Tag: امراض قلب

  • معروف کامیڈین عمر شریف کو کیا بیماری ہے؟

    معروف کامیڈین عمر شریف کو کیا بیماری ہے؟

    کراچی: امریکا میں مقیم ماہر امراض قلب ڈاکٹر طارق شہاب کا کہنا ہے کہ معروف کامیڈین عمر شریف کی ہارٹ سرجری ایک پیچیدہ عمل ہے، امریکا پہنچتے ہی انہیں اسپتال میں داخل کرلیا جائے گا اور ایک سے دو دن میں ان کی سرجری کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں مقیم ڈاکٹر طارق شہاب نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں معروف کامیڈین عمر شریف کی بیماری کی تفصیلات بتائیں۔

    ڈاکٹر طارق کا کہنا تھا کہ عمر شریف کے دل کے ایک والو کے مسلز کمزور ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے خون کی گردش میں رکاوٹ ہے جبکہ انہیں سانس لینے میں بھی تکلیف کا سامنا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کا علاج اوپن ہارٹ سرجری سے ہوسکتا ہے، لیکن عمر شریف کی پہلے ہی ایک اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی ہے جبکہ ان کے گردے بھی کمزور ہیں لہٰذا دوبارہ سرجری کرنا ان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر طارق کے مطابق عمر شریف کی سرجری اب نئے طریقہ علاج کے ذریعے کی جائے گی جس میں دل کو کھولے بغیر شریانوں کے اندر سے ہی اس والو کی جراحت کی جاتی ہے۔

    انہوں نے کہا یہ ایک مشکل سرجری ہے اور اس کے لیے ماہر امراض قلب کی پوری ٹیم چاہیئے جن کا پاکستان آنا مشکل تھا، اسی لیے عمر شریف کو یہاں بلایا گیا۔ امریکا پہنچتے ہی عمر شریف کو اسپتال میں داخل کرلیا جائے گا اور ضروری پروسیجر کے بعد ان کی سرجری کا عمل شروع کردیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ کراچی ایئرپورٹ سے ایئر ایمبولنس عمر شریف کو لے کر امریکا روانہ ہوچکی ہے، ایئر ایمبولینس میں اہلیہ بھی عمر شریف کے ہمراہ ہیں۔

  • ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ افراد جو ڈیری مصنوعات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل پی ایل او ایس میڈیسن کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ماہرین نے دودھ کے استعمال اور دل کی صحت سے متعلق 18 مطالعات کا جائزہ لیا جو پچھلے 16 سال کے دوران سوئیڈن، امریکا، برطانیہ اور ڈنمارک میں کیے گئے تھے۔

    ان تمام مطالعات میں مجموعی طور پر 47 ہزار سے زائد رضا کار شریک ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر کی ابتدائی عمر 60 سال کے لگ بھگ تھی۔

    اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ دودھ اور دودھ سے بنی غذائیں مثلاً دہی، مکھن اور پنیر وغیرہ زیادہ استعمال کرنے والوں میں امراض قلب کی شرح خاصی کم تھی۔

    یہی نہیں بلکہ اپنے روزمرہ معمولات میں سب سے زیادہ دودھ اور ڈیری مصنوعات استعمال کرنے والوں کےلیے دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی سب سے کم دیکھا گیا۔

    ان کے مقابلے میں وہ افراد جن میں ڈیری پروڈکٹس استعمال کرنے رجحان کم تھا، ان کی بڑی تعداد اپنی بعد کی عمر میں دل اور شریانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوئی۔

    واضح رہے کہ طبّی ماہرین پچھلے کئی سال سے دودھ اور ڈیری مصنوعات کی کم مقدار استعمال کرنے پر زور دیتے آرہے ہیں کیونکہ ان میں چکنائی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، البتہ دوسری کئی تحقیقات سے اس کے برخلاف نتائج بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

    آسٹریلیا، امریکا، سوئیڈن اور چین کے ماہرین پر مشتمل اس مشترکہ پینل کی تحقیق نے بھی صحت کے حوالے سے دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کی افادیت ثابت کی ہے۔

    ریسرچ پیپر کی مرکزی مصنفہ اور جارج انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ آسٹریلیا کی پروفیسر کیتھی ٹریو کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے دودھ پر مبنی غذاؤں کا استعمال مکمل طور پر ترک کردینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی سنگینی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • روزانہ کتنے قدم چلنے سے ‘موت کا خطرہ’ پچاس فی صد کم ہو جاتا ہے؟

