟” نواز شریف نے بتا دیا

    "اب مسلم لیگ ن کی قیادت کون کرے گا؟” نواز شریف نے بتا دیا

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ میں بھی ایک انسان ہوں، کوئی پتھرتو نہیں، پھربھی یہ دکھ سہہ گئے.

    نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں  سزاز کے بعد صحافیوں سےکمرہ عدالت میں غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حوصلہ اللہ دیتا ہے، حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے.

    نوازشریف نے کہا کہ حوصلہ اورعزم اتنا بلند ہونا چاہیے کہ تمام مشکلات کاسامنا کرسکیں، مریم آج عدالت کا فیصلہ سننا چاہتی تھیں، میں نے کہا کہ احتساب عدالت نہ آئیں، مریم نوازاگراحتساب عدالت آتی، تو پریشان ہوجاتی، میں نے کہا کہ آپ میری والدہ کے ساتھ رہیں.


    العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کو سات سال قید کی سزا، کمرہ عدالت سے گرفتار


    سابق وزیراعظم نے کہا کہ چھوٹی بیٹی بھی لندن سےآئی ہے، ان کو بھی آنے سےمنع کیا.

    اس سوال پر کہ آپ اور شہباز شریف کے جیل میں ہونے کی صورت میں پارٹی کا کیا بنے گا؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہ جو  ن لیگی رہنما دائیں بائیں کھڑے ہیں، ان کی موجودگی میں پارٹی محفوظ ہاتھوں میں ہے.

    میاں‌ صاحب کو کوٹ لکھپت کب منتقل کیا جائے؟

    میاں محمد نواز شریف نے اڈیالہ کے بجائے لاہور کے کوٹ لکھ پت جیل میں سزا پورے کرنے کی درخواست کی تھی، جسے عدالت کی جانب سے منظور کیا گیا.

    آج سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ ہی میں خصوصی بیرک میں رکھا جائے گا، نوازشریف کو کل صبح کوٹ لکھپت جیل لاہورمنتقل کیاجائے گا.

    مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما حنیف عباسی اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں.

  • نواز شریف کے خلاف 2 ریفرنسز کا فیصلہ آج سنایا جائے گا

    نواز شریف کے خلاف 2 ریفرنسز کا فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد: سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف 2 ریفرنسز کا فیصلہ آج سنایا جائے گا، پورے ملک کی نگاہیں احتساب عدالت پر مرکوز ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا، لوگ فیصلے کے منتظر ہیں کہ نواز شریف گھر جائیں گے یا جیل۔

    [bs-quote quote=”نواز شریف عدالت میں فیصلہ سننے کے لیے موجود ہوں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    احتساب عدالت کی جانب سے فیصلہ سننے کے لیے لیگی قائد اسلام آباد میں موجود ہیں۔

    فیصلہ خلاف میں آنے کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ ن محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرے گی یا خاموشی کا، شریف برادران نے گزشتہ روز مشاورت کے بعد حکمتِ عملی تیار کر لی ہے۔

    فیصلہ احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک سنائیں گے، جن کے سامنے نواز شریف اب تک 60 مرتبہ پیش ہو چکے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  العزیزیہ ریفرنس: نواز اور شہباز کی ملاقات، لائحہ عمل طے


    یاد رہے کہ 19 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    احتساب عدالت نمبر 1 اور 2 میں سابق وزیرِ اعظم کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، نواز شریف مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نوازاورشہباز کی ملاقات ختم، لائحہ عمل طے

    العزیزیہ ریفرنس: نوازاورشہباز کی ملاقات ختم، لائحہ عمل طے

    اسلام آباد: سابق نا اہل وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے درمیان جاری ملاقات ختم، العزیزیہ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آنے کا بعد لائحہ عمل طے کرلیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلہ مخالفت میں آنے پر مسلم لیگ ن عدالتی فیصلے کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے اور احتجاج کرنے کی حکمت عملی اپنائے گی، نواز شریف کے جیل جانے کی صورت میں پارٹی امور چلانے سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    نوازشریف کے خلاف ریفرنسز پرفیصلہ کل سنایا جائے گا

