Tag: امراض

  • کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافہ کے باعث مختلف امراض پھیلنے لگے

    کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافہ کے باعث مختلف امراض پھیلنے لگے

    کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے مختلف امراض تیزی سے پھیلنے لگے جس کے بعد اسپتالوں میں رش لگ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے اسپتالوں میں گرمی سے متاثرہ افراد کے رپورٹ ہونے کا سلسلہ جاری ہے، سر درد، بخار اور جسم میں شدید درد کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔

    گرمی کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں ہیٹ ریش، اسکن الرجی، گرمی دانے اور فنگل انفیکشن کے مریضوں کا رش لگ گیا ہے۔

    جناح اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد نے کہا کہ شدید گرمی اور حبس میں احتیاط نہ کرنیوالے افراد متاثر ہورہے ہیں، پانی کا کم استعمال گرمی کی شدت سے متاثر ہونے کا سبب بنتا ہے۔

    دوسری جانب محکمہ موسمیات نے کراچی والوں کو خوشخبری سنادی، محکمہ کا کہنا ہے کہ شہر میں ہیٹ ویو کا سلسلہ آج شام تک رہے گا اور آج شام یا کل سے سمندری ہوائیں مکمل بحال ہوجائینگی۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق شہر کا موجودہ درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن ہوا میں نمی کا تناسب بڑھنے سے گرمی محسوس کی جا رہی ہے۔

  • بیماریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو خون عطیہ کریں

    بیماریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو خون عطیہ کریں

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خون کے عطیے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، باقاعدگی سے خون عطیہ کرنا کینسر سمیت بے شمار بیماریوں سے بچا سکتا ہے اور جسم میں پنپنے والے مختلف امراض سے بھی قبل از وقت آگاہی مل سکتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون عطیہ کرنے کا مثبت رجحان بڑھے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

    یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ (14 جون 1868) سے بھی منسوب ہے جنہوں نے ’اے بی او بلڈ گروپ سسٹم‘ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق خون کا عطیہ دینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے، خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور فاضل کیلوریز جسم سے زائل ہوتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دنیا بھر کے ان تھیلیسیمیا مریضوں کے لیے بھی زندگی کی نوید ہے جنہیں ہر کچھ عرصے بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 ہزار میں سے 4 سے 5 بچے تھیلیسیمیا میجر یا مائنر کا شکار ہوتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ عطیہ کنندہ کے خون کی باقاعدگی سے جانچ مفت ہوتی رہتی ہے اور دیگر افراد کی نسبت اسے مہلک بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی ہے۔

    خون کا عطیہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو یاد رکھنا چاہیئے۔

    خون کا عطیہ 16 سے 60 سال تک کی عمر کے افراد دے سکتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پینا از حد ضروری ہے۔

    عطیہ دینے سے قبل مناسب ناشتہ لازمی کیجئے تاکہ آپ کے خون میں شوگر کا تناسب برقرار رہے۔

    خون کا عطیہ دینے سے 24 گھنٹے قبل احتیاطاً سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔

    اگر آپ باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں تو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے قبل اپنی خوراک میں آئرن کی حامل اشیا کا اضافہ کردیں جن میں انڈے، گوشت، پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    خون دینے سے 24 گھنٹے قبل فربہ کرنے والی غذائیں خصوصاً فاسٹ فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

    اگر خون دینے کے دوران آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں سردی محسوس ہو تو فوری کمبل طلب کرلیں۔

    یاد رکھیں اگر آپ شراب نوشی کرتے ہیں تو آخری مرتبہ شراب کے استعمال کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک آپ خون کاعطیہ نہیں دے سکتے۔

    خون عطیہ کرنے کے بعد چند منٹ بستر پر لیٹے رہیں اور اس دوران ہلکی غذا یا جوس لیں، عموماً یہ اشیا ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد پہلی خوراک بھرپور لیں جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، عموماً مرغی یا گائے کا گوشت اس سلسلے میں بہترین ہے۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد کم سے کم 3 گھنٹے تک سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

    کم سے کم ایک دن تک بھاری وزن اٹھانے اور ایکسر سائز سے گریز کریں۔

  • وہ عادت جو کئی بیماریوں‌ کی وجہ بن رہی ہے!

    وہ عادت جو کئی بیماریوں‌ کی وجہ بن رہی ہے!

