Tag: الیکشن

  • بلدیاتی نظام سے مطمئن نہیں تو الیکشن کیوں لڑا؟ امیر جماعت اسلامی نے کیا کہا؟

    بلدیاتی نظام سے مطمئن نہیں تو الیکشن کیوں لڑا؟ امیر جماعت اسلامی نے کیا کہا؟

    کراچی (31 اگست 2025): شہر قائد کے بلدیاتی نظام میں جماعت اسلامی دوسری بڑی پارٹی ہے تاہم وہ اس بلدیاتی نظام سے مطمئن نہیں ہے۔

    اے آر وائی کے پوڈکاسٹ میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر شریک ہوئے۔ ان سے میزبان ایاز سموں نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ بلدیاتی نظام سے مطمئن ہیں۔

    امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ہم بالکل بھی بلدیاتی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس پر میزبان نے ایک سوال اور داغا کہ اگر مطمئن نہیں تو پھر لوکل باڈی الیکشن کیوں لڑا۔

    منعم ظفر نے کہا کہ ہم بلدیاتی نظام سے مطمئن نہیں، لیکن آپ دیکھیں کہ ہم نے فائٹ کی اور آج کراچی کے عوام کو سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی کراچی (موجودہ امیر جماعت اسلامی پاکستان) حافظ نعیم نے کراچی کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ جیسا بھی لوڑا لنگڑا نظام ہوگا ہم عوام کی خدمت کریں گے۔ اور جتنے بھی وسائل اور اختیارات ملیں گے اس میں کام کر کے دکھائیں گے۔

    منعم ظفر نے کہا کہ ہم کراچی کے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔ اختیارات اور وسائل نہ ہونے کے باوجود آج اپنے وسائل اور اختیار سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں اور اپنے شہر کے عوام کی خدمت کے لیے مستقبل میں بھی یہ کام کرتے رہیں گے۔

    https://urdu.arynews.tv/town-chairman-salary-how-much/

  • مسلمان طالبعلم بھارتی نائب صدر کا الیکشن لڑے گا!

    مسلمان طالبعلم بھارتی نائب صدر کا الیکشن لڑے گا!

    بھارت میں اگلے ماہ 9 ستمبر کو نائب صدر کا انتخاب ہو رہا ہے جس کے لیے ایک مسلمان طالب علم نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کےمطابق گزشتہ ماہ جگدیپ دھنکھر کے مستعفی ہونے کے بعد نائب صدر کا عہدہ خالی ہو گیا تھا۔ نئے نائب صدر کا انتخاب 9 ستمبر کو ہوگا جس کے لیے امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرا رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق راجھستان کے علاقے جیسلمیر سے تعلق رکھنے والے صحافت کے طالب علم جلال الدین گزشتہ روز کاغذات نامزدگی جمع کرانے ضلع کلکٹر کے دفتر پہنچ گئے۔ اس اہم عہدے کے لیے ایک طالبعلم کی جانب سے امیدوار بننا سب کو حیران کر گیا۔

    جلال الدین نے کلکٹر کے دفتر میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے ضروری اپنی نامزدگی کے لیے ضروری رسمی کارروائیاں مکمل کر لی ہیں اور 15000 روپے نقد جمع کروانے کے بعد ایک رسید حاصل کر چکے ہیں۔

    کون ہے نوجوان طالب علم جلال الدین، جنھوں نے نائب صدر کے انتخابات کے لیے نامزدگی داخل کی ہے؟

    تاہم جلال الدین کو باضابطہ طور پر الیکشن لڑنے کا اہل ہونے کے لیے دیگر دستاویزات کے ساتھ اگلے تین روز میں ایک تجویز کنندہ اور ایک حمایتی بھی پیش کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ فارم کی دیگر شرائط کی تکمیل بھی کرنا ہوگی۔

    نوجوان پر امید ہے کہ تمام رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد وہ الیکشن کمیشن میں اپنا کاغذات نامزدگی جمع کرا دیں گے جس کے بعد ان کی امیدواری کو سرکاری سمجھا جائے گا۔ رسمی کارروائیوں کے لیے وہ دارالحکومت دہلی بھی جائیں گے۔

    جلال الدین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کی توجہ جیت یا ہار پر نہیں بلکہ ہندوستان کے جمہوری عمل میں حصہ لینے پر ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نائب صدر کے عہدے کے لیے یہ نامزدگی ان کا پہلا بڑا سیاسی قدم نہیں ہے، بلکہ ایک طویل مدتی عزم کا حصہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ عام شہری سیاست میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی ہو۔

