Tag: الیکشن 2024

  • چیف الیکشن کمشنر کا الیکشن کی تیاریوں پر اظہارِاطمینان

    چیف الیکشن کمشنر کا الیکشن کی تیاریوں پر اظہارِاطمینان

    چیف الیکشن کمشنر نے 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کی تیاریوں پر اظہاراطمینان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں تمام ونگز کے سربراہان نے انتخابی تیاریوں پر بریفنگ دی۔

    نوٹ: الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کیلیے لنک پر کلک کریں

    بریفنگ میں کہا گیا کہ بیلٹ پیپر سمیت تمام انتخابی سامان کی ترسیل کاعمل آج رات تک مکمل ہو گا۔

    چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولنگ ڈے پر صوبائی الیکشن کمشنرز کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے عام انتخابات کے دوران چاروں صوبوں میں سکیورٹی سے متعلق بھی اہم ہدایت جاری کی ہیں.

    سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ جلد از جلد سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کو مکمل کیا جائے، ووٹرز، ڈی آر اوز اور آر اوز کے دفاتر کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

    انھوں نے بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ایسے واقعات کے فوری تدارک کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

  • الیکشن 2024: وفاقی اسپتالوں کے عملے کی چھٹی منسوخ

    الیکشن 2024: وفاقی اسپتالوں کے عملے کی چھٹی منسوخ

    وفاقی اسپتالوں کے عملے کی پولنگ ڈے پر چھٹی منسوخ کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کے روز وفاقی حکومت کے ماتحت اسپتالوں میں چھٹی منسوخی کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔

    نوٹ: الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کیلیے لنک پر کلک کریں

    پمز، پولی کلینک، فیڈرل ٹی بی اسپتال راولپنڈی کے عملےکی چھٹی منسوخ کی گئی۔ شیخ زید اسپتال لاہور، قومی ادارہ بحالی معذوراں، فیڈرل جنرل اسپتال اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی اسلام آباد کے عملے کی چھٹی منسوخ کی گئی ہے۔

    وفاقی اسپتالوں کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے انتظامات یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں وفاقی اسپتالوں میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس کی حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب کراچی میں عام انتخابات کے سلسلے میں ریسکیو 1122 ہیڈکوارٹر میں اجلاس ہوا۔ ڈی جی سندھ ایمرجنسی ریسکیوسروس کی زیرصدارت ایمرجنسی صورتحال پرغور کیا گیا۔ ڈی جی نے کہا کہ کل کادن الیکشن کی وجہ سے ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اہم ہے۔

  • الیکشن 2024 : پاکستان میں عام انتخابات کے مشاہدے کیلئے روسی ٹیم پاکستان پہنچ گئی

    الیکشن 2024 : پاکستان میں عام انتخابات کے مشاہدے کیلئے روسی ٹیم پاکستان پہنچ گئی

    اسلام آباد : پاکستان میں عام انتخابات کے مشاہدے کیلئے روسی ٹیم پاکستان پہنچ گئی، روسی الیکشن کمیشن کے رکن ایگور بوریسوف بھی پاکستان کے انتخابات کا مشاہدہ کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں عام انتخابات کے مشاہدے کیلئے روسی ٹیم پاکستان پہنچ گئی، ٹیم میں روسی سینیٹ کی دفاع وسلامتی کمیٹی کے نائب چیئرمین ولادیمیر چیژوف بھی شامل ہیں ۔

    روسی الیکشن کمیشن کے رکن ایگور بوریسوف بھی پاکستان کے انتخابات کا مشاہدہ کریں گے۔

    خیال رہے پاکستان میں عام انتخابات کیلئے پولنگ کل جمعرات 8 فروری کو ہو گی، جس میں 12کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 رجسٹرڈ ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔

  • الیکشن تک چالان کس طرح ہوں گے؟ اہم اعلان

    الیکشن تک چالان کس طرح ہوں گے؟ اہم اعلان

    لاہور: سٹی ٹریفک آفیسر لاہور  نے عام انتخابات کے پیش نظر 8 فروری تک کسی بھی شہری کا شناختی کارڈ پر چالان نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سٹی ٹریفک پولیس( سی ٹی او) عمارہ اطہر نے کہا ہے کہ 8 فروری تک کسی شہری کا شناختی کارڈ پر چالان نہیں کیا جائے گا۔