    کیا یہ بات تعجب خیز اور نہایت قابلِ‌ غور نہیں‌ کہ کل تک جب دنیا آج کی طرح ترقّی یافتہ اور انسان سہولیات اور آسائشوں‌ کے عادی نہ تھے، تب بھی لوگوں نے کئی ایسے کارنامے انجام دیے اور ایجادات کیں جو حیران کُن اور ناقابلِ یقین ہیں۔ وہ خوب توانا، چاق و چوبند اور صحت مند ہوا کرتے تھے۔

    آج کا انسان ایک ایسی عادت کا شکار ہے جس نے اسے ذہنی اور جسمانی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن وہ خود کو اس عادت کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں‌ کر پارہا۔

    قدیم دور کے انسانوں نے اپنی دماغی قوّت، ذہنی صلاحیت کی بدولت اور صرف اُن دو ہاتھوں‌ کے ہنر اور کمال سے وہ سب کیا جو شان دار اور ہمارے لیے بھی حیرت انگیز ہے۔ آج بھی اگرچہ دنیا محنت کشوں کی بدولت چل رہی ہے اور بڑے بڑے سخت کام انسان اپنے ہاتھوں سے انجام دے رہا ہے۔ لیکن اس میں مشینوں کا عمل دخل بڑھ چکا ہے۔ اسی انسان نے ہزار ہا سال کے دوران بڑی بڑی چٹانوں کا سینہ چیر کر اپنے رہنے کے لیے جگہیں بنائیں، اور دشمن سے اپنے دفاع اور جانوروں کے شکار کے لیے ڈھالیں اور ہتھیار بھی بنائے۔ انسان نے اپنی قوّتِ بازو سے کام لے کر گہرے کنویں کھودے اور اپنے لیے پانی کا بندوبست کیا اور نجانے کیسے کیسے کٹھن کام انتہائی محنت اور مشقت سے کیے۔ اسی ذہانت، طاقت اور شعور کی بدولت آج انسان نے ایسی ایسی مشینیں ایجاد کر لی ہیں جن سے وہی کام جو کبھی انسان اپنے ہاتھوں سے کرتا تھا، اب باآسانی انجام پارہے ہیں۔

    دنیا بھر میں قدیم دور کے محلّات، قلعے اور پھر شہروں کی آباد کاری اور انتظام سے لے کر نہری نظام تک انسان نے اپنے رہنے بسنے، جینے کا خوب سامان کیا اور رفتہ رفتہ انسانی قوّت کی جگہ مشین نے لے لی۔ جو کام دس آدمی کرتے تھے وہی کام ایک مشین کی مدد سے کیا جانے لگا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب انسان وہ سب کام ہاتھوں سے کررہے تھے تو ماحول یوں‌ برباد نہیں‌ ہو رہا تھا اور خود انسانی صحت اچھی تھی اور لوگ طویل عمر پاتے تھے۔ انھیں بیماریاں اور طرح طرح کے امراض کا سامنا نہیں‌ تھا جیسا کہ آج ہے۔ مشینیں‌ بری نہیں‌ ہیں، لیکن انسان کا مشینوں پر انحصار کرنا اور سہل پسند ہوجانا ضرور برا ہے۔ سہل پسندی اور تن آسانی کے بطن سے پھوٹنے والی کاہلی ہی وہ عادت ہے جو کئی مسائل کو جنم دے رہی ہے اور ہم اس پر توجہ نہیں‌ دے رہے۔

    کیا یہ درست نہیں‌ کہ آج کا انسان مشینوں کی وجہ سے تن آسانی اور کاہلی کا شکار ہوگیا ہے؟ کبھی مشقت اور جسمانی طاقت کا استعمال انسان کی پہچان تھا، لیکن آج وہ محنت کے بنیادی تصوّر یا اس اصول کو فراموش کرچکا ہے جس میں تپتی دھوپ، تیز ہواؤں اور یخ بستہ موسموں میں کام سرانجام دینے سے جسم ہی نہیں‌ روح کو بھی طاقت اور قرار نصیب ہوتا تھا۔

    دنیا میں آج بیماریوں کا بول بالا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی کم زوری کی وجہ سے اسپتال میں زیرِ‌علاج رہتا ہے۔ دوائیں مختلف صورتوں میں اس کے جسم میں داخل کی جارہی ہیں اورترقی یافتہ دنیا مصنوعی طریقے سے جسم کو زندہ رہنے کے قابل بنائے ہوئے ہے۔

