Tag: امراض قلب

  • ہارٹ اٹیک سے محفوظ رہنے کا آسان طریقہ

    ہارٹ اٹیک سے محفوظ رہنے کا آسان طریقہ

    جسمانی سرگرمی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے اور یہ کئی امراض سے محفوظ رکھ سکتی ہے، حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں صرف 11 منٹ کی چہل قدمی کو ہارٹ اٹیک سے محفوظ رہنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔

    حال ہی میں یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ امراض قلب سے بچنے کے لیے پیدل چلنا بہت ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ روزانہ 11 منٹ پیدل چلنے سے صحت مند زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر آپ روزانہ 11 منٹ یا ہفتے میں 75 منٹ تیز چلتے ہیں تو آپ دل کی بیماریوں، ہارٹ اٹیک، فالج اور کئی اقسام کے کینسر کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہفتے میں 75 منٹ کی چہل قدمی یا واکنگ دل کی بیماریوں کے خطرے کو 17 فیصد اور کینسر کے خطرے کو 7 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔

    کیمبرج میڈیکل ریسرچ کونسل کے ایپیڈیمولوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر سورین بریج کا کہنا ہے کہ ہر ہفتے 150 منٹ کی ورزش یا واکنگ ضروری ہے، اور جن لوگوں کو یہ موقع نہیں ملتا وہ ہر ہفتے کم از کم 75 منٹ کی چہل قدمی یا ورزش کو یقینی بنائیں۔

    تحقیق میں ایک بار پھر خبردار کیا گیا کہ اگر جسمانی سرگرمی نہ ہو تو کئی امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ہر ہفتہ 150 منٹ ورزش کرنے پر 6 میں سے ایک شخص میں ہارٹ اٹیک سے ہونے والی موت کو روکا جا سکتا ہے۔

    ڈانس، ٹینس، دوڑ، والی بال جیسے کھیل بھی اس فہرست میں شامل ہیں جو ہارٹ اٹیک سے اموات کی شرح کو کم کرتے ہیں۔

  • یہ علامات دل کے دورے کی ہوسکتی ہیں

    یہ علامات دل کے دورے کی ہوسکتی ہیں

    غیر متوازن غذا اور غیر فعال طرز زندگی کے باعث دل کے امراض اور اچانک دل کا دورہ پڑ جانا بے حد عام ہوگیا ہے، تاہم دل کے دورے سے قبل جسم میں کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان علامات کو جاننا مریض کی جان بچا سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارٹ اٹیک کا سامنا کسی فرد کو اس وقت ہوتا ہے جب دل کی جانب خون کا بہاؤ بہت زیادہ گھٹ جائے یا بلاک ہوجائے، عموماً شریانوں میں چکنائی، کولیسٹرول اور دیگر مواد کا اجتماع دل تک خون کے بہاؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

    کولیسٹرول کے اجتماع کو پلاک کہا جاتا ہے اور کئی بار اس کے باعث بلڈ کلاٹ کا سامنا ہوتا ہے جو خون کی روانی بلاک کردیتا ہے، خون کے بہاؤ میں کمی کے نتیجے میں دل کے پٹھوں کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

    ہارٹ اٹیک سے متاثر فرد کی زندگی بچانے کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی علامات کو جاننا ضروری ہے۔

    ہارٹ اٹیک کی علامات ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہیں، کچھ میں ان کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے تو کچھ میں بہت زیادہ شدید۔

    کچھ افراد میں کسی قسم کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا یوں کہہ لیں انہیں اچانک ہارٹ اٹیک کا سامنا ہوتا ہے۔

    ہارٹ اٹیک کی چند عام علامات یہ ہوسکتی ہیں۔

    سینے میں تکلیف (دباؤ کے احساس کے ساتھ)

    سینے میں کھچاؤ

    ایسی تکلیف یا بے چینی کی لہر کا احساس جو کندھوں، ہاتھوں، کمر، گردن، جبڑے، دانتوں یا پیٹ تک محسوس ہو