    واضح رہے کہ جے پور کی ہری دیو جوشی یونیورسٹی میں صحافت کے طالبعلم جلال الدین طلبہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ الیکشن نہیں لڑ رہے بلکہ اس سے قبل انہوں نے وارڈ پنچ، ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے لیے بھی کاغذات نامزدگی داخل کر چکے ہیں۔ تاہم اس بار ان کی نظریں نائب صدر کے انتخاب پر ہیں۔

  • مودی میں ہمت ہے، اتنے مقبول ہیں تو کل ہی الیکشن کروادیں، وزیراعلیٰ بنگال کا چیلنج

    مودی میں ہمت ہے، اتنے مقبول ہیں تو کل ہی الیکشن کروادیں، وزیراعلیٰ بنگال کا چیلنج

    وزیراعلیٰ بنگال ممتا بنرجی نے چیلنج کیا ہے کہ اگر نریندر مودی میں ہمت ہے اور اتنے مقبول ہیں تو کل ہی الیکشن کروادیں۔

    مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ایک مضبوط کھلا چیلنج دیدیا، مغربی بنگال کی سیاسی صورتحال کے بارے میں علی پور ریلی کے دوران مودی کے حالیہ ریمارکس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔

    وزیر اعلیٰ اور ٹی ایم سی کی سربراہ ممتا بنرجی نے وزیراعظم مودی کے تبصروں پر دکھ کا اظہار کیا، جس میں خاص طور پر مودی نے "آپریشن بنگال” اور "آپریشن سندھور” کا حوالہ دیا۔

    ممتا بنرجی نے کہا کہ مودی جی نے آج جو کچھ کہا، ہمیں یہ سن کر نہ صرف صدمہ ہوا بلکہ بہت دکھ بھی ہوا جبکہ اس وقت اپوزیشن ملک کی نمائندگی کر رہی ہے۔

    بنگال کی وزیر اعلیٰ نے براہ راست پی ایم مودی اور بی جے پی کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے دعویٰ کے مطابق فوری طور پر اسمبلی انتخابات کا اعلان کریں۔

    انھوں نے کہا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو کل الیکشن میں جائیں، ہم تیار ہیں اور بنگال آپ کے چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے لیکن براہ کرم یاد رکھیں وقت ایک اہم عنصر ہوتا ہے، آپ کو وقت کو یاد رکھنا چاہیے۔

    https://urdu.arynews.tv/bengal-minister-udayan-guhas-lashes-out-modi/

  • الیکشن لڑنے کے لئے دو بچے ہونا لازمی قرار

    الیکشن لڑنے کے لئے دو بچے ہونا لازمی قرار

    بھارت میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو نے ریاست کی آبادی میں اضافہ کرنے کے حوالے سے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو کا کہنا تھا کہ قانون لایا جائے گا کہ بلدیاتی الیکشن لڑنے کے خواہش مند کے کم از کم دو بچے لازمی ہوں۔

    وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے آبادی کے انتظام کے تئیں ریاست کے نقطہ نظر میں تبدیلی پر زور دیا، اُن کا کہنا تھا کہ جہاں آبادی کو بوجھ سمجھا جاتا تھا اب اسے اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ پہلے ہم آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے مراعات دیتے تھے۔ آبادی کبھی بوجھ تھی۔ اب یہ ایک اثاثہ ہے۔ ہم نے ایک قانون بنایا جس کے مطابق اگر آپ کے دو سے زیادہ بچے ہیں تو آپ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ لیکن اب ہمیں آبادی میں اضافے کی ضرورت ہے۔

    وزیر اعلیٰ نائیڈو کا کہنا تھا کہ ریاست کی آبادی 2026 میں 5.38 کروڑ ہوسکتی ہے، یہ 2031 میں 5.42 کروڑ اور 2036 میں 5.44 کروڑ ہو جائے گی۔ 2041 میں یہ گھٹ کر 5.42 کروڑ رہ جائے گی۔

    مصر میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز

    بھارت میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو نے آبادی میں اضافے کو یقینی بنانے کے لیے فی جوڑے 2.1 بچوں کی اوسط پیدائش کے ساتھ مناسب توازن کی ضرورت پر زور دیا۔