    پاکستان میں‌ ذیابیطس (شوگر) وہ مرض ہے جو نوجوانوں‌ میں‌ بھی عام ہو رہا ہے۔ یہ کئی دوسرے جسمانی امراض اور طبّی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح مٹاپا اکثر لوگوں کے لیے وبال بن چکا ہے۔ ذیابیطس اور کئی دوسری بیماریوں کی ایک وجہ اہم وجہ سہل پسندی اور وہ طرزِ زندگی ہے جس میں انسان نے اپنے آپ کو ایک موبائل فون تک محدود کرلیا ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا میں‌ کام کاج کے جدید طریقے اور ملازمتوں کی نوعیت بھی مختلف ہوچکی ہے جس میں‌ مخصوص کمروں‌ میں‌ کمپیوٹروں اور دیگر مشینوں پر کام کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کا انسان کھلی فضا میں‌ چہل قدمی، مختلف قسم کی ورزش، ضرورت کے مطابق دھوپ میں رہنے، پیدل چلنے اور جسمانی طور پر خود کو متحرک رکھنے کے بجائے بیٹھے بیٹھے سب کام انجام دینے کا عادی ہوچکا ہے۔ انسان آسائشوں کا ایسا عادی ہوچکا ہے کہ اپنے تمام امور گھر کی چار دیواری میں ہی بھگتانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رہی سہی کسر آن لائن خرید و فروخت نے پوری کر دی ہے۔

    طبّی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں‌ اس بات کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ ہم جسمانی طور پر خود کو کسی قدر مشقت کا عادی بنائیں اور کوئی ایسی مصروفیت نکالیں جس میں ہمیں‌ پیدل اور مختلف مواقع پر قوّتِ بدنی کو استعمال کرنا پڑے۔ گاڑیوں‌ میں‌ سفر کو مجبوری نہیں‌ بنایا جائے بلکہ اسے ضرورت تک محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات کو اہمیت دیتے ہوئے سادہ غذا اور طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔

    یاد رکھیے، سہل پسندی اور تن آسانی ہماری پیاری اور خوشیوں‌ بھری زندگی میں بیماری، معاشی مسائل اور اس کے نتیجے میں‌ مالی، جسمانی معذوری اور محتاجی کو گھسنے کا موقع دے سکتی ہے۔ اس سے بچنا ہے تو آج ہی کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔

    (صاعقہ علیم اللہ کا انتخاب)

  • صرف آنکھ دیکھ کر امراض کی تشخیص ممکن

    صرف آنکھ دیکھ کر امراض کی تشخیص ممکن

    امریکی ماہرین نے ایسی اسمارٹ فون ایپ تیار کی ہے جو مریض کی آنکھ دیکھ کر مختلف امراض کے بارے میں بتا سکے گی۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے سائنسدانوں نے اسمارٹ فون ایپ بنائی ہے جو آنکھ کے اندرونی خدوخال دیکھ کر الزائمر، اے ڈی ایچ ڈی اور دیگر اعصابی امراض کی شناخت میں مدد دے سکتی ہے۔

    قدرے نئے کیمروں میں چہروں کی شناخت کے لیے نیئر انفرا ریڈ کیمرے کی سہولت موجود ہے اور ایپ بھی انہیں ہی استعمال کرتی ہے، یہ آنکھ کی پتلی کی جسامت میں تبدیلی کو نوٹ کرتے ہوئے اکتسابی تنزلی سے آگاہ کرتی ہے۔

    اس کی تفصیل حال ہی میں اے سی ایم کمپیوٹر ہیومن انٹر ایکشن کانفرنس میں پیش کی جائے گی جو 30 اپریل سے 5 مئی تک جاری رہے گی۔

    تحقیق سے وابستہ پروفیسر کولن بیری اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ اگرچہ مزید تحقیق کی ضرورت تو ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کو اعصابی اور دماغی اسکریننگ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    ان کے مطابق گھر اور عام جگہوں پر بھی اسے آزمایا جاسکتا ہے، توقع ہے کہ اس سے دماغی امراض کی تشخیص کے نئے در کھلیں گے۔

    حالیہ چند برسوں میں معلوم ہوا ہے کہ آنکھ کے اندر موتی کی طرح گول پتلی کی جسامت سے دماغی کیفیات سے آگہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثلاً مشکل دماغی کام کے دوران یا کوئی زوردار آواز سن کر آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ آنکھ کی پتلی کے سکڑنے اور پھیلنے پر کئی ٹیسٹ بنائے گئے ہیں جو آسانی سے کئی اعصابی امراض کا پتہ دیتے ہیں لیکن اس سے قبل صرف تجربہ گاہ میں کسی ماہر کی نگرانی اور مہنگے آلات کے تحت ہی ایسا ممکن تھا۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی کے تحت ڈیجیٹل ہیلتھ لیب کے ماہرین نے کئی دماغی طبیبوں کے تعاون سے اسمارٹ فون کیمرے کے تجربات کیے ہیں۔