    دونوں بھائیوں کےدرمیان یہ ملاقات وزرأ کالونی میں ہوئی جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف مری روانہ ہوگئے۔ نواز شریف کے خلاف دائر کردہ اس ریفرنس کا فیصلہ کل احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سنائیں گے۔

    امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف نواز شریف اور ان کے وکلاء کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ہوگی، غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت میں جانے نہیں دیا جائے گا۔

    پارلیمنٹ ہاؤس میں شریف برادران کی ون آن ون ملاقات

    یاد رہے کہ نواز شریف اس سلسلے میں تشکیل پانے والی پہلی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی نا اہل ثابت ہوگئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے العزیزیہ،فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلے کے لئے احتساب عدالت کی آٹھویں بار ریفرنسزمیں توسیع کی استدعا منظور کرتے ہوئے 24 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی اور کہا تھا کہ احتساب عدالت دونوں ریفرنسزپر24دسمبر کو فیصلہ سنائے۔

    اس دوران نواز شریف کے وکیل نے کیس چھوڑنے کی بھی کوشش کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ مقدمے کو ہر صورت انجام تک لے جایا جائے۔

    احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے جمعے کی شام العزیزیہ کیس کا فیصلہ مرتب کرنا شروع کیا تھا ۔ اس موقع پر احتساب عدالت کے عملے کی ہفتہ وار چھٹیاں منسوخ کرکے اتوار کو بھی کام کیا جاتا رہا۔

    خیال رہے کہ تین روز قبل سابق وزیراعظم نوازشریف نے شہباز شریف سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ون آن ون ملاقات کی تھی جس میں احتساب عدالت کے متوقع فیصلے سمیت دیگر امور پرتبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

    شریف برداران کی ملاقات میں عدالتی فیصلہ حق میں آنے پرخاموشی اختیار کرنے کے حوالے سے غور کیا گیا تھا جبکہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے پرعوامی رابطہ مہم شروع کرنے پراتفاق کیا گیا تھا۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، وکیل صفائی نے احتساب عدالت کے اس سوال پر کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟‘ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسن نواز کا کاروبار ہی یہ تھا جائیداد خریدنا اور فروخت کرنا۔ عدالت نے ریفرنسز کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل گزشتہ روز کی سماعت میں جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟

    العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب جمع کروایا تھا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ الدار آڈٹ کے بعد حسین نواز پہلی مرتبہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے، الدار رپورٹ ناکافی دستاویزات ہیں۔ 30 مئی 2017 کو حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ کیس میں حسین نواز 5 مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، جے آئی ٹی نے حسین نواز کو ہل میٹل کی ادائیگیوں کی تفصیلات لانے کو کہا۔ استغاثہ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ الدار رپورٹ کی باضابطہ تصدیق کرواتے۔

    وکیل نے کہا کہ جن دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ تیار ہوئی وہ حاصل نہیں کیے گئے، الدار آڈٹ سے کسی تصدیق کے لیے جے آئی ٹی نے رابطہ ہی نہیں کیا۔ استغاثہ سے پوچھیں ہل میٹل سے متعلق انہوں نے کیا تفتیش کی؟ ہل میٹل کتنے میں بنی، باقی تفصیلات اب بھی انہیں معلوم نہیں۔

    جج ارشد ملک نے دریافت کیا کہ نواز شریف نے کہیں اور یہ مؤقف اپنایا کہ العزیزیہ سے تعلق نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ سی ایم اے 7244 میں نواز شریف نے یہ مؤقف اپنایا ہے، نواز شریف نے کہیں بھی یہ مؤقف نہیں لیا کہ ان کی جائیداد ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تحقیق نہیں کی کہ العزیزیہ کا منافع عباس شریف کو منتقل ہوا۔ تحقیق نہیں کی گئی العزیزیہ کی فروخت کے بعد حاصل رقم تقسیم ہوئی۔ جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں۔

    اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ حسین نواز، نواز شریف کے زیر کفالت نہیں تھے۔ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی دار تھے۔ گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرز فروخت کیے، گلف اسٹیل ملز کا نام بدل کر اہلی اسٹیل ملز کردیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نواز شریف نے کاروبار میں حصہ نہیں لیا، کاروبار میاں محمد شریف چلاتے تھے، نوازشریف کا تعلق نہیں تھا۔ نواز شریف گلف اسٹیل سے متعلق کسی ٹرانزکشن کا حصہ نہیں رہے۔ میاں محمد شریف، حسین، حسن اور دیگر پوتوں کو رقم فراہم کرتے تھے۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر بغیر حلف نامے کے 342 کا بیان قلمبند کروایا۔

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کی 17 نومبر تک کی چھٹی مہلت بھی ختم ہوچکی ہے۔ نواز شریف فراہم کیے گئے 151 سوالوں میں سے اب تک 120 کے جوابات دے چکے ہیں۔

    مزید سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ میرے اکاؤنٹ میں آنے والی رقوم ایف بی آر ریکارڈ میں ظاہر ہیں، سپریم کورٹ میں متفرق درخواست جمع کروائی گئی جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے نام نہاد شواہد اور رپورٹ کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔

    نواز شریف نے کہا کہ درخواست میں کہا کہ جے آئی ٹی محض تفتیشی ایجنسی سے زیادہ کچھ نہیں، عام فہم ہے جے آئی ٹی میں بیان عدالت میں بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات تعصب پر مبنی اور ثبوت کے بغیر تھیں، جے آئی ٹی کو انکم ٹیکس ریٹرن، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ریٹرن جمع کروائی۔

    مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    سماعت کے دوران نواز شریف بیان لکھواتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے جج سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیس بنایا کیوں گیا ہے، استغاثہ کو بھی معلوم نہیں ہوگا کیس کیوں بنایا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں، میرے بچوں نے اگر مجھے پیسے بھیج دیے تو کون سا عجوبہ ہوگیا۔ ’وزیر اعظم رہا ہوں، میرے بچے یہاں کاروبار کریں تب مصیبت، باہر کریں تب مصیبت‘۔

    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ شریک ملزمان کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف الگ درخواستیں دی گئیں، سپریم کورٹ میں حسن اور حسین نواز کا کیس میں نے نہیں لڑا۔

    حسن اور حسین نواز کے بیانات سے متعلق بیان لکھواتے ہوئے نواز شریف کی زبان پھسل گئی، انہوں نے کہا کہ حسن اور حسین نواز کا بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے۔ وکیل نے لقمہ دیا تو نواز شریف نے درستگی کروائی کہ بیٹوں سے منسوب بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدار تھی اور مروجہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، میرے خلاف جو شواہد اکٹھے کیے قانون کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔

    نواز شریف نے آخری 4 اہم سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔ انہوں نے کہا آخری سوالات سے پہلے وکیل خواجہ حارث سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں، خواجہ حارث آج لاہور میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت نے نواز شریف کی استدعا پر انہیں ایک دن کی مہلت دے دی۔ جج نے کہا کہ اصولی طور پر آپ کو مزید وقت دینا نہیں چاہیئے، سوالنامہ پہلے فراہم کردیا گیا تھا، یہ تو سب کو پتہ ہی ہوتا ہے دفاع سے متعلق سوال پوچھا جائے گا۔

    نواز شریف کے خلاف سوالنامے میں ایک سوال کو 2 الگ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کے بعد سوالوں کی تعداد 152 ہوگئی۔ نواز شریف نے اب تک کل 148 سوالات کے جواب جمع کروا دیے ہیں۔

    دونوں ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ نواز شریف کل دفاع پیش کرنے سے متعلق جواب دیں گے جبکہ ’آپ کے خلاف کیس کیوں بنایا گیا‘ کا جواب بھی کل دیں گے۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کے لیے ٹرائل کورٹ کی مدت میں توسیع کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 3 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    احتساب عدالت کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ٹرائل مکمل کرنا ممکن نہیں، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے۔

    خط میں استدعا کی گئی کہ ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ العزیزیہ میں ملزم کا بیان اور فلیگ شپ میں آخری گواہ پر جرح جاری ہے۔

    درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت نہیں ملے گی۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 5 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروایا۔

