Tag: امتیاز علی تاج

  • ہیبت ناک افسانے

    ہیبت ناک افسانے

    یہ فرانس کے ایک مشہور ادیب مورس لیول (Maurice Level) کی پُراسرار اور دہشت انگیز کہانیوں کے اردو ترجمہ پر رواں تبصرہ ہے، اور اس کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، براڈ کاسٹر اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری ہیں۔

    پطرس کو یہ کتاب معروف ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج نے ارسال کی تھی جو ان کہانیوں کے اردو مترجم ہیں۔ اگر آپ دل چسپی رکھتے ہیں اور یہ کہانیاں‌ پڑھنا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر اردو ترجمہ دست یاب ہے۔ فرانس کے ادیب مورس لیول کو بطور فکشن نگار اور ڈرامہ نویس دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ ان کی خوف ناک اور پرتجسس واقعات پر مبنی مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں اور امتیاز علی تاج انہی کو اردو زبان میں ڈھالا تھا جس پر پطرس بخاری کا یہ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    ”ہیبت ناک افسانے“ کا پیکٹ جب یہاں پہنچا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا۔ میری عدم موجودگی میں چند انگریز احباب نے جو کتابوں اور اشیائے خوردنی کے معاملے میں ہر قسم کی بے تکلفی کو جائز سمجھتے ہیں، پیکٹ کھول لیا۔

    یہ دوست اردو بالکل نہیں جانتے۔ بجز چند ایسے کلموں کے جو غصے یا رنج کی حالت میں وقتاً فوقتاً میری زبان سے نکل جاتے ہیں اور جو بار بار سننے کی وجہ سے انہیں یاد ہوگئے ہیں۔ اردو تقریر میں ان کی قابلیت یہیں تک محدود ہے۔ تحریر میں اخبار ”انقلاب“ کا نام پہچان لیتے ہیں وہ بھی اگر خط طغریٰ میں لکھا گیا ہو چنانچہ جب واپس پہنچا تو ہر ایک نے محض کتاب کی وضع قطع دیکھ کر اپنی اپنی رائے قائم کر رکھی تھی۔ سرورق پر جو کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس سے ایک صاحب نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کتاب،

    میں بھی کبھی کسی کا سر پر غرور تھا

    سے متعلق ہے۔ ایشیا کے ادیب (عمر خیام، گوتم بدھ وغیرہ) اکثر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب سمجھے کہ فن جراحی کے متعلق کوئی تصنیف ہے۔ ایک بولے جادو کی کتاب معلوم ہوتی ہے (ہندوستان کے مداریوں کا یہاں بڑا شہرہ ہے ) ایک خاتون نے کتاب کی سرخ رنگت دیکھ کر بالشویکی شبہات قائم کر لیے۔

    میں نے کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا۔ گو یہ سب کی سب کہانیاں میں پہلے انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے اکثر تراجم کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے خود امتیاز سے سن چکا ہوں۔ وہ مختلف قسم کی دلفریبیاں جو مجھے کبھی کسی تصنیف کو مسلسل پڑھنے پر مجبور کرسکتی ہیں سب کی سب یہاں یکجا تھیں۔ کتابت ایسی شگفتہ کہ نظر کو ذرا الجھن نہ ہو تحریر میں وہ سلاست اور روانی کہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اور پھر امتیاز کے نام میں وہ جادو جس سے ہندوستان یا انگلستان میں کبھی بھی مَفر نہ ہو۔ یہ کتاب تیرہ ہیبت ناک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن کے مصنف کا مدعا یہ تھا کہ پڑھنے والوں کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے اور ہر افسانے میں درد و کرب خوف و دہشت یا پھر مرگ و ابتلاء کی ایسی خونیں تصویر کھینچی جائے کہ بدن پر ایک سنسنی سی طاری ہوجائے۔