    ٹھنڈے پسینے آنا

    تھکاوٹ یا کمزوری

    سینے میں جلن یا بدہضمی

    اچانک سر چکرانا، غشی طاری ہونا یا ذہن پر قابو نہ رہنا

    متلی

    سانس لینے میں مشکل محسوس ہونا

    خواتین میں کچھ ایسی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں جو مردوں میں عام نہیں ہوتیں جیسے گردن، بازو یا کمر پر بہت شدید درد ہونا، جیسے سوئیاں چبھ رہی ہوں۔

    کئی بار ہارٹ اٹیک کا سامنا اچانک ہوتا ہے مگر بیشتر افراد میں انتباہی علامات اور نشانیاں کئی گھنٹے، دن یا ہفتوں قبل سامنے آجاتی ہیں۔

    سینے میں تکلیف یا دباؤ جسے انجائنا کہا جاتا ہے، بھی اکثر ابتدائی علامت ہوتی ہے۔

  • چقندر کے جوس کے روزانہ استعمال کا حیران کن فائدہ

    چقندر کے جوس کے روزانہ استعمال کا حیران کن فائدہ

    چقندر ایک فائدہ مند سبزی ہے جس کا جوس بہت سے فوائد کا حامل ہے، تاہم اس کے روزانہ استعمال کا ایک نیا فائدہ سامنے آیا ہے جو دل کی صحت سے تعلق رکھتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا کہ کرونری ہرٹ ڈیزیز کے امراض میں مبتلا وہ افراد جو یومیہ چقندر کے جوس کا ایک گلاس پیتے ہیں ان میں بیماری کی سطح نمایاں کم ہو جاتی ہے۔

    کرونری ہرٹ ڈیزیز دل کی شریانوں میں خون کی ترسیل کی رکاوٹ کی بیماریاں ہیں، جن سے ہارٹ اٹیک کے خطرے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    دل کی شریانوں میں خون کی عدم فراہمی ہی دنیا بھر میں ہونے والے زیادہ تر ہارٹ اٹیک کا سبب بنتی ہے اور اسی سے ہی دل کی بیماریوں میں مبتلا زیادہ تر افراد ہلاک ہوتے ہیں۔

    دل کی شریانوں میں خون کی ترسیل کی عدم فراہمی یا بے ترتیب فراہمی کو کرونری ہرٹ ڈیزیز کہا جاتا ہے اور ایسے افراد کے جسم میں سوزش بھی بڑھ جاتی ہے اور یہ بیماریاں عام طور پر انسانی جسم میں موجود خاص کیمیکل نٹرک آکسائیڈ کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    ماہرین نے مذکورہ بیماری کا علاج چقندر کے جوس سے کرنے کے لیے 114 افراد پر تجربہ کیا، جس سے معلوم ہوا کہ چقندر کے جوس کا روزانہ ایک گلاس بھی انسانی جسم میں نٹرک آکسائیڈ کی وافر مقدار پیدا کرتا ہے، جس سے دل کی شریانوں کو تقویت ملتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ماہرین نے تجربے کے دوران 78 افراد کو ویکسین کے ذریعے کرونری ہرٹ ڈیزیز جبکہ باقی لوگوں کو کریم دے کر اسی بیماری میں مبتلا کیا اور پھر انہیں یومیہ نہار منہ چقندر کے جوس کا ایک گلاس پینے کو دیا گیا۔

    تجربے کے دوران نصف مریضوں کو دیے گئے جوس سے نٹرک آکسائیڈ کیمیکل نکال دیا گیا تھا جبکہ باقیوں کو مذکورہ کیمیکل کے ساتھ جوس دیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق محض تین دن کے تجربے سے ہی نتائج سامنے آئے اور ایک ہفتے کے دوران معلوم ہوا کہ جن افراد کو نٹرک آکسائیڈ کیمیکل کے ساتھ چقندر کا جوس دیا گیا ان کے جسم میں مذکورہ کیمیکل کی وافر مقدار پیدا ہوئی، جس سے ان کی دل کی شریانوں کو خون کی مناسب ترسیل ہوئی۔

    ماہرین کے مطابق چقندر میں نٹرک آکسائیڈ کی پیداوار بنانے والے اجزا موجود ہوتے ہیں، یہ کیمیکل انسانی دل کے لیے سگنل کا کام کرتا ہے اور اسی کیمیکل کی بہتر مقدار کے باعث ہی دل کو مناسب خون کی ترسیل ہوتی ہے۔