    اس طرح یہ کسی تکلیف کے بغیر آبادی کی بڑی تعداد میں تیزی سے دماغی امراض کی شناخت کا اہم ٹول بن سکتا ہے، بالخصوص اس سے الزائمر کا مرض معلوم کیا جاسکتا ہے۔

    نیئر انفراریڈ اسپیکٹرم پر آنکھ کی پتلی میں تبدیلی معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس سے ملی میٹر کے بھی معمولی حصے تک کی تبدیلی ایپ سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ ایپ پہلے عام رنگ و روشنی اور اس کے بعد نیئر انفراریڈ سے آنکھ کا معائنہ کرتی ہے۔

  • باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ

    باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ

    پیرس: حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کھانے اور دماغی شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مچھلی کھانے کی عادت دماغ کی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم کردیتی ہے۔

    طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کھانے اور دماغی شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے، دماغی شریانوں کو نقصان پہنچنے سے ڈیمینشیا اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    بورڈیوکس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 3 شہروں پر ہونے والی ایک تحقیق کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں دماغی شریانوں کے امراض اور ڈیمینشیا کے تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین نے 65 سال سے زائد عمر کے 16 سو 23 افراد کے ایم آر آئی اسکینز کا تجزیہ کیا جن میں فالج، دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ ان افراد سے غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھی بھروائے گئے تھے۔

    ان افراد کو 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ ہفتے میں ایک بھی مچھلی نہ کھانے والوں پر مشتمل تھا، دوسرا ہفتے میں ایک بار، تیسرا ہفتے میں 2 سے 3 بار جبکہ چوتھا 4 یا اس سے زیادہ بار مچھلی سے لطف اندوز ہونے والوں پر مشتمل تھا۔

    ماہرین نے پھر ہر گروپ میں شامل افراد میں خون کی شریانوں کے امراض کی علامات کا موازنہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ زیادہ مچھلی کھانے والے افراد میں شریانوں کو نقصان پہنچنے کی نشانیاں دیگر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 65 سے 69 سال کی عمر میں مچھلی کے استعمال اور خون کی شریانوں کے امراض کا تعلق زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بیشتر افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ مختلف جینیاتی اور ماحولیاتی عناصر کے باعث بڑھتا ہے، طرز زندگی کے عناصر اور دماغی صحت کے درمیان تعلق کو سمجھنا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیق سے عندیہ ملا ہے کہ جو غذا دل کے لیے مفید ہوتی ہے وہ دماغ کے لیے بھی صحت بخش ہوتی ہے، جبکہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا، تمباکو نوشی نہ کرنا، الکحل سے گریز اور متحرک طرز زندگی سب عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔

    اس سے قبل امریکا کی ساﺅتھ ڈکوٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا مختلف امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔

    ڈھائی ہزار سے زائد معمر افراد پر ہونے والی تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ جو لوگ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان میں جلد موت کا خطرہ 34 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ایسے افراد میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ 39 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کولیسٹرول لیول میں اضافہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والا اہم ترین عنصر ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی کولیسٹرول لیول ہارٹ اٹیک یا فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھا کر جلد موت کا باعث بنتا ہے، تاہم اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اس حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا ہارٹ اٹیک، فالج، امراض قلب اور مختلف امراض سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے۔

  • آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    دن کا زیادہ تر حصہ بیٹھ کر گزارنے کی عادت بے شمار امراض کا باعث بن سکتی ہے حتیٰ کہ یہ آپ کو موت کے منہ میں بھی دھکیل سکتی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہ رہنا متعدد امراض بشمول امراض قلب، فالج، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس ٹائپ 2 اور متعدد اقسام کے کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ثابت ہوچکا ہے۔

    اس نئی تحقیق میں 168 ممالک کا سنہ 2016 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور محققین نے دریافت کیا کہ سست طرز زندگی غیر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ہر ہفتے ڈیڑھ سو منٹ سے بھی کم معتدل یا 75 منٹ کی سخت جسمانی سرگرمیوں کو سست طرز زندگی قرار دیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ امیر ممالک کے رہائشیوں میں سست طرز زندگی سے جڑے امراض کا خطرہ غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں 2 گنا سے زیادہ ہے۔

