Tag: امام غزالی

  • امام غزالی ؒ : حجّۃُ السلام کی دینی خدمات اور علمی کارنامے

    امام غزالی ؒ : حجّۃُ السلام کی دینی خدمات اور علمی کارنامے

    امام غزالی ؒ کو حجّۃُ الاسلام کہا جاتا ہے۔ وہ ایک اسلامی مفکّر، عالمِ دین اور کئی کتابوں کے مصنّف تھے جن کے افکار اور نظریات نے مسلم دنیا کی اکثریت کو متأثر کیا، لیکن انہی کی کتاب ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو سائنسی علوم سے متنفر کر دیا تھا۔

    امام غزالی ؒ اپنی علمی کاوشوں اور دین سے متعلق خاص نقطۂ نظر کے سبب مشہور ہوئے۔ تاریخ‌ کے صفحات بتاتے ہیں‌ امام غزالی 1111ء میں آج ہی کے دن اپنے سفرِ‌ آخرت پر روانہ ہوئے تھے۔

    دنیا اس بات پر متفق ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے فلسفہ و اخلاقیات اور سائنسی علوم میں بڑا عروج پایا اور مختلف شعبۂ ہائے حیات میں ترقی یافتہ کی، لیکن اسی عہد میں امام غزالی کی تہافۃُ الفلاسفہ (فلسفہ میں عدم مطابقت یا انتشار) نے فلسفے کے زور پر خدا اور کائنات پر مباحث کو بگاڑ اور انتشار قرار دیا تو اس دور کے حکم راں اور عوام اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں‌ رہ سکے۔ اس میں امام غزالی ؒ نے بالخصوص ابنِ سینا اور الفارابی جیسے مسلمان فلاسفہ کے نظریات اور ان کی منطق کو بے بنیاد اور بگاڑ کا باعث بتایا تھا۔ ماہرینِ علوم کہتے ہیں کہ اس کتاب نے علمِ فلسفہ اور منطق کو عالمِ اسلام میں فساد یا بے سود سعی کے طور پر پیش کیا۔

    ان کا نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی، غزالی ان کی خاندانی عرفیت ہے اور جدید دنیا میں بھی انھیں اسی سے پہچانا جاتا ہے۔ امام غزالی خراسان کے علاقہ طوس میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1058ء لکھا ہے۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں‌ ہوئی اور یہیں اس دور کے رائج علوم سیکھتے ہوئے فلسفہ و منطق، فقہ اور دیگر علوم میں‌ مہارت حاصل کی۔ نیشا پور کے امامُ الحرمین کی شاگردی اختیار کرلی اور علمِ کلام و جدل میں‌ بھی ماہر ہوئے۔ امام صاحب نے جس طرح کی تعلیم و تربیت پائی تھی اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے اہلِ مذہب کے طریقے کے سوا کسی طرف التفات نہ کرتے۔ انھوں‌ نے دربار سے منسلک ہونے کے ساتھ مختلف ممالک بغداد، بیتُ المقدس کا سفر بھی کیا اور حج کے لیے مکّہ اور اسی زمانے میں مصر اور اسکندریہ بھی گئے۔

    علمی میدان میں‌ ترقی کے ساتھ ان کی شہرت کا سبب ان کی تصانیف اور وہ نظریات تھے جس پر علما کے مختلف طبقات میں امام غزالی ؒ کی مخالفت نے بھی زور پکڑا مگر وہ مذہب اور اپنے علم کا دلیل اور منطق کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ امام غزالی ایک مدرس اور معلّم کے طور پر ساری زندگی مصروفِ عمل رہے اور ان کے کئی شاگرد تھے۔

    دنیا کی مختلف زبانوں کے علاوہ اردو زبان میں‌ بھی امام غزالی ؒ کی کتابوں‌ کے تراجم ہوئے جن میں‌ احیاءُ العلوم، اسرارُ الانوار، مکاشفتہُ القلوب، کیمیائے سعادت شامل ہیں۔

    مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب میں‌ لکھتے ہیں، امام غزالی ؒ نے محض تحریر و تصنیف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، آپ نے ببانگ دہل اس کے عمل پر تنقید کی۔ شاہ سلجوقی کا بیٹا سلطان سنجر پورے خراسان کا فرماں روا تھا۔ امام صاحب نے ملاقات کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ”افسوس کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوق ہائے زرّیں کے بار سے۔“ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے دیگر طبقات کو بھی ان کے قول و فعل میں‌ تضاد اور فضولیات پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی کم زوریوں کو بیان کیا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔

    امام صاحب نے اپنے دور کے علمی مکاتب کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے بالخصوص فلاسفہ کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو بیان کیا۔ ان کے افکار کو اسلامی فکر و نظریات میں اساسی حیثیت حاصل رہی ہے۔ امام صاحب کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے درس و تدریس کا کام بھی کیا، بادشاہوں کے دربار میں بھی علمی مباحث کا حصہ بنے اور اس سے بڑھ کر اصلاحِ معاشرہ کی اصلاح اور اسلامی فلسفہ کو فروغ دینے کے لیے تصنیف سے کام لیا اور مختلف معاملات کو زیرِ بحث لائے۔

    امام صاحب نے طوس شہر ہی میں‌ وفات پائی اور وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ جس نے فلاسفہ کو امام غزالی سے متنفر کردیا

    ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ جس نے فلاسفہ کو امام غزالی سے متنفر کردیا

    عالمِ اسلام میں اپنے علم و فضل کے سبب نہایت بلند مرتبہ پانے والے مفکّر امام غزالی کو حجّۃُ الاسلام کہا جاتا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ کا ایسا درخشاں ستارہ ہیں جنھوں‌ نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر گہرے اور نقوش چھوڑے، جو اساسی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن فلسفے اور علمِ الٰہیات کے اسی ماہر کی تصنیف ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ کو سائنسی علوم اور فلسفے سے مسلمانوں کی بیزاری اور دوری کی وجہ بھی کہا جاتا ہے۔

    دنیا اس بات پر متفق ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے فلسفہ، منطق، اخلاقیات، طبّ و جراحی، سائنسی علوم اور فن و ثقافت کے شعبوں میں بھی گراں قدر کام کیا، لیکن غزالی کی مذکورہ تصنیف غیرمعمولی طور پر اسلامی دانش کی سمت پر اثر انداز ہوئی اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علم و دانش کا راستہ محدود ہوتا چلا گیا۔

    تہافۃُ الفلاسفہ یعنی فلسفیوں میں عدم مطابقت یا انتشار نامی کتاب میں امام غزالی نے فلسفے اور اس کی روشنی میں خدا اور کائنات پر مباحث گم راہ کُن قرار دیا ہے اور بالخصوص ابن سینا اور الفارابی جیسے مسلم فلاسفہ پر کڑی تنقید کی۔ وہ فلسفیوں کے استدلال کی بنیادی خامیوں کو زیرِ بحث لائے اور ان کی منطق کے پرخچے اڑا دیے۔

    امام غزالی نے اپنے دور کے علمی مکاتب کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے بالخصوص فلاسفہ کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی شخصیت اور افکار کے اثرات آج بھی اسلامی فکر میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ان کا نام محمد اور ابو حامد کنیت جب کہ غزالی وہ خاندانی عرفیت ہے جس سے انھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ وہ خراسان کے ضلع طوس میں‌ پیدا ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1058ء لکھا ہے۔۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں‌ ہوئی اور یہیں اس دور کے رائج علوم سیکھتے ہوئے فلسفہ و منطق، فقہ اور دیگر علوم میں‌ مہارت حاصل کی۔ نیشا پور امامُ الحرمین کی شاگردی اختیار کی اور علمِ کلام و جدل میں‌ بھی ماہر ہوگئے۔ انھوں‌ نے دربار سے منسلک ہونے کے ساتھ مختلف ممالک بغداد، بیتُ المقدس کا سفر بھی کیا اور حج کے لیے مکّہ اور اسی سفر میں مصر و اسکندریہ بھی گئے۔ اس عرصے میں ان کی شہرت اور علم و فضل کے میدان میں ترقّی بھی ہوئی، تصانیف بھی سامنے آئیں اور کے خلاف سازشیں اور علما کے مختلف طبقات میں مخالفت نے بھی زور پکڑا مگر وہ اپنے علمی مشاغل اور مذہب پر دلیل و منطق کے ساتھ مباحث اور اپنی فکر کا اظہار کرنے سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔ وہ ایک مدرس اور معلّم کے طور پر بھی مصروف رہے اور ان کے کئی شاگردوں نے ان کی فکر کو اپنایا اور علمی کام کیا۔

    امام غزالی 19 دسمبر 1111ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی کتب کا اردو زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔ چند مشہور تصانیف کا ذکر کیا جائے تو احیاءُ العلوم، اسرارُ الانوار، مکاشفتہُ القلوب، کیمیائے سعادت کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب میں‌ لکھتے ہیں، امام غزالی نے محض تحریر و تصنیف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، آپ نے ببانگ دہل اس کے عمل پر تنقید کی۔ شاہ سلجوقی کا بیٹا سلطان سنجر پورے خراسان کا فرماں روا تھا۔ امام صاحب نے ملاقات کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ”افسوس کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوق ہائے زرّیں کے بار سے۔“ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے دیگر طبقات کو بھی ان کے قول و فعل میں‌ تضاد اور فضولیات پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی کم زوریوں کو بیان کیا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