Tag: الیکشن 2024 پاکستان:

  • الیکشن 2024 پاکستان : خیبرپختونخوا کے 3 حلقوں میں انتخابات ملتوی کردیئے گئے

    الیکشن 2024 پاکستان : خیبرپختونخوا کے 3 حلقوں میں انتخابات ملتوی کردیئے گئے

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے امیدوار کے قتل اور انتقال  کے باعث حلقہ این اے 8 باجوڑ، خیبرپختونخوا کی نشستوں پی کے 22 اور پی کے 91 پر الیکشن ملتوی کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 باجوڑ، خیبرپختونخوا کی نشستوں پی کے 22 اور پی کے 91 پر الیکشن ملتوی کردیئے۔

    باجوڑ میں آزاد امیدوار ریحان زیب خان کے قتل کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن ملتوی کیا گیا

    پی کے 91 کوہاٹ میں امیدوار کے انتقال کی وجہ سے الیکشن ملتوی کر دیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق پی کے 91 کوہاٹ کے امیدوار عصمت اللّٰہ خٹک کا 30 جنوری کو انتقال ہوا تھا۔

    دوسری جانب بیلٹ پیپرز کی کمی کے باعث پی پی 32 گجرات اور پی پی 150 لاہور میں بھی انتخابات موخر ہو سکتے ہیں۔

    بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر گیا، غور کے لیے الیکشن کمیشن کا اجلاس طلب کیا گیا۔

    الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپرز کی کمی کے باعث پی پی 32 گجرات اور پی پی 150 لاہور کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے چار اور صوباٸی اسمبلی کے دو حلقوں کے انتخابات موخر ہونے کا خدشہ ہے۔

    گذشتہ روز الیکشن کمیشن نے سیکیورٹی کاغذ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں ان حلقوں میں انتخابات ملتوی کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت انتخابات کیلئے بیلٹ پیپرز کی چھپائی جاری ہے جبکہ عدالتی فیصلوں کے باعث کئی حلقوں میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی دوبارہ کرنا پڑ رہی ہے، ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپرز کی دوبارہ چھپائی کیلئے سیکیورٹی کاغذ کی دستیابی اور بروقت چھپائی بڑا چیلنج ہے

  • انتخابات سے قبل خیبر پختوںخواہ میں 15 سیاسی شخصیات کو شدت پسندوں کی دھمکیاں موصول

    انتخابات سے قبل خیبر پختوںخواہ میں 15 سیاسی شخصیات کو شدت پسندوں کی دھمکیاں موصول

    پشاور: خیبر پختوںخواہ میں 15 سیاسی شخصیات کو شدت پسندوں کی دھمکیاں موصول ہوئیں، سیاسی شخصیات میں سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور امیر مقام سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختوںخواہ میں 15سیاسی شخصیات کوشدت پسندوں کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔

    سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا نے دھمکیاں ملنے والی سیاسی شخصیات کی فہرست تیارکرلی ہے، ترجمان نے بتایا کہ سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور ن لیگی سابق ایم این اے امیر مقام کوشدت پسندوں کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔

    سی ٹی ڈی حکام کا کہنا تھا کہ سابق صوبائی وزیرامتیازقریشی ،سینیٹرہدایت اللہ ، پی ٹی آئی کےرہنما پیرمصور شاہ اور شاہ محمد بھی فہرست میں شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ جے یو آئی ف کےملک عدنان وزیراوراحسان اللہ ، سینیٹر بختی افسر اور سینیٹر مولانا عبدالرشید کو بھی دھمکیاں موصول ہوئیں۔

    سی ٹی ڈی کے مطابق سیاسی شخصیات کو ملنے والی دھمکیوں سےمتعلق تمام اضلاع کی پولیس کو آگاہ کردیا گیا ہے، متعلقہ اضلاع کی پولیس سیاسی شخصیات کو سیکیورٹی فراہم کرے گی۔

  • این اے 122 لاہور میں کڑا مقابلہ: سعد رفیق اور  سردار لطیف کھوسہ مضبوط امیدوار

    این اے 122 لاہور میں کڑا مقابلہ: سعد رفیق اور سردار لطیف کھوسہ مضبوط امیدوار

    پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں لاہور کے حلقے این اے 122 سے مسلم لیگ ن کے سعد رفیق اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سردار لطیف کھوسہ مد مقابل ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے تیاریاں کی جا رہی ہیں، لاہور کے حلقہ این اے 122 سے مسلم لیگ ن کے معروف امیدوار خواجہ سعد رفیق میدان میں ہیں۔