    روزانہ کتنے قدم چلنے سے ‘موت کا خطرہ’ پچاس فی صد کم ہو جاتا ہے؟

    میساچوسٹس: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ اگر روزانہ زیادہ سے زیادہ قدم پیدل چلا جائے تو درمیانی عمر کے افراد میں موت کی شرح نمایاں حد تک کم ہو سکتی ہے۔

    میساچوسٹس یونیورسٹی کے انسٹیٹوٹ فار اپلائیڈ سائنسز کے ماہرین نے جسمانی سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لیے ریسرچ اسٹڈی کی، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے ہیں، روزانہ قدموں کے شمار کے تجزیے کی مدد سے حاصل شدہ نئے نتائج میں اہم انکشاف ہوا۔

    تحقیق کے مطابق درمیانی عمر میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتا ہے، ایسا مانا جاتا ہے کہ جسمانی سرگرمیاں متعدد بیماریوں جیسے دل کی شریانوں کے امراض، ذیابیطس اور کینسر کی اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

    کرونا ویکسین کی افادیت کیوں‌ کم ہو گئی؟ محققین نے معلوم کر لیا

    محققین نے تحقیق میں قدموں کی تعداد کو مدنظر رکھا اور روزانہ قدموں کی تعداد اور مختلف امراض سے موت کے خطرے میں کمی کے درمیان واضح تعلق کو دریافت کیا، تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کم از کم 7 ہزار قدم چلنا مختلف امراض سے موت کا خطرہ 50 سے 70 فی صد تک کم کر سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اپریل 2021 میں امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جوانی میں جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنا کر درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

    مارچ 2020 میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کر سکتا ہے۔

  • کیا روسی ویکسینز شوگر اور دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے موزوں ہیں؟

    کیا روسی ویکسینز شوگر اور دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے موزوں ہیں؟

    ماسکو: روس کے وزیر صحت نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے تمام روسی کرونا ویکسینز موزوں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر صحت میخائل مراشکو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کی تینوں کرونا ویکسینز ذیابیطس اور امراض قلب کے شکار افراد کے لیے موزوں ہیں تاہم حتمی فیصلہ چیک اپ کرنے والے ڈاکٹر یا معالج کا ہوگا۔

    میخائل مراشکو نے کہا ذیابیطس اور امراض قلب میں مبتلا افراد کو کرونا وائرس سے زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے، اور اس زمرے کے لوگوں میں کرونا کے سب سے زیادہ سنگین علامات پائی جاتی ہیں، اس لیے ماہرین ان کے لیے جلد ویکسین کی سفارش کرتے ہیں۔

    روسی وزیر نے کہا کہ کرونا سے سنگین طور پر متاثرہ افراد میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا یہ ویکسینز بنیادی طور پر زندگی کو بچانے والا عنصر ہوگی اور انھیں خطرناک پیچیدگیوں سے بچائے گی۔

    میخائل مراشکو کا کہنا تھا کہ شوگر اور امراض قلب میں مبتلا افراد کے لیے ویکسی نیشن کی سفارش چیک اپ کرنے والا ڈاکٹر ہی کرے گا۔

    انھوں نے کہا روس کی تیار کردہ تمام ویکسینز ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے خطرناک نہیں ہیں، تاہم ڈاکٹر اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ مریض کی حالت کیسی ہے اور اسے ویکسین لگائی جا سکتی ہے یا نہیں۔

  • دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    بدلتے ہوئے غیر صحت مندانہ طرز زندگی نے امراض قلب میں تشویشناک حد تک اضافہ کردیا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ زندگی کی اس مصروفیت کو برقرار رکھتے ہوئے دل کا خیال کیسے رکھا جائے۔

    ماہرین صحت کے مطابق امراض قلب دنیا بھر میں انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہیں، ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 80 لاکھ کے قریب افراد دل کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر امراض قلب ڈاکٹر فیصل ضیا نے شرکت کی اور اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ امراض قلب کی شرح میں اضافے کی وجوہات غیر صحت مندانہ طرز زندگی، بہت زیادہ کام کا بوجھ، نیند کا خیال نہ رکھنا، جنک فوڈ کا استعمال، ورزش نہ کرنا اور ذہنی تناؤ کی شرح میں اضافہ ہونا ہے۔