    ماہرین نے مذکورہ نتائج کو مستقبل کے لیے بہتر قرار دیتے ہوئے اس پر مزید تحقیق کا اعلان بھی کیا۔

  • دل کے امراض اور نیند کے مسائل میں تعلق دریافت

    دل کے امراض اور نیند کے مسائل میں تعلق دریافت

    دل کے امراض کئی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بن سکتے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ نیند پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں دریافت ہوا ہے کہ امراض قلب میں مبتلا تقریباً نصف مریض بے خوابی کا شکار ہوتے ہیں۔

    ناروے کی یونیورسٹی آف اوسلو کی میڈیکل کی طالبہ اور تحقیق کی سربراہ مصنفہ لارس فروژڈ کا کہنا تھا کہ نیند کے مسائل کا تعلق ذہنی صحت کے مسائل ہے، لیکن اس تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ بے خوابی کا تعلق قلبی حالات سے بھی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ دل کے مریضوں میں بے خوابی کو دیکھا جانا چاہیئے اور مناسب علاج کیا جانا چاہیئے، تحقیق میں 1 ہزار 68 مریضوں کا دل کے دورے یا شریان کھولے جانے کے لیے کیے جانے والے آپریشن کے اوسطاً 16 مہینوں کو شامل کیا گیا۔

    بے خوابی کے متعلق ڈیٹا کو دل کے مسلسل وقوعات کے خطرات کے بیس لائن کے طور پر جمع کیا گیا۔

    تحقیق کے شرکا سے برجین انسومنیا اسکیل کا سوالنامہ پر کروایا گیا جو بے خوابی کے تشخیصی معیار پر مبنی تھا۔

    6 سوالوں میں سونے اور جاگنے کی صلاحیت، جلدی اٹھ جانے، مکمل آرام نہ ملنے کا احساس، دن کے وقت تکان کا احساس جو کام یا معاشرتی معاملات میں متاثر کرتا ہے اور نیند سے بے اطمینان ہونے کے حوالے سے 6 سوال پوچھے گئے۔

  • دل کو صحت مند رکھنا ہے تو کافی پئیں

    دل کو صحت مند رکھنا ہے تو کافی پئیں

    روزانہ کافی پینے کی عادت بے شمار فائدوں کا سبب ہے، اب حال ہی میں دل کی صحت پر بھی اس کے اثرات کا علم ہوا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی اور موناش یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق سے پتہ چلا کہ روزانہ 2 سے 3 کپ کافی پینے سے امراض قلب،
    ہارٹ فیلیئر یا دل کے دیگر مسائل سمیت کسی بھی وجہ سے قبل از وقت موت کا خطرہ 15 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    3 تحقیقی رپورٹس کے نتائج پر مشتمل اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یو کے بائیو بینک کے ڈیٹا کو استعمال کیا، اس ڈیٹا میں 5 لاکھ سے زائد افراد کی صحت کا جائزہ کم از کم 10 سال تک لیا گیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق ان افراد نے جب تحقیق میں شمولیت اختیار کی تھی تو ان کے کافی پینے کی مقدار کو بھی جانا گیا تھا۔

    اس نئی تحقیق میں ماہرین کی جانب سے کافی پینے کی عادت اور دل کے مختلف امراض کے خطرے میں اضافے یا کمی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    پہلی تحقیق میں 3 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ افراد کو جانچا گیا جو امراض قلب کا شکار نہیں تھے اور ان کی اوسط عمر 57 سال تھی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد روزانہ 2 سے 3 کپ کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں ان کے مستقبل میں امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے، البتہ جو افراد دن بھر میں صرف ایک کپ کافی بھی پی لیتے ہیں ان میں بھی فالج یا دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے دوسری تحقیق میں مختلف اقسام کی کافی سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا، اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی بھی قسم کی کافی کے روزانہ 2 سے 3 کپ پینے سے امراض قلب کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آخری اور تیسری تحقیق میں ایسے افراد کا جائزہ لیا گیا جو پہلے ہی دھڑکن کی بے ترتیبی یا کسی اور دل کی بیماری کا شکار تھے۔

