Tag: امجد اسلام امجد

  • معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا تذکرہ

    امجد اسلام امجد کا نام اردو دنیا کے مقبول شاعر، بہترین ڈرامہ نگار، نقاد اور کالم نویس کے طور پر لیا جاتا ہے جنھیں ہم سے جدا ہوئے دو سال گزر چکے ہیں۔ امجد اسلام امجد کی نظمیں اور غزلیں جو نغمگی اور آہنگ سمیٹے ہوئے ہیں، یہی نغمگی ان کی شخصیت میں انکسار و عاجزی اور شگفتگی کی صورت میں جھلکتی تھی۔

    10 فروری 2023ء کو امجد اسلام امجد انتقال کرگئے تھے۔ اردو ادب اور پی ٹی وی کو کئی مقبول اور یادگار تحریریں دینے والے امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے 1967ء میں فرسٹ ڈویژن میں ایم اے اردو کیا اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ بعد میں مختلف اداروں‌ میں عہدوں پر تقرری ہوئی۔ انھوں نے ایک مصروف اور متحرک زندگی بسر کی اور آخری وقت تک لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق ہوگیا تھا۔ وہ کتابیں‌ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اشعار موزوں کرنے لگے اور پھر نثر کی جانب بھی متوجہ ہوئے۔ بقو ل امجد اسلم امجد،’’ شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی اضافی چیز ہے جو مجھے باقی طلبا سے شاید ممتاز کرتی تھی، چناچہ نویں جماعت میں مجھے اسکول کے مجلے (میگزین) کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ میں لکھ سکتا ہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں۔‘‘

    امجد اسلام امجد کے کئی گیت مشہور گلوکاروں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروائے جو ریڈیو، ٹیلی وژن سے نشر ہوئے اور بہت مقبول ہوئے۔ امجد اسلام امجدکی شاعری کو میڈم نور جہاں، ناہید اختر، نصرت فتح علی خان، مہناز، جگجیت سنگھ، راحت فتح علی خان، عدنان سمیع خان اور ابرار الحق نے بھی گایا۔ ان کا شمار پاکستان میں غزل اور نظم کے ایسے شعرا میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی یکساں تھی۔ ان کی کئی رومانوی اور زندگی کے المیوں کا اظہار کرتی نظمیں بالخصوص نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئیں۔

    ایک نظم "ذرا سی بات” ملاحظہ کیجیے۔

    زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
    وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
    سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
    ہجر کے سمندر میں
    تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
    تم کو جو سنانی ہے
    بات گو ذرا سی ہے
    بات عمر بھر کی ہے
    عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
    درد کے سمندر میں
    ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
    آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
    بات اس دیے کی ہے
    بات اس گلے کی ہے
    جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
    لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
    زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
    راستے میں کیسے ہو
    بات تخلیے کی ہے
    تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
    پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
    ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں

    اطہر شاہ خاں جیدی کی وساطت سے ڈرامہ نگاری کی طرف آنے والے امجد اسلام امجد نے اس فن میں بہت نام کمایا۔ انھوں نے فلم رائٹر کے طور پر بھی ایوارڈ سمیٹا جب کہ 1975ء میں ٹی وی کے لیے ’خواب جاگتے ہیں‘ لکھنے پر انھیں گریجویٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ بعد میں 80 کی دہائی میں انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ڈرامہ’وارث‘ ، ’دن‘، اور ’فشار‘ نے امجد اسلام امجد کو لازوال شہرت دی۔ امجد اسلام امجد کا پہلا شعری مجموعہ 1974 میں ’برزخ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ 1976 میں جدید فلسطینی شاعری کے منظوم تراجم ’عکس‘ کے نام شائع کروائے۔ آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ’ساتواں در‘ 1980 میں، تیسرا شعری مجموعہ ’فشار‘ دسمبر 1982 میں شائع ہوا تھا۔ دیگر شعری مجموعے ’ذرا پھر سے کہنا‘، ’اس پار‘، ’اتنے خواب کہاں رکھوں گا‘،’بارش کی آواز‘، ’ساحلوں کی ہوا‘. ’نزدیک‘ اور غزلوں کی کلیات ’ہم اس کے ہیں‘ کے نام سے شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد سفر نامے بھی امجد اسلام امجد کے قلم سے نکلے اور کئی تراجم کے ساتھ ان کے ڈراموں کو بھی کتابی شکل دی گئی۔

