Tag: الیکٹرانک میڈیا

  • فواد چوہدری کا سپریم کورٹ کو خط، میڈیا شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی درخواست

    فواد چوہدری کا سپریم کورٹ کو خط، میڈیا شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی درخواست

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ الیکٹرانک اور جدید ذرائع سے شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ایک عوامی معاملے پر چیف جسٹس کی توجہ چاہتے ہیں۔

    فواد چوہدری نے خط میں لکھا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، میڈیا معاشرے میں گہری رسائی کے ساتھ طبقات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

    انھوں نے لکھا کہ ہتک عزت اور توہین آمیز اشاعت کے خلاف قوانین کا نفاذ مؤثر نہیں ہے، درخواست ہے جوڈیشل کمیٹی آئندہ اجلاس میں اس پر غور کرے۔

    وزیرِ اطلاعات نے لکھا ’غیر مؤثر قانون سے انصاف اور احتساب کے عمل میں رکاوٹ آئی ہے، ہر شہر اور ضلع میں ججز کو تعینات کرنے کی تجویز ہے، 50 لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے اضلاع میں 4 ججز تعیناتی کیے جائیں۔‘

    یہ بھی پڑھیں:  ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    انھوں نے سپریم کورٹ کو خط میں تجویز دی کہ 25 لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے اضلاع میں 2 ججز، 25 لاکھ سے کم آبادی کے اضلاع میں ایک جج تعینات کیا جائے۔

    فواد چوہدری نے خط میں درخواست کی کہ ثبوت، شہادت اور شکایت کے عمل کو سہل بنایا جائے، شہادت کی ویڈیو ریکارڈنگ قانون کو بھی نافذ کیا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹس ویڈیو ریکارڈنگ قانون کا نفاذ یقینی بنائیں، اس اقدام سے بد نیتی پر مبنی الزامات اور جعلی خبروں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

  • سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

    سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

    فیک نیوز، فیک نیوز سن سن کر آپ کے کان پک گئے ہوں گے، یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو آپ نے دو سال قبل نہیں سنی ہوگی، لیکن آج سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سب کے لیے ایک جانی پہچانی ’چیز‘ بن گئی ہے۔ جی ہاں، سماجی دانش ور اسے ’عالمی اور مقامی منڈی کی حکمت عملی‘ سمجھتے ہیں۔

    جدید دنیا میں آج نظامِ حکومت کے لیے جمہوریت (ڈیمو کریسی) کو درست ترین انتخاب سمجھا جاتا ہے، دل چسپ امر یہ ہے کہ فیک نیوز یعنی جعلی خبر کو اسی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جعلی خبر آزادانہ بحث اور اس سے بڑھ کر خود ’مغربی نظام‘ کی دشمن بن گئی ہے۔

    ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں لوگ اب سوشل میڈیا کو صرف انٹرنیٹ کا دروازہ نہیں سمجھتے، بلکہ ’خبر‘ کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ دو سال سے ابھرنے والا یہ مسئلہ اب ایک زبردست چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ جعلی خبروں اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے زیادہ جدید ٹیکنالوجی وجود میں آ چکی ہے۔

    فیک نیوز یعنی جعلی خبر کیا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’فیک نیوز غلط اطلاع دینے کی ایک شکل ہے، یہ ایک غلط اور جھوٹی خبر کو کہتے ہیں۔‘ بعض اوقات جعلی خبر پوری طرح جعلی نہیں ہوتی اس لیے اسے پکڑنا آسان نہیں ہوتا، اور اکثر لوگ طنزیہ انداز میں دی جانے والی خبر کو بھی سنجیدہ سمجھ کر اسے فیک نیوز کے زمرے میں شامل کر دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں میں طنز کو سمجھنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔

    آپ نے پاکستانی اخبارات میں اور برقی میڈیا پر ’زرد صحافت‘ کی اصطلاح بھی بہت سنی ہوگی، فیک نیوز اسی ’یلو جرنلزم‘ یا پروپگینڈے کی ایک قسم ہے، جو جان بوجھ کر پرنٹ، براڈ کاسٹ نیوز میڈیا یا آن لائن سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پہلے پہل سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی اطلاع آخر کار مرکزی دھارے کی میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ جعلی خبر کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ زیادہ تر اس کا تعلق سیاست سے جڑا ہوا ہے جیسا کہ عالمی سطح پر بھی اسے جمہوریت کو نقصان پہچانے کے لیے بنایا جانے والا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ خود پاکستان میں بھی اس سے یہ کام وسیع سطح پر لیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے بارے میں لاتعداد غلط خبریں پھیلائی گئیں، آج ملک میں سیاست کا نام ہی گالی بن چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاست دانوں کی اپنی حرکتیں زیادہ تر مشکوک رہی ہیں تاہم ملک میں جمہوریت کو کم زور کرنے کے لیے اس ہتھیار سے بہت کام لیا گیا ہے۔

    غلط خبر، جھوٹی خبر یا فیک نیوز کی زد میں ریاستی ایجنسی بھی ہوتی ہے، سرکاری ادارہ بھی، کوئی اہم اور نمایاں شخصیت بھی، اور فیک نیوز کے ذریعے مالی یا سیاسی فائدہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کلک ریونیو بڑھانے کے لیے بھی سنسنی خیزی سے کام لیا جاتا ہے جو جھوٹی خبر یا غلط انداز سے لکھی اور شایع کی گئی خبر کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔

    فرخ ندیم انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں لیکچرار کے عہدے پر فائز ہیں، یہ ادبی اور ثقافتی نقاد ہیں اور ثقافتی تنقید کے موضوع پر دو ماہ قبل ان کی ایک بے حد وقیع کتاب بھی شایع ہوئی ہے، فیک نیوز کے حوالے سے کہتے ہیں ’فیک نیوز دراصل سرمایہ دارانہ کلچر کا ایک بڑا بحران ہے۔‘ یعنی جعلی خبر کا تعلق سرمائے سے بھی ہے، اس کے پیچھے سرمائے کی طاقت ہوتی ہے، دولت کے پجاری ادارے عوام کی ذہن سازی کی خاطر فیک نیوز کا استعمال کرتے ہیں۔ فرخ ندیم نے ایک زبردست مثال دی، انھوں نے کہا ’جیسے اسٹاک ایکس چینج کو بعض اوقات فیک نیوز سے تحریک دی جاتی ہے۔‘

    جعلی خبر کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اسے پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ کوئی خبر اگر معمول سے ہٹ کر آ رہی ہے تو کیا اس کو زیادہ ویریفائیڈ اکاؤنٹس اور ذمہ دار لوگ شیئر کر رہے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ خبر ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرینڈ بنی ہوئی ہے لیکن ذمہ دار لوگ اسے شیئر نہیں کر رہے ہوتے۔ اس سلسلے میں یہ کرنا چاہیے کہ ذمہ دار اداروں اور لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کیے جائیں کہ کیا وہاں سے بھی خبر دی گئی ہے یا نہیں۔

    فیک نیوز اور انتخابات کا قریبی تعلق ہے۔ پاکستان میں انتخابات 2018 سے قبل سوشل میڈیا جعلی خبروں کے طوفان کی زد میں تھا جس کی بے شمار مثالیں پڑی ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیگم کلثوم کی موت خبر، خود نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے کی خبریں، انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سابقہ بیوی ریحام خان کی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے بے تحاشا غلط خبریں، پاک فوج کے شعبۂ اطلاعات (آئی ایس پی آر) کے حوالے سے خبریں، اور ان فیک نیوز کے درمیان کرکٹر عبد الرزاق کی موت کی خبر، اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

