ٹیکسلا: سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو 25 جولائی کے بعد گھمبیر حالات کا سامنا ہوگا، سیاست دان ملک کا بھلا چاہتے ہیں تو دست وگریباں ہونا چھوڑ دیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹیکسلا کے سی بی گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا، چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے بعد ملک کو گھمبیر حالات سے گزرتا ہوا دیکھ رہا ہوں، سیاست دان آپس میں لڑنا چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے مخالف امیدوار سے کہو وہ اپنی کارکردگی بتائے، اس علاقے میں ن لیگ کی اینٹ اینٹ میں نے رکھی، جو کونسلر کا الیکشن نہیں لڑسکتے وہ بھی ن لیگ کے ساتھ ہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ الیکشن کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس حلقے سے ہارنے کے باوجود ترقیاتی کام کرائے، میرے متعلق یہاں کے عوام جانتے ہیں۔
خیال رہے کہ انہوں نے گذشتہ روز بھی ٹیکسلا میں عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا، اس موقع پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ عوام امیدوار کی کارکردگی دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کریں کہ آپ کے ووٹ کی پرچی کا اصل کون حقدار ہے، اللہ کا بھی حکم ہے کہ امانتیں ایماندار لوگوں کے سپرد کرو۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ عمران خان اور میں اسکول کے زمانے سے دوست ہیں، عمران خان نے کیا کہا اس میں نہیں جانا چاہتا، عمران خان نے مجھے کہا جتنے چاہیں ٹکٹ لے لو۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی مہم کے وقت سے متعلق ضابطۂ اخلاق جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیدوار پولنگ ختم ہونے کے وقت تک 48 گھنٹوں کے دوران انتخابی مہم روکنے کے پابند ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو پابند بنایا ہے کہ جس رات پولنگ ختم ہو رہی ہو، اس وقت تک اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کوئی عوامی جلسہ منعقد نہ کیا جائے۔
الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 182 کے مطابق کوئی بھی شخص ووٹنگ کے خاتمے تک اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کوئی عوامی جلسہ منعقد کرے گا نہ ہی ایسے کسی جلسے میں شرکت کرے گا۔
ضابطۂ اخلاق کے مطابق بتائے گئے وقت میں کوئی بھی شخص انتخابی حلقے میں نہ کسی جلوس کو پروموٹ کرے گا نہ ہی اس میں شامل ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے خبر دار کیا ہے کہ اگر کسی بھی شخص نے قانون کے ان ضابطوں کی خلاف ورزی کی تو اسے دو سال قید کی سزا ہو سکتی ہے یا ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے یا پھر دونوں سزائیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میڈیا پر انتخابی مہم کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیدواروں کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور پریس میڈیا بھی انتخابی وقت کے ضابطے کی پابندی کریں گے۔
ضابطے کے مطابق انتخابات 2018 کے لیے میڈیا ملک بھر میں انتخابی مہم 23 اور 24 جولائی کی درمیانی رات کو روک دے گا۔
مذکورہ وقت کے دوران الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ایسا کوئی اشتہار اور تحریری مواد شائع نہیں کرے گا جس کا مقصد سیاسی مہم ہو، یا وہ کسی پارٹی یا امیدوار کے حق میں ہو۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
جمہوریت ایک جدید طرزِ حکومت ہے جس میں عوام کی حکومت ، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے چلائی جاتی ہے، پاکستان میں چند دن بعد عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے جس میں پاکستان کے عوام اپنے لیے حکمرانوں کا تعین کریں گے۔
آج کی دنیا میں جب کے وسیع و عریض مملکتیں قائم ہیں، ایسے میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی ہے۔
اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی جہاں ہر شخص کے مجلسِ قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ جو ووٹروں کی جانب سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔
جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکینِ مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔
پاکستانی جمہوریت کے کچھ کمزور پہلو