    انہوں نے کہا کم عمری میں سگریٹ کی لت لگ جانا بھی اس کی اہم وجہ ہے، اکثر 20 سے 25 سال کی عمر کے افراد کا بلڈ پریشر بھی اسی وجہ سے ہائی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی کے خاندان میں امراض قلب کی تاریخ موجود ہے تو ایسے شخص کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ اگر 24 گھنٹے کی مصروفیت میں صرف 1 گھنٹہ اپنے لیے مختص کیا جائے اور ہلکی پھلکی ورزش کرلی جائے تو دوران خون بہتر ہوتا ہے جس سے بلڈ پریشر اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    علاوہ ازیں روزمرہ کی خوراک کو بھی زیادہ سے زیادہ صحت مند اور متوازن بنایا جائے۔

    ڈاکٹر فیصل کے مطابق ہارٹ اٹیک اور کارڈیک اریسٹ میں فرق یہ ہے کہ ہارٹ اٹیک میں خون کا بہاؤ دل کی طرف رک جاتا ہے (عموماً خون کے لوتھڑے بننے کے سبب) جبکہ کارڈیک اریسٹ میں دل میں اچانک کوئی خرابی واقع ہوتی ہے اور وہ دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔

    انبہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ادھیڑ عمر افراد کی اکثریت کو صحت یابی کے بعد دل کی تکلیف کا سامنا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس سے دل کو خون پمپ کرنے اور آکسیجن کھینچنے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اسی لیے وہ دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ ایک دفعہ ہارٹ اٹیک ہوجانے کے بعد کسی بھی عمر کے شخص کو نہایت محتاط ہوجانا چاہیئے کیونکہ دوسرا دورہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

  • ڈبل روٹی اور میکرونی کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟

    ڈبل روٹی اور میکرونی کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟

    اوٹاوا: امریکی طبی محققین نے خبردار کیا ہے کہ سفید ڈبل روٹی اور پاستا (میکرونی) کی زیادتی امراض قلب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ وائٹ بریڈ (سفید ڈبل روٹی)، پاستا (میکرونی) اور دیگر خالص زرعی اجناس کے وافر استعمال سے سنگین خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    مطالعے کے مطابق ان اشیا کے کھانے میں زیادتی جلد اموات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    ادھر یو ایس فُل گرین کونسل کا کہنا ہے کہ اناج کی صفائی کے نتیجے میں اناج میں سے ایک چوتھائی پروٹین زائل ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ نصف سے لے کر دو تہائی غذائی عناصر برباد ہو جاتے ہیں۔

    میک ماسٹر یونی ورسٹی کے تحقیقی مطالعے میں 9 سال کے دوران میں دنیا کے 21 ممالک کے 1.37 لاکھ افراد کو شامل کیا گیا، نتائج میں کہا گیا کہ جو لوگ ’خالص اجناس‘ (یعنی صاف کی ہوئی) کا بہ کثرت استعمال کرتے ہیں ان میں ’پوری اجناس‘ (بغیر صاف کی ہوئی) استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں دل کے دورے اور فالج کے حملے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    صاف کی ہوئی اجناس کی مصنوعات میں ڈبل روٹی، غلے کی اجناس، میٹھی اشیا اور پیسٹریز اہم ترین ہیں، اناج کو ’مکمل‘ اس وقت شمار کیا جاتا ہے جب وہ تین حقیقی اجزا یعنی بھوسی چھلکا، تخم اور جرثومہ پر مشتمل ہو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا زیادہ اجزا نکال دیے جائیں تو یہ ’خالص‘ (یعنی چھنا ہوا) اناج بن جاتا ہے۔

    ریسرچ میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے ایک دن میں صاف اور چھنے ہوئے اناج کے 7 سے زیادہ ٹکڑے کھائے ان میں جلد اموات کا تناسب 27 فی صد بڑھ گیا، ان میں امراض قلب کا تناسب 33 فی صد اور فالج کے حملے کا امکان 47 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔

    محققین نے ان نتائج کی بنیاد پر ہدایت کی ہے کہ چھنے ہوئے اناج کو دیگر دستیاب متبادل سے تبدیل کیا جائے، جن میں مکمل اناج (بغیر چھنا) مثلاً براؤن رائس اور جو شامل ہیں۔

  • کرونا وائرس دل کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب

    کرونا وائرس دل کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب

    انسانی جسم پر کرونا وائرس کے مختلف نقصانات کی فہرست طویل ہے، اب حال ہی میں سامنے آنے والے ایک اور نقصان نے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 کا شکار اسپتال میں زیر علاج افراد میں سے 50 فیصد کو اس مرض سے صحت یاب ہونے کے بعد امراض قلب کی شکایت ہوسکتی ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں کووڈ 19 کے نتیجے میں سنگین حد تک بیمار ہو کر لندن کے 6 اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے 148 مریضوں کو شامل کیا گیا۔