    عالمی سطح پر امریکی انتخابات اس کی تازہ اور بڑی مثال ہے جس کے سلسلے میں ابھی بھی فیس بک ایسے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز کی تلاش میں لگا ہوا جہاں سے امریکی انتخابات میں رائے عامہ پر باقاعدہ طور پر اثرات ڈالے گئے۔ امریکا نے روس پر بھی الزام لگایا کہ اس نے مداخلت کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں روس کی انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی کو بھی ملوث قرار دیا گیا جس نے وسیع پیمانے پر غلط خبریں اور اطلاعات پھیلا کر رائے عامہ تبدیل کی۔

    پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ فیک نیوز کی ایک بڑی پہچان ’ہیٹ اسپیچ‘ بھی ہوتی ہے، ایک ایسا مواد جو نفرت پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کسی فرد، کسی جماعت، کسی ادارے، کسی صوبے یا حکومت کے بارے میں حقایق کو مسخ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو نفرت پر ابھارا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کیا کرتی ہیں اور دشمن ممالک کی ایجنسیاں بھی، جس کی روک تھام کے لیے ریاستیں قانون سازی کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میڈیا میں عوامی ایڈیٹرکا عہدہ تخلیق کیاجائے، مقررین

    میڈیا میں عوامی ایڈیٹرکا عہدہ تخلیق کیاجائے، مقررین

    کراچی: ماہرین صحافت نے کہا ہے کہ صحافتی اخلاقیات (کوڈ آف ایتھکس) کی صحافیوں سے زیادہ میڈیا مالکان کو ضرورت ہے، الیکٹرانک میڈیا نے صحافتی قدروں کو کھودیا، صحافتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے حادثات اور سانحات سے متاثرہ افراد کی نجی زندگی میں مداخلت سے گریز کیا جائے، میڈیا میں عوامی شکایات کے ازالے کے لیے محتسب یا عوامی ایڈیٹر کا عہدہ تخلیق کیا جائے۔

    ان خیالات کا اظہار کراچی پریس کلب کے صدر سراج احمد، سینئر صحافی مبشر زیدی، اعزار سید، سجاد اظہر اور فہیم صدیقی نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے لیے جاری ضابطہ اخلاق کی تقریب اجراء کے موقع پر کراچی پریس کلب میں سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    یہ ضابطہ اخلاق پاکستان کولیشن فار ایتھکل جرنلزم کے پلیٹ فارم سے تیار کیا گیا ہے جس میں پاکستان بھر کے سو سے زائد اضلاع سے تعلق رکھنے والے 1477 افراد کی مشاورت شامل تھی۔

    ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ خبر کے تقدس کو ملحوظ ِ خاطر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ صحافیوں کو خبر پر جامع اور ہمہ پہلو کام کرنے کے لیے مناسب وقت دیا جائے، انہیں غیر مصدقہ اور غیر متعلقہ معلومات جاری کرنے کے لیے مجبور نہ کیا جائے،معاشرے کے مختلف طبقات کو برابری کی بنیاد پر کوریج دی جائے، مختلف مذاہب، ذاتوں، فرقوں، قومیتوں اور نسلوں، صنفوں، اقلیتی، کمزور اور پسماندہ طبقات کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافت آج خطرناک ترین پیشہ بن چکا ہے۔ فاٹا، بلوچستان، مہمندایجنسی، کراچی سمیت دیگر وار زون علاقوں میں رپورٹراپنی جان خطرے میں ڈال کر چینلز اور اخبارات کیلئے کام کررہے ہیں۔ چینلزمیں کوئی ایڈیٹوریل بورڈ موجود نہیں ہے۔ آج مالکان اینکرزاور رپورٹرز کو سوالات پوچھنے کیلئے ہدایات جاری کرتے ہیں۔ ایڈیٹوریل بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب مسائل درپیش ہیں۔ کوڈآف ایتھکس پر عملدرآمد کیلئے پی ایف یوجے اور صحافتی تنظیموں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