    اس تحقیق کے نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کافی کے استعمال سے دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایسے مریضوں کا روزانہ ایک کپ کافی پینے سے قبل از وقت موت کا خطرہ کم ہوگیا۔

    ان تینوں تحقیقی نتائج سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کافی پینے کی عادت دل کی صحت کو مجموعی طور پر بہتر بنانے کے لیے بے حد مفید ہے۔

    خیال رہے کہ ان تینوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج اپریل کے آغاز میں امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے 71 ویں سائنٹفک سیشن کے دوران پیش کیے جائیں گے۔

  • تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ تیز قدموں سے چہل قدمی کرنا خواتین میں ہارٹ فیلیئر کے خطرات کو ایک تہائی حصے تک کم کر دیتا ہے۔

    برطانیہ میں ہر سال 60 ہزار ہارٹ فیلیئر کے کیسز ہوتے ہیں اور طویل المدت صورتحال روزمرہ کی سرگرمیاں شدید متاثر کر دیتی ہے کیوں کہ یہ تھکان اور سانس میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

    اب ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ مخصوص ایام کے بعد وہ خواتین جو زیادہ تیز چلتی ہیں ان میں ایسی صورتحال سے دوچار ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے 50 سے 79 برس کی عمر کے درمیان 25 ہزار سے زائد ان خواتین کا جائزہ لیا، جن کے متعلق تقریباً 17 برس تک تحقیق کی گئی تھی۔

    اس دورانیے میں 14 سو 55 خواتین کو ہارٹ فیلیئر کا سامنا ہوا جس کا مطلب ہے کہ دل جسم میں باقاعدگی سے خون نہیں پھینک سکتا تھا۔

    ان خواتین نے ایک سوالنامہ پر کیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ عمومی طور پر اوسطاً 2 میل فی گھنٹہ سے کم کی رفتار سے چلتی ہیں، یا دو سے تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں یا اس سے تیز 3 سے زیادہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔

    وہ خواتین جو عمومی رفتار سے زیادہ تیز چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر کے امکانات 34 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ وہ خواتین جو مخصوص ایام کے بعد سست رفتار کے بجائے متوسط رفتار سے چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر ہونے کے امکانات 27 فیصد کم تھے۔

  • خبردار! فکر مند رہنا آپ کو خطرناک نقصان پہنچا سکتا ہے

    خبردار! فکر مند رہنا آپ کو خطرناک نقصان پہنچا سکتا ہے

    امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ وہ مرد جو اپنی درمیانی عمر میں زیادہ فکر کرتے ہیں انہیں بعد کی زندگی میں دل کا مرض اور ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے اوسطاً 53 سال کی عمر والے 15 سو مردوں کی صحت کو جانچا۔

    نتائج میں دیکھا گیا کہ تحقیق کے شروع میں وہ شرکا جن کے متعلق بتایا گیا تھا کہ وہ زیادہ فکر مند ہیں، ان میں دل کی خراب صحت کے 6 اہم اشارے ہونے کے امکانات 13 فیصد زیادہ تھے۔

    ان اشاروں میں موٹاپے کے ساتھ بلند فشارِ خون، کولیسٹرول، ہارٹ اٹیک، فالج، ٹائپ 2 ذیابیطس اور جگر پر چکنائی کا مرض شامل ہے۔

    خطرے کے ان 6 عوامل کے ہونے کا مطلب ہے کہ کسی شخص میں کارڈیو میٹابولک بیماری پنپنے کے امکانات زیادہ ہیں یا وہ اس سے پہلے ہی گزر رہا ہے۔

    تحقیق کی سربراہ مصنف ڈاکٹر لیوینا لی کا کہنا تھا کہ ہماری معلومات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مردوں میں اعلیٰ سطح کی فکرم ندی کا تعلق حیاتیاتی عمل سے ہے جو دل کے مرض اور میٹابولک صورتحال کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔

    ٹیم کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پریشانی کے مسائل کا علاج کرنا کارڈیو میٹابولک بیماریوں کے لاحق ہونے کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔

  • کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ گیا۔

    انٹر ماؤنٹین ہیلتھ کیئر کی اس تحقیق میں 4 ہزار 633 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ 19 کی وبا سے قبل اور اس کے دوران ڈپریشن سے متعلق اسکریننگ کی گئی۔

