Tag: الفریڈ ہچکاک

  • الفریڈ ہچکاک: خوف اور تجسس پر مبنی شاہکار فلموں کا خالق

    الفریڈ ہچکاک: خوف اور تجسس پر مبنی شاہکار فلموں کا خالق

    الفریڈ ہچکاک (Alfred Hitchcock) کو سسپنس کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس برطانوی فلم ساز کی شاہکار فلمیں‌ آج بھی زیرِ بحث آتی ہیں‌ اور شائقین انھیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہچکاک نے اپنی فلموں میں ذہنی کشمکش، نفسیاتی پیچیدگیوں کے ساتھ خوفناک اور پراسرار واقعات کو بہت خوبی سے پیش کیا، مگر جو بات شائقین کو اپنی جانب کھینچتی رہی، وہ ہچکاک کی فلموں کا غیر متوقع انجام ہے۔

    13 اگست 1899 کو ہچکاک نے انگلینڈ کے شہر لندن میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک سبزی فروش کے گھر پیدا ہوئے ہوئے تھے۔ یہ ایک رومن کیتھولک گھرانا تھا جس پر مذہبی سوچ حاوی تھی اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی تھی۔ ہچکاک بچپن میں شرمیلے اور خاموش طبع تھے۔ ہچکاک نے جیسیوٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی، جہاں کا نظم و ضبط اور قواعد سخت تھے۔

    بعد میں ہچکاک نے لندن کے کاؤنٹ ٹیکنیکل اسکول سے مکینکل انجینئرنگ اور آرٹ کی تعلیم مکمل کی اور موصلاتی نظام سے منسلک ایک کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ یہاں وہ اشتہاری ڈپارٹمنٹ میں ٹیکنیکل کمرشل آرٹسٹ کے طور پر اشتہارات اور خاکے بناتے تھے۔ بعد میں ہچکاک ڈیزائننگ اور فلم ٹائٹلز میں دل چسپی لینے لگے اور یہیں سے ان کو فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا شوق ہوا۔

    الفریڈ ہچکاک کا فلمی سفر 1920 کی دہائی میں بطور فلم ٹائٹل ڈیزائنر شروع ہوا۔ ان کی پہلی مکمل فلم The Pleasure Garden تھی جو 1925 میں آئی۔ 1927 میں ان کی فلم The Lodger نے ہچکاک کو بطور ڈائریکٹر فلمی دنیا میں پہچان دی اور صرف چند سال میں وہ اپنے کام کی بدولت مشہور ہوگئے۔ 1930 کی دہائی کے اواخر میں برطانیہ میں الفریڈ ہچکاک کو مشہور فلم ڈائریکٹر لکھا جانے لگا تھا۔

    1935 میں ان کی فلم The 39 Steps، اور 1938 میں The Lady Vanishes کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ اس آخرالذکر فلم کی شہرت نے انھیں ہالی وڈ پہنچا دیا اور اس وقت کے معروف پروڈیوسر ڈیوڈ او سیلزنک کی دعوت پر ہچکاک 1939 میں اپنی بیوی الما ریویل کے ساتھ امریکا ہجرت کرگئے۔ وہاں ہچکاک نے اپنی پہلی فلم ڈیفنی ڈو موریے کے ناول پر Rebecca کے نام سے بنائی۔ ہچکاک کا امریکا جانا ان کے کیریئر کا اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ یہاں ان کو مالی وسائل کے ساتھ تکنیکی سہولیات اور بہترین ٹیم میسر آئی اور ہچکاک نے بے مثال کام کیا۔

    خوف، سسپنس اور نفسیاتی الجھنوں پر مبنی فلمیں بنانے کی وجہ سے ناقدین نے الفریڈ ہچکاک کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش بھی کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہچکاک کا بچپن مذہبی ماحول اور نوعمری زندگی کے تکلیف دہ اور ذہنی طور پر متاثر کرنے والے مختلف روپ دیکھتے ہوئے گزری تھی جس میں خوف اور نفسیاتی پیچیدگیاں شامل تھیں اور یہی سب ان کے کام میں بھی نمایاں ہوا۔ ہچکاک نے انسانی نفسیات، خوف، گناہ، کشمکش اور اخلاقی تضادات کو بڑی مہارت سے پردے پر پیش کیا۔