  • ایلون مسک پر جرمنی کا بڑا الزام

    ایلون مسک پر جرمنی کا بڑا الزام

    برلن: جرمنی نے ایلون مسک پر جرمن الیکشن پر اثر انداز ہونے کا الزام لگا دیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق جرمن حکومت نے پیر کے روز امریکی ارب پتی ایلون مسک پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فروری میں ہونے والے اس کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    جرمن حکومت نے کہا کہ ایلون مسک نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ (اے ایف ڈی) کی حمایت میں مضامین لکھے ہیں، انتخابی عمل پر اثر ڈالنے کی کوشش کو اس مضمون نے بڑھاوا دیا۔

    ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے جرمن روزنامے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اے ایف ڈی کی تعریف کی تھی، جسے چانسلر کے اہم امیدوار فریڈرش میرس نے مسک کی ’مداخلت اور زعم باطل‘ قرار دیا ہے۔

    جرمن زبان میں شائع ہونے والے اس مضمون میں ایلون مسک نے ریگولیشن، ٹیکس اور مارکیٹ ڈی ریگولیشن جیسے امور پر اے ایف ڈی کی پالیسی کی تعریف کی تھی۔ مضمون اخبار میں شائع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی ادارتی سیکشن کی ایڈیٹر ایوا میری نے ایکس پر پوسٹ میں احتجاجاً اپنے استعفے کا اعلان کیا۔

    خیال رہے کہ جرمنی کی انٹیلیجنس ایجنسی نے ’اے ایف ڈی‘ کو 2021 سے انتہاپسند جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالت میں ناکامی : 50 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم

    جرمن حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ایلون مسک اخبارات میں رائے دے کر اور ایکس پر پوسٹ کر کے وفاقی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، مسک بلاشبہ اپنی رائے کے اظہار کے لیے آزاد ہیں، آخر رائے کی آزادی ہے بھی تو ایک عظیم بکواس۔

    کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے جرمن سیاست پر اثر انداز ہونے کے اپنے حق کا دفاع کیا ہے، کیوں کہ جرمنی میں انھوں نے بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

  • صدارتی الیکشن: ’’گدھا اور ہاتھی‘‘ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کی پہچان کیسے بنے؟ دلچسپ تاریخی کہانی

    صدارتی الیکشن: ’’گدھا اور ہاتھی‘‘ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کی پہچان کیسے بنے؟ دلچسپ تاریخی کہانی

    امریکا کے صدارتی الیکشن میں صرف چار روز باقی رہ گئے ہیں وائٹ ہاؤس پر کون براجمان ہوگا اس بار بھی گدھا جیتے گا یا ہاتھی بازی مارے گا دنیا کی نظریں لگ گئیں۔

    دنیا بھر کی نظریں امریکی صدارتی انتخابات پر جمی ہیں جو منگل 5 نومبر کو ہوں گے۔ قبل از پولنگ لاکھوں امریکی ووٹر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرچکے ہیں لیکن اصل میدان جنگ 5 نومبر کو سجے گا جہاں سوئنگ ریاستیں جیتنے کے لیے دونوں حریف امیدوار ٹرمپ اور کاملا ہیرس کی نظریں ہیں۔

    امریکا میں دو جماعتی نظام نافذ ہے اور صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ کا انتخابی نشان ہمیشہ گدھا اور ری پبلکن کا انتخابی نشان ہاتھی ہوتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے یہ انتخابی نشان کیسے بنے؟ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے۔

    دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی دو بڑی جماعتیں ریپلکن اور ڈیموکریٹ کی پہچان گدھا اور ہاتھی ہے اور یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

    1828 میں صدارتی امیدوار اینڈریو جیکسن کو مخالفین نے گدھا اور احمق کا لقب دیا۔ جیکسن نے نہ صرف اس لقب کو خوش دلی سے قبول کیا، بلکہ اپنے انتخابی پوسٹروں میں گدھے کی تصویر شامل کر لی۔ یوں گدھا ڈیموکریٹ پارٹی کا نشان بن گیا۔

    ہاتھی کی کہانی قدرے مختلف ہے۔ ابراہم لنکن جب پہلے ری پبلیکن صدر کے طور پر کامیاب ہوئے، تو اسی دور میں ہاتھی ایک کارٹون کے ذریعے ری پبلیکن کی علامت کے طور پر سامنے آیا۔