    ایڈگر ایلن پو کے پڑھنے والے ایسے افسانوں سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ پو اس فن کا استاد تھا۔ اور یہ جو آج کل اس صنف ادب کی کثرت فرانس میں نظرآتی ہے عجب نہیں کہ اس کا بیشتر حصہ تو اسی کی بدولت ہو۔ کیونکہ فرانس کی ادیبات پر پو کا اثر مسلّم ہے اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو۔ جہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نے اپنا رنگ نہ پھیر رکھا ہو۔ پیرس میں ایک خاص تھیٹر اسی بات کے لئے وقف ہے کہ اس میں دہشت انگیز کھیل دکھائے جائیں۔ اس کمپنی نے اس قسم کے ڈراموں کا اچھا خاصا مجموعہ مہیا کر رکھا ہے۔ تھیٹر کی ڈیوڑی میں چیدہ چیدہ ڈراموں کے مشہور مناظر کی تصاویر آویزاں ہیں۔ کہیں کوئی بدنصیب موت کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ چہرہ تنا ہوا ہے اور آنکھیں باہر پھوٹی پڑتی ہیں۔ کہیں کوئی سفاک کسی حسینہ کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ بائیں ہاتھ سے گردن دبوچے ہوئے ہے۔ دائیں ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور لڑکی کی آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ کھیل کو ہیبت ناک بنانے کے لئے جو جو تدابیر بھی ذہن میں آسکتی ہیں ان سب پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایکٹر اپنی شکل شباہت اپنی آواز اور اپنی حرکات کے ذریعے ایک خوف سے کانپتی ہوئی فضا پیدا کر لیتے ہیں۔ پردہ اُٹھنے سے پہلے ہی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ چراغ گُل کر کے لکڑی کے تختے پر دستک دی جاتی ہے۔ اس سے ہیبت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

    اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کہ درد و کرب یا خوف و دہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بظاہر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے۔ اس سے خوشی کیسے حاصل ہوگی۔ لیکن یہ ہمارے متداول الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے۔ اصل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ، درد، کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے وصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور ان میں اپنی مسرت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقیناً آپ کے پڑوس میں کئی ایسی عورتیں ہوں گی جو اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی کی موت کی خبر سن پائیں اور بین اور واویلا میں شامل ہو کر آنسو بہا بہا کر اپنی تمنا پوری کرلیں۔ جرائم اور اموات کی گھناؤنی سے گھناؤنی تفصیلات کی اشاعت یورپ اور امریکہ کے کئی اخباروں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ لوگوں کو ان کے پڑھنے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یا میں بعض دہشت ناک افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے محض اس وجہ سے متامل نہ ہونا چاہیے کہ کہیں لوگ اس کو ہماری طینت کے کسی نقص پر محمول نہ کریں۔

    اعصاب میں ایک تھرتھراہٹ! بس یہی ان افسانوں کا مقصد ہے اور جس کامیابی، جس خوبی اور جس فن کے ساتھ اس کتاب کے مصنف نے اس مقصد کی تکمیل چاہی ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ امتیاز جیسے ذی مطالعہ اہل قلم کو اس کے ترجمے کی خواہش ہو۔ ان لوگوں کے سامنے جو اردو ادب کے مشاہیر سے واقف ہیں اس سے زیادہ قابل وقعت ضمانت نہیں پیش کی جاسکتی۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی خود مترجم نے کتاب کے دیباچے میں واضح کر دی ہے۔

    مورس لیول بے انتہا، سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پختگی اور روانی پڑھنے میں نظم کا سا لطف دیتی ہے۔ ایک فقرہ یا لفظ بھی ضرورت سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ مختلف چیزوں کے بیان میں تناسب کی سمجھ بے حد تیز ہے۔ چنانچہ ان کی ہر مکمل کہانی ایک نفیس اور صاف ستھرے ترشے ترشائے ہیرے کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے۔“

    یہ اختصار دہشت انگیز افسانوں کی ایک ضروری صفت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ان میں وہ تندی وہ تیزی نہیں رہتی جس سے سنسنی پیدا کی جا سکے۔ اور پھر یہ اختصار ہر رنگ میں شامل حال رہتا ہے ورنہ افسانے یا ڈرامے کی کامیابی میں نمایاں طور پر فرق پڑ جاتا ہے اس کی وجہ میں کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکا لیکن اس کی حقیقت کے متعلق میرے دل میں کوئی شبہ نہیں۔ پیرس کے جس تھیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں اکثر کھیل صرف ایک ایکٹ کے ہوتے ہیں اور خود تھیٹر بھی بہت چھوٹا سا ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لندن میں ایک ایسی قسم کا کھیل دیکھا جو ہیو والیول کے ایک ناول سے مرتب کیا گیا ہے۔ دل چسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل کے لئے بھی لندن کا ایک بہت چھوٹا سا تھیٹر منتخب کیا گیا اس تھیٹر کا نام لٹل تھیٹر یا چھوٹا تھیٹر ہے۔ باقی رہا امتیاز کا ترجمہ، میں حیران ہوں کہ اس مختصر سے تبصرے میں اس موضوع کے متعلق کیا کہوں اور کیا کسی اور وقت پر اٹھا رکھوں۔

  • ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر 1921ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لا تعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِ اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبد القادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضامین کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سید امتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔

    بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    1922ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تا دیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔

    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لا تعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ ’’بائیں ہاتھ چلو۔‘‘ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔

    میں خود ماضی پر نظر بازگشت ڈالتا ہوں۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب، مؤرخ، نقاد اور مترجم غلام رسول مہر کی ایک تحریر)

  • سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    متحدہ ہندوستان میں‌ شمسُ العلما مولوی سیّد ممتاز علی کا نام ان کے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ انہی کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَر ورق پر درج ہے۔

    اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں۔

    تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

    سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔ وہ 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

    1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    محمدی بیگم کے 1908ء میں انتقال کرجانے کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور اردو کے نام ور ادیب اور ڈرامہ نگار تھے۔

  • محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم مصنفہ اور ہندوستان میں خواتین کے پہلے اردو ہفت روزہ ‘تہذیب نسواں’ کی مدیر تھیں۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور ان میں‌ سیاسی و سماجی بیداری کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں۔

    وہ دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ ان کا گھرانا روشن خیال تھا اور اس انتہائی قدامت پسند دور میں بھی والدین نے ذہین بیٹی کو تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں مولوی سید ممتازعلی سے ہوئی جو تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم سے ان کی یہ دوسری شادی تھی۔ انھوں نے گھر کا سارا انتظام اور ذمہ داری سنبھالی اور جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں بھی اپنے شوہر سے کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر اپنی فکر، اپنے نظریے اور تخیل سے اردو زبان اور ادب کو یوں مرصع و آراستہ کیا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    شوہر کے ساتھ مل کر محمدی بیگم نے عورتوں کے رسالے کی ادارت سنبھالی۔ 1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا۔ تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

  • چچا چھکن نے تصویر ٹانگی…

    چچا چھکن نے تصویر ٹانگی…

    چچا چھکن کبھی کبھار کوئی کام اپنے ذمے کیا لے لیتے ہیں، گھر بھر کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔ ’’آ بے لونڈے، جا بے لونڈے، یہ کیجو، وہ دیجو،‘‘ گھر بازار ایک ہو جاتا ہے۔

    دور کیوں جاؤ، پرسوں پرلے روز کا ذکر ہے، دکان سے تصویر کا چوکھٹا لگ کر آیا۔ اس وقت تو دیوان خانے میں رکھ دی گئی، کل شام کہیں چچی کی نظر اس پر پڑی، بولیں، ’’چھٹن کے ابا تصویر کب سے رکھی ہوئی ہے، خیر سے بچوں کا گھر ٹھہرا، کہیں ٹوٹ پھوٹ گئی تو بیٹھے بٹھائے روپے دو روپے کا دھکا لگ جائے گا، کون ٹانگے گا اس کو؟‘‘

    ’’ٹانگتا اور کون، میں خود ٹانگوں گا، کون سی ایسی جوئے شیر لانی ہے، رہنے دو، میں ابھی سب کچھ خود ہی کیے لیتا ہوں۔‘‘

    کہنے کے ساتھ ہی شیروانی اتار چچا ٹانگنے کے درپے ہو گئے۔ امامی سے کہا، ’’بیوی سے دو آنے لے کر میخیں لے آ۔‘‘ ادھر وہ دروازے سے نکلا ادھر مودے سے کہا، ’’مودے! مودے! امامی کے پیچھے جا۔ کہیو تین تین انچ کی ہوں میخیں۔ بھاگ کر جا لیجو اسے راستے میں ہی۔‘‘