پاکستان میں 1970 کے انتخابات میں پہلی بار عام آدمی کو براہ راست ووٹ دے کر اپنے نمائندے چننے کا اختیار ملا ، 1973 میں یہ طریقہ کار آئین کا حصہ بن گیا تاہم ابھی بھی اس نظام میں کچھ کمزوریاں ہیں ، جن کے سبب پاکستان کا عوام شہری آج بھی جمہوری ثمرات سے اس طرح بہرہ مند نہیں ہوپارہا ہے، جیسا کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں کے شہری ہوتے ہیں۔
ووٹ کس کو دیں؟
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج تک یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ انہیں ووٹ منشور اور کاکردگی کی بنیاد پر دینا ہے اور ناقص کاکردگی دکھانے والے کو آئندہ انتخابات میں رد کرنا ہے، آج بھی یہاں ذات برادری ، قبیلہ ، فرقہ اور زبان کے نام پر لوگ ووٹ مانگتے ہیں اور عوام میں سے بہت سے ان کھوکھلے نعروں پر ووٹ دے کر ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں پہنچادیتے ہیں جو کہ کارکردگی کی بنا پر کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے۔
پارٹیوں کی اجارہ داری
پاکستان کیونکہ ایک بڑا ملک ہے اس لیے یہاں ناممکن ہے کہ کوئی آزاد امید وار، از خود وزیراعظم بن سکے ، یہاں سیاسی جماعتیں کثیر تعداد میں نشستیں حاصل کرتی ہیں اور اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ایسے آزاد امیدوار جو الیکشن میں فاتح رہے ہوں ،ا نہیں اپنی جماعت میں شمولیت کی ترغیب دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں آزاد امیدوار پارٹی منشور کےبجائے آفر کو ترجیح دیتا ہے اور بالخصوص حکمران جماعت کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔
ہارنے والے کے ووٹ
پاکستانی جمہوری نظام میں زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت ہی عموماً حکومت تشکیل کرتی ہے ، انتخابی معرکے میں اکثر اوقات فاتح امید وار چند سو یا چند ہزار ووڑ کے مارجن سے جیت جاتا ہےاور وہ تمام افراد جنہوں نے ہارنے والے امید واروں کو ووٹ دیے تھے ان کی آواز پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پاتی، اس کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ نشستوں کی تقسیم فاتح امیدواروں کےبجائےپورے ملک سے حاصل کردہ کل ووٹوں کی بنیاد پر کی جائے، تاہم اس کے لیے آئین سازی اور پورے ملک سے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
ممبران کے فنڈ
کسی بھی ملک میں پارلیمان کے ممبران کا بنیادی کام قانون سازی ہے ، یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے قانون بنائےا ور انہیں نافذ کرائے ۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے ترقیاتی فنڈ مختص ہیں ، جو کہ حلقے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ فنڈز جہاں ایک جانب ممبران کی توجہ پارلیمانی امور سے ہٹاتے ہیں ، وہیں اس پیسے کے سبب بہت سے ایسے افراد بھی انتخابی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا مقصد محض فنڈزا ور عہدوں کا حصول اور ان میں کرپشن کرنا ہے ، ان عوامل کے نتیجے میں ملکی معیشت اور معاشرت دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
جدید تکنیک سے دوری
ہمارے پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے مشین یا ای پیپر کا استعمال ہورہا ہے، تاہم پاکستان آج کے جدید دور میں بھی قدیم پولنگ کے طریقے استعمال کررہا ہے ، جن میں دھاندلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ان پر بے پناہ لاگت بھی ہے، دوسری جانب ووٹر کو بھی طویل قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈالنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جس کے سبب رجسٹرڈ ووٹر ز کی کثیر تعداد الیکشن والے دن گھر سے نہیں نکلتی اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہتا ہے۔ اسی سبب بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے حقِ رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔
بہرحال پاکستان میں جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ کام کرتے ہوئے دس سال ہوچکے ہیں اور اس عرصےمیں دو سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرکے عوام میں جاچکی ہیں۔ سنہ 2018 کے انتخابات کے لیے یہ سیاسی جماعتیں ایک بار پھر میدان میں ہیں۔