    سینئرصحافی اعزازسید کا کہنا تھا کہ فاٹا،خیبرپختونخوا، کراچی اور بلوچستان میں صحافیوں پر بے شمارحملے ہوئے۔ شدت پسند تنظیموں، قوم پرست جماعتوں، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے ہر دور میں صحافیوں کو خطرات کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان صحافیوں کیلئے دنیا کے چارخطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کوڈ آف ایتھکس کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے چاہئیے۔ کراچی پریس کلب کے صدرسراج احمد کا کہنا تھا کہ معاشرہ عدم برداشت کی جانب چلا گیاہے۔ صحافیوں کا کام واقعہ کی رپورٹ بنا کرعوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ تفتیشی افسربننا صحافی کا کام نہیں ہے۔ صحافی معاشرہ کو رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جغرافیائی تقسیم کسی آبادی کی کوریج پر منفی طور پر اثر انداز نہ ہو، میڈیا کے ادارے نیوز روم، رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل اسٹاف میں تنوع کی کوشش کریں۔ صحافی پیشہ وارانہ طریقے اور ادارتی آزادی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اپنے امور اسرانجام دیں اور وہ ہرقسم کے مفاداتی تنازعات اور جانبداری سے گریزکریں۔

    تشدد اوربحرانوں کے متاثرین کی کوریج کرتے وقت صحافیوں کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے کہ کہیں وہ کسی کی دل آزاری یا تکلیف میں اضافے کا موجب تو نہیں بن رہے، نیوز روم فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں سے قریبی رابطہ رکھے تاکہ وہ فیلڈ میں انہیں درپیش خطرات سے آگاہ ہو، فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کی ساکھ کا تحفظ کیا جائے۔

    پریس کلبوں یا صحافتی یونینز کو صحافیوں اور رپورٹروں کے احتساب یا جوابدہی کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے، شکایت کنندہ کی تشفی کے لئے محتسب کا کردار متعارف کرایا جائے، تمام میڈیا اداروں کو غیر جانبدار بیرونی محتسب یا عوامی ایڈیٹر کا عہدہ تخلیق کرنا چاہئے جو میڈیا کے صارفین کی شکایات اور اخلاقی تحفظات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

    صحافیوں کو اپنے لفظوں کے انتخاب میں بہت زیادہ محتاط اور حساس ہونا چاہئیے اور وہ غیر اخلاقی مواد اور نازیبا الفاظ کے بارے میں محتاط رہیں، اس کا خاص خیال براہِ راست کوریج یا خاص مواقع مثلاً دہشت گردی اور جرائم کے واقعات کی کوریج کے وقت کیا جائے۔

    تمام نیوز رومز میں اخلاقیات کمیٹیاں بنائی جائیں جو کہ میڈیا اور رپورٹنگ کے مواد پر نظر رکھیں جس سے اچھی اور معیاری صحافت کو فروغ ملے، میڈیا کے ادارے صحافیوں کو فرسٹ ایڈ کٹ سے لے کر صحت ، تحفظ اور سیکورٹی سے لے کر ٹراما سے متعلق تربیت وقتاً فوقتاً فراہم کریں۔ تنازعات والے علاقوں میں سیفٹی ایڈوائزرز کا تقرر کیا جائے جو کہ کسی بھی اسائنمنٹ یا رپورٹنگ کے لئے اجازت نامہ دیں، جوصحافی یا رپورٹرز نیوز کوریج کے دوران جاں بحق ہو جائیں ان کے خاندانوں کی کفالت کے لئے حکومت مالی مدد دے، میڈیا اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ کرے۔

    متعلقہ ریگولیٹری ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ہراساں کرنے اور شکایات کے ازالے کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل دھمکیوں، ہراساں کرنے یابلیک میلنگ کرنے جیسی شکایات کے ازالے کے لئے کمیٹیا ں بنائی جائیں۔

    بعد ازاں بزرگ صحافی ضیاء الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافی ضابطہ اخلاق کو رواج دینے کی کوشش کریں کیونکہ جب تک وہ خود نہیں چاہیں گے ان کے حالات بہتر نہیں ہو ں گے ۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کواپنے ضمیر اور جان کی حفاظت خود کرنی ہے۔