    ان تمام مریضوں میں ایک پروٹین ٹروپونین کی سطح میں اضافے کو دیکھا گیا جو خون میں اس وقت خارج ہوتا ہے جب دل کے پٹھوں کو انجری کا سامنا ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے بیشتر مریضوں میں اس وقت ٹروپونین کی سطح میں اضافے کو دیکھا گیا جب ان میں بیماری کی شدت بہت زیادہ بڑھ گئی اور جسم کی جانب سے بیماری کے خلاف مدافعتی ردعمل بہت زیادہ متحرک ہوگیا۔

    ان مریضوں کے اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم ایک ماہ بعد ان کے دل کے ایم آر آئی اسکینز کیے گئے اور معلوم ہوا کہ 54 فیصد افراد کے دلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس نقصان میں دل کے پٹھوں میں ورم، ان پر خراشیں یا دل کے ٹشوز کا مردہ ہونا اور دل کی جانب سے خون کی سپلائی محدود ہونا شامل تھا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت کے دوران دل براہ راست متاثر ہوتا ہے، یہ وجہ بتانا مشکل ہے کہ دل کو نقصان کس طرح پہنچتا ہے مگر دل کے ایم آر آئی اسکینز سے مختلف اقسام کی انجریز کی شناخت ہوتی ہے، جس سے ہمیں زیادہ بہتر تشخیص اور مؤثر علاج کو ہدف بنانے میں مدد مل سکے گی۔

    کچھ مریضوں میں دل کے مسائل کووڈ 19 سے متاثر ہونے سے پہلے بھی موجود تھے مگر ایم آر آئی اسکینز سے ثابت ہوا کہ بیشتر میں یہ مسائل نئے تھے اور ممکنہ طور پر کووڈ ہی اس کی وجہ تھی۔

  • کیا مچھلی کے تیل کے کیپسول دل کی بیماریوں کے لیے مفید ہیں؟

    کیا مچھلی کے تیل کے کیپسول دل کی بیماریوں کے لیے مفید ہیں؟

    ٹیکساس: مچھلی کے تیل کی خوبیوں سے آپ واقف ہوں گے، اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہ دل کی صحت کے لیے بھی مفید ہے، تاہم اب امریکی طبی ماہرین نے کہا ہے کہ مچھلی کے تیل کے کیسپول امراض قلب سے نہیں بچا سکتے۔

    امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن سائنٹفک سیشنز میں گزشتہ دنوں پیش کیے جانے والے تحقیقی مقالوں میں کہا گیا کہ مچھلی کے تیل کے کیپسول کا استعمال دل کی صحت کے لیے مفید نہیں ہوتا۔

    مچھلی، گریوں اور بیجوں جیسی غذا میں پائی جانے والی صحت کے لیے ضروری چکنائی کی قسم ’اومیگا تھری فیٹی ایسڈز‘ اب سپلیمنٹس کی شکل میں بھی دستیاب ہے، لوگ وسیع پیمانے پر مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس کا استعمال کرتے ہیں مگر تحقیقی رپورٹس میں معلوم کیا گیا ہے کہ یہ کیپسول دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے۔

    پہلی تحقیق (دل کے دھڑکن کی بے ترتیبی)

    پہلی تحقیق میں طبی ماہرین نے پایا کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز یا وٹامن ڈی سپلیمنٹ سے دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی (atrial fibrillation) کے مسئلے میں کوئی فائدہ نہیں دیکھا گیا۔

    اس تحقیق میں 26 ہزار کے قریب مرد و خواتین کو شامل کیا گیا، جنھیں دل کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا، پھر انھیں 5 سال تک اومیگا تھری سپلیمنٹ، زیتون کا تیل یا سویابین آئل، یا وٹامن ڈی تھری کا استعمال کرایا گیا، پانچ سال بعد محققین نے دیکھا کہ ان میں 900 لوگوں میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا مسئلہ سامنے آیا جس کا تناسب 3.6 فی صد بنتا تھا۔

    ڈاکٹر کرسٹین البرٹ نے مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سپلیمنٹس کے استعمال سے دیگر افراد میں بھی اس بیماری کے خطرے میں کوئی نمایاں فرق نہیں دیکھا گیا، جب کہ ایٹریل فائبریلیشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے معیار زندگی خراب ہو سکتا ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ اس کی روک تھام کے لیے بنیادی اقدامات کریں جیسا کہ وزن کم کرنا، بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا وغیرہ۔

    دوسری تحقیق (کارڈیو ویسکولر رِسک کی کمی)

