Tag: الغوزہ نواز

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    مصری خان جمالی پاکستان کی لوک موسیقی کی روایت کو زندہ رکھنے اور مقامی ساز الغوزہ کے ذریعے دل نواز دھنیں بکھیرنے کے لیے ملک اور بیرونِ ملک بھی پہچانے جاتے تھے۔

    وہ اپنے وقت کے مقبول سازندے تھے جو 1980ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آج مصری خان جمالی کا یومِ وفات ہے۔

    1921ء میں سندھ کے مشہور شہر جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے مصری خان جمالی نے نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اپنے کاروبار اور اسی کام کے دوران انھیں اس مقامی طور پر بنائے جانے والے ساز میں وہ کشش محسوس ہوئی جس نے نوجوانی ہی میں انھیں دھن ساز مشہور کردیا۔ وہ اس ساز کو بجانے میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے اور مقامی لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسی شہرت نے ایک دن انھیں‌ ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا۔

    الغوزہ بانسری نما وہ ساز تھا جسے بجاتے ہوئے اس کا ماہر دل موہ لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔ آج جدید آلاتِ موسیقی اور سازوں کے ساتھ ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز مٹ چکے ہیں جب کہ لوک موسیقی میں لوگوں کی دل چسپی بھی کم ہی نظر آتی ہے، اسی طرح پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی اب ماضی بن چکا ہے اور اس کے ماہر سازندے اب دنیا میں نہیں‌ رہے۔

    مصری خان جمالی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بیرونِ ملک بھی پہچان ملی۔

    مصری خان جمالی نے اپنی دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے لوک موسیقی اور اس مقامی ساز کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دیا۔ 1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    انھیں نواب شاہ کے قبرستان حاجی نصیر میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • عالمی شہرت یافتہ الغوزہ نواز خمیسو خان کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ الغوزہ نواز خمیسو خان کی برسی

    8 مارچ 1983ء کو پاکستان کے نام وَر الغوزہ نواز خمیسو خان وفات پاگئے تھے۔ وہ مختلف راگ راگنیوں پر عبور رکھتے تھے۔ خمیسو خان ایسے فن کار تھے جنھیں‌ نہ صرف ملک بھر میں بلکہ افریقہ، چین، امریکا، روس اور کئی دیگر ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور وہ نام ور ہوئے۔

    الغوزہ بانسری نما ساز ہے جسے منہ سے بجایا جاتا ہے۔ آج جدید سازوں‌ اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز اور لوک موسیقی بھی مٹ چکی ہے، اور انہی میں پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی شامل ہے جس کے بجانے والے بھی اب نہیں‌ رہے۔

    خمیسو خان 1923ء میں گوٹھ گاجاموری تعلقہ ٹنڈو محمد خان، ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، اور اپنے زمانے کے مشہور الغوزہ نواز، استاد سید احمد شاہ کی شاگردی اختیار کرکے ان سے موسیقی اور الغوزہ بجانے کی تربیت لینے کے بعد مختلف تقریبات اور شادی بیاہ کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے، وہ مختلف عوامی مقامات پر الغوزہ بجا کر لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے تھے۔ جلد ہی کسی طرح ریڈیو پاکستان تک ان کی رسائی ہو گئی اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یوں خمیسو خان کی شہرت میں اضافہ ہوا اور انھیں بیرونِ ملک جانے کا بھی موقع ملا۔

    حکومتِ پاکستان نے خمیسو خان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور حکومتِ سندھ نے شاہ لطیف ایوارڈ عطا کیا تھا۔

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا یومِ وفات

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا یومِ وفات

    نام ور الغوزہ نواز مصری خان جمالی 10 نومبر 1980ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج پاکستان کے اس معروف سازندے کی برسی ہے جس نے پاکستان کی لوک موسیقی اور ایک مقامی ساز کو بجانے کی روایت کو تاعمر زندہ رکھا اور اس فن کی بدولت دنیا میں‌ پہچان بنائی۔

    مصری خان جمالی 1921ء میں جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے سندھ کے شہر نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اسی دوران الغوزہ بجانے میں‌ ان کی مہارت کے سبب ریڈیو تک رسائی ممکن ہوئی۔ یہ بانسری نما ساز ہے جسے منہ سے بجایا جاتا ہے۔ بعد میں ان کا یہ فن انھیں ٹیلی وژن تک لے گیا۔ وہ نوجوانی ہی میں الغوزہ بجانے کے لیے مشہور ہوچکے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستگی کے دوران ان کی دھنوں اور اس ساز کا چرچا بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔

    مصری خان جمالی اپنے دور کے ایک مقبول الغوزہ نواز تھے جنھوں نے اپنی دل نواز دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کیا اور اس ساز سے محبت اور اس کی خدمت کرتے رہے۔1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ وہ نواب شاہ میں قبرستان حاجی نصیر میں آسودۂ خاک ہیں۔

    جدید سازوں‌ اور موسیقی کے بدلتے ہوئے انداز نے جس طرح‌ کئی آلاتِ موسیقی کو مٹا دیا، اسی طرح پاک و ہند کی لوک موسیقی کا مقبول ترین ساز الغوزہ اور اس کے بجانے والے بھی اب نہیں‌ رہے۔