    سنہ 2016 میں امیر ممالک میں جسمانی سرگرمیوں کی سطح متوسط ممالک کے مابلے میں دوگنا کم تھی تاہم متوسط ممالک میں سست طرز زندگی سے لوگوں کو زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ وہاں کی آبادی زیادہ ہونا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سست طرز زندگی کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 69 فیصد متوسط ممالک میں ہوئیں، اسی طرح غیرمتعدی امراض سے ہونے والی 80 فیصد اموات متوسط اور غریب ممالک میں ہوئیں۔

    اس طرز زندگی کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات لاطینی امریکا، کیرئیبین ممالک، ایشیا پیسیفک اور مغربی ممالک میں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں سب سے کم شرح سب صحارا افریقہ، اوشیانا، مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں دیکھنے میں آئی۔

  • کھانسی کیا ہے؟

    کھانسی کیا ہے؟

    کھانسی کیا ہے؟

    آپ جانتے ہیں کہ کھانسی ایک بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے، ہمارے ارد گرد ہر وقت کوئی نہ کوئی کھانستا ہے۔ لیکن آج اس کے بارے میں آپ تفصیلی جانیں گے۔

    کھانسی (Cough) ایک فِطری عمل ہے جس کے ذریعے سانس کی نالیوں، پھیپھڑوں اور گلے میں جمع ہونے والے مواد کی صفائی ہوتی ہے، بلغمی راستوں میں گرد و غبار جمع ہو جاتا ہے جو کھانسی کے ذریعے صاف ہوتا ہے، اور یہ ایک اضطراری یعنی غیر ارادی عمل ہے، اور یہ کبھی کبھار ہی کسی تشویش ناک صورت حال کی علامت ہوتی ہے۔

    خشک کھانسی خارش آور ہوتی ہے اور اس سے کوئی بلغمی مادہ پیدا نہیں ہوتا، سینے سے اٹھنے والی کھانسی کا مطلب یہ ہے کہ بلغمی مادہ پیدا ہوتا ہے جو آپ کے تنفس کے راستوں کو صاف کر دیتا ہے۔

    کھانسی کی زیادہ تر اقسام 3 ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہیں لہٰذا کسی علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن کھانسی تواتر کے ساتھ ہو تو پھر اپنے معالج سے معائنہ کروانا ایک اچھی بات ہے تاکہ وہ اس کی وجہ معلوم کر سکیں۔

    کھانسی کی وجہ

    اس سلسلے میں 2 قسم کی کھانسی ہے، جس کے بارے میں آپ جانیں گے، ایک مختصر مدت والی لیکن شدید، اور دوسری متواتر یعنی پرانی کھانسی۔

    مختصر مدت کی کھانسی کی عمومی وجوہ

    سانس کے بالائی راستے کا انفیکشن (اپر رسپائریٹری ٹریکٹ انفیکشن) جو گلے، سانس کی نالی یا سانس کی نسوں کو متاثر کرتا ہے، مثال کے طور پر سردی، نزلہ، نرخرے کا ورم ناک کے نتھنوں کی سوزش یا کالی کھانسی۔

    سانس کی نالی کے نچلے حصے کا انفیکشن (LRTI) جو پھیپڑوں یا سانس کے راستوں کو متاثر کرتا ہے، مثال کے طور پر شدید قسم کی حلق کی سوجن یا نمونیا۔

    کوئی الرجی، مثال کے طور پر الرجی کی وجہ سے ناک کی سوزش یا ہیفیور (تپ کاہی)

    کسی طویل مدت کی بیماری کا اچانک ابھر آنا مثلاً دمہ، پھیپھڑوں میں خلل پیدا کرنے والا دیرینہ مرض COPD، یا دیرینہ حلق کی سوجن۔

    بذریعہ سانس اندر جانے والا گرد و غبار یا دھواں۔

    کبھی کبھار مختصر مدت والی کھانسی مرض کی پہلی علامت کے طور پر ظاہر ہو کر متواتر کھانسی کا سبب بن جاتی ہے۔

    مستقل کھانسی کی وجوہ

    سانس کی نالی کے اندر موجود طویل مدت کا انفیکشن مثلاً دیرینہ حلق کی سوجن۔

    دمہ: یہ عام طور پر دیگر علامات کا سبب بنتا ہے، مثلاً خرخراہٹ، سینے میں تناؤ اور سانس کا پھول جانا۔

    الرجی: سگریٹ نوشی: سگریٹ نوشی کرنے والے شخص کی کھانسی بھی سی او پی ڈی کی علامت ہو سکتی ہے۔