    عمارہ اطہر کا کہنا تھا کہ شہری رات 11 بجے تک شناختی کارڈ متعلقہ ٹریفک سیکشن سے موصول کر سکتے ہیں، چالان کی صورت میں شہری بطور ضمانت رجسٹریشن بک، لائسنس جمع کرواسکتے ہیں۔

     سی ٹی او لاہور کے مطابق ڈیجیٹل سسٹم سے شہری چالان جمع کروا کر کاغذات واپسی حاصل کرسکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کل ہو گی، ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں امیدوار چنیں گے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان، انتخابی مہم کا وقت ختم

    الیکشن 2024 پاکستان، انتخابی مہم کا وقت ختم

    ملک میں 12 بجتے ہی انتخابی مہم کا وقت ختم ہو گیا اور عوامی فیصلے کی گھڑی آ پہنچی۔

    عام انتخابات 2024 کے انعقاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا۔ عوام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے نمائندے منتخب کریں گے۔

    چون روز کی انتخابی مہم کے دوران پیپلزپارٹی نمایاں رہی، پنجاب ہو یا سندھ، کے پی ہو یا بلوچستان پی پی کی انتخابی مہم سب سے بڑی نظر آئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے، شہید بینظیربھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو کی قیادت اور سابق صدرآصف زرداری کی نگرانی میں چلائی گئی انتخابی مہم میں بڑے جلسےاورریلیاں ہوئی جس میں عوام نے بھرپور شرکت کر کے بلاول کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر گزشتہ برس پندرہ دسمبر کی رات الیکشن کمیشن آف پاکستان نےآٹھ فروری کےعام انتخابات کا شیڈول جاری کیا۔

    قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کیلئے کاغذات نامزدگی، امیدواروں کی حتمی فہرست، انتخابی نشانات اور اب انتخابی مہم سمیت تمام مراحل کی تکمیل ہو گئی۔

    اب تمام امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بارہ کروڑ سے زائد ووٹرز کے ہاتھ میں ہے، عوام کو اپناحق رائےدہی استعمال کرنےکا موقع دینےکے لیے ملک بھر میں پولنگ کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔

    الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن دو ہزار چوبیس کیلئے قومی اسمبلی کی دوسوچھیاسٹھ اور صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستیں پانچ سو ترانوے ہیں جس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بارہ کروڑ پچاسی لاکھ پچاسی ہزار سات سو ساٹھ ہے۔

    ان میں مرد ووٹرز چھ کروڑ بانوے لاکھ تریسٹھ ہزار سات سو چار اور خواتین ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ ترانوے لاکھ بائیس ہزار چھپن ہے۔

  • الیکشن 2024 کے لیے نادرا کا بڑا اعلان

    الیکشن 2024 کے لیے نادرا کا بڑا اعلان

    کراچی: الیکشن 2024 کے سلسلے میں نادرا نے شناختی کارڈ کے فوری حصول کے لیے سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نادرا نے کہا ہے کہ نارمل، ارجنٹ یا ایگزیکٹو فیس دے کر درخواست جمع کرانے والے شناختی کارڈ حاصل کرسکتے ہیں، جو درخواست جمع کرائے جا چکے ہیں ان کے شناختی کارڈ پرنٹ کر کے ملک کے تمام نادرا دفاتر میں بھیج دیا گیا ہے۔

    نادرا کے مطابق شہری 6 اور 7 فروری کو دفتری اوقات کار میں نادرا دفتر سے شناختی کارڈ وصول کر سکتے ہیں، ملک بھر کے تمام شناختی کارڈ سینٹرز کے اوقات کار میں 3 گھنٹے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات منعقد ہوں گے، الیکشن 2024 کے لیے انتخابی مہم کا آج آخری روز ہے، جلسے اور دیگر سرگرمیوں کے لیے رات 12 بجے تک اجازت ہوگی، اس کے بعد خلاف ورزی کرنے پر کارروائی ہوگی۔