    امریکا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو صدور کی تعداد کے لحاظ سے ریپبلکن کا پلڑا بھاری ہے۔ اب تک ریپبلکن کے 18 اور ڈیموکریٹ کے 16 صدور اقتدار سنبھال چکے ہیں۔

    اس صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار کاملا ہیرس گدھے کے قدیم انتخابی نشان اور ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ہاتھی کے نشان کے ساتھ اپنی پیشگی فتوحات کے دعوے کر رہے ہیں لیکن جیت کس کی ہوگی۔ اس کے لیے صرف چار روز کا انتظار باقی ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/us-election-biden-and-trump-garbage-came-in-election-campaign/

  • احتجاج  کرنے والوں کو الیکشن میں عوام نے مسترد کردیا: آغا سراج درانی

    احتجاج کرنے والوں کو الیکشن میں عوام نے مسترد کردیا: آغا سراج درانی

    کراچی: اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا ہے کہ احتجاج  کرنے والوں کو الیکشن میں عوام نے مسترد کردیا ہے۔

    اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ احتجاج  کرنے والوں کو الیکشن میں عوام نے مسترد کردیا ہے،  ایسے احتجاج تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ہوتے آرہے ہیں۔

    آغاسراج درانی نے کہا کہ پورا سندہ ہمارے ساتھ ہے، خواہش ہے نئے اسپکر صاحب بھی قیادت کی سرپرستی میں چلیں، ہم  سڑک والی  پار ٹی نہیں  کہ جس کو مرضی  بٹھادیں، پی پی میں کارکردگی پر عہدے دیے جاتے ہیں۔

    اپوزیشن جماعتوں کا سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کا اعلان ، ضلع جنوبی میں دفعہ 144 نافذ

    واضح رہے کہ جی ڈی اے، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی جانب سے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    نگراں وزیر داخلہ سندھ نے کہا تھا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث سندھ اسمبلی پر جلوس، احتجاجی مظاہروں پر پابندی ہے، کسی بھی قسم کی شرپسندی کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی۔

    دوسری جانب ریڈ زون میں پولیس کی نفری تعینات کردی گئی ہے۔

  • امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے الیکشن سے متعلق بیانات پر دفتر خارجہ کا ردعمل

    امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے الیکشن سے متعلق بیانات پر دفتر خارجہ کا ردعمل

    اسلام آباد: دفتر خارجہ کا ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات سے متعلق امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے بتانات پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق بعض ممالک اور تنظیموں کے بیانات کو دیکھا ہے، ہم ان میں سے بعض بیانات کے منفی لہجے پر حیران ہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ بیانات انتخابی عمل کی پیچیدگی کو مدنظر نہیں رکھتے، نہ ہی یہ  بیانات لاکھوں پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے آزادانہ  استعمال کو تسلیم کرتے ہیں۔

    ترجمان کے مطابق یہ بیانات نہ تو انتخابی عمل کی پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہیں اور نہ ہی لاکھوں پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے آزادانہ اور پرجوش استعمال کو تسلیم کرتے ہیں، یہ بیانات اس ناقابل تردید حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ پاکستان نے عام انتخابات پرامن اور کامیابی کے ساتھ منعقد کیے ہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ کچھ بیانات حقیقت پر مبنی بھی نہیں ہوتے، ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش نہیں تھی، پولنگ کے دن دہشت گردی کے واقعات سے بچنے کے لیے صرف موبائل سروس کو دن بھر کے لیے معطل رکھا گیا۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ انتخابی عمل نے یہ ظاہر کیا ہے کہ بہت سے مبصرین کے خدشات غلط تھے، پاکستان نے ایک مستحکم اور جمہوری معاشرے کی تعمیر کے عزم کے تحت انتخابات کا انعقاد کیا۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اگرچہ ہم اپنے دوستوں کے تعمیری مشوروں کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن انتخابی عمل کی تکمیل سے قبل منفی تبصرہ کرنا  تعمیری نہیں، پاکستان ایک متحرک جمہوری نظام کی تعمیر کے لیے کام جاری رکھے گا۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ اقتدار کی پرامن منتقلی ہمیں اس مقصد کے قریب لاتی ہے، ہم یہ دوسروں کی طرف سے ظاہر کیے گئے خدشات کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمارے لوگوں کی خواہش اور ہمارے بانیوں کا وژن ہے۔