    لیجیے تصویر ٹانگنے کی داغ بیل پڑ گئی اور اب آئی گھر بھر کی شامت۔ ننھے کو پکارا، ’’او ننھے، جانا ذرا میرا ہتھوڑا لے آنا۔ بنو! جاؤ اپنے بستے میں سے چفتی (لکڑی کی تختی) نکال لاؤ اور سیڑھی کی ضرورت بھی تو ہو گی ہم کو۔ ارے بھئی للو! ذرا تم جا کر کسی سے کہہ دیتے۔ سیڑھی یہاں آ کر لگا دے اور دیکھنا وہ لکڑی کے تختے والی کرسی بھی لیتے آتے تو خوب ہوتا۔

    چھٹن بیٹے! چائے پی لی تم نے؟ ذرا جانا تو اپنے ان ہمسائے میر باقر علی کے گھر۔ کہنا ابا نے سلام کہا ہے اور پوچھا ہے آپ کی ٹانگ اب کیسی ہے اور کہیو، وہ جو ہے نہ آپ کے پاس، کیا نام ہے اس کا، اے لو بھول گیا، پلول تھا کہ ٹلول، اللہ جانے کیا تھا۔ خیر وہ کچھ بھی تھا۔ تو یوں کہہ دیجو کہ وہ جو آپ کے پاس آلہ ہے نا جس سے سیدھ معلوم ہوتی ہے وہ ذرا دے دیجیے۔ تصویر ٹانگنی ہے۔ جائیو میرے بیٹے پر دیکھنا سلام ضرور کرنا اور ٹانگ کا پوچھنا نہ بھول جانا، اچھا۔۔۔

    یہ تم کہاں چل دیے للو؟ کہا جو ہے ذرا یہیں ٹھہرے رہو۔ سیڑھی پر روشنی کون دکھائے گا ہم کو؟ آ گیا امامی؟ لے آیا میخیں؟ مودا مل گیا تھا؟ تین تین انچ ہی کی ہیں نا؟ بس بہت ٹھیک ہے۔ اے لو ستلی منگوانے کا تو خیال ہی نہیں رہا۔ اب کیا کروں؟ جانا میرے بھائی جلدی سے۔ ہوا کی طرح جا اور دیکھیو بس گز سوا گز ہو ستلی۔ نہ بہت موٹی ہو نہ پتلی۔ کہہ دینا تصویر ٹانگنے کو چاہیے۔ لے آیا؟ او ودّو! ودو! کہاں گیا؟ ودو میاں ۔۔۔ اس وقت سب کو اپنے اپنے کام کی سوجھی ہے، یوں نہیں کہ آ کر ذرا ہاتھ بٹائیں۔ یہاں آؤ۔ تم کرسی پر چڑھ کر مجھے تصویر پکڑانا۔‘‘

    لیجیے صاحب خدا خدا کر کے تصویر ٹانگنے کا وقت آیا، مگر ہونی شدنی، چچا اسے اٹھا کر ذرا وزن کر رہے تھے کہ ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ گر کر شیشہ چُور چُور ہو گیا۔ ہئی ہے! کہہ کر سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چچا نے کچھ خفیف ہو کر کرچوں کا معائنہ شروع کر دیا۔ وقت کی بات انگلی میں شیشہ چبھ گیا۔ خون کی تللی بندھ گئی۔

    تصویر کو بھول اپنا رومال تلاش کرنے لگے۔ رومال کہاں سے ملے؟ رومال تھا شیروانی کی جیب میں۔ شیروانی اتار کر نہ جانے کہاں رکھی تھی۔ اب جناب گھر بھر نے تصویر ٹانگنے کا سامان تو طاق پر رکھا اور شیروانی کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔ چچا میاں کمرے میں ناچتے پھر رہے ہیں۔ کبھی اس سے ٹکر کھاتے ہیں کبھی اس سے۔

    ’’سارے گھر میں کسی کو اتنی توفیق نہیں کہ میری شیروانی ڈھونڈ نکالے۔ عمر بھر ایسے نکموں سے پالا نہ پڑا تھا اور کیا جھوٹ کہتا ہوں کچھ؟ چھے چھے آدمی ہیں اور ایک شیروانی نہیں ڈھونڈ سکتے جو ابھی پانچ منٹ بھی تو نہیں ہوئے میں نے اتار کر رکھی ہے بھئی۔‘‘