    سانس کی نالیوں کا پھیلاؤ: جہاں پھیپھڑوں میں جانے والی ہوا کے راستے خلاف معمول طور پر کھل جاتے ہیں۔

    ناک کی پچھلی طرف گرنے والا مواد: ناک کے پچھلے حصے سے بلغم کا گلے کے نیچے گرنا ناک کی سوزش یا ناک کے نتھنوں کی سوزش کا سبب ہو سکتا ہے۔

    معدے اور خوراک کی نالی کے سیال کا مرض (جی او آر ڈی): جہاں معدے کے ٹپکنے والے تیزاب کی وجہ سے گلے میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے۔

    تجویز کردہ دوا: جیسا کہ انجیوٹنسن کنورٹنگ انزائم انہیبٹر (اے سی ای مانع) جس کو دل کے مرض اور ہائی بلڈ پریشر کےعلاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں، ڈاکٹر کو فکر نہیں ہوتی کہ کھانسی خشک ہے یا بلغمی بلکہ اس کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوگی کہ آیا آپ معمول سے ہٹ کر سیاہ بلغم زیادہ مقدار میں نکال رہے ہیں یا نہیں۔

    مستقل کھانسی کبھی کھبار ہی کسی تشویش ناک مرض کی علامت ہو سکتی ہے مثلاً پھیپھڑوں کا کینسر, پھیپھڑوں کی شریانوں میں خون جم جانا یا ٹی بی۔

    بچوں کی کھانسی

    بچوں میں کھانسی کی وجوہ عام طور پر وہی ہوتی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، سانس کی نالی میں انفیکشن، دمہ یا جی او آر ڈی سب کے سب بچوں کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم بچوں میں زیادہ عام وجوہ درج ذیل ہیں:

    نرخرے کی نالیوں کی سوزش: سانس کی نالی میں ایک معمولی نوعیت کا انفیکشن جوکہ عام طور پر زکام جیسی علامات کا سبب پیدا کرتا ہے۔

    خناق: جب بچہ اندر کی طرف سانس لیتا ہے تو یہ ایک نمایاں قسم کی درشت کھانسی اور سخت آواز پیدا کرتی ہے جس کو خراخراہٹ کہتے ہیں۔

    کالی کھانسی: اس طرح کی علامات تلاش کریں مثلاً کھانسی کے سخت قسم کے دورے، الٹی اور ’ہو ہو‘ کی آواز اور کھانسی کے بعد ہر سانس تیزی کے ساتھ آنا۔ عام طور پر بچے میں مستقل کھانسی کی موجودگی ایک دیرینہ قسم کی تشویش ناک بیماری ہو سکتی ہے ، مثلاً موروثی بیماری۔

    ڈاکٹر سے کب رجوع کریں؟

    اگر آپ کے بچے کو ایک یا 2 ہفتوں سے کھانسی ہو رہی ہے تو عام طور پر ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم آپ طبی مشورہ حاصل کریں اگر:

    آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ دیر تک کھانسی ہو چکی ہے، اگر آپ کو شدید کھانسی ہے، آپ کی کھانسی میں خون آتا ہے یا آپ کی سانس پھولتی ہے، سانس لینے میں مشکل پیش آتی ہے یا سینے میں درد ہوتا ہے، وزن میں بلاوجہ کمی آ گئی ہے، آپ کسی بھی دیگر پریشان کن علامات سے دوچار ہیں مثلاً آواز میں مستقل تبدیلی یا آپ کی گردن پرسوجن یا گلٹیاں۔

    اگر آپ کے معالج کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کی کھانسی کا سبب کیا ہے تو وہ آپ کو معائنے کے لیے اسپتال کے ماہر کے پاس بھیج سکتے ہیں، وہ ٹیسٹ لینے کا بھی کہہ سکتے ہیں مثلاً ایکس رے، الرجی ٹیسٹ، سانس کا ٹیسٹ اور انفیکشن کا جائزہ لینے کے لیے آپ کے بلغم کا تجزیہ کرنا۔

    دستیاب علاج

    مختصر مدت کی کھانسی کے لیے علاج ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا کیوں کہ یہ وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہو سکتی ہے جو کہ چند ایک ہفتوں کے اندر اندر خود بخود بہتر ہو جائے گی۔ آپ کافی مقدار میں محلول پیتے ہوئے اور درد کم کرنے والی دوائیں مثلاً پیراسیٹامول یا آئی بروفین استعمال کرتے ہوئے گھر میں رہ کر آرام کر سکتے ہیں۔