    دراصل ہچکاک کا بچپن کچھ زیادہ خوش گوار نہیں تھا۔ ان کے والد نے انھیں غلطی کرنے پر کئی بار پولیس اسٹیشن بھیجا تھا جس سے وہ خوف زدہ ہوتے اور اس کا ہچکاک کے ذہن پر گہرا اثر پڑا۔ اپنے والد کے اس رویے کے زیر اثر بعد میں ہچکاک نے اپنے تخلیقی کام میں بھی کرداروں کو جرم، خوف اور سزا کے درمیان جھولتا دکھایا۔ فلموں میں انھوں نے نفسیاتی اور جذباتی کشمکش کو نہایت منفرد انداز سے پیش کیا جو شائقین کو جکڑ لیتی ہے۔ فلمی ناقدوں کا کہنا ہے کہ ہچکاک دھیرے دھیرے، بڑی چالاکی سے ناظرین کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور آخرکار ان کو خوف اور دل چسپی کے سنگم پر پہنچا دیتے ہیں۔ ہچکاک کا کمال یہ بھی ہے کہ ان کی اکثر فلموں کا انجام فلم بین کی توقع کے برعکس ہوتا ہے۔ ہچکاک کو فلموں میں عورتوں کو منفی روپ میں‌ پیش کرنے یا زیادہ تر جرم کا نشانہ بنتے دکھانے پر تنقید بھی سہنا پڑی۔

    امریکہ میں جلد ہی ہچکاک کو صفِ اوّل کے ہدایت کاروں میں شمار کیا جانے لگا تھا اور 1940 میں ان کی فلم ریبیکا کو بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ بھی مل گیا۔ اس فلم میں ایک نوجوان اور سادگی پسند لڑکی کو دکھایا گیا ہے، جس کی شادی ایک دولت مند رنڈوے میکسم ڈی ونٹر سے ہو جاتی ہے۔ وہ شادی کے بعد اس کے عظیم الشان محل میں‌ آتی ہے، لیکن یہاں خوشی کے بجائے خوف، بے یقینی، اور اس شخص کی مر جانے والی بیوی کی پرچھائیاں اس کی تکلیف بڑھا دیتی ہیں۔ میکسم کی پہلی بیوی ریبیکا کا وجود گھر میں ہر جگہ محسوس ہوتا ہے، اور خاص طور پر وہ ہاؤس کیپر جس کا نام مسز ڈینورس ہے، ریبیکا کی یادوں کو زندہ رکھتی ہے اور اپنے مالک کی نوبیاہتا کو ذہنی طور پر ایذا پہنچانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، نئی بیوی کو ریبیکا کی موت سے متعلق حیران کن راز معلوم ہوتے ہیں، اور فلم کا اختتام ایک سنسنی خیز انکشاف پر ہوتا ہے۔

    ہچکاک کی مشہور فلموں میں‌‌ Psycho کو ایک کلاسک ہارر فلم شمار کیا جاتا ہے جب کہ Vertigo اور دی برڈز سمیت کئی فلموں کو ان کی فلم سازی اور تخلیق کا کمال مانا جاتا ہے۔

    یہ مشہور فلم ساز 29 اپریل 1980ء کو چل بسا تھا۔

  • سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

    کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔

    سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ… موت ہے!
    لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے…

    "سنو: جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو بغیر کسی حفاظتی انتظامات اور تفتیش کے باہر آتی ہے وہ ہے مُردوں کا تابوت۔ جب کبھی کسی کو پھانسی دے دی جائے یا وہ طبعی موت مر جائے تو ان کی لاشوں کو مردہ خانے سے تابوت میں ڈال کر بحری جہاز پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر غیر مسلح چند محافظوں کی نگرانی میں کچھ سادہ رسومات ادا کرنے کے بعد ان تابوتوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، وہ محافظ ان تابوتوں کو بحری جہاز سے خشکی پر منتقل کرنے اور پھر دفنانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس کارروائی پر روزانہ صبح دس بجے اس صورت میں عمل درآمد کیا جاتا ہے کہ وہاں مردہ خانے میں مردہ اور تابوت موجود ہوں، آپ کے فرار کا واحد حل یہ ہے کہ اختتامی لمحات سے پہلے آپ کسی طرح کسی ایک تابوت میں پہلے سے مردہ شخص کے ساتھ لیٹ جائیں، معمول کی کارروائی اختتام پذیر ہو، بحری جہاز سے آپ زمین اور زمین سے قبرستان پہنچ جائیں، وہاں جا کر تابوت کو دفن کر دیا جائے، اور جیسے ہی عملہ وہاں سے واپسی کے لیے نکلے تو میں ہنگامی رخصت لے کر آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ کر آپ کو قبر اور تابوت سے باہر نکال لوں۔ پھر آپ مجھے وہ رقم دے دیں جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اور میں چھٹی کا وقت ختم ہوتے ہی واپس جیل چلا جاؤں گا اور آپ غائب ہو جائیں گے۔ یوں آپ کی گمشدگی ایک معمہ ہی رہے گی، اور اس معمے سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا… آپ کا کیا خیال ہے؟