    اتنے میں آپ کسی جگہ سے بیٹھے بیٹھے اٹھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شیروانی پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ اب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، ’’ارے بھئی رہنے دینا۔ مل گئی شیروانی ڈھونڈ لی ہم نے۔ تم کو تو آنکھوں کے سامنے بیل بھی کھڑا ہو تو نظر نہیں آتا۔‘‘

    آدھے گھنٹے تک انگلی بندھتی بندھاتی رہی۔ نیا شیشہ منگوا کر چوکھٹے میں جڑا اور تمام قصّے طے کرنے پر دو گھنٹے بعد پھر تصویر ٹانگنے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ اوزار آئے، سیڑھی آئی، چوکی آئی، شمع لائی گئی۔

    چچا جان سیڑھی پر چڑھ رہے ہیں اور گھر بھر (جس میں ماما اور کہاری بھی شامل ہیں) نیم دائرے کی صورت میں امداد دینے کو کیل کانٹے سے لیس کھڑا ہے۔ دو آدمیوں نے سیڑھی پکڑی تو چچا جان نے اس پر قدم رکھا۔ اوپر پہنچے۔ ایک نے کرسی پر چڑھ کر میخیں بڑھائیں۔ ایک قبول کر لی، دوسرے نے ہتھوڑا اوپر پہنچایا، سنبھالا ہی تھا کہ میخ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑی۔ کھسیانی آواز میں بولے، ’’اے لو، اب کم بخت میخ چھوٹ کر گر پڑی، دیکھنا کہاں گئی؟‘‘

    اب جناب سب کے سب گھٹنوں کے بل ٹٹول ٹٹول کر میخ تلاش کر رہے ہیں اور چچا میاں سیڑھی پر کھڑے ہو کر مسلسل بڑبڑا رہے ہیں، ’’ملی؟ ارے کم بختو ڈھونڈی؟ اب تک تو میں سو مرتبہ تلاش کر لیتا۔ اب میں رات بھر سیڑھی پر کھڑا کھڑا سوکھا کروں گا؟ نہیں ملتی تو دوسری ہی دے دو اندھو۔۔۔‘‘

    یہ سن کر سب کی جان میں جان آتی ہے تو پہلی میخ ہی مل جاتی ہے۔ اب میخ چچا جان کے ہاتھ میں پہنچاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصے میں ہتھوڑا غائب ہو چکا ہے۔ ’’یہ ہتھوڑا کہاں چلا گیا؟ کہاں رکھا تھا میں نے؟ لاحول ولا قوۃ۔ الّو کی طرح آنکھیں پھاڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟ سات آدمی اور کسی کو معلوم نہیں ہتھوڑا میں نے کہاں رکھ دیا؟‘‘

    بڑی مصیبتوں سے ہتھوڑے کا سراغ نکالا اور میخ گڑنے کی نوبت آئی۔ اب آپ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ناپنے کے بعد میخ گاڑنے کو دیوار پر نشان کس جگہ کیا تھا۔ سب باری باری کرسی پر چڑھ کر کوشش کر رہے ہیں کہ شاید نشان نظر آجائے۔ ہر ایک کو الگ الگ جگہ نشان دکھائی دیتا ہے۔ چچا سب کو باری باری الّو، گدھا کہہ کہ کر کرسی سے اتر جانے کا حکم دے رہے ہیں۔

    آخر پھر چفتی لی اور کونے سے تصویر ٹانگنے کی جگہ کو دوبارہ ناپنا شروع کیا۔ مقابل کی تصویر کونے سے پینتیس انچ کے فاصلے پر لگی ہوئی تھی۔ بارہ اور بارہ کے (کتنے) انچ اور؟ بچوں کو زبانی حساب کا سوال ملا۔ باآواز بلند حل کرنا شروع کیا اور جواب نکالا تو کسی کا کچھ تھا اور کسی کا کچھ۔ ایک نے دوسرے کو غلط بتایا۔ اسی ’تو تو میں میں‘ میں سب بھول بیٹھے کہ اصل سوال کیا تھا۔ نئے سرے سے ناپ لینے کی ضرورت پڑ گئی۔