    کھانسی کی دوائیاں اور علاج

    اگرچہ بعض افراد کو اس سے مدد ملتی ہے لیکن وہ ادویات جو آپ کی کھانسی کو روکنے یا آپ کے بلغم کو دبا دینے کا دعوی کرتی ہیں ان کو عام طور پر تجویز نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کی کم شہادت ملتی ہے کہ یہ عام گھریلو علاج سے زیادہ بہتر ہیں لہٰذا یہ کسی کے لیے بھی موزوں نہیں ہیں۔

    دی میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) تجویز کرتے ہیں کہ کھانسی اور نزلہ زکام کی کاؤنٹر پر فروخت کی جانے والی ادویات 6 سال سے کم عمر کے بچوں کو نہیں دی جانی چاہیئں۔ 6 تا 21 سال کی عمر کے بچے صرف ڈاکٹر یا فارماسسٹ کے مشورے سے ہی ان کو استعمال کر سکتے ہیں۔

    گھریلو نسخے استعمال کرنے جن میں شہد اور لیموں شامل ہوتا ہے مفید اور محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ایک سال سے کم عمر کے شیر خوار بچوں کو شہد نہیں دیا جانا چاہیے کیوں کہ شیر خوار بچہ زہریلے اثرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔

    بنیادی وجوہ کا علاج کرنا

    اگر آپ کی کھانسی مخصوص وجوہ سے ہے تو اس کا علاج مددگار ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:

    آپ کی سانس کی نالی میں موجود سوجن کو کم کرنے کے لیے بذریعہ سانس اسٹیرائڈز استعمال کر کے دمے کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جن اشیا سے آپ کو الرجی ہے ان سے اجتناب کرتے ہوئے اور اینٹی ہسٹامین لیتے ہوئے الرجی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا کی وجہ سے انفیکشن کا علاج اینٹی بایوٹک سے کیا جا سکتا ہے، آپ کے معدے کی تیزابیت کا اثر ختم کرنے کے لیے جی او آر ڈی کا علاج تیزابیت ختم کرنے والے مادے اور دوا کے ساتھ کیا جا سکتا ہے تاکہ آپ کے معدے کی پیدا کردہ تیزابیت کی مقدار کو کم کیا جا سکے۔

    آپ کی سانس کی نالیوں کو چوڑا کرنے کے لیے سی او پی ڈی کا علاج سانس کی نالی کو پھیلانے والے مادے کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اس کا ترک کر دینا بھی کھانسی کو بہتر کر سکتا ہے۔

  • بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    حکیم کفایت اللہ خاں بے حد غیور طبیعت کے حامل تھے۔ نوابین اور راجے مہاراجے خطیر معاوضے کی پیش کش کرتے تھے، مگر حکیم صاحب کو یہ سب گوارا نہ تھا۔

    نواب رام پور کی سفارش پر ایک مرتبہ نواب صاحب ٹونک کی مدقوق ہم شیر کے علاج کے لیے آمادہ ہوئے۔

    وہ کسی بھی علاج سے تن درست نہ ہوسکی تھیں۔ حکیم صاحب نے ان کا علاج کیا اور کچھ عرصے بعد مریضہ کی صحت رفتہ رفتہ عود کر آئی۔

    نواب ٹونک نے بہ اظہارِ مسرت نوابی انعامات سے نوازا، ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کردیا کہ مصاحبین بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔

    پھر کیا تھا، لاکھوں کے انعامات جمع ہوگئے، لیکن حکیم صاحب کو یہ پسند نہیں آیا۔

    اپنے ملازمین اور مصاحبین کو واپسی کے لیے رختِ سفر کی تیاری کا حکم دیا۔

    نواب ٹونک کے ذاتی انعامات قبول کرلیے۔ دیگر عطیات و انعامات یہ کہہ کر یوں ہی چھوڑدیے کہ میں چندے کے لیے نہیں آیا تھا۔

    اس کے بعد اصرار کے باوجود کبھی ٹونک نہیں گئے۔

    ( حکیم عبد الناصر فاروقی کی مرتب کردہ کتاب ”اطبا کے حیرت انگیز کارنامے“ سے انتخاب)

  • کورونا وائرس: دنیا کو تصویروں‌ میں‌ دیکھیے

    کورونا وائرس: دنیا کو تصویروں‌ میں‌ دیکھیے

    گھر میں‌ محصور ہو جانا، خود کو سب سے الگ کر لینا، ایک کمرے تک محدود رہنا، گھومنا پھرنا اور میل جول ترک کر دینا یقینا مشکل ہے، مگر دنیا بھر میں‌ انسانوں‌ کو کورونا کی وجہ سے اپنے معمولات کی انجام دہی کے دوران محتاط رہنے اور مخصوص طبی علامات ظاہر ہونے پر فوراً معالج سے رجوع کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