گزشتہ دس سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کے سبب عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے، پہلے وہ علاقے جو کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کا گھر سمجھے جاتے تھے ، انہی علاقوں میں اب سیاسی جماعتوں سے عوام سوال کررہے ہیں کہ ان کے حقوق کہاں ہیں۔ جمہوریت اسی طرح اپنا سفر آگے بڑھاتی رہی تو امید ہے کہ یہی کرپشن زدہ امید وار ایک نہ ایک دن عوامی دباؤ سے خوف زدہ ہوکر از خود ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا شروع کردیں گے اور اس کی کئی مثالیں ہمیں گزشتہ دس سال میں نظر بھی آئی ہیں، جن میں اٹھارویں آئینی ترمیم ، سول حکومت میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، اور عہدے پر موجود وزرائے اعظم کی کرپشن پر اسی مدت میں ان کا احتساب اور سزا کا عمل شامل ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
اسلام آباد: الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 22 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا ہدف 16 دنوں میں مکمل کرلیا گیا ہے۔ بیلٹ پپیرز کی چھپائی پر 2 ارب سے زائد لاگت آئی۔
تفصیلات کے مطابق ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 22 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا ہدف 16 دنوں میں مکمل کرلیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف اضلاع میں ترسیل کا عمل فوج کی نگرانی میں جاری ہے۔ کچھ حلقوں کے بیلٹ پیپر، کیس زیر سماعت ہونے کے باعث نہ چھپ سکے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چاروں صوبوں کے بیلٹ پپیرز کی چھپائی 3 پرنٹنگ پریسز میں کی گئی ہے۔ یکم جولائی سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام شروع کیا گیا جو آج مکمل کرلیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپرز کے لیے کاغذ فرانس اور برطانیہ سے منگوایا گیا۔ مہنگا واٹر مارک کاغذ بیلٹ پپیرز کی چھپائی میں استعمال کیا گیا۔ بیلٹ پپیرز کی چھپائی پر 2 ارب سے زائد لاگت آئی۔
خیال رہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہونے جارہا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی مقام پر زندگی کا دار ومدار پانی پر ہوتا ہے، جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی ہوگی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی صحرا میں زندگی کا وجود ناممکن نظر آتا ہے۔
تاہم ایسا ہے نہیں، دنیا بھر کے صحراؤں میں لوگ آباد ہیں جو اپنی مختلف ثقافت اور رسوم و رواج کے باعث منفرد تصور کیے جاتے ہیں۔
گو کہ صحراؤں میں ان کی ضرورت کے حساب سے بہت کم پانی میسر ہوتا ہے، لیکن یہ جیسے تیسے اپنی زندگی اور روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
انہی صحراؤں میں سے ایک سندھ کا صحرائے تھر بھی ہے جو برصغیر کا سب سے بڑا صحرا اور دنیا بھر کے بڑے صحراؤں میں سے ایک ہے۔
تقریباً 16 لاکھ سے زائد افراد کو اپنی وسعت میں سمیٹے صحرائے تھر ایک عرصے سے اپنے مسیحا کا منتظر ہے جو آ کر اس صحرا کو گلشن میں تو تبدیل نہ کرے، البتہ یہاں رہنے والوں کے لیے زندگی ضرور آسان بنا دے۔
مختلف ادوار میں مختلف پارٹیوں کی حکومت کے دوران کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہ تھی جو صحرائے تھر کے باشندوں کی زندگی بدل سکتی اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرسکتی۔
چنانچہ اب تھر کے لوگ اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے ان بھاری بھرکم سیاسی جماعتوں کے مقابلے کا اعلان کردیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کسی مشکل کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوجائے تو وہ عزم وحوصلے کی چٹان بن جاتی ہے اور اس میں اتنی ہمت آجاتی ہے کہ وہ فرعون وقت کو بھی چیلنج کرسکتی ہے۔
تھر کی عورتوں نے بھی ان سیاسی جماعتوں کے مدمقابل آنے کی ہمت کرلی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ایک عرصے سے اپنے خاندانوں اور لوگوں کو ترستی ہوئی زندگی گزارتا دیکھ رہی ہیں۔
یہ خواتین اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان پارٹیوں سے نجات چاہتی ہیں جو صرف ووٹ کے حصول کی حد تک تھر والوں سے مخلص ہیں۔
صحرائے تھر قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں این اے 221 ڈاہلی نگر پارکر، این اے 222 ڈیپلو اسلام کوٹ، پی ایس 54 ڈاہلی، پی ایس 55 نگر پارکر، پی ایس 56 اسلام کوٹ، اور پی ایس 57 ڈیپلو شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 222 سے تلسی بالانی، پی ایس 55 سے نازیہ سہراب کھوسو اور پی ایس 56 سے سنیتا پرمار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان خواتین کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں سے ہے۔
