Tag: امرتا پریتم

  • امرتا پریتم کے تخیل کا سچ جھوٹا نہیں تھا!

    امرتا پریتم کے تخیل کا سچ جھوٹا نہیں تھا!

    پنجابی زبان کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پرتیم کی آپ بیتی ”رسیدی ٹکٹ“ ہندوستان میں بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس کا ہندی، انگریزی اور اردو میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ کتاب میں امرتا پریتم نے اپنی زندگی کے کچھ نہایت خاص اور یادگار واقعات کو ورق ورق اتارا ہے۔

    مشاہیرِ ادب کی تحریریں اور مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں
    جس زمانہ میں یہ کتاب منظرِ عام پر آئی، اس وقت امرتا پریتم اور ہندوستان کے مقبول ترین شاعر ساحر لدھیانوی کا معاشقہ بھی ہر زبان پر تھا۔ ادبی دنیا ہی نہیں ان کی شاعری کے دیوانے بھی اس سے واقف ہوچکے تھے۔ امرتا پرتیم نے اپنی اس کتاب میں اسی شاعر سے متعلق چند یادیں اور واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔ ’رسیدی ٹکٹ‘ میں ایک جگہ امرتا نے بڑا دل چسپ واقعہ درج کیا ہے جو افسانوی معلوم ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ’’یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میرا بیٹا میرے جسم کی امید بنا تھا۔ ۱۹۴۶ کے آخری دنوں کی بات۔ اخباروں اور کتابوں میں کئی وہ حادثے پڑھے تھے کہ ایک ہونے والی ماں کے کمرے میں جس طرح کی تصویریں ہوں، یا جس قسم کی صورت وہ دل میں لاوے، بچے کے خط و خال ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ اور میرے تخیل نے جیسے دنیا سے چھپ کر اس لمحے میں میرے کانوں میں کہا، اگر میں ساحرؔ کا چہرہ ہر وقت اپنی یادوں کے سامنے رکھوں تو میرے بچے کی صورت اس کے مشابہ ہوجائے گی۔

    وہ مزید لکھتی ہیں: سنک اور دیوانگی کے اس عالم میں جب ۳ جولائی ۱۹۴۷ کو پیدائش عمل میں آئی، اوّل مرتبہ اس کا منہ دیکھا، اپنے خدا ہونے کا یقین آگیا۔ اور بچّے کے چہرے کی نشوونما کے ساتھ یہ خیال بھی نشوونما پاتا رہا کہ اس کی صورت واقعی میں ساحر سے مشابہ ہے۔ خیر! دیوانگی کی آخری چوٹی پر پاؤں رکھ کر ہمیشہ کھڑے نہیں رہا جا سکتا۔ پاؤں کو بیٹھنے کے لیے زمین کا قطعہ چاہیے، اس لیے آئندہ برسوں میں اس کا تذکرہ ایک پری کہانی کی طرح کرنے لگ گئی۔ ایک بار یہ بات میں نے ساحرؔ کو بھی سنائی، اپنے آپ پر ہنستے ہوئے۔ اس کے کسی اور ردِ عمل کی خبر نہیں، صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ہنس پڑا اور اس نے صرف اتنا کہا، ’ویری پُوور ٹیسٹ! (Very Poor Taste) ‘۔

    ساحرؔ کو زندگی کا سب سے بڑا ایک کمپلیکس ہے کہ وہ خوب رو نہیں۔ اسی میں سے اس نے میرے پُوور ٹیسٹ کی بات کہی۔ اس سے پیش تر بھی ایک بات واقعہ ہوئی تھی۔ ایک روز اس نے میری بچی کو گود میں بٹھا کر کہا تھا کہ ’تم کو ایک کہانی سناؤں‘۔ اور جب میری بچی کہانی سننے کے لیے تیار ہو گئی تو وہ سنانے لگا۔