    انتخابی مہم کا آج آخری دن، سیاسی جماعتیں پاور شو کریں گی

    الیکشن کمیشن نے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز کی ترسیل کا کام مکمل کر لیا، بیلٹ پیپرز سرکاری پریس اداروں سے متعلقہ ڈی آر او اور نمائندوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں، ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ تمام چیلنجز کے باوجود وقت پر کام مکمل کیا۔

  • این اے 239 لیاری: کیا پیپلزپارٹی اپنا مضبوط قلعہ واپس لے پائے گی؟

    این اے 239 لیاری: کیا پیپلزپارٹی اپنا مضبوط قلعہ واپس لے پائے گی؟

    کراچی کی قدیم بستیوں پر مشتمل لیاری میں سیاسی جماعتوں کی بھرپور انتخابی مہم دیکھ کر لگتا ہے اس بار دلچسپ مقابلہ ہو گا۔

    لیاری کو ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم 2018 کے انتخابات میں پی پی کا مکمل صفایا ہوا اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی نشست جیتی جب کہ جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی صوبائی اسمبلیوں سے کامیاب ہوئی۔

    لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ (NA-239) اپنے مخصوص ووٹنگ کے رجحان کی وجہ سے انتخابی مبصرین کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا مرکز بنا رہا ہے۔

    لیاری شہر کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے اور یہ عوامی تصورات میں سرایت کر گیا ہے جو کبھی گینگ تشدد اور عدم تحفظ کا گڑھ تھاحالانکہ یہ ایک ایسی نشست تھی جہاں بھٹو خاندان کو کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے شکست سب سے بڑے جھٹکے میں سے ایک تھی جو پارٹی کو میٹرو سٹی میں اٹھانا پڑا تھی۔

    ماضی میں لیاری سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے نبیل گبول اس بار پیپلزپارٹی کو اپنا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے خاصے پرُامید نظر آتے ہیں۔

    پی پی پی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے 1988 میں یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 1990 کے عام انتخابات میں یہ نشست جیتی تھی۔

    تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان ووٹروں اور سوشل میڈیا صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ تاثرات بدل گئے ہیں جس کا انتخابی نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔

    حلقہ 239 کی کل آبادی 7 لاکھ 83 ہزار 497 ہے جبکہ کل ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 22 ہزار 81 ہے جس میں مرد ووٹرز 2 لاکھ 33 ہزار 87 ہیں اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 88 ہزار 994 ہے۔

    کل پولنگ اسٹیشن 181 ہیں جبکہ عوام کے مسائل بجلی، صاف پانی، گیس، سیوریج کا پانی، کچرے کے ڈھیر، تجاوزات اور ٹریفک جام ہیں۔

    این اے 239 سے پیپلزپارٹی کے نبیل گبول اور جماعت اسلامی کے فضل الرحمان نیازی مدمقابل ہیں جبکہ ٹی ایل پی کے محمد شرجیل گوپلانی میدان میں ہیں، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یاسر بلوچ بھی 19 امیدواروں میں شامل ہیں۔

    لیاری کے ایک معمر شہری نے کہا کہ بجلی نہیں آتی، پانی نہیں ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، امیدوار ووٹ لے کر چلے جاتے ہیں پلٹ کر پوچھتے تک نہیں ہیں۔

    ایک شخص نے کہا کہ لیاری پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے اور ساتھ میں کھارادر ہے جہاں چوبیس گھنٹے بجلی آتی ہے، ہمارے یہاں 13 سے 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے جس کے باوجود باقاعدگی سے بل ادا کررہے ہیں، گیس کبھی کبھار آتی ہے جس میں کچھ پکا نہیں سکتے، روڈ بلاک کرلیے احتجاج ریکارڈ کروادیا لیکن ان کو پروا نہیں ہے۔