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو تھر کے علاقے نگر پارکر حلقہ پی ایس 55 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھر میں زندگی گزارنا ایسا ہے جیسے آپ اس دنیا میں لاوارث ہیں۔ ’لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے تک نہیں آتا‘۔
نازیہ نے بتایا کہ تھر میں موجود اسکولوں میں کئی استاد ایسے ہیں جنہیں وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ استاد اپنے فرائض تو نہیں نبھا رہے البتہ ہر ماہ تنخواہ ضرور لیتے ہیں۔ ’وڈیروں کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں نہ خواتین کے لیے صحت کے مراکز ہیں، نہ پینے کا پانی، نہ سڑکیں نہ اسکول، ’امیر کے بچے کے لیے سب کچھ ہے، وہ شہر کے اسکول جا کر بھی پڑھ سکتا ہے، غریب کا بچہ کیا کرے‘؟
ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ گھر سے باہر نکلنے اور الیکشن لڑنے پر انہیں باتیں سننے کو ملیں، ’جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یہ سب سننا ہی پڑتا ہے، ان باتوں پر اگر کان دھرا جائے تو کوئی عورت کچھ نہ کرسکے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے سے دیگر خواتین میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کل مزید کئی خواتین اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔
ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کیا انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کے دباؤ کا بھی سامنا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ انہیں پارٹیوں کی جانب سے پیغام وصول ہوا کہ ہم بڑی بڑی مضبوط جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں آپ کیا کرلیں گی؟ بہتر ہے کہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کو ووٹ دیں اور اس کے لیے انہیں دھمکیوں اور لالچ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
مستقبل میں نازیہ کے الیکشن جیتنے کی صورت میں کیا اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں؟ اس بات کی نازیہ سختی سے نفی کرتی ہیں۔
’بڑی اور پرانی سیاسی جماعتیں جو طویل عرصے سے تھر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہیں ان میں شامل ہونے کا قطعی ارادہ نہیں۔ یہ غریب لوگوں کے حقوق کی جنگ ہے جو یہ لوگ لڑ ہی نہیں سکتے، عام لوگوں کی جنگ عام لوگ ہی لڑیں گے‘۔
سنیتا پرمار
سنیتا پرمار
تھر کے حلقہ پی ایس 56 اسلام کوٹ سے الیکشن میں حصہ لینے والی سنیتا پرمار وہ پہلی ہندو خاتون ہیں جو عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔
سنیتا تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلز پارٹی سمیت دیگر حکمران جماعتوں کو قرار دیتی ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کی بے عزتی کی جاتی رہی۔
سنیتا بھی انتخاب جیت کر تھر کے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ فتحیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچیں تو سب سے پہلے تھر کی خواتین کی صحت اور یہاں کی تعلیم کے حوالے سے بل پیش کریں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے تھر سے کسی خاتون کو الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین دیانت دار ہوتی ہیں اور وہ ان پارٹیوں کی کرپشن میں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔
سنیتا کی انتخابی مہم میں ان کے گھر والوں اور ہندو برادری نے ان کا ساتھ دیا اور پیسے جمع کر کے کاغذات نامزدگی کے اخراجات کو پورا کیا۔
تلسی بالانی
تلسی بالانی
تھر کے علاقے ڈیپلو کے حلقہ این اے 222 سے انتخابات میں حصہ لینے والی تلسی بالانی بھی میگھواڑ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔
تلسی کا کہنا ہے کہ تھر میں کئی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن ان کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ تھر کے باسیوں سے ووٹ لیں اور اس کے بعد اسمبلی میں جا کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی تھر اور اس کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام نہیں کرتا۔
انہوں نے بتایا کہ بعض پارٹیاں یہاں سے الیکشن میں ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جو تھر سے باہر کے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ تھر کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا چاہیئے۔
تھر کے لوگوں کی بے بس زندگی کو دیکھتے ہوئے ہی تلسی نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن جیت کر یہاں کے لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات فراہم کرسکیں۔
’یہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ اسکول ہے، جو چند ایک اسکول موجود ہیں وہاں پر استاد نہیں، اگر ہے بھی تو وہ صرف تنخواہ لیتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کئی دیہاتوں میں سرے سے اسکول ہی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تھر کے لوگ جاگیں اور اپنے حالات کو بدلیں‘۔
تلسی نے بتایا کہ ان کے خاندان میں عورتیں ہر وقت گھونگھٹ اوڑھے رکھتی ہیں اور کسی مرد کے سامنے نہیں آتیں۔
’میں نے باہر نکل کر لوگوں کے پاس جانا اور ان کے مسائل سننا شروع کیا تو ظاہر ہے مجھے پردہ اور گھونگھٹ چھوڑنا پڑا۔ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ تم عورت ہو، کیا کرلو گی؟ لیکن کچھ لوگوں نے حوصلہ افزائی بھی کی‘۔
تلسی کا ماننا ہے کہ اگر نیت صاف اور مخلص ہو تو تمام مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مشکلات آہستہ آہستہ آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں عام انتخابات 2018 کے سلسلے میں 25 جولائی کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام تعطیل کے حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں ووٹنگ کا عمل سہولت سے جاری رہنے کے لیے 25 جولائی کو تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند رہیں گے۔
اس سے قبل اساتذہ کی الیکشن میں ڈیوٹی کی وجہ سے سندھ کی سطح پر اسکولوں کی موسم گرما کی تعطیلات میں بھی یکم اگست تک اضافے کا اعلان کیا جا چکا ہے، خیال رہے کہ اسکولوں میں 15 جولائی کو چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے سے شروع ہوگا جو شام چھ بجے تک بلا تعطل جاری رہے گا، خیال رہے کہ ووٹنگ کے وقت میں پہلی بار ایک گھنٹے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد: سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ آبزرور اور میڈیا کو بھی پولنگ بوتھ میں جانے کا اختیار ہوگا۔ الیکشن میں فوج کا اختیار صرف سیکیورٹی ہے۔ اس مرتبہ الیکشن میں عام سیاہی استعمال ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدر آمد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاثر غلط ہے سیکیورٹی فورسز انتخابی نتائج جمع کریں گے۔ فوج کی تعیناتی کا مطالبہ بھی سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں۔ پولنگ بوتھ پر امن و امان کی ذمہ داری فورسز کی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پرامن ماحول کے لیے پاک فوج کی تعیناتی کر رہا ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کے لیے بھی ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا ہے۔ الیکشن کے دن نتائج کی ترسیل صرف متعلقہ افسران ہی کریں گے، پاک فوج اور سیکیورٹی اہلکار نتائج کی ترسیل نہیں کریں گے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ شہری بھی پریزائیڈنگ افسر کو دھاندلی کا بتا سکتا ہے اور سیکیورٹی اہلکار بھی دھاندلی کا پریزائیڈنگ افسران کو بتائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے انتظامات کر لیے گئے ہیں، پولنگ کا سامان تمام علاقوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ سامان کی ترسیل کا کام پلان کے مطابق جاری ہے۔ فوج کی نگرانی میں پولنگ بوتھ تک سامان پہنچا دیا جائے گا۔
بابر یعقوب کا کہنا تھا کہ 849 حلقوں پر انتخابات کروائے جا رہے ہیں۔ 849 میں سے 100 سے زائد حلقوں پر کیسز چل رہے ہیں۔ 108 حلقوں کے میرٹ پیپر ابھی ہولڈ پر ہیں۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں کسی حلقے پر کیس عدالت میں نہیں، بیلٹ پیپر کی ترسیل بھی جلد شروع ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہر دور میں الیکشن کمیشن پر تنقید ہوتی رہی ہے، تمام عملہ سویلین ہے اور بھرپور تربیت کی گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کروائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ آبزرور کو بھی پولنگ بوتھ میں جانے کا اختیار ہوگا۔ الیکشن میں فوج کا اختیار صرف سیکیورٹی ہے۔ مقناطیسی سیاہی اس مرتبہ الیکشن میں استعمال نہیں کی جارہی، اس مرتبہ الیکشن میں عام سیاہی استعمال ہوگی۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ میڈیا کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت ہوگی تاہم موبائل ممنوع ہوگا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے دوران کہا کہ پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم چلانے سے روکا جا رہا ہے۔ زبردستی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمٰن نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا سے ملاقات کی۔ ملاقات میں سابق مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو بھی موجود تھے۔
پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم چلانے سے روکا جا رہا ہے۔ زبردستی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج سینیٹ اجلاس جاری رکھنے سے متعلق بات کی گئی۔ ہر امیدوار کو حق ہے یہاں آکر اپنے خدشات سامنے لائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانی تھی۔ سب سے پہلا مسئلہ کارکنان کی سیکیورٹی ہے، سیکیورٹی سے متعلق کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ نظریے کی سیاست ہم گراؤنڈ تک پہنچا رہے ہیں، اوچ شریف میں اجازت نامے کے باوجود پر امن قافلہ روکا گیا۔ شفاف الیکشن ہونے ہیں تو قواعد و ضوابط کے تحت ہونے چاہیئیں۔
شیری رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے امیدواروں کو نااہل کیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی الیکشن مؤخر کرنے کی حامی نہیں۔ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم میں لوگوں کا نام لے کر نفرت ابھاری جا رہی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران نفرت انگیز رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ انتخابی مہم میں اپنا منشور پیش کریں کسی پر ذاتی تنقید نہ کریں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
الیکشن 2018 کے انعقاد میں اب کچھ ہی دن رہ گئے ہیں ، جہاں ایک جانب سیاست داں اپنی الیکشن کمپین میں مصروف ہیں وہی ان کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں پر ہونے والی تحقیق میں دلچسپ انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں۔
انتخابی گوشواروں کا تنقیدی جائزہ لینے کے نتیجے میں ایک فہرست سامنے آئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ کون کون سے سیاست دانوں نے دو شادیاں کی ہیں، یہ فہرست آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کی جارہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنی دستاویزات میں دو بیویاں نصرت شہباز اور تہمینہ درانی ظاہر کی ہیں۔
تحریکِ انصاف کے ترجمان فواد چودھری بھی صائمہ فواد اور حبہ فواد نامی دو خواتین کے شوہر ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے طلعت بی بی سمیت بیویاں ظاہر کی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار بھی افشاں فاروق اور شاہدہ کوثر فاروق نام کی دو بیویوں کے شوہر ہیں۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ کے رہنما ارباب غلام رحیم نے صدف کوثر سمیت دو بیویاں اپنے کاغذات میں درج کی ہیں۔
حمزہ شہباز نے مہرالنساء اور رابعہ ،خواجہ سعد رفیق نے غزالہ اور شفق حرا کے نام لکھے ہیں۔
ریاض حسین پیر زادہ نے عائشہ ریاض اور بلقیس کے نام ظاہر کیے ہیں۔پیر امین الحسنات نے قدسیہ حسنات اور طاہرہ حسنات کے اور پی ایس پی کے ارشد وہرہ نے کلثوم وہرہ اور سونیا ارشد کے نام تحریر کیے ہیں۔
قیصر محمود شیخ نے کنزہ شیخ اور ایک غیرملکی بیوی ظاہر کی ہے۔ رانا مبشر نے شازیہ اور نائلہ کے نام دیے ہیں۔ناصر اقبال بوسال نے نویدہ نواز اور مدیحہ عروج کو کاغذات میں اپنی زوجہ تسلیم کیا ہے۔احمد شاہ کھگا نے مصباح احمد اور عمارہ احمد کو اپنی زوجہ تسلیم کیا ہے۔
آصف حسین ،فوزیہ آصف اور عشرت آصف نامی خواتین کے شوہر ہیں جبکہ اشرف آصف کی دو بیویاں مس نصرف اور طاہرہ حبیب کے نام سے سامنے آئی ہیں۔
عارف خان سندھیلہ نے شمیم اور ثروت ناز کو الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں اپنی بیوی تسلیم کیا ہے جبکہ سردار عرفان ڈوگر نے رضیہ پروین اور کرن فاطمہ کا نام ازواج کے خانے میں لکھا ہے۔ ،
زبیر کاردار نے صبا زبیر اور ناہید اختر ،سمیع اﷲخان نے عظمیٰ بخاری اور زاہدہ بخاری جبکہ جمشید اقبال چیمہ نے مسرت جمشید اور نسیم چیمہ کو اپنی بیوی ظاہر کیا ہے۔ ،
انتخابی گوشواروں کے مطابق اسلم کچھیلہ نے عذرا بیگم اور افسر خاتون اور چودھری عابد رضا نے سعدیہ عابد اور رافعہ اشرف کا نام ظاہر کیا ہے۔ ،
ثناء اﷲ خان مستی خیل نے فرحت خان اور سندس خان ،شیر افضل خان نے رقیہ نیازی اور نسیم اختر ،ڈاکٹر سعید الٰہی نے سامعیہ انعام اور ہدیٰ سعید جبکہ جام مہتاب نے عامرہ مہتاب اور عظمیٰ مہتاب اورخالد احمد لوند نے صوفیہ اور فوزیہ کے نام لکھے ہیں۔