    میر تقی میر کی ایک غزل کے دو شعر پڑھیے اور اس کے بعد دنیا کے چند ممالک کی مصروف سڑکوں اور گلیوں‌ کی وہ تصاویر دیکھیے جو کورونا کی وجہ سے ویران نظر آرہی ہیں۔

    جائیں تو جائیں کہاں، جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
    یار بن لگتا نہیں جی، کاشکے ہم مَر رہیں

    دل جو اکتاتا ہے یارب، رہ نہیں سکتے کہیں
    کیا کریں، جاویں کہاں، گھر میں رہیں باہر رہیں

    یہ تصاویر بتائیں گی کہ دنیا کی مختلف شاہراہوں، کاروباری مراکز کی رونقیں‌ لگ بھگ ختم ہو چکی ہیں‌، اور کورونا سے متاثرہ ملکوں میں تقاریب اور اجتماعات کا سلسلہ موقوف کردیا گیا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کریں‌ اور احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں‌۔

    واشنگٹن سے ایک تصویر

    لندن میں‌ فوڈ اسٹریٹ کی ویرانی

    اٹلی کی ایک سڑک

    پیرس کی ویران شاہراہ

    چین میں‌ پُلوں پر خاموشی کا راج

    البانیا کی سڑک پر سناٹا

    ترکی میں‌ خوف

    عراق کا ایک بازار بند پڑا ہے

  • ملک میں پولیو کے 2 نئے کیسز سامنے آ گئے، تعداد 27 ہو گئی

    ملک میں پولیو کے 2 نئے کیسز سامنے آ گئے، تعداد 27 ہو گئی

    اسلام آباد: ملک میں پولیو وائرس کے 2 نئے کیسز سامنے آ گئے، ذرایع قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ رواں برس کے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 27 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں دو نئے پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن کا تعلق بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے ہے، بلوچستان میں پولیو وائرس کا نیا کیس رپورٹ ہونے کے بعد صوبے میں رواں سال پولیو وائرس کے کیسز کی تعداد 5 ہو گئی ہے۔

    قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کے پی ضلع ٹانک کی 3 سال کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی، پولیو کی شکار بچی کا تعلق ٹانک کی یو سی خیسرائے سے ہے۔ بلوچستان کے ضلع ژوب کا 2 سالہ بچہ پولیو وائرس کا شکار ہوا جس کا تعلق ژوب کی یو سی بدین زئی سے ہے۔

    محکمہ صحت کے مطابق ژوب سے تعلق رکھنے والے بچے کے نمونے 26 اور 27 فروری کو حاصل کیے گئے تھے، متاثرہ بچے کے والدین پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلاتے تھے۔ گزشتہ ماہ فروری میں پشین کی یو سی تراٹہ میں بھی ایک کیس سامنے آیا تھا، مجموعی طور پر ایک ہی دن پانچ نئے کیسز سامنے آئے تھے، معلوم ہوا تھا کہ موذی مرض کے شکار بچوں کے والدین پولیو ویکسی نیشن سے انکاری تھے۔

    پولیو کے دو نئے کیسز کی تصدیق

    پانچ مارچ کو بھی دو کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے ایک کا تعلق خیبر کے علاقے باڑہ سے تھا جب کہ دوسرے کا سندھ کے شہر شکارپور سے تھا۔ خیال رہے کہ پولیو کے حوالے سے سال 2019 بد ترین رہا جب ملک بھر میں 144 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے، پولیو کی یہ شرح 2014 کے بعد بلند ترین شرح ہے۔ 2014 میں پولیو وائرس کے 306 کیسز سامنے آئے تھے اور یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔

    دو دن قبل ڈاکٹر ظفر مرزا کی زیر صدارت پولیو کی موجودہ صورت حال کے جائزہ اجلاس میں بتایا گیا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی پر عمل درآمد جاری ہے، ہائی رسک یونین کونسلز میں مؤثر اقدامات کو یقینی بنایا جا رہا ہے، دسمبر کے مقابلے میں فروری مہم زیادہ کامیاب رہی تھی، انکاری والدین کی تعداد میں کمی آئی ہے، اپریل 2020 میں ہونے والی قومی مہم میں مزید کامیابی حاصل کریں گے۔