    سال 2018 کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 131 کے طور پر مانا جاتا تھا۔

    اس حلقے سے دیگر کئی امیدوار میدان میں اترے ہیں ، تاہم  ن لیگی امیدوار خواجہ سعد رفیق اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار لطیف کھوسہ کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے۔

    این اے 122 لاہور کے نمایاں امیدواروں کی فہرست یہ ہیں

    مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ سعد رفیق اس علاقے سے تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔

    اس حلقے کی کل آبادی 953,104 ہے اور کل 345,763 ووٹرز ہیں، جن میں 197,264 مرد اور 148,499 خواتین ہیں۔ این اے 122 لاہور دفاعی علاقوں اور کنٹونمنٹ کے علاقوں کو گھیرے ہوئے ہے۔

    سال 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 131 میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ سعد رفیق کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا تھا۔

    بانی پی ٹی آئی نے 84 ہزار 313 ووٹ حاصل کرکے سعد رفیق کو شکست دی تھی، جنہوں نے 83 ہزار 633 ووٹ حاصل کیے تھے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار سید مرتضیٰ حسن اور پیپلز پارٹی کے امیدوار عاصم محمود نے بھی بالترتیب 9,780 اور 6,746 ووٹ لے کر نمایاں ووٹ حاصل کیے تھے۔

    بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے نشست چھوڑنے کے بعد اس حلقے میں اکتوبر 2018 میں ضمنی انتخاب ہوا تھا، جس میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ہمایوں اختر خان کو میدان میں اتارا تھا لیکن ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو سعد رفیق کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    خیال رہے پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، اس مرتبہ لگ بھگ 18000 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں سے 11785 آزاد اور 6031 امیدوار مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔

  • این اے 127 لاہور میں کس کا پلڑا بھاری؟  بلاول بھٹو اور عطاء اللہ تارڑ نمایاں امیدواروں میں شامل

    این اے 127 لاہور میں کس کا پلڑا بھاری؟ بلاول بھٹو اور عطاء اللہ تارڑ نمایاں امیدواروں میں شامل

    قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 لاہور سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما عطاء اللہ تارڑ میں سخت مقابلہ متوقع ہیں۔

    8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات  کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہے، قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 127  کا شمار لاہور کے اہم سیاسی حلقوں میں ہوتا ہے، یہ حلقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

    پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بلاول بھٹو زرداری پہلی بار اس حلقے سے پنجاب کے میدان میں اترے ہیں، اس حلقے کو ماضی میں این اے 133 کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    لاہور کے حلقہ این اے 127 سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما عطاء اللہ تارڑ کو مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے۔

    لاہور کے حلقہ این اے 127 کے امیدواروں کی فہرست:

    این اے 127 پر طویل عرصے سے ن لیگ کا غلبہ ہے، سال 2018 کے عام انتخابات میں پرویز ملک نے پارٹی کے لیے کامیابی حاصل کی۔ تاہم، 2021 میں ان کی بدقسمتی سے انتقال کے بعد ضمنی انتخاب ہوا، جس کے نتیجے میں بیوہ شائستہ پرویز نے 14,000 ووٹوں کے فرق سے فیصلہ کن جیت حاصل کی۔

    اس حلقے کی کل آبادی 972,875 ہے، جہاں 519,150 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 274,000 جب کہ 245,000 خواتین ووٹرز ہیں۔

    یہ حلقہ PP-157، 160، 161، اور صوبائی اسمبلی کے 162 حلقوں پر مشتمل ہے، ماڈل ٹاؤن، بہار کالونی، قینچی، چونگی امرسدھو جیسے علاقے بھی اس حلقے میں شامل ہیں۔