سید ایوب نے کلثوم اور بینش ، این اے 207سے امیدوار غلام مصطفیٰ نے زبیدہ نساء اور بشیراں ،این اے 210سے سید سورج شاہ نے تاج بی بی اور بی بی حاجراں کے نام سامنے آئے ہیں ۔
این اے 211سے غلام مرتضیٰ نے تحسین اور مختیار بیگم ، این اے 224سے عبدالستار باچانی نے شمشاد ستار اور بدالنساء ،این اے 130سے سردار حر بخاری نے فوزیہ حر اور عالیہ حر کے نام گوشواروں میں لکھے ہیں۔
این اے 123سے امیدوار لطیف خان سرانے مصباح شہزادی اور عذرا پروین ،این اے 126سے امیدوار چودھری اشرف نے نسرین اشرف اور آسیہ اشرف ،این اے 132سے طارق حسن نے حمیرہ حسن اور حنا حسن ، این اے 134سے امیدوار نواز نے مسرت نواز اور رفعت نواز کو اپنی بیوی ظاہر کیا ہے۔
این اے 133سے نواب علی میر نے طاہرہ پروین اور عاصمہ ،این اے 123سے وحید احمدنے فریحہ وحید اور نائلہ وحید ،این اے 170سے امیدوار عرفان احمد نے فریحہ عرفان اور لاریب کو اپنی زوجہ تسلیم کیا ہے۔
این اے 207سے امیر بخش مہر نے حسنہ اور صائمہ ،پی پی 240سے احمد ریاض نے غلام عائشہ اور نازیہ احمد ، این اے 167سے امیدوار اسلم نے عشیشہ بی بی اورسرداراں بی بی سامنے آئی ہیں۔
این اے 116سے نذر عباس نے شازیہ اسلم اور شہناز کوثر ، این اے 169سے نورالحسن نے نادیہ اقبال اور شازیہ ،این اے 207سے حضور بخش میرانی نے دو بیویاں ظاہر کی ہیں۔
این اے 130سے امیدوارابو بکر نے تین بیویاں آمنہ ، عروج اور سائرہ ، این اے 132سے امیدوار امجد نعیم نے ثریا ،صغرا ں اور تنزیلہ جبکہ این اے 213سے امیدوار قادر بخش مگسی نے بھی تین بیویاں ظاہرکی ہیں۔
ڈی آئی خان: ڈیرہ اسماعیل خان سے انتخابی فارم جمع کرانے والے امید واروں کے اثاثے سامنےآگئے ، مولانا فضل الرحمن اور فیصل کریم کنڈی کے پاس اپنی ذاتی گاڑی بھی نہیں ہے، دیگر اثاثہ جات کی تفصیل بھی سامنے آگئی۔
قومی اسمبلی کے اہم امیدواروں کے بارے میں اہم انکشافات ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے38ڈیرہ اسماعیل خان کاالیکشن لڑنیوالے ہمارے ہردلعزیز اورعزیزاز جان قائدین قائد جمعیت علماء اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پاکستان فیصل کریم خان کنڈی’ تین بار سینیٹر منتخب ہونے اور تین بار قومی اسمبلی کاالیکشن ہارنے والے وقار احمد خان، سابق ڈسٹرکٹ اپوزیشن لیڈر مولانا عبید الرحمان، پیپلزپارٹی کے دویژنل صدر اورتحصیل کونسل میں اپوزیشن لیڈراحمدخان کنڈی’ ولی عہد دربار عالیہ سدرہ شریف سید حسنین محی الدین گیلانی،پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر ریحان ملک روڈی خیل اور چوہدری سراج الدین عام آدمی کے انتخابی فارموں کے مطابق ان کے اتنے وسائل ہی نہیں کہ اپنی آمدورفت کیلئے گاڑی خرید سکیں۔
انتخابی فارموں کے مطابق قائد جمعیت علماء اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پاکستان فیصل کریم خان کنڈی’ سابق صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پور، پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدر اورتحصیل کونسل میں اپوزیشن لیڈراحمدخان کنڈی اورولی عہد دربار عالیہ سدرہ شریف سید حسنین محی الدین گیلانی کا کوئی کاروبار نہیں ہے اور وہ ہر الیکشن میں کروڑوں کا خرچہ کرکے بھی ہر بار انتخابی فارموں میں دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔
انہی انتخابی فارموں کے مطابق سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پاکستان فیصل کریم خان کنڈی’ سابق صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پور، پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدر اورتحصیل کونسل میں اپوزیشن لیڈراحمدخان کنڈی ‘ محمد علی رضااورسابق ڈسٹرکٹ اپوزیشن لیڈر مولانا عبید الرحمان کا کوئی گھرنہیں ہے ۔محل نما گھروں میں رہنے والی یہ اعلیٰ دیانتدار قیادت اپنے لیے جھونپڑا تک نہیں بنا سکی۔
انتخابی فارم کے مطابق وقار احمد خان کی اہلیہ کے پاس 185تولے سوناہے جو500روپے فی تولے کے حساب سے92,500روپے مالیت کاہے جو دیانتداری کے ماتھے پر کلنک کابدترین ٹیکہ ہے۔ ادھر خالص ترین سونا داورخان کنڈی کی اہلیہ کا ہے جوایک لاکھ روپے فی تولے کے حساب سے 5تولے سونے کی مالیت 5لاکھ روپے تحریر کی گئی ہے۔والی ڈیرہ اور نواب آف ڈیرہ اسماعیل خان ایزدنوازخان بدترین مالی بحران کاشکار ہیں جس کے باعث ان کی اہلیہ کے پاس کسی قسم کا کوئی زیور نہیں ہے۔نہ ہی ان کے پاس کسی قسم کا کوئی فرنیچر ہے جس کی مالیت تشخیص و تحریر کی گئی ہو۔