    کروڑ پتی نے سوچا کہ یہ ایک جنونی قسم کا منصوبہ ہے، لیکن پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے یہ پھر بھی ہزار درجے بہتر ہے… کروڑ پتی نے تگڑی رقم دینے کا وعدہ کیا اور پھر دونوں نے اسی طریقہ کار پر اتفاق کر لیا۔

    سنتری کے منصوبے کے مطابق اس قیدی نے اتفاق کیا کہ وہ مردہ خانے میں چپکے سے جائے گا اگر وہ خوش قسمت رہا اور وہاں کسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بائیں طرف کے پہلے نمبر والے تابوت میں بند کر لے گا جس کے اندر پہلے سے ایک لاش موجود ہوگی۔

    اگلے دن حسبِ منصوبہ سنتری کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے وہ کروڑ پتی شخص مردہ خانے کے اندر گھسنے میں کام یاب ہوگیا، وہاں مردہ خانے کے فرش پر دو تابوت رکھے ہوئے تھے۔ پہلے تو وہ تابوت میں کسی مردے کے ساتھ لیٹنے کے خیال سے گھبرا گیا لیکن ایک بار پھر زندہ رہنے کی جبلت اس عارضی خوف پر غالب آگئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے احتیاط سے تابوت کو کھولا تاکہ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہو، اور اپنے آپ کو تیزی سے تابوت کے اندر مردے کے اوپر گرا دیا اور اس وقت تک بے چینی اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ وہ انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے محافظوں کی آواز نہ سن لی۔ وہ تابوت کو جہاز کے عرشے پر لے جانے کے لیے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

    مردہ خانے سے لے کر جہاز پر پہنچنے تک اسے قدم بہ قدم جگہ کی تبدیلی کا احساس ہوتا رہا۔ جہاز کا لنگر اٹھنے سے لے کر پانی پر اس کی حرکت کو اس نے محسوس کیا، سمندری پانی کی مہک جب تک اس کے نتھنوں سے ٹکراتی رہی تب تک اس کا عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ جہاز ساحل پر پہنچ کر لنگر انداز ہوا۔ محافظوں نے کھینچ کر تابوت کو خشکی پر اتارا تو اس کے کانوں سے محافظوں کی گفتگو کے چند الفاظ ٹکرائے، وہ اس تابوت کے عجیب و غریب وزن کے بارے میں ایک دوسرے سے تبصرہ کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اتنے وزنی تابوت سے زندگی میں پہلی دفعہ پالا پڑا ہے۔ اس گفتگو سے اس کروڑ پتی قیدی نے عجیب سا خوف اور تناؤ محسوس کیا۔ وہ ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ محافظ اس تابوت کو کھول کر دیکھ ہی نہ لیں کہ اندر کیا ہے۔ لیکن یہ تناؤ اس وقت ختم ہو گیا جب اس نے ایک محافظ کو لطیفہ سناتے ہوئے سنا جس میں وہ زیادہ وزن والے قیدیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مردہ خانے سے لے کر قبرستان پہنچنے تک شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے تھوڑی سی راحت محسوس کی۔

    اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تابوت کو گڑھے میں اتارا جا رہا ہے، چند لمحوں بعد اسے تابوت کے اوپری حصے پر مٹی کے بکھرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اور محافظوں کے بولنے کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی۔ اور اب اس اندھیری قبر میں وہ ایک عجیب صورت حال سے دوچار تھا، انسانی لاش کے ساتھ تین میٹر کی گہرائی میں وہ زندہ دفن تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا یہ بات درست ہے کہ وہ اس سنتری پر بھروسہ نہیں کرتا تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دولت سے محبت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور وہ سنتری وعدے کے مطابق لاکھوں کی رقم لینے کے لیے دولت سے اپنی محبت کی بدولت ضرور آئے گا۔

    انتظار طویل ہوتا جارہا تھا.. جسم پر پسینہ بہنے کا احساس یوں ہو رہا تھا جیسے ہزاروں چیونٹیاں دھیرے دھیرے رینگ رہی ہوں۔ سانسیں دھونکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی تھیں اور حبس سے دم گھٹ رہا تھا۔