  • این اے 235 کا جائزہ، کس کا پلڑا بھاری؟

    این اے 235 کا جائزہ، کس کا پلڑا بھاری؟

    کراچی کا حلقہ NA-235 جو پہلے NA-242 کہلاتا تھا، جہاں قومی اسمبلی کی 22نشستوں میں سب سے کم رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق NA-235 میں ٹوٹل 170,176 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، جو حلقے کی کل آبادی 1,024,024 ووٹرز کا محض 16.63 فیصد ہیں۔2018 کے انتخابات سے 2024 تک 13,000 رجسٹرڈ ووٹرز کی نمایاں کمی این اے 235 کو درپیش چیلنجز کی طرف اشارہ کرتی ہے، رہائشیوں کے ایک اہم حصے کے پاس مستقل پتہ نہ ہونا بہت ہی اہم عنصر ہے،جس سے بہت سے رہائشی چاہتے ہوئے بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے پاتے۔

    این اے 235 کے علاقے:

    این اے 235 کے علاقوں کی اگر بات کی جائے تو اس میں کنیز فاطمہ سوسائٹی، مدراس چوک، اسٹیٹ بینک کالونی، ملک سوسائٹی، کے ڈی اے بینگلوز اسکیم 1، ٹیچرز سوسائٹی، موسمیات، گلشن عمیر،اوکھائی کمپلیکس، گلشن نور، سچل گوٹھ، رم جھم ٹاور، احسن آباد، نئی سبزی منڈی، سعدی ٹاؤن، سادات امروہہ سوسائٹی، مدینہ کالونی، پنک سٹی کالونی، پولیس سوسائٹی، صفورا گوٹھ کے اطراف کے علاقے شامل ہیں۔

    انتخابی سرگرمیاں اور امیداوار:

    این اے 235میں ٹوٹل 96 پولنگ اسٹیشن بنائے جائیں گے، جن میں 25امیدوار ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے، جن میں 12 آزاد امیدواروں کے ساتھ 13 سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندگان ہوں گے، قابل ذکر امیدواروں کی اگر بات کی جائے تو سیف الرحمان (پی ٹی آئی آزاد)، محمد آصف خان (پی پی پی)، محمد اقبال خان (ایم کیو ایم پاکستان)، شرافت خان (پاکستان مسلم لیگ ن)، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی (جماعت اسلامی)اور سید علی حسین جن کا تعلق استحکام پاکستان پارٹی سے شامل ہیں۔

    ہر قومیت کے افراد:

    این اے 235 میں ہر قومیت کے افراد رہائش پذیر ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حلقے میں کسی ایک قومیت کے افراد کی اکثریت ہے، اس حلقے میں سندھی، اردو، پنجابی، پختون اور دیگر قومیت کے افراد بھی سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں، اس حلقے کی تین صوبائی نشستیں پی ایس97، پی ایس 98 اور پی ایس 99 بھی ہیں، جن پر امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

    امیدواروں کے نقطہ نظر:

    پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے جوکہ اس وقت آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، انہوں نے 2018 میں نمایاں برتری کے ساتھ فتح حاصل کی تھی۔ مگر آج کے حالات پہلے سے بہت مختلف ہیں،تمام جماعتوں کی جانب سے جیت کا دعویٰ سامنے آرہا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے امیدواراپنی کے لئے پر اُمید ہیں، پورے حلقے کو سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں اور پینا فلیکس سے سجا دیا گیا ہے۔ جبکہ جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے کیمپ لگائے گئے ہیں، جن میں پارٹیوں کے ترانے چلائے جارہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار اقبال خان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2008 اور 2013 کے انتخابات میں یہ نشست آسانی سے جیت لی تھی جبکہ 2018 کے عام انتخابات میں شکست اس لئے ہوئی تھی کہ وہ انتخاب نہیں بلکہ Selectionہوئی تھی۔

    اقبال خان کا کہنا تھا کہ الحمد اللہ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر صاف شفاف الیکشن کا انعقاد کیا گیا تو ہماری جماعت واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کے حکم سے حلقے میں کامیابی حاصل کرکے عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔ گیس کی قلت اور بجلی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔

    پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سیف الرحمان نے اے آر وائی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ میرا مقابلہ اس حلقے میں کسی سے نہیں، اس لیے کہ میں نے 2018ء میں الیکشن میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہ حالات سب کے سامنے ہیں، ہماری الیکشن مہم میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، سیف الرحمان نے کہا کہ اگر شفاف الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو 8فروری کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور انشاء اللہ حق کی فتح ہوگی۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں، جماعت اسلامی کے معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ اس حلقے میں کامیابی کے حوالے سے میں پر امید ہوں، تعلیم یافتہ اور متوسط طبقہ یقینا ہمیں ووٹ دے گا، انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کرکے لوگوں کو ان کے حقوق دلوائیں گے، حلقے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے، زمینوں پر کئے گئے غیر قانونی قبضوں کو ختم کرائیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم نعرے لگانے والے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں کام کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کو جب بھی موقع ملا اس نے کام کرکے دکھایا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف خان اور حاکم علی جسکانی کا کہنا تھا کہ ہماری اولین ترجیح میں حلقے میں موجود سڑکوں کی صحیح معنوں میں تعمیر شامل ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے حلقے این اے 235میں بڑی تعداد میں گوٹھ موجود ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ ان گوٹھوں کو ان کے مالکانہ حقوق دلوائے جائیں، اس کے علاوہ پرائمری اسکولوں کو سیکنڈری کی سطح پر لے کر آئیں گے، حاکم علی جسکانی کا کہنا تھا کہ ہمارے حلقے میں Dow Medicalسب سے بڑا اسپتال ہے، اس میں عوام کے لئے صحت کی مزید سہولیات پیدا کریں گے۔انہوں نے کہا ہم اللہ کے فضل و کرم سے حلقے میں کامیابی حاصل کریں گے۔

  • کوئٹہ: پیپلزپارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملہ، 3 افراد زخمی

    کوئٹہ: پیپلزپارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملہ، 3 افراد زخمی

    سبی : کوئٹہ میں سریاب روڈ پر پیپلزپارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملے میں 3 افراد زخمی ہوگئے، الیکشن کمیشن نے انتخابی دفتر پر حملے کا نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں سریاب روڈ پر پیپلزپارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملہ ہوا۔

    پولیس نے بتایا کہ دستی بم حملے میں 3 افراد زخمی ہوگئے ، جنہیں اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔

    حکام کے مطابق جناح روڈ پر واقع ٹریفک بوتھ پر دستی بم حملے میں اہلکار محفوظ رہے۔

    پیپلز پارٹی رہنما حاجی علی مدد جتک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دفتر میں بیٹھے تھے کہ موٹر سائیکل سواروں نےدستی بم پھینکا، میرے گارڈزز خمی ہوئے ہم ایسے پٹاخوں سے ڈرنے والے نہیں، الیکشن میں کامیاب ہو کر لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔

    الیکشن کمیشن نے کوئٹہ میں سیاسی جماعت کے انتخابی دفتر پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے پر چیف سیکرٹری اور آئی جی بلوچستان سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کیخلاف الیکشن قوانین کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : حماد اظہر نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کردیا

    الیکشن 2024 پاکستان : حماد اظہر نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کردیا

    اسلام آباد : پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل واپس لے لی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کے کاغذات نامزدگی کیس کی سماعت ہوئی ، حماد اظہرنے سپریم کورٹ سے اپیل واپس لے لی اور انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔

    معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حماد اظہر اپیل کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں 62ون ایف کاحوالہ کیوں دیا ؟ فیصلہ واضح ہے آرٹیکل 62 ون ایف کااطلاق ازخود نہیں ہوتا۔

    وکیل آفتاب یاسر کا کہنا تھا کہ اشتہاری کی اہلیت کے حوالے سےآپ کافیصلہ بھی آ چکا ہے، تو جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے اپیل واپس لینےکی وجہ سے حماد اظہرکوفیصلے کافائدہ نہیں ہوگا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے حماد اظہر سرینڈرنہیں کرنا چاہتے، جس پر معاون وکیل آفتاب عالم یاسر کا کہنا تھا کہ سرینڈرکرنے میں کوئی حرج نہیں۔

    خیال رہے تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر این اے 129 سے آزاد امیدوار تھے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : بیلٹ پیپرز کی دوبارہ چھپائی، الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس آج طلب

    الیکشن 2024 پاکستان : بیلٹ پیپرز کی دوبارہ چھپائی، الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس آج طلب

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا، جس میں بعض حلقوں میں بیلٹ پیپرز کی دوبارہ چھپائی کا معاملہ زیرغور آئے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بعض حلقوں میں بیلٹ پیپرز کی دوبارہ چھپائی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا۔