    بیان قلمبند کرواتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے مطابق ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے، ہل میٹل کا پورا نام ہل انڈسٹری فار میٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔ 10 دسمبر 2000 میں بیوی بچوں اور خاندان کے ساتھ جلا وطن رہا۔

    جج نے دریافت کیا کہ جب آپ پاکستان سے گئے تو آپ کی جیب خالی تھی، اکاؤنٹس منجمد تھے۔

    نواز شریف نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے پہلے 2 جنوری 1972 میں بھی ایسا ہو چکا تھا۔ جب ہمیں جلا وطن کیا گیا تھا تو ہماری اتفاق فاؤنڈری کو نیشنلائزڈ کر دیا گیا تھا۔ ’کسی نے پوچھا تک نہیں ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ 1972 میں تو میں سیاست میں بھی نہیں تھا، اتفاق فاؤنڈری کے بدلے کوئی سہولت بھی نہیں دی گئی۔ 1999 کے مارشل لا کی الگ کہانی ہے، موقع ملا تو بتائیں گے۔

    نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مارشل لا کے بعد کاروبار کا تمام ریکارڈ غیر قانونی تحویل میں لیا گیا، ریکارڈ اٹھائے جانے کے خلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کروائی گئی۔ متعلقہ تھانے کی طرف سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے دنوں میں نیب نے خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لیا۔ نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات قبضے میں لیے۔ رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کی اجازت دی گئی، چوہدری شوگر ملز سے 110 ملین اور رمضان شوگر ملز 5 ملین روپے نکلوا لیے گئے۔

    نواز شریف نے کہا کہ شوگر ملز سے نکلوائی گئی رقم واپس نہیں کی گئی۔ جلا وطنی کے بعد واپسی پر نیب کے اقدامات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے پاس وسائل یا پیسہ نہیں تھا، حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے انتظام کیا اور خاندان کے افراد کی ضروریات پوری کی۔

    اپنے بیان میں نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے 10 والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ قابل قبول شہادت نہیں۔ میرے ٹیکس ریکارڈ کے علاوہ کسی دستاویز کا گواہ نہیں۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کیے گئے، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا تھا۔ متحدہ عرب امارات سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں۔

    سابق وزیر اعظم نے 151 سوالوں میں سے 90 سوالات کے جوابات قلبند کروا دیے۔ ان کے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا۔

    احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    گزشتہ روز نواز شریف نے عدالت کی جانب سے دیے گئے 50 میں 45 سوالوں کے جوابات پر مبنی اپنا بیان قلمبند کروایا تھا، بقیہ سوالات کے جوابات آج قلمبند کروائے گئے۔

    عدالت نے کل 101 سوالات پر مبنی ایک اور سوالنامہ نواز شریف کے وکیل کو فراہم کیا تھا۔

    نواز شریف نے کل اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے قومی اسمبلی میں خطاب کے سوال پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ طلب کیا تھا۔

    نواز شریف نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے، ’میں نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی‘۔

    نواز شریف نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں۔ میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

    انہوں نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے عدالت میں ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے۔ ’حسین نواز کے جمع ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں‘۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 45 سوالوں کے جوابات پر مبنی اپنا بیان قلمبند کروا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروایا۔

    دریں اثنا نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا۔ سماعت کے موقع پر مسلم لیگ ن کے کئی رہنما نواز شریف کے ساتھ روسٹرم کے قریب موجود رہے۔

    بیان سے قبل نواز شریف کے وکیل زبیر خالد نے چند سوالوں میں درستی کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ تین تین سوالوں کو ملا کر ایک سوال بنایا گیا ہے، جس پر جج نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، ایک ایک کرتے تو 200 سوال بن جاتے۔

    نواز شریف نے 342 کے تحت بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہا۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا لگایا، مارشل لا کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    عدالت نے استفسار کیا کہ آپ عوامی عہدوں پر رہنے کے باعث شریف خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ تفتیش کی رائے تھی کہ میں شریف خاندان کا سب سے بااثر شخص تھا، والد بھی آخری سانس تک ہمارے خاندان کے سب سے بااثر شخص تھے۔