    خود کو مطمئن کرتے ہوئے وہ کہنے لگا، بس مزید دس منٹ کی بات ہے، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور وہ دوبارہ آزاد فضاؤں میں سانس لے گا اور ایک بار پھر روشنی دیکھے گا۔

    سانس لینے میں دقت کے باعث اب وہ مسلسل کھانسنے لگا تھا۔ مزید دس منٹ گزر گئے۔ اس قبر میں آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اور وہ سنتری ابھی تک نہیں آیا۔ اسی سوچ میں تھا کہ اس نے بہت دور سے قدموں کی آہٹ سنی۔ ان آوازوں کے ساتھ ہی اس کی نبض تیز ہو گئی۔ ضرور یہ وہ سنتری ہی ہوگا۔ آخر وہ آ ہی گیا۔ آواز قریب پہنچ کر پھر دور ہوتی چلی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ رہا ہے۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے لاش حرکت رہی ہو۔ ساتھ ہی اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کے نیچے دبا ہوا مردہ آدمی اس کی حالت پر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہے اور تیلی سلگا کر وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ سکتا ہے کہ سنتری کے وعدے کے مطابق کتنا وقت گزر گیا تھا اور کتنا باقی ہے۔ اسے امید تھی کہ سنتری کے بتائے ہوئے وقت میں سے ابھی چند منٹ باقی ہوں گے۔

    جب اس نے تیلی سلگائی تو آکسیجن کی کمی کے باعث مدھم سی روشنی نکلی۔
    شعلے کو گھڑی کے قریب لاکر اس نے دیکھا تو پتا چلا کہ پینتالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر اب وہ حقیقی معنوں میں خوف زدہ ہو چکا تھا۔ ملگجی روشنی میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا چہرہ مردے کے چہرے کے بالکل قریب ہے۔ اس نے خود سے سوال کیا، کیا مردہ شخص کا چہرہ دیکھنا اسے مزید خوف میں مبتلا کرے گا؟

    تجسّس اور خوف کے ساتھ اس نے اپنی گردن موڑی ، شعلے کو لاش کے چہرے کے قریب کیا اور دہشت کے مارے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔

    مرنے سے پہلے اس نے دیکھا کہ یہ تو اس شخص کا چہرہ ہے جسے زندہ دیکھنے کی امید میں وہ یہاں زندہ دفن تھا۔ وہ اُسی سنتری کی لاش تھی۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم: توقیر بُھملہ)

  • الفریڈ ہچکاک کے شاہکار کا ری میک، رابرٹ ڈاؤنی جونیئر مرکزی کردار ادا کریں گے

    الفریڈ ہچکاک کے شاہکار کا ری میک، رابرٹ ڈاؤنی جونیئر مرکزی کردار ادا کریں گے

    شہرہ آفاق ہدایت کار اور سسپنس فلموں کی تخلیق میں انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھنے والے الفریڈ ہچکاک کی ایک شاہکار فلم ورٹیگو کا ری میک بننے جارہا ہے۔

    الفریڈ ہچکاک کو امریکی سینما کی بااثر ترین شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو سائیکو تھرلر اور جاسوسی فلموں کی تخلیق کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

    6 دہائیوں پر مشتمل اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے 50 سے زائد فلموں کی ہدایت کاری کی جن میں سے اکثر ماسٹر پیش قرار دی جاتی ہیں۔

    ان میں سے ایک سائیکو اور دوسری ورٹیگو ہے جو ہالی ووڈ کی تاریخ میں مشہور اور بہترین فلموں کی حیثیت رکھتی ہیں، سنہ 1958 میں ریلیز کی گئی فلم ورٹیگو کا اب ری میک بننے جارہا ہے۔

    امریکی فلم پروڈکشن کمپنی پیرا ماؤنٹ پکچرز نے ورٹیگو کے ری میک کے حقوق حاصل کرلیے ہیں اور جلد ہی اس پر کام شروع کردیا جائے گا، فلم میں مرکزی کردار ہالی ووڈ اداکار رابرٹ ڈاؤنی جونیئر ادا کریں گے جو فلم کے معاون پروڈیوسر بھی ہوں گے۔

    ذرائع کے مطابق فلم کو نیٹ فلکس کی مشہور سیریز پیکی بلائنڈرز کے مصنف اسٹیون نائٹ تحریر کریں گے۔