    اب چچا چفتی سے نہیں ماپتے۔ ستلی سے ماپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سیڑھی پر پینتالیس درجے جا زاویہ بنا کر ستلی کا سرا کونے تک پہنچانے کی فکر میں ہیں کہ ستلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے۔ آپ لپک کر پکڑنا چاہتے ہیں کہ اسی کوشش میں زمین پر آ رہتے ہیں۔ کونے میں ستار رکھا تھا۔ اس کے تمام تار چچا جان کے بوجھ سے یک لخت جھنجھنا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔

    اب چچا جان کی زبان سے جو منجھے ہوئے الفاظ نکلتے ہیں، سننے کے قابل ہیں مگر چچی روک دیتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’اپنی عمر کا نہیں تو ان بچوں کا ہی خیال کرو۔‘‘

    بہت دشواری کے بعد چچا جان ازسر نو میخ گاڑنے کی جگہ معین کرتے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے اس جگہ میخ رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ سے ہتھوڑا سنبھالتے ہیں۔ پہلی ہی چوٹ جو پڑتی ہے تو سیدھی ہاتھ کے انگوٹھے پر۔ آپ ’سی‘ کر کے ہتھوڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ نیچے آ کر گرتا ہے کسی کے پاؤں پر، ہائے ہائے، افوہ اور مار ڈالا شروع ہو جاتی ہے۔

    چچی جل بھن کر کہتی ہیں، ’’ یوں میخ گاڑنا ہوا کرے تو مجھے آٹھ روز پہلے خبر دے دیا کیجیے۔ میں بچوں کو لے کر میکے چلی جایا کروں اور نہیں تو۔۔۔‘‘

    چچا نادم ہو کر جواب دیتے ہیں، ’’یہ عورت ذات بھی بات کا بتنگڑ ہی بنا لیتی ہے۔ یعنی ہوا کیا جس پر یہ طعنے دیے جا رہے ہیں؟ بھلا صاحب کان ہوئے۔ آئندہ ہم کسی کام میں دخل نہ دیا کریں گے۔‘‘

    اب نئے سرے کے کوشش شروع ہوئی۔ میخ پر دوسری چوٹ جو پڑی تو اس جگہ کا پلستر نرم تھا، پوری کی پوری میخ اور آدھا ہتھوڑا دیوار میں۔ چچا اچانک میخ گڑ جانے سے اس زور سے دیوار سے ٹکرائے کہ ناک غیرت والی ہوتی تو پچک کر رہ جاتی۔

    اس کے بعد ازسرِ نو چفتی اور رسی تلاش کی گئی اور میخ گاڑنے کی نئی جگہ مقرر ہوئی اور کوئی آدھی رات کا عمل ہو گا کہ خدا خدا کر کے تصویر ٹنگی۔ وہ بھی کیسی؟ ٹیڑھی اور اتنی جھکی ہوئی کہ جیسے اب سَر پر آئی۔ چاروں طرف گز گز بھر دیوار کی یہ حالت گویا چاند ماری ہوتی رہی ہے۔

    چچا کے سوا باقی سب تھکن سے چور نیند میں جھوم رہے ہیں۔ اب آخری سیڑھی پر سے دھم سے جو اترتے ہیں تو کہاری غریب کے پاؤں پر پاؤں۔ غریب کے ڈیل (چھالا) تھی۔ تڑپ ہی تو اٹھی۔ چچا اس کی چیخ سن کر ذرا سراسیمہ تو ہوئے مگر پل بھر میں داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے، ’’اتنی سی بات تھی، لگ بھی گئی، لوگ اس کے لیے مستری بلوایا کرتے ہیں۔‘‘

    (ممتاز ڈرامہ نویس امتیاز علی تاج کی ایک شگفتہ تحریر، چچا چھکن ان کا تخلیق کردہ وہ کردار ہے جو قارئین میں بہت مقبول ہوا)

  • ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    امتیاز علی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ ’انار کلی‘ ان کا شاہ کار ڈرامہ تھا۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت اور تخلیقی شعور کا اظہار کیا اور ریڈیو فیچر، فلمیں، مکالمہ نویسی کے ساتھ جو ڈرامے لکھے ان میں سب سے زیادہ شہرت ’انار کلی‘ کو ملی تھی۔