    ایک شہری نے کہا کہ ووٹ کس کو دیں عوام کے مسائل کی سیاست دانوں کو پرواہ نہیں ہے، کام کاج نہیں ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے اگر بجلی کا بل ادا نہ کریں تو کنکشن کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    خاتون نے کہا کہ ہم ووٹ نہیں دیں گے حکومت ہمارے لیے کچھ نہیں کررہی، جب ووٹ دیا تو کوئی رزلٹ نہیں آیا مسائل جوں کے توں ہیں۔

    عبدالشکور شاد (لیاری الائنس)

    سابق ایم این اے عبدالشکور شاد اس الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ لیاری سے سابق ایم این اے نے اپنے حلقہ این اے 239 کے اہم مسائل پر اے آر وائی نیوز سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ کرپشن نے ملک کو اتنا ہی تباہ کیا ہے جتنا کہ لیاری کو، جو کہ پاکستان کو درپیش ایک بڑا گورننس مسئلہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ منشیات نے علاقے کی نوجوان نسل کو متاثر کیا ہے منشیات نے نوجوانوں کو چور اور بھکاری بنا دیا ہے وہ بجلی کی تاروں سے لے کر مین ہول کے ڈھکن تک چوری کرتے ہیں، علاقے کے ہر کونے میں چھوٹے تاجروں کا ایک نیا طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو چوری کا سامان خریدتے ہیں، اور انہیں معمولی قیمت پر چوروں سے خریدتے ہیں۔

    گورننس میں بدعنوانی کے بارے میں ایک سوال پر شکور شاد نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے واحد رکن ہیں جنہوں نے نیب کو بطور ایم این اے ان کے لیے مختص کیے گئے ترقیاتی فنڈز کی انکوائری کرنے کا کہا تھا۔

    آصفہ بھٹو کی لیاری آمد

    آصفہ بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے لیے ٹاور سے لیاری تک پیپلز پارٹی کی انتخابی ریلی کی قیادت کی جہاں پارٹی کے حامیوں نے پیپلز پارٹی کے رہنما کا پرتپاک استقبال کیا۔

    پارٹی کے روایتی گڑھ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصفہ بھٹو نے لیاری کی آواز بننے کا وعدہ کیا۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ میں اور بلاول آپ کی آواز ہیں اور ہم خاموش نہیں رہیں گے ہم آپ کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ کرتے ہیں آپ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے لیے 08 فروری کو ’تیر‘ پر مہر لگانے کا وعدہ بھی کریں۔

    فضل الرحمان نیازی

    جماعت اسلامی (جے آئی) نے فضل الرحمان نیازی کو این اے 239 کے لیے پارٹی امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ہے جو اس علاقے میں دو بار یونین کونسل کے چیئرمین رہے اور مقامی مسائل کو بخوبی جانتے ہیں۔

    لیاری کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے صفائی، منشیات، اسٹریٹ کرائمز، گیس کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بڑے مسائل قرار دیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ سے لیاری کے مسائل پر توانا آواز اٹھاتے رہے ہیں اور تمام متعلقہ فورمز اور اداروں میں شکایات کے ساتھ ساتھ ان کے حل سے متعلق تجاویز بھی دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی جدوجہد کرتی رہی ہے بلکہ لیاری کے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتی آئی ہے۔

    یاسر بلوچ

    تحریک انصاف اپنے دیرینہ کارکن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان یاسر بلوچ کو میدان میں اتارا ہے جو پی ٹی آئی کے پرُجوش کارکنوں کے ساتھ مل کر بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

    ڈور ٹو ڈور مہم کے ذریعے یاسر بلوچ اپنی انتخابی مہم کو مؤثر بنا رہے ہیں اور براہ راست ملاقتوں کے ذریعے ووٹرز سے اس بار بھی پی ٹی آئی کو کامیاب کروانے کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔

    محمد شرجیل گوپلانی

    آل سٹی تاجر اتحاد (اے سی ٹی آئی) کے صدر محمد شرجیل گوپلانی لیاری سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار کے طور پر این اے 239 کے لیے انتخابی میدان میں ہیں۔

    شرجیل کا مقابلہ پی پی پی کے نبیل گبول اور جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر اس حلقے میں آزاد امیدواروں سے ہوگا۔ انہوں نے ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے مسائل خود حل کرنے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