    فلم کی کہانی

    فلم ایک پولیس افسر جون فرگوسن کو پیش آنے والے ایک حادثے سے شروع ہوتی ہے جس میں اس کا ساتھی اہلکار بلندی سے گر کر مر جاتا ہے جس کے بعد جون ایکرو فوبیا یعنی بلندی کے خوف کا شکار ہوجاتا ہے۔

    اس کی منگیتر اس خوف کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے۔

    بیماری کے بعد جون ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لیتا ہے اور تبھی اس کا ایک دولت مند دوست اسے اپنی بیوی میڈیلین کی نگرانی کرنے کا کہتا ہے جو مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہے۔

    دونوں کے درمیان محبت کا تعلق پنپنے لگتا ہے پھر ایک روز میڈیلین بھی اونچائی سے گر کر خودکشی کرلیتی ہے جس کے بعد جون کی بیماری بدترین صورت اختیار کرلیتی ہے۔

    کہانی اس وقت نیا موڑ لیتی ہے جب جون کو ایک روز میڈیلین کی ہم شکل عورت دکھائی دیتی ہے۔

    مختلف نفسیاتی گتھیوں میں الجھتے ہوئے بالآخر فلم کے اختتام پر جب تمام گتھیاں سلجھتی ہیں تو دیکھنے والے چونک جاتے ہیں۔

    فلم اپنی ریلیز کے فوراً بعد کامیاب نہ ہوسکی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سینما کی تاریخ کی شاہکار فلم قرار پائی۔

  • الفریڈ ہچکاک کی فلموں کی ننھی منی تخلیق

    الفریڈ ہچکاک کی فلموں کی ننھی منی تخلیق

    آپ نے یوں تو آرٹ کے کئی نمونے دیکھے ہوں گے لیکن آج جو نمونہ ہم آپ کو دکھانے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کا منفرد آرٹ ہے۔

    یہ کارنامہ ایک چھوٹے سے آرٹسٹ کا ہے جو نہ صرف معروف فلم ساز الفریڈ ہچکاک کا دیوانہ ہے بلکہ یہ ان کی 70 اور 80 کی دہائی میں آنے والے فلموں کے کاغذی منی ایچرز بنا رہا ہے۔

    وہ نہ صرف فلموں کے سین بلکہ اپنے آس پاس کے مختلف مناظر، خواب اور اپنے تصورات کو بھی منی ایچرز کی شکل میں ڈھالتا ہے۔

    یاد رہے کہ الفریڈ ہچکاک ہالی ووڈ کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار تھے جو پراسراریت پر مبنی اور پر تجسس فلمیں بنانے کے لیے مشہور تھے۔


    سائیکو

    الفریڈ ہچکاک کی فلم سائیکو 60 کی دہائی میں آئی جو سسپنس سے بھرپور ہے۔

    اس میں ایک ذہنی مریض کی کہانی بیان کی گئی ہے، لیکن وہ کون ہوتا ہے، اس کا اندازہ سب کو آخر میں جا کر ہوتا ہے۔


    ورٹیگو

    ہچکاک کی ایک اور فلم ورٹیگو پراسراریت پر مبنی ہے اور یہ فلم ہر دور کی بہترین فلم مانی جاتی ہے۔

    اس میں ایک جاسوس کا واسطہ ایک ایسے دولت مند سے پڑتا ہے جو اپنی بیوی کو اس کے ذریعے مرواتا ہے، لیکن آخر میں کھلتا ہے کہ اس دولت مند شخص نے اپنی مردہ بیوی کی موت کو باقاعدہ منظر عام پر لانے کے لیے کسی دوسری عورت کی شکل میں یہ سارا ڈرامہ رچایا۔


    ریئر ونڈو

    یہ فلم بھی الفریڈ ہچکاک کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے جسے اس آرٹسٹ نے منی ایچر میں ڈھالا۔

    اس فلم میں ٹانگوں سے معذور ایک فوٹو گرافر اپنے پڑوسیوں کی کھڑکی سے نظر آنے والے مختلف مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتا ہے۔ تاہم اس وقت فلم میں ایک ڈرامائی موڑ آجاتا ہے جب وہ ایک قتل کی واردات کو عکس بند کر لیتا ہے۔


    دی برڈز

    ہچکاک کی فلم دی برڈز پرندوں کے تباہ کن حملے پر مبنی ہے۔

    اس میں 2 معصوم سے پرندے اچانک خونخوار ہوجاتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں پر حملہ کردیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ حملہ آور پرندے پورے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