  • الیکشن کے دن انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے حوالے سے  پی ٹی اے کا اہم بیان آگیا

    الیکشن کے دن انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے حوالے سے پی ٹی اے کا اہم بیان آگیا

    اسلام آباد : الیکشن کے دن انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق پی ٹی اے نے اہم بیان جاری کردیا، جس میں واضح کہا ہے کہ حکومت پاکستان الیکشن کے دن انٹرنیٹ بند نہیں کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن 2024 اور انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وضاحت جاری کردی۔

    پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان الیکشن کے دن انٹرنیٹ بند نہیں کرے گی، پی ٹی اے نے تصدیق کی ہے کہ انتخابات کے دن انٹرنیٹ سہولت صارفین کو میسر ہو گی اور ملک میں انٹرنیٹ بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرے گا۔

    اس سے قبل نگراں وفاقی وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے الیکشن ڈے پر موبائل سروس اور انٹرنیٹ بند ہونے افواہوں کو مسترد کردیا تھا۔

    مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے انتخابات کے موقع پر موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

  • بلاگ: پاکستان کامستقبل نوجوانوں کےہاتھ میں ہے

    بلاگ: پاکستان کامستقبل نوجوانوں کےہاتھ میں ہے

    سال 2024 دنیا بھر میں الیکشن کا سال ہے ، دنیا کی آدھی آبادی رواں سال ووٹ کی طاقت کے استعمال کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کرے گی۔ پاکستان کے الیکشن دنیا کے پانچویں بڑے جمہوری انتخابات تصور کیے جاتے ہیں جو کہ اب صرف چند گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے 12 ویں انتخابات ہیں جس میں عوام آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ قومی اسمبلی کی 266 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 593 جنرل نشستوں پر نمائندے منتخب ہوکر عوام کی نمائندگی کریں گے۔ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کو ملا کر مجموعی طور پر 336 نشستوں ہوں گی، یعنی کسی بھی جماعت کو وفاقی حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔

    ایسا کہنا شاید درست نہ ہوگا کہ ملک بھر میں انتخابی مہم آزادانہ اور روایتی طریقے سے زور و شور سے جاری رہی ۔ کیونکہ بظاہر الیکشن کی فضا اور ماحول دکھائی نہیں دیا۔ انتخابی مہم کے حوالے سے شکوے شکایات کرنے والی جماعتوں میں دیگر جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی بھی شامل ہیں۔ملک بھر میں پائے جانے والے ایک عام تاثر کے مطابق تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی اور 9 مئی واقعے کے بعد پی ٹی آئی کے معاملات کی خرابی کے باعث رواں الیکشن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم پورے ملک میں بھرپور انداز میں جاری رہی۔ بلاول بھٹو ، آصف زرداری سندھ ، کے پی اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھرپور متحرک نظر آئے مگر ن لیگ کا پورا فوکس صرف پنجاب پر ہی رہا۔

    ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزارت عظمٰی کے مضبوط امیدوار میاں نوازشریف یا مریم نواز نے میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو اور آصف زرداری مقامی میڈیا کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا اور عالمی میڈیا کو بھی مسلسل انٹرویوز دیتے رہے۔ن لیگ نے کے پی اور بلوچستان میں تو چند جلسے کیے مگر سندھ میں نہ ہونے کے برابر مہم چلائی گئی ،کراچی میں تو ن لیگ کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر نظر آئی۔ لگ یہی رہا تھا کہ ن لیگ سندھ میں جی ڈی اے ، ایم کیوایم ، جے یوآئی سمیت دیگر پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا کر پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دے گی۔ اس سلسلے میں لیگی رہنما بشیر میمن کافی متحرک نظر آئے مگر یہ وہ جوش و جذبہ اچانک کہیں تحلیل ہوگیا۔اگر یہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اندرون خانہ کوئی ڈیل ہے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے گڑھ صوبہ پنجاب پر بھرپور فوکس کررکھاہے۔