  • سروے: کراچی کے ووٹرز کس کو ووٹ دیں گے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    سروے: کراچی کے ووٹرز کس کو ووٹ دیں گے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کراچی: شہر قائد میں عام انتخابات کے حوالے سے کیے گئے تازہ ترین سروے کے مطابق 25 فی صد لوگوں نے کہا ہے کہ انھوں نے ابھی تک کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، جب کہ اتنی ہی تعداد میں لوگوں نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پبلک وائس پول نامی ادارے کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے سروے کے مطابق 25 فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ اگرچہ وہ 8 فروری کو ووٹ دیں گے تاہم ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کس جماعت کو ووٹ دیں گے۔ جب کہ پچیس فی صد نے کہا وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے۔

    24 فی صد افراد نے کہا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں گے، تاہم ان میں سے 73 فی صد کو پتا ہی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے انتخابی نشانات کیا ہیں۔ 8 فی صد ووٹرز نے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے جب کہ 4 فی صد نے ایم کیو ایم اور 7 فی صد نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا کہا۔

    پبلک وائس پول کے مطابق سروے ٹیلی فون کے ذریعے 15 جنوری سے 26 جنوری کے درمیان کیا گیا اور اس دوران 10 ہزار کال اور 1800 انٹرویوز کیے گئے۔

    کراچی کے ایشوز کے حوالے سے 51 فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ پانی، بجلی اور گیس کی قلت سب سے بڑے ایشوز ہیں جو کراچی والوں کو درپیش ہیں۔ 20 فی صد نے امن و امان، 19 فی صد نے بے روزگاری، 16 فی صد مہنگائی، 14 فی صد نے بنیادی ضروریات، 14 فی صد نے غربت، 9 فی صد نے تعلیم، 7 فی صد نے صحت، اور 7 فی صد ہی نے کرپشن کو اہم مسئلہ قرار دیا۔

    جب پوچھا گیا کہ 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں آپ نے کس جماعت کو ووٹ دیا تو 35 فی صد نے کہا کہ جماعت اسلامی، 26 فی صد نے کہا پی ٹی آئی، 24 فی صد نے کہا کہ کسی کو نہیں، 7 فی صد نے پی پی پی، 4 فی صد نے ٹی ایل پی اور 2 فی صد نے کہا ن لیگ کو ووٹ دیا تھا۔

    2018 کے انتخابات کے حوالے سے رائے دہندگان میں سے 45 فی صد نے کہا کہ انھوں نے پی ٹی آئی، 14 فی صد نے ایم کیو ایم، 7 فی صد نے پی پی پی اور 5 پانچ فی صد نے کہا کہ جماعت اسلام کو ووٹ دیے۔ کس جماعت کو ووٹ دیا جائے؟ اس حوالے سے ابھی تک ذہن نہ بنانے والے رائے دہندگان میں سے 58 فی صد نے 2018 میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔

    25 فی صد نے کہا کہ انھوں نے ووٹ ہی نہیں دیا تھا جب کہ 11 فی صد نے کہا کہ ایم کیو ایم کو جب کہ 3 فی صد نے کہا کہ انھوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا تھا۔ ان میں سے 39 فی صد نے کہا کہ 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں انھوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا تھا۔ 35 فی صد نے بلدیاتی میں ووٹ ہی نہیں دیا جب کہ 25 فی صد نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔

    جب پوچھا گیا کہ وہ سیاسی لیڈران میں سب سے زیادہ کس سیاسی شخصت کو پسند تو 76 فی صد نے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کا نام لیا، 62 فی صد نے عمران خان، 55 فی صد نے سراج الحق، 41 فی صد نے الطاف حسین، 41 فی صد نے مرتضیٰ وہاب، 34 فی صد نے نواز شریف اور 6 فی صد نے مصطفیٰ کمال کا نام لیا۔

  • شہر کراچی سیاسی جماعتوں کے لیے اتنی اہمیت کا حامل کیوں؟

    شہر کراچی سیاسی جماعتوں کے لیے اتنی اہمیت کا حامل کیوں؟

    کراچی میں 8 فروری کو انتخابات میں قومی اسمبلی کی 22 نشستوں پر 584 اور سندھ اسمبلی کی 47 نشستوں پر 1 ہزار 453 امیدوار الیکشن لڑیں گے۔