    یہ وہ اردو ڈرامہ ہے جس پر بے شمار فلمیں بنیں، اسے نصابی کتب میں‌ شامل کیا گیا اور جامعات میں‌ اس پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ اردو ادب کے نام وَر نقّادوں نے اسے نقد و نظر کے لیے موضوع بنایا۔ یہ ڈراما شہزادہ سلیم (جہانگیر) اور انار کلی کے فرضی معاشقے پر مبنی تھا۔

    امتیاز علی تاج کو ایک قاتل نے ہمیشہ کے لیے ہم سے چھین لیا تھا۔ 19 اپریل 1970ء کو دَم توڑنے والے امتیاز تاج پر دو چاقو برداروں نے رات کو اس وقت حملہ کیا جب گہری نیند میں‌ تھے۔ ان کی شریکِ حیات بھی ان کے ساتھ سو رہی تھیں۔ چاقو کے وار سے زخمی ہونے والے امتیاز علی تاج چند گھنٹے زندگی اور موت سے لڑتے رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں۔ ان کے قتل کی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی اور قاتل بھی گرفتار نہیں‌ ہوسکے۔

    انار کلی کے علاوہ چچا چھکن امتیاز تقاج کا تخلیق کردہ وہ کردار ہے جس سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے ادیب اور باذوق قارئین بھی واقف ہیں۔ امتیاز علی تاج کو علم و ادب کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ ان کی والدہ محمدی بیگم مشہور رسائل کی مدید اور مضمون نگار تھیں جب کہ شریکِ حیات کا نام حجاب امتیاز علی تھا جو اپنے وقت کی نام ور افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی کے فیض یافتہ اور امام بخش صہبائی کے شاگرد تھے۔ اسی طرح والد ممتاز علی اپنے وقت کی قابل ترین علمی و دینی ہستیوں کے قریبی دوست اور ہم مکتب رہے تھے۔

    اردو کے اس مشہور ڈرامہ نویس نے 13 اکتوبر 1900ء میں‌ جنم لیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ وہ اپنے کالج میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے اور ڈرامہ اور شاعری سے خاص دل چسپی رکھنے کے سبب طلبا میں نمایاں تھے۔ خود بھی غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ امتیاز تاج نے افسانہ نگاری ے ساتھ کئی عمدہ تراجم بھی کیے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ و دیگر کی کہانیوں کے ترجمے کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ امتیاز علی تاج نے ادبی اور سوانحی نوعیت کے مضامین بھی لکھے۔ گاندھی جی کی سوانح پر مبنی ان کی کتاب ’بھارت سپوت‘ کے علاوہ محمد حسین آزاد، حفیظ جالندھری اور شوکت تھانوی پر ان کے مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

    امتیاز تاج کا شمار مستند صحافیوں میں‌ بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا صحافتی سفر ’’تہذیب نسواں‘‘ سے شروع کیا تھا اور پھر ’کہکشاں‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ شائع کیا جس نے مختصر عرصہ میں اپنی پہچان بنا لی۔ امتیاز علی تاج نے بعد میں ایک فلم کمپنی ’تاج پروڈکشن لمیٹیڈ‘ کے نام سے بھی بنائی۔

  • سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کے اوّلین علم برداروں میں ایک نام سیّد ممتاز علی کا تھا جو مشہور ہفتہ وار اخبار تہذیبِ نسواں کے بانی تھے۔ علمی و ادبی میدان میں‌ خدمات پر متحدہ ہندوستان کی حکومت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔

    تہذیبِ نسواں ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول تھا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔

    سیّد ممتاز علی 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو زبان کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    سیّد ممتاز علی 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ 1876ء میں لاہور چلے گئے جہاں‌ تا دمِ مرگ قیام رہا۔

    1884ء میں انھوں نے پنجاب میں عدالتی مترجم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    اِن کے اخبار تہذیبِ نسواں کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس اخبار کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1934ء میں شمس العلما کا خطاب پانے والے سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    مولوی سیّد ممتاز علی کی جواں سال زوجہ محمدی بیگم 1908ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے اخبار کی ادارت کی اور پھر اس اخبار کو مولوی ممتاز کے صاحب زادے اور اردو کے نام وَر ادیب امتیاز علی تاج نے سنبھالا۔ وہ اس کے آخری مدیر تھے۔