    ذرائع الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اجلاس میں ممبران الیکشن کمیشن، تینوں پرنٹنگ پریسوں کے ایم ڈیز کو بھی بلایا گیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ آخری مراحل میں ہے کچھ حلقوں میں دوبارہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کرنی پڑ رہی ہے ،اس مرحلہ پر درکار خصوصی سیکیورٹی کاغذ کی دستیابی اور بروقت چھپائی کی تکمیل ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

    انتخابات کیلئے امیدواروں کی کثیر تعداد کے پیش نظر 2170 ٹن خصوصی سیکیورٹی کاغذ استعمال ہو رہا ہے، کچھ حلقوں میں بیلٹ پیپرز کی دوبارہ چھپائی کے لیے درکار خصوصی سیکیورٹی کاغذ کی اس مرحلہ پر بروقت دستیابی بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق ان حلقوں میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کو تمام حلقوں کے بیلٹ پیپرز کی طباعت کے بعد ہوگا ، یہ چھپائی بچ جانے والے خصوصی فیچروالے پیپر کی دستیابی سے مشروط کی گئی ہے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: سندھ پولیس کے 11 ہزار دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی

    الیکشن 2024 پاکستان: سندھ پولیس کے 11 ہزار دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی

    کراچی: الیکشن 2024 کی سیکیورٹی کے سلسلے میں سندھ پولیس کے ہزاروں دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات میں سندھ پولیس کے 10 ہزار 954 دفتری اہلکار بھی اضافی نفری کے طور پر سیکیورٹی ڈیوٹی دیں گے۔

    نفری میں سندھ پولیس کے مختلف اضلاع سے دفتری اسٹاف کے اہلکار شامل ہیں، ان میں سندھ پولیس کے ٹرینی، منسٹرل اور آئی ٹی کیڈر کے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔

    کراچی رینج سے 1770، حیدرآباد رینج سے 2198 ملازمین، میرپورخاص سے 2947، شہید بینظیر آباد سے 1601 ملازمین، سکھر سے 1013 اور لاڑکانہ سے 1425 ملازمین شامل ہیں۔

    ایران سے آپریٹ ہونے والے 2 بھتہ خور لیاری سے گرفتار

    دفتری اہلکاروں کو سندھ کے مختلف اضلاع میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ہر ضلع میں ایس پی رینک کے افسر کو ریجنل فوکل پرسن تعینات کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے، ان کے علاوہ آر آر ایف اور ایس ایس یو کے اہلکار کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کام کریں گے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: ملک کے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس قرار

    الیکشن 2024 پاکستان: ملک کے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس قرار

    اسلام آباد: عام انتخابات کے لیے ملک بھر میں قائم کیے جانے والے پولنگ اسٹیشنز میں سے اکثر کو حساس یا انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ملک بھر میں قائم کیے جانے والے کُل 90 ہزار 675 پولنگ اسٹیشنز میں سے 46 ہزار 65 (50 فیصد) اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق حساس، انتہائی حساس قرار دینے والے پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 46 ہزار 65 ہے جبکہ 27 ہزار 628 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 18 ہزار 437 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا ہے، پنجاب میں 12 ہزار 580 پولنگ اسٹیشنز حساس 6 ہزار 40 انتہائی حساس قرار دیا گیا جبکہ صرف 32 ہزار 324 پولنگ اسٹیشز کو نارمل قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ میں 6 ہزار 545 پولنگ اسٹیشنز کو ’حساس‘ اور 6 ہزار 524 ’انتہائی حساس‘ قرار دیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ صوبے کے کُل 19 ہزار 6 پولنگ اسٹیشنز میں سے صرف 5 ہزار 937 پولنگ اسٹیشنز کو ’نارمل‘ قرار دیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ خیبرپختونخوا کے 6 ہزار 166 پولنگ اسٹیشنز حساس، 4 ہزار 143 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا، اور 5 ہزار 388 پولنگ اسٹیشنز نارمل قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان میں نارمل پولنگ اسٹیشنز کا تناسب 20 فیصد سے بھی کم ہے، پولنگ اسٹیشنز کی کُل تعداد 5 ہزار 28 ہے جن میں سے صرف 961 پولنگ اسٹیشنز کو ’نارمل‘ قرار دیا گیا ہے جبکہ باقی 2 ہزار 337 کو ’حساس‘ اور ایک ہزار 730 کو ’انتہائی حساس‘ قرار دیا گیا ہے۔