    ’ایک تھا لکڑہارا۔ وہ شب و روز جنگل میں لکڑیاں چیرتا تھا۔ پھر ایک روز اس نے جنگل میں ایک شہزادی کو دیکھا۔ بڑی حسین! لکڑہارے کا جی چاہا وہ شہزادی کو لے کو دوڑ جائے۔‘ پھر۔۔ میری بیٹی کہانی میں ہوں کرنے کی عمر کی تھی۔ اس لیے بڑی توجہ سے کہانی سن رہی تھی۔ میں صرف ہنس رہی تھی۔ کہانی میں دخل نہیں دے رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’لیکن تھا تو لکڑہارا نا۔‘ وہ شہزادی کو صرف دیکھتا رہا۔ دور فاصلے پر کھڑے ہو کر، اور پھر اداس ہو کر لکڑیاں کاٹنے لگ پڑا۔

    سچی کہانی ہے نا؟‘ہاں! میں نے بھی دیکھا تھا۔ معلوم نہیں بچی نے یہ کیوں کہا۔ ساحرؔ ہنستا ہوا میری طرف دیکھنے لگا۔ ’دیکھ لو اس کو بھی معلوم ہے!‘ اور بچی سے پوچھنے لگا۔ تم وہیں تھی نا جنگل میں؟‘بچی نے ہاں میں سر ہلایا۔

    امرتا اس واقعے کو کہانی کے انجام کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے لکھتی ہیں: ‘پھر برسوں بیت گئے۔ ۱۹۶۰میں جب میں بمبئی گئی تو ان دنوں راجندر سنگھ بیدی مہربان دوست تھے۔ اکثر ملا کرتے۔ ایک شام بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک سے پوچھا۔ ’پرکاش پنڈت سے ایک بات سنی تھی کہ نوراج ساحرؔ کا بیٹا ہے۔‘ اس شام میں نے بیدی صاحب کو اپنے اس عالمِ دیوانگی کی بات سنائی، کہا۔’یہ تخیل کا سچ ہے، حقیقت کا سچ نہیں!‘انہی دنوں ایک روز نوراج نے بھی سوال کیا۔ اس کی عمر قریب تیرہ سال تھی۔’ایک بات پوچھوں، سچ سچ بتا دو گی؟‘

    ’ہاں‘…. کیا میں ساحرؔ انکل کا بیٹا ہوں؟‘

    ’نہیں….‘۔ ’لیکن اگر ہوں تو بتا دیجیے، مجھے ساحرؔ انکل اچھے لگتے ہیں۔‘

    ’ہاں بیٹے! مجھے بھی اچھے لگتے ہیں، لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو تم کو ضرور بتا دیتی!‘

    سچ کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ میرے بچے کو یقین آگیا۔ سوچتی ہوں تخیل کا سچ جھوٹا نہیں تھا، تاہم وہ صرف میرے لیے تھا، صرف میرے لیے۔ اس قدر کہ وہ ساحرؔ کے لیے بھی نہیں۔لاہور جب کبھی ساحرؔ ملنے آیا کرتا تھا تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میں بجھا دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔ اس کے جانے کے بعد، میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔ ‘‘

  • امرتا پریتم کی ہتھیلی اور ادبی کانفرنس کا بیچ

    امرتا پریتم کی ہتھیلی اور ادبی کانفرنس کا بیچ

    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امرتا پریتم پنجابی ادب کی ایک مایہ ناز ادیب اور شاعرہ ہیں، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان بھر میں انھیں جو شہرت نصیب ہوئی، اس کی ایک وجہ ساحرؔ لدھیانوی سے ان کی گہری وابستگی رہی ہے۔ ساحر اور امرتا کا معاشقہ ادبی دنیا میں مشہور تھا۔

    ادبی مضامین اور اقتباسات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    امرتا پریتم کی تخلیقات کا اردو زبان میں بھی ترجمہ ہوا۔ ان کی آپ بیتی رسیدی ٹکٹ میں اپنے وقت کے مشہور شاعر اور کئی لازوال فلمی گیتوں کے خالق ساحر لدھیانوی سے عقیدت اور رومانس کی لفظی جھلکیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ دو پارے اسی کتاب سے نقل کیے جارہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’ایک دفعہ ایک اردو مشاعرے پر لوگ ساحرؔ سے آٹو گراف لے رہ تھے۔ کچھ لوگ منتشر ہوئے تو میں نے ہنس کر ہاتھ کی ہتھیلی اس کے آگے کر دی اور کہا: ’آٹو گراف‘!