  • وہ ڈراما جسے متعدد زبانوں‌ میں فلمایا گیا‌

    وہ ڈراما جسے متعدد زبانوں‌ میں فلمایا گیا‌

    امتیاز علی تاج کے ڈرامے ’’انار کلی‘‘ کو ان کا شاہ کار مانا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کو اس دور میں بہت زیادہ اہمیت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور ڈراما نگار امتیاز علی تاج نے اپنے اس ڈرامے کے پلاٹ، کردار، مکالمے اور اس کی پیش کش کو ہر اعتبار سے بے مثال بنایا اور نام ور نقادوں اور تخلیق کاروں سے اس پر داد وصول کی۔

    اس ڈرامے کی مقبولیت اور اس کہانی میں شائقین کی دل چسپی و کشش کو دیکھتے ہوئے فلم ساز بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور انار کلی کو متعدد بار فلمی پردے پر پیش کیا گیا۔ یہ فلمیں‌ اردو ہندی کے علاوہ ملیالم، تیلگو اور دیگر علاقائی زبانوں‌ میں‌ بنائی گئیں جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ مشہور ہے کہ امتیاز علی تاج نے محض 22 سال کی عمر میں‌ یہ ڈراما لکھ لیا تھا اور یہ ان کی ذہانت اور کمالِ فن کا اظہار ہے۔

    ہم یہاں‌ امتیاز علی تاج کے تحریر کردہ ڈرامے پر بننے والی چند فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جو نہ صرف اس دور میں اردو ڈراما کی ترقی اور اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ فلم سازوں نے بھی اس کہانی پر کام کرکے خاموش و ناطق فلموں‌ کے ذریعے‌ اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں‌ شاہانِ وقت اور ولی عہد کی محبت، نفرت، دوستی اور دشمنی کی داستانوں کو کہانیوں، تاریخی ناولوں اور ڈراموں‌ کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے اور اُردو کے اس مشہور و معروف ڈرامے کا مرکزی اور سب سے اہم کردار بھی انار کلی ہے جو ایک کنیز تھی۔ یہ کنیز ولی عہدِ سلطنتِ ہند کی جیون ساتھی تو نہ بن سکی، لیکن مشہور ہے کہ درباری سازشوں نے اسے زندہ دیوار میں چُنوا دیا۔

    اکبرِاعظم کے دور کی اس کنیز کا تذکرہ قصّے کہانیوں، فلموں، تاریخ کی کتب میں موجود ہے اور اسی کے ساتھ شہزادہ سلیم (جہانگیر) کا نام بھی آتا ہے جو انار کلی پر مر مٹے تھے۔

    اب چلتے ہیں‌ اس ڈرامے پر مبنی فلموں کی طرف جن میں‌ 1928 کی دو فلمیں‌ ایک انار کلی اور دوسری لوَ اینڈ مغل پرنس کے نام سے پیش کی گئی تھی۔ یہ خاموش فلمیں‌ تھیں۔ 1935 میں‌ پہلی ناطق ہندی فلم بھی انار کلی کے نام سے سامنے آئی جب کہ 1953 میں اردو زبان میں‌ پھر انارکلی کے ٹائٹل سے سنیما کے شائقین نے یہی کہانی دیکھی، اسی نام سے 1955 میں تیلگو زبان میں فلم سامنے آئی جب کہ اردو زبان میں 1958 میں‌ پھر انار کلی بڑے پردے پر پیش کی گئی۔

    1960 میں اسی کھیل کو مغلِ اعظم کے نام سے اردو اور ہندی میں فلمی پردے پر پیش کیا گیا، ملیالم زبان میں 1966 میں انار کلی کے ٹائٹل سے بھی یہی کھیل پیش کیا گیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام اور ابتدائی زمانے میں معروف اور غیرمعروف فلم سازوں نے امتیاز علی تاج کے اس ڈرامے میں ضروری تبدیلیوں کےساتھ اسے پردہ سیمیں پر پیش کیا اور خود مصنف نے بھی اپنے ڈرامے پر بننے والی فلم میں اداکاری کی۔

    ڈراما انار کلی پر بننے والی فلموں میں مغلِ اعظم اور انار کلی قابلِ ذکر ہیں۔