    انہوں نے کہا کہ درست ہے عدالت میں پیش دستاویزات میں نے ہی جمع کروائے تھے، ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے۔ سنہ 2001سے 2008 تک میں جلا وطن تھا۔ ’حسین نواز کے جمع ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں‘۔

    بیان کے دوران معاون وکیل نے استدعا کی کہ میاں صاحب بیٹھ جائیں ہم جواب تحریر کروا دیتے ہیں، جج نے نواز شریف سے کہا کہ اپنے جواب کی کاپی مجھے دیں میں پڑھ لیتا ہوں۔ کاپی لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس جواب میں کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو میں پوچھ لوں گا۔

    آج کی سماعت میں نواز شریف نے دیے گئے 50 سوالات میں سے 45 کے جوابات قلمبند کروادیے۔ انہوں نے استدعا کی کہ مزید جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا، کچھ سوالات پیچیدہ ہیں، ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔

    بعد ازاں عدالت پہنچ کر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کے جوابات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے جوابات میں تبدیلی کی کوشش کی تو جج نے کہا کہ تبدیلی نہ کروائیں جو ملزم نےلکھ دیا بس وہ درست ہے، ’آپ درستگی کریں گے تو پھر یہ آپ کا بیان ثابت ہوگا‘۔

    خواجہ حارث نے سوال نمبر 16 پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوال میں 2 سوالات کیے ہیں، اگلے 4 سوالوں میں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے۔ ہل میٹل اکاؤنٹ میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کے بارے میں پوچھا گیا۔

    انہوں نے استدعا کی کہ اس کو ایک ہی سوال کرلیا جائے، جج نے کہا کہ گواہوں کے نام لکھ لیتے ہیں جن کے اکاؤنٹس سے ڈیبٹ اور کریڈٹ ہوئی ہے۔

    نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے سوال پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے، میں نے جو قومی اسمبلی میں تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی۔

    نواز شریف نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں، میرا گلف اسٹیل ملزکے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ قوم سے خطاب میں کبھی نہیں کہا کہ العزیزیہ اسٹیل کی فروخت سےمیراتعلق ہے، میرا بیان ذاتی معلومات پر مشتمل نہیں تھا۔

    سماعت کے اختتام پر عدالت نے مزید 101 سوالات نواز شریف کے وکیل کو فراہم کردیے۔ احتساب عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل بھی نواز شریف کا 342 کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں صرف 4روز باقی

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں صرف 4روز باقی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے کرپشن ریفرنسزنمٹانے کے لیے احتساب عدالت کو دی جانے والی ڈیڈ لائن میں صرف 4 روز باقی رہ گئے ہیں، ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں توسیع کے لئے پھر رجوع کیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لئے احتساب عدالت کو دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں 4 روز باقی رہ گئے ہیں۔

    العزیزیہ ریفرنس میں استغاثہ کے شواہد مکمل ہوچکے ہیں جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں آخری گواہ پر جرح کے بعد استغاثہ شواہد مکمل کرے گا، نوازشریف کی آج پیشی پر عدالت میں بیان قلمبند کرائے جانے کا امکان ہے، نواز شریف کے بیان کے بعد استغاثہ اور وکیل صفائی حتمی دلائل دیں گے۔

    احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں توسیع کے لئے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیے جانے کا امکان ہے۔

    خیال رہے ملزم نواز شریف اور ان کے وکیل کے تاخیری حربوں میں تیزی آگئی ہے، العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف نے تین سو بیالیس کا بیان قلمبند نہ کرایا۔ وکیل نےعذر پیش کردیا، حالانکہ گزشتہ سماعت پر پچاس سوالوں پر مشتمل سوال نامہ ملزم کو دیا جا چکا ہے۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس کی نواز شریف کیخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لئےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے یہ وہ کیس ہے جس نے دو بھائیوں میں تلخی پیدا کی، خواجہ حارث نے کہا کہ ایک بار تو میری بات بھی مان لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ آپکی بات مانی لیکن یہی تاثر دیا گیا کہ ہم نے آپ کی بات نہیں مانی۔

    واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مہلت پانچویں بار ختم ہوگئی، جس کے بعد احتساب عدالت نے مزید مہلت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 4 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالتِ عظمیٰ نے نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