    لگ بھگ 40 فیصد مریضوں نے کووڈ کی وبا کے پہلے سال کے دوران ڈپریشن کی نئی یا پہلے سے موجود علامات کے تجربے کو رپورٹ کیا، ماہرین نے بتایا کہ نتائج بہت اہم ہیں، وبا کے پہلے سال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مریضوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دیکھا۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن میں ڈپریشن کی تاریخ نہیں تھی یا وہ اس ذہنی عارضے کو شکست دے چکے تھے جبکہ دوسرا گروپ ڈپریشن کے مریضوں پر مشتمل تھا۔

    ان افراد کی اولین اسکریننگ کووڈ کی وبا سے قبل یکم مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے دوران ہوئی تھی جبکہ دوسری بار یکم مارچ 2020 سے 20 اپریل 2021 کے دوران اسکریننگ ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج میں کرونا کی وبا کے ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ڈپریشن کے نتیجے میں مریضوں میں ذہنی بے چینی کے علاج کے لیے ایمرجنسی روم کا رخ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت ڈپریشن کے مریضوں میں اینگزائٹی یا ذہنی بے چینی کے شکار افراد کی جانب سے طبی امداد کے لیے رجوع کرنے کا امکان 2.8 گنا زیادہ دریافت ہوا۔

    اسی طرح اینگزائٹی کے ساتھ سینے میں تکلیف کا خطرہ مریضوں میں 1.8 گنا بڑھ گیا۔

    سائنسی شواہد میں ڈپریشن اور امراض قلب کے درمیان ٹھوس تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق ڈپریشن، اینگزائٹی اور تناؤ کا طویل عرصے تک سامنا کرنے والے افراد کی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافے، دل کی جانب سے خون کے بہاؤ میں کمی اور کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ان نفسیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بتدریج شریانوں میں کیلشیئم کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • وہ معمولی عادت جو دل کے دورے سے بچا سکتی ہے

    وہ معمولی عادت جو دل کے دورے سے بچا سکتی ہے

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نمک کا استعمال کم اور روزانہ کم از کم ایک کیلا کھانے کی عادت سے جان لیوا امراض قلب کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوسکتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا میں نمک کا کم استعمال اور پوٹاشیم کی زیادہ مقدار امراض قلب کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں لوگوں میں یہ الجھن پیدا ہوئی تھی کہ کیا واقعی غذا میں نمک کا کم استعمال مفید ہے یا اس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ نمک کا کم استعمال دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق کے لیے 6 بڑی تحقیقی رپورٹس کے معیاری ڈیٹا کو استعمال کیا گیا تھا جن میں نمک کی مقدار کے اثرات پر جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے حوالے سے نمک یا سوڈیم کے کردار کو واضح کرنے میں مدد ملے گی، نمک کا کم استعمال امراض قلب سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    سوڈیم وہ جز ہے جو کھانے میں استعمال ہونے والے نمک اور کچھ غذاؤں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے، مگر اس کی زیادہ مقدار اکثر پراسیس فوڈز کا حصہ ہوتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں پوٹاشیم قدرتی طور پر پھلوں (جیسے کیلوں)، سبز پتوں والی سبزیوں، بیجوں، گریاں، دودھ یا اس سے بنی مصنوعات اور نشاستہ دار سبزیوں میں موجود ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ پوٹاشیم سوڈیم سے متضاد اثرات مرتب کرتا ہے یعنی خون کی شریانوں کو پرسکون رکھنے میں مدد اور سوڈیم کے جسم سے اخراج کو بڑھاتا ہے جبکہ بلڈ پریشر کو بھی کم کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں 6 بڑی تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں سوڈیم اور پوٹاشیم کے اخراج، امراض قلب کی شرح، اور دیگر پر توجہ مرکوز کی گئی۔

    یہ ڈیٹا رضا کاروں کے متعدد بار حاصل کیے گئے پیشاب کے نمونوں سے اکٹھا کیا گیا تھا جس کو محققین نے سوڈیم کے جزوبدن بنانے کا سب سے قابل اعتبار طریقہ کار قرار دیا۔