    ساحرؔ نے ہاتھ میں پکڑے پین کی سیاہی اپنے انگوٹھے پر لگا کر وہ انگوٹھا میری ہتھیلی پر لگا دیا جیسے میری ہتھیلی کے کاغذ پر دستخط کر دیے۔ اس میرے کاغذ کی کیا عبارت تھی جس کے اوپر اس نے دستخظ کیے، یہ سب ہواؤں کے حوالے ہے۔ یہ عبارت نہ کبھی اس نے پڑھی، نہ زندگی نے، اسی لیے کہہ سکتی ہوں، ساحرؔ ایک خیال تھا۔ ہوا میں چمکتا ہوا، شاید میرے اپنے ہی خیالوں کا ایک جادو۔‘‘

    اسی کتاب رسیدی ٹکٹ میں امرتا لکھتی ہیں:
    ’’ملک کی تقسیم سے پہلے تک میرے پاس ایک چیز جو سنبھال سنبھال کر رکھا کرتی تھی۔ یہ ساحرؔ کی نظم ’تاج محل‘ تھی جو اس نے فریم کروا کر مجھے دی تھی۔ لیکن ملک کی تقسیم کے بعد جو کچھ میرے پاس آہستہ آہستہ جمع ہوا ہے۔ آج اپنی الماری کا اندرونی خانہ ٹٹولنے لگی ہوں تو دبے ہوئے خزانے ایسا معلوم ہوا ہے۔

    ایک، ٹالسٹائی کی قبر سے لایا ہوا پتّا ہے اور ایک کاغذ کا گول ٹکڑا۔ جس کے ایک طرف چھپا ہوا ہے ’ایشین رائٹرز کانفرس۔‘ اور دوسری طرف ہاتھ سے لکھا ہوا ہے ساحرؔ لدھیانوی۔

    یہ کانفرس کے موقع کا بیچ ہے جو کانفرس میں شامل ہر ادیب کو ملا تھا۔ میں نے اپنے نام کا اپنے کوٹ پر لگایا ہوا تھا اور ساحرؔ نے اپنے نام کا اپنے کوٹ پر کہ ساحرؔ نے اپنے والا اتار کر میرے کوٹ پر لگا دیا اور میرے والا اپنے کوٹ پر لگا لیا۔ اور آج وہ کاغذ کا ٹکڑا، ٹالسٹائی کی قبر سے لائے ہوئے پتّے کے ساتھ پڑا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا یہ بھی میں نے ایک پتّے کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی قبر پر سے توڑا ہو۔‘‘

  • امریکی مصنّف اور امرتا پریتم

    امریکی مصنّف اور امرتا پریتم

    پنجابی زبان کی مقبول شاعرہ اور فکشن نگار امرتا پریتم کا ادبی سفر چھے دہائیوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے ناول، کہانیاں اور کئی مضامین سپردِ قلم کیے۔ متعدد سرکاری سطح کے اعزازات اور ادبی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ امرتا پریتم کی کتابوں کا انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔

    بھارت کی اس نام ور ادیبہ کی ایک تحریر سے اقتباس ادب کے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میں اپنی تحریروں میں ترمیم نہیں کیا کرتی۔ وہی لکھتی ہوں، جو لکھنا چاہتی ہوں۔ اگر کوئی قاری میری تحریروں سے اپنی ذہنی وابستگی محسوس کرتا ہے، تو پڑھے ورنہ کونہ میں ڈال دے۔

    ایک بار ایک امریکی مصنف نے ساہتیہ اکیڈمی میں تقریر کی۔ موضوع تھا: مصنف اپنی تحریر کو ہر دل عزیز کیسے بنا سکتا ہے۔ اس کا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں قارئین کے اذہان کو ٹٹولنا چاہیے کہ اُن کے مطالبات کیا ہیں اور اپنی تحریروں کو اُن کے مطابق تراشنا چاہیے۔

    میرا خیال ہے، جو مصنف ایسا کرتا ہے، وہ سرے سے مصنف ہی نہیں۔ میں فوراً چلی آئی۔ میں ایسی مصنفہ نہیں بننا چاہتی۔ ہرگز نہیں۔

    5 دسمبر 1976

    (حوالہ: محبت نامے از امرتا پریتم)

  • کتاب کا ٹائٹل، امرتا پریتم اور اندر جیت!