    اس دوسری تحقیق میں 13 ہزار 78 افراد کی صحت کا جائزہ لیا گیا، اس میں بھی طبی ماہرین نے دیکھا کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سپلیمنٹس نے دل اور اس کی شریانوں کو لاحق کسی خطرے کم نہیں کیا، بتایا گیا کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سپلیمنٹس سے امراض قلب کے خطرے میں کمی نہیں آتی۔

    تحقیق میں شامل افراد کو دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ لاحق تھا، اور ان کا علاج کولیسٹرول کم کرنے والی ادویہ سے کیا جا رہا تھا، دو سال تک ان میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے کردار کو نوٹ کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔

    اس کے برعکس یہ دیکھا گیا کہ سپلیمنٹس استعمال کرنے والے افراد میں فائدے کی بجائے غذائی نالی پر منفی اثرات کی شرح ان سے دور رہنے والے افراد کے مقابلے میں 25 فی صد سے زیادہ تھی۔ محققین کا کہنا تھا کہ متعدد ٹرائلز سے اب ثابت ہو چکا ہے کہ مچھلی کے تیل کے دل کی شریانوں کی صحت پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    برطانیہ میں بھی اس سلسلے میں ایک تحقیق سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اومیگا تھری سپلیمنٹس کا استعمال کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا، محققین کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان سپلیمنٹس سے فالج، کینسر اور دیگر امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، لیکن انھیں روانہ کھانے سے کسی فرد کی صحت پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوتا۔

    واضح رہے مچھلی ایک ایسی غذا ہے جو صحت کے لیے بے حد مفید ہے، طبی ماہرین مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنانے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں۔

  • دل کا عالمی دن: امراض قلب کے مریض کرونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار

    دل کا عالمی دن: امراض قلب کے مریض کرونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم قلب منایا جارہا ہے، یہ دن بے شمار افراد کو موت کا نشانہ بنانے والے دل کے مختلف امراض کے بارے میں آگاہی اور بچاؤ کا شعور پھیلانے کے لیے منایا جاتا ہے۔

    دل کا عالمی دن یعنی ورلڈ ہارٹ ڈے منانے کا مقصد لوگوں کو امراض قلب کی وجوہات، علامات، بروقت تشخیص، علاج اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کو امراض قلب اور کرونا وائرس کے تعلق سے منسوب کیا گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کے امراض کا شکار افراد کرونا وائرس کا آسان ہدف بن سکتے ہیں لہٰذا دل کے مریضوں کو عام افراد کے مقابلے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

    دل کے عارضے کی ایک بڑی وجہ تمباکو نوشی، شوگر، بلند فشار خون، آرام پسندی، غیر متحرک طرز زندگی، موٹاپا، بسیار خوری پھلوں اور سبزیوں کا ناکافی استعمال اور باقاعدگی کے ساتھ ورزش نہ کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہونے والی کل اموات میں سے ایک تہائی اموات شریانوں اور دل کی مختلف بیماریوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلکی پھلکی سادہ غذا اور دن میں صرف آدھے گھنٹے کی ورزش کو معمول بنا کر دل کے بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس کے علاج کے لیے ملیریا کی دوا کا استعمال: امریکی ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس کے علاج کے لیے ملیریا کی دوا کا استعمال: امریکی ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے ملیریا کی دوائیں استعمال کی جارہی ہیں تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے اس کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کردیا۔

    امریکی ماہرین امراض قلب کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو اینٹی ملیریا دواؤں کے استعمال سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کے بعض مریضوں کو ہائیڈرو کسی کلورو کین اور اینٹی بائیوٹک ایزیتھرو مسین استعمال کروائی جارہی ہے جس سے دل کی دھڑکن غیر معمولی حد تک خطرناک سطح تک پہنچنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    یونیورسٹی آف اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنسز (او ایچ ایس یو) اور انڈیانا یونیورسٹی کے محققین نے تجویز پیش کی ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو ملیریا اینٹی بائیوٹکس کے امتزاج کے ساتھ علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو ان مریضوں کے دل کے نچلے حصے میں غیر معمولی دھڑکنوں پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کے دوران دل کا نچلا حصہ تیزی اور بے قاعدگی سے دھڑکتا ہے اور اس سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

    دوسری جانب امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے جریدے کارڈیالوجی میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں محققین نے سینکڑوں ایسی دوائیں بتائی ہیں جن سے دل کے دورے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ دونوں دواؤں کو ایک ساتھ ایسے مریضوں کے علاج میں استعمال کرنا جن کی حالت پہلے سے تشویشناک ہو، ان میں دورہ قلب کا خطرہ کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