    یہ نمونے 10 ہزار سے زیادہ صحت مند بالغ افراد سے حاصل کیے گئے تھے اور بعد ازاں لگ بھگ 9 سال تک ان میں امراض قلب کی شرح کی مانیٹرنگ کی گئی، ان رضاکاروں میں سے 571 کو فالج، ہارٹ اٹیک اور دیگر امراض قلب کا سامنا ہوا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ نمک کا زیادہ استعمال امراض قلب کا خطرہ بڑھانے سے نمایاں حد تک منسلک ہے۔

    طبی ماہرین دن بھر میں 2300 ملی گرام نمک کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں یہ مقدار ایک چائے کے چمچ نمک کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔ مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسم سے روزانہ ہر ایک ہزار ملی گرام سوڈیم کا اخراج امراض قلب کا خطرہ 18 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر ہر ایک ہزار پوٹاشیم کے کا اخراج امراض قلب کا خطرہ 18 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

  • آئرن کی کمی سے دل کی صحت کو سخت خطرات

    آئرن کی کمی سے دل کی صحت کو سخت خطرات

    جسم میں آئرن کی کمی بے شمار پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غیر معمولی تھکاوٹ، جلد زرد ہوجانا، سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، سر چکرانا اور سر درد وغیرہ شامل ہے تاہم حال ہی میں اس کا ایک اور نقصان سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جسم میں آئرن کی کمی اینیمیا (خون کی کمی) کا شکار بنانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے مگر درمیانی عمر میں اس کے باعث ہارٹ اٹیک سمیت امراض قلب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ آئرن کی کمی کے دوران جسم مناسب مقدار میں ہیمو گلوبن بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیات کا وہ پروٹین ہے جو آکسیجن جسم کے دیگر حصوں میں پہنچاتا ہے اور اس کی عدم موجودگی سے مسلز اور ٹشوز اپنے افعال سر انجام نہیں دے پاتے۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر میں آئرن کی کمی سے آئندہ ایک دہائی کے دوران امراض قلب، ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے امراض کا خطرہ 10 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشاہداتی تحقیق تھی جس کے نتائج کو دیکھ کر ہم ٹھوس طور پر نہیں کہہ سکتے کہ آئرن کی کمی امراض قلب کا باعث بن سکتی ہے، مگر شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی اور امراض قلب کے خطرے میں تعلق موجود ہے جس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا تھا کہ آئرن کی کمی کے باعث دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے شکار افراد کو زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر آئرن سپلیمنٹس سے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    ان نتائج کو دیکھتے ہوئے اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین نے آئرن کی کمی اور دل کی صحت پر اثرات کا مشاہدہ عام آبادی پر کیا گیا۔

    تحقیق میں 3 تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن میں 12 ہزار سے زیادہ افراد شامل تھے جن کی اوسط عمر 59 سال تھی اور ان میں سے 55 فیصد خواتین تھیں۔

    دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر میں تمباکو نوشی، ذیابیطس، موٹاپے اور کولیسٹرول کا جائزہ خون کے نمونوں سے لیا گیا جبکہ اسی سے آئرن کی کمی کی جانچ پڑتال بھ کی گئی۔

    بعد ازاں محققین نے ان افراد میں امراض قلب، فالج اور کسی بھی وجہ سے اموات کا جائزہ لیا اور ہر ایک کا تجزیہ آئرن کی کمی سے کیا گیا۔ 60 فیصد افراد آئرن کی مکمل کمی کا شکار تھے اور 64 فیصد میں فنکشنل آئرن کی کمی کو دریافت کیا گیا۔

    13 سال سے زیادہ عرصے تک ان افراد کا جائزہ لینے پر دریافت ہوا کہ فنکشنل کمی کا سامنا کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ 24 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، 26 فیصد میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت جبکہ 12 فیصد میں کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ دریافت کیا گیا۔

    اس کے مقابلے میں آئرن کی مکمل کمی کا سامنا کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ 20 فیصد تک دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی کو دور کرلیا جائے تو امراض قلب کے خطرے کو 11 فیصد، دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت کے خطرے کو 12 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی کو درمیانی عمر کی آبادی میں آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے کیونکہ دوتہائی میں یہ فنکشنل کمی ہوتی ہے، جس سے آئندہ 13 سال میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