    کتاب کا ٹائٹل، امرتا پریتم اور اندر جیت!

    میں نے ماہ نامہ شمع، دہلی کے دفتر فون کیا۔

    شمع کے ایڈیٹر یونس صاحب سے اپنا تعارف کروانا چاہا تو انھوں نے فرمایا کہ قتیل شفائی کا خط مجھے کل شام مل گیا تھا، آپ کا تعارف ہوچکا۔ آپ جس وقت چاہیں آجائیں۔

    میں نے ایک گھنٹے بعد پہنچنے کا وعدہ کیا اور ٹھیک ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا۔ دفتر میں داخل ہوا تو استقبالیہ والوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے آنے کی ہمیں اطلاع ہوچکی ہے۔ ایڈیٹر صاحب آپ کے انتظار میں ہیں۔

    ایک صاحب مجھے ایڈیٹر کے کمرے تک پہنچا آئے۔ ایڈیٹر صاحب نے میرا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور لاہور کے احباب کی خیریت دریافت کی۔ پھر ٹھنڈے مشروب سے میری تواضع کی۔

    قتیل کی غزلوں، نظموں کا معاوضہ جو ان کے پاس جمع تھا، وہ انھوں نے مجھے کیش دے دیا۔ یہ معاوضہ غالباً ڈیڑھ سو روپے تھا جو اس وقت کے حساب سے اچھی خاصی رقم تھی، پھر کہنے لگے کہ دہلی کے لیے کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں آپ کے آرٹسٹ اندر جیت سے ملنے کا خواہش مند ہوں۔

    انھوں نے خود اٹھ کر مجھے اندرجیت کے کمرے تک پہنچا دیا۔ میں نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد اپنا تعارف کروایا تو اندر جیت بڑے تپاک سے ملے۔ پہلی ہی ملاقات میں یوں لگا کہ جیسے ہم دونوں ایک دوسرے سے برسوں سے آشنا ہیں۔

    لاہور کے دوستوں کا بڑی محبت سے ذکر کرتے رہے۔ پھر انھوں نے اپنا کام دکھایا۔ اندر جیت اس زمانے میں اگر بھارت کے سب سے بڑے مصور نہیں تو دوسرے یا پھر تیسرے مصور ضرور تھے۔ وہ پن ورک میں سرورق فگر السٹریشن میں کرتے تھے۔

    آج جو پرچوں میں ہم پن ورک میں فگر بنے ہوئے دیکھ رہے ہیں یہ اسی فن کار کی جدتِ طبع کا ثمر ہے۔

    میں نے گفتگو کے دوران محسوس کیا کہ اندر جیت محبت میں گندھی ہوئی مٹی کی پیداوار ہے جو سراپا محبت ہی محبت ہے۔ اس کی شخصیت پُر وقار بھی ہے اور پُرکشش بھی۔ وہ فن مصوری کے رموز و علائم سے آگاہی رکھنے والا فن کار ہے۔

    کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ اندر جیت کے ساتھ گزارنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو اندر جیت نے ایک وعدہ لیتے ہوئے اجازت دی کہ میں کل شام ان کے ساتھ گزاروں گا۔

    دوسرے دن میں وعدے کے مطابق دیے گئے ایڈریس پر پہنچ گیا۔ یہ کتابوں کی ایک دکان تھی۔ میں نے دیکھا کہ اندر جیت اپنے چند دوستوں کے ساتھ میرے منتظر تھے۔

    تمام دوست بڑے تپاک سے ملے۔ پھر ہم جا کر ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ پُرتکلف چائے منگوائی گئی۔ چائے بھی پیتے رہے اور دہلی اور لاہور کے مصوروں کے بارے میں ان کے فن پر تفصیل سے باتیں کرتے رہے۔

    چائے ختم کرنے کے بعد ہم ہوٹل سے نکلے تو اندر جیت نے کہا ”آﺅ میں تمہیں امرتا سے ملواتا ہوں۔“

    ”یہ امرتا کون ہے؟“ پھر میں نے ہی کہا ”کہیں یہ امرتا (اج آکھاں وارث شاہ نوں) وہ تو نہیں“

    ”ہاں وہی ہے۔ وہی تو۔“

    ”پھر تم امرتا پریتم کہو نا۔“ اندر جیت کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔

    پھر کہنے لگا، ”میں امرتا جی کی ایک کتاب کا سرورق بنانے گیا تھا پھر…. پھر خود ہی سرورق ڈیزائن بن گیا۔ مطلب….