ان رہنماؤں میں سے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم خان کنڈی، سابق صوبائی وزیر مال مخدوم مرید کاظم شاہ، محمد علی رضا، سابق ڈسٹرکٹ اپوزیشن لیڈر مولانا عبید الرحمان، پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدر احمد خان کنڈی،چاہدری سراج الدین عام آدمی نے ایک پیسہ قومی خزانے میں بطور انکم ٹیکس جمع نہیں کرایاجبکہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے1,25,225روپے، وقار احمد خان نے66,00,170روپے، داورخان کنڈی1,52,573روپے، نواب ایزدنوازخان9293روپے، ریحان ملک روڈی خیل3,08,083روپے، علی امین خان گنڈہ پور 84,500روپے انکم ٹیکس برائے سال2016-17ء جمع کراچکے ہیں۔
قومی رہنماؤں میں قائد جمعیت علماء اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پاکستان فیصل کریم خان کنڈی’ تین بار سینیٹر منتخب ہونے اور تین بار قومی اسمبلی کاالیکشن ہارنے والے وقار احمد خان، سابق ڈسٹرکٹ اپوزیشن لیڈر مولانا عبید الرحمان، پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدر اورتحصیل کونسل میں اپوزیشن لیڈراحمدخان کنڈی’ ولی عہد دربار عالیہ سدرہ شریف سید حسنین محی الدین گیلانی،پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر ریحان ملک روڈی خیل پرکسی قسم کا کوئی ماوراء اخلاق و قانون فوجداری مقدمہ نہیں البتہ سابق صوبائی وزیر مال مخدوم مرید کاظم شاہ پر احتساب ریفرنس ، سابق صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پورپر اسلام آباد میں تھانہ بارہ کہوکی ایف آئی آر نمبر395/16، تھانہ صدر ڈیرہ اسماعیل خان کیFIRنمبر225سال2015ء اور جسٹس آف پیس کازیر سیکشن22(a)(vi)ایف آئی آر کاٹنے کاحکم اپیل کی وجہ سے زیرالتوا، چوہدری سراج الدین عام آدمی کیخلاف تھانہ کینٹ میں FIRکا حوالہ دیاگیاہے۔
زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے بھی قائد جمعیت علماء اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پاکستان فیصل کریم خان کنڈی’ تین بار سینیٹر منتخب ہونے اور تین بار قومی اسمبلی کاالیکشن ہارنے والے وقار احمد خان، سابق ڈسٹرکٹ اپوزیشن لیڈر مولانا عبید الرحمان، پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدر اورتحصیل کونسل میں اپوزیشن لیڈراحمدخان کنڈی’ ولی عہد دربار عالیہ سدرہ شریف سید حسنین محی الدین گیلانی،پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر ریحان ملک روڈی خیل ، والی ڈیرہ نواب ایزدنوازخان ، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنمااورسابق صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پوراور چوہدری سراج الدین عام آدمی نے کوئی زرعی انکم ٹیکس ادا نہیں کیاجبکہ سابق صوبائی وزیرمال مخدوم مرید کاظم شاہ نے10,000/-روپے، سابق ایم این اے داورخان کنڈی نے30,000/-روپے زرعی انکم ٹیکس کی ادائیگی کی ہے۔
جمع کرائے گئے فارموں میں درج تفصیلات کے مطابق ان افراد کے اثاثوں کی کل مالیت بمطابق مالی سال2016-17ء کچھ اس طرح سے ہے۔قائد جمعیت علماء اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان77,03,547/-روپے، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پاکستان فیصل کریم خان کنڈی’ تین بار سینیٹر منتخب ہونے اور تین بار قومی اسمبلی کاالیکشن ہارنے والے وقار احمد خان31,86,263/-روپے،سابق صوبائی وزیر مال مخدوم مرید کاظم شاہ 1,97,17,707/-روپے،محمد علی رضا کے اثاثے بیان حلفی میں درج نہیں تاہم ان کے مجموعی اثاثوں کی مالیت انتخابی فارم کے مطابق 45کروڑ روپے سے زائد تحریر کی گئی ہے اور یوں انہوں نے اب تک الیکشن لڑنے والے امیدواروں میں سب سے مالدار امیدوار ہونے کامقام حاصل کرلیاہے۔
سابق ڈسٹرکٹ اپوزیشن لیڈر مولانا عبید الرحمان16,06,610/-روپے، پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدر اورتحصیل کونسل میں اپوزیشن لیڈراحمدخان کنڈی’54,00,000/-روپے ولی عہد دربار عالیہ سدرہ شریف سید حسنین محی الدین گیلانی 2,36,00,000/-روپے،سابق ایم این اے35,55,769/-روپے، والی ڈیرہ نواب ایزدنوازخان سدوزئی 2,56, 57,500/-روپے، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر ریحان ملک روڈی خیل 1,10,83,323/-روپے، سابق صوبائی وزیر علی امین خان گنڈہ پور9,63,50,847/-روپے اور چوہدری سراج الدین عام آدمی کے اثاثے 96لاکھ روپے مالیت کے ہیں۔
عوامی و سماجی حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ملک بھر سے الیکشن لڑنے والے ان رہنماؤں کے اثاثوں کی درست طرح سے جانچ پڑتال کی جائے اور اگر کسی کے پاس سے بتائے گئے مال سے زیادہ دولت ہو تو اسے نااہل قراردیاجائے کیونکہ ان ہی میں کوئی ایک کامیابی کا ڈھونگ رچا کر خزانے اور عوامی جذبات سے کھلواڑ کرے گا۔