    بھر میں حالیہ الیکشن کی انتخابی مہم کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی رہا کہ کئی سیاسی جماعتوں نے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی۔ کراچی کی حد تک بات کی جائے تو جماعت اسلامی کی ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابی بہترین انداز میں جاری ہے۔ تحریک انصاف نے بھی انتخابی نشان چھن جانے کے بعد حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشان کے حوالے سے ووٹرز کو آگہی کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ پیپلزپارٹی نے بھی کسی حد تک ڈیجیٹل میڈیا پر مہم جاری رکھی۔ن لیگ اس دوڑ میں شامل تو تھی مگر ان کی توجہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب زیادہ رہی ۔ اب اسکا فیصلہ تو انتخابی نتائج سے ہی سامنے آئے گا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈیجیٹلائزیشن کا استعمال عوام کو متاثر کرنے میں کتنا کامیاب ہوا ۔

    مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان ٹی وی اور پرنٹ میڈیا پر اشتہارات کا بھی بھرپور مقابلہ رہا۔ حیرت انگیز طور پر الیکشن سے پہلے ہی آج مختلف بڑے اخبارات میں چھپنے والے ن لیگ کے اشتہار میں نوازشریف کے وزیراعظم بننے کا اعلان کردیاگیا ہے۔ اشتہار کے الفاظ کچھ یوں ہیں ، ‘‘نوازشریف وزیراعظم ، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا’’۔ یہ ایک اشتہار ہی صحیح مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ اشتہار صحافتی اصولوں کے مطابق پروپیگنڈہ کے زمرے میں نہیں آتا؟۔

    اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کو اس وقت بہت سنگین مسائل درپیش ہیں۔ الیکشن کے نتیجے میں بننےوالی حکومت کے لیے معیشت ، مہنگائی، بےروزگاری کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی صورتحال بھی ایک بڑا چیلنج ہوگی۔ یہ تمام عوامل الیکشن 2024 کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔

    الیکشن کمیشن کی جاری کردہ ووٹر لسٹ کے مطابق الیکشن 2024 میں 12 کروڑ 85 لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے اہل ہیں۔ جس میں 53.87 فیصد مرد جبکہ 46.13 فیصد خواتین شامل ہیں۔

    نوجوانوں کا ووٹ حالیہ انتخابات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق نوجوان ووٹر کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یعنی 18 سے 35 سال کے درمیان کے ساڑھے 5 کروڑ سے زائد ووٹرز ووٹ دینے کے لیے اہل ہیں۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امیدواران یا سیاسی جماعتیں ملک کا مستقبل کہلانے والے نوجوان طبقے کو ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کرپائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں نوجوانوں کی توجہ کا مرکز رہنے والے عمران خان الیکشن کی دوڑ سے باہر اور انکی جماعت اپنے انتخابی نشان ‘‘بلے’’ کے ساتھ انتخابی دوڑ میں شامل نہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے حمایت یافتہ امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے جیت جانے والے امیدوار پیپلزپارٹی یا ن لیگ میں بزور یا بخوشی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس تمام خدشات کے باوجود بیلٹ بیکس کی طاقت کاانکار ممکن نہیں، ووٹ ڈالنا ضروری ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز ووٹ کی طاقت سے ہی پارٹی کو سیاسی تنہائی سے نکال سکتے ہیں۔ دوسرا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر امیدوارکے وفاداری بدلناکایقین ہوجائےتوبھی الیکشن سے لاتعلق رہنے کے بجائے اپنا ووٹ اپنے حلقے کے بہترین امیدوار کے حق میں کاسٹ کرکے اپنی امانت کا درست استعمال کیاجاسکتاہے۔

    حالیہ الیکشن کے حوالے سے تجزیہ نگاروں اور سیاسی ماہرین کی متفقہ رائے یہی کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ جتنا زیادہ ہوگا ،نوجوان طبقہ جتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے گا روایتی سیاست کو اتنا ہی بڑا دھچکا لگے گا اور الیکشن کا نتیجہ بھی اتنا ہی پُراثر ہوگا۔ اس لیے 8 فروری کو ووٹ ڈالنے کے لیے ضرور باہر نکلیں اور دوسروں کو بھی ووٹ کاسٹ کرنے کی تلقین کریں، بہترین امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرسکیں تاکہ اگلے 5 سال کم از کم اپنے نمائندے کے انتخاب کے حوالے سے پچھتانے کے بجائے مطمئن رہ سکیں۔

    محمد عبدالرحمٰن ایک بڑے صحافتی ادارے سے وابستہ ہیں اور سیاسی اور سماجی موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار مختلف فورمز پر کرتے رہتے ہیں