    2024 کے انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلی کی 47 سیٹوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار مدمقابل ہوں گے، سب سے زیادہ امیدوار پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان کے ہیں، ان تینوں جماعتوں نے کراچی میں قومی اسمبلی کی ہر نشست پر اپنا امیدوار نامزد کر رکھا ہے۔

    شہر کراچی سیاسی جماعتوں کے لیے اتنی اہمیت کا کیوں حامل ہے؟ ہر سیاسی جماعت اس شہر پر کیوں اپنا تسلط چاہتی ہے؟ کراچی پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ شہر قانونی اور غیر قانونی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، جس کو حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت اپنا بنیادی حق سمجھتی ہے۔

    اس شہر کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ لسانی بنیاد پر ووٹوں کی تقسیم ہے جو انتخابات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے نتیجے میں انتخابی حلقوں میں رد و بدل سے نہ صرف کراچی کی سیٹوں میں اضافہ ہوا بلکہ انتخابات کے نتائج بھی حیران کن ہو سکتے ہیں۔

    یہ شہر پاکستان کے قیام کی ابتدائی دہایوں میں اس قدر گھمبیر مسائل سے دوچار نہ تھا، مگر مفادات کے ٹکراؤ نے اس شہر کو نہ ختم ہونے والے مسائل کا منبع بنا دیا ہے۔ 2024 کے انتخابات میں چار جماعتیں شہر کی سیاست میں فعال دکھائی دے رہی ہیں، مگر اصل مقابلہ عرصہ دراز سے کراچی کی ملکیت کے دعوے دار تین جماعتوں کے درمیان ہی ہوگا۔

    پاکستان خصوصاً کراچی میں وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں غیر سیاسی عمل دخل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس لیے آنے والے انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی مکمل فتح کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی،

    یہ شہر سیاسی، لسانی، سماجی اور مذہبی قوتوں کی بنا پر کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔ پاکستان میں مذہب کارڈ ہمیشہ سے ایک نعرہ رہا، مگر پاکستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں میدان میں کامیاب رہیں۔ مذہبی جماعتوں کا انتخابات میں کامیابی نہ ہونے کے برابر رہی۔ تاہم ضیا الحق کے بعد مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آتا رہا اور اب پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ اپنی جگہ بنا رہا ہے۔

    کراچی کے مشہور ترین حلقوں میں سے ایک حلقہ لیاری کا ہے۔ لیاری کا علاقہ ہمیشہ آزاد خیال سیاسی لوگوں کا مسکن رہا مگر اب یہاں پر بھی مذہب کارڈ اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ لیاری سے قومی اسمبلی کی نشست پر جہاں کبھی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور پھر ان کی صاحب زادی بے نظیر بھٹو انتخابات میں حصہ لیا کرتی تھیں، اب وہاں ایک مذہبی جماعت نے پچھلے انتخابات میں دوسری پوزیشن لی تھی۔ 2018 میں بلاول بھٹو کی شکست کے بعد بھٹو خاندان نے لیاری کی انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور انتخابی ڈور پیپلز پارٹی کی نچلی قیادت کے حوالے کر دی گئی ہے۔

  • پاکستان میں الیکشن :  طلبا کی موجیں ، طویل چھٹیوں کا اعلان

    پاکستان میں الیکشن : طلبا کی موجیں ، طویل چھٹیوں کا اعلان

    لاہور : پنجاب میں الیکشن کے پیش نظر 6 سے 9 فروری تک تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے 6 سے 9 فروری تک صوبے کے تمام سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کردیا۔

    تعطیلات کا اعلان 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے پیش نظر کیا گیا۔

    اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کیلئے 6 سے 9 فروری تک تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے، اسکول، کالج اور یونیورسٹیز بند رہیں گی۔

    محسن نقوی کا کہنا تھا کہ تعطیلات کے بعداسکول معمول کےاوقات کار کےمطابق کھلیں گے۔