    شاعر و ادیب امجد اسلام امجد نے پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزازات ستارۂ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے کے علاوہ شاعری اور ڈر امہ نگاری پر بھی متعدد ادبی ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    امجد اسلام امجد کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد انتقال کر گئے

    معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد انتقال کر گئے

    کراچی: ممتاز پاکستانی شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد 78 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اہلِ خانہ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ممتاز پاکستانی شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔

    ممتاز شاعر امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے، امجد اسلام نے گریجویشن گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کیا۔

    پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز لاہور ہی کے ایم اے او کالج سے کیا۔ 1975ء سے لے کر 1979ء تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔انہوں نے ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھایا ہے۔

    امجد اسلام امجد کے لیے ترکی کا اعلیٰ ثقافتی ایوارڈ

    ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی کے لیے کئی سیریلز لکھیں جن میں چند نام یہ ہیں: ’برزخ‘، ’عکس‘، ’ساتواں در‘، ’فشار‘، ’ذراپھر سے کہنا‘(شعری مجموعے)، ’وارث‘، ’دہلیز‘(ڈرامے)، ’آنکھوں میں تیرے سپنے‘(گیت) ، ’شہردرشہر‘(سفرنامہ)، ’پھریوں ہوا‘ ،’سمندر‘، ’رات‘، ’وقت‘،’اپنے لوگ‘،’یہیں کہیں‘۔

    علاوہ ازیں تنقیدی مضامین کی ایک کتاب ’تاثرات‘ بھی ان کی تصنیف کردہ ہے۔

    نظم و نثر میں اُن کی 40 سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں ’صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی‘ اور ’ستارہ امتیاز‘ کے علاوہ کئی مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، گریجویٹ ایوارڈ اور دیگر متعدد ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔

    امجد اسلام امجد کے چند اشعار

    جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
    جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

    ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
    خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو

    اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
    اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں

    دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
    اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں

    مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
    جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں

    اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
    لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں

    مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
    دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں

    امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
    گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں

  • پی ٹی وی کے معروف اداکار محبوب عالم کی برسی

    پی ٹی وی کے معروف اداکار محبوب عالم کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن، ریڈیو اور فلم کے معروف اداکار محبوب عالم 18 مارچ 1994ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    محبوب عالم 1948ء میں ٹنڈوغلام علی، ماتلی ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کیا اور سندھی فلم سورٹھ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن نشریات کا آغاز ہوا تو محبوب عالم نے بھی قسمت آزمائی اور متعدد ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار ادا کرتے رہے، لیکن سیریل وارث نے انھیں ملک گیر شہرت اور مقبولیت دی۔

    یہ ڈراما 1979ء میں ٹیلی وژن سے نشر ہوا تھا، جس میں محبوب عالم نے چوہدری حشمت کا کردار اس خوبی اور عمدگی سے نبھایا کہ ہر ایک ان کے کمالِ فن کا معترف ہوگیا۔ وراث پی ٹی وی کے سنہرے دور کا یادگار ڈراما ثابت ہوا۔

    محبوب عالم نے وارث کے بعد ٹیلی وژن پر مزید سیریلز میں بھی کام کیا جن میں دہلیز، سمندر، وقت، لازوال اور پیاس کے نام قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور پشتو زبانوں میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن ان کی وجہِ شہرت پی ٹی وی اور چھوٹی اسکرین پر پرفارمنس ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محبوب عالم کو ضلع حیدرآباد میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