    مطلب یہ کہ میں امرتا جی کی پرکشش شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔“

    یہ بات کہتے کہتے وہ پھر خاموش ہوگیا۔ اس بار اس کی خاموشی نے تفصیل کے ساتھ اپنی قلبی واردات بیان کر دی تھی۔

    ”اچھا تو یہ معاملہ ہے۔“ میں نے کہا۔

    اتنے میں امرتا صاحبہ کا گھر آگیا۔ اندر جیت نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔ چند لمحوں بعد دروازہ امرتا صاحبہ نے آکر کھولا اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ میں نے دیکھا کہ دونوں کی آنکھوں میں محبت کے چراغ جل رہے تھے۔ امرتا سے میرا تعارف کرواتے ہوئے اندر جیت نے کہا کہ لاہور سے آئے ہیں، مصور ہیں، موجد نام رکھتے ہیں۔

    حضرت احسان دانش صاحب کے شاگردوں میں سے ہیں اور استاد موبھا سنگھ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ آپ سے ملنے کے خواہش مند تھے اس لیے میں انھیں لے آیا ہوں۔

    امرتا صاحبہ نے لاہور کے چند شاعروں کے نام لے کر ان کی خیریت دریافت کی۔ پھر کہا، ”ترنجن والے احمد راہی کا کیا حال ہے؟“ خاصی دیر تک احمد راہی کی شاعری کی داد دیتی رہیں۔

    اتنے میں چائے آگئی۔ چائے کے بعد میں نے اندر جیت سے کہا کہ ”اب اجازت لیں۔“ محترمہ ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئیں۔

    ہم کچھ ہی دیر کے بعد اندر جیت کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ اندرجیت کے چھوٹے بھائی سے ملاقات ہوئی جو اسی کی طرح آرٹسٹ ہے اور بت تراش بھی اچھا ہے۔

    بیٹھے بیٹھے پھر میں نے امرتا صاحبہ کی شاعری کی بہت تعریف کی اور اس خاتون کے حسنِ اخلاق کا ذکر کیا۔ میرے تعریفی کلمات سن کر اندر جیت کا چہرہ تمتما اٹھا۔

    مجھے اندازہ ہوگیا کہ محبت جہاں بھی ڈیرے ڈالتی ہے خوشیوں کے روپ میں آتی ہے یا پھر غم کے سایوں میں۔

    (نام ور مصور اور خطاط بشیر موجد کے دلی میں گزرے چند ایام کی یادیں)

  • مشہور پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا 100 واں یومِ پیدائش

    مشہور پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا 100 واں یومِ پیدائش

    آج پنجابی زبان کی مشہور و معروف ادیبہ اور شاعرہ امرتا پریتم کا سو واں یوم پیدائش ہے ، پنجابی ادب امرتا پریتم کے ذکر کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے اور ان کے کام پر کئی دہائیوں تک تحقیق ہوتی رہے گی، ان کے یوم ِ پیدائش پر گوگل نے اپنا ڈوڈل بھی ان کے نام کیا ہے۔

    امرتا پریتم سن 13 اگست1919 میں برٹش ہندوستان کے شہر گجرانوالہ میں پیدا ہوئیں جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ سن 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے بعد بھارت جاکر دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ انہیں پنجابی زبان کی نمائندہ شاعر اور ادیب کے طور شناخت کیا جاتا ہے اور ان کے کام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    امرتا پریتم کے نام گوگل ڈوڈل

    بھارت میں وہ ساہتیہ اکیڈمی پرسکار پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتون تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔

    امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامے ’محفل‘ نے امرتا پریتم ‘ پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انھیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 میں انھیں پنجابی ادب کی عمر بھرکی خدمات کے صلے میں اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر

    چھ دہائیوں سے بھی زیادہ طویل کیرئر میں امرتا نے 28 ناول تحریر کیے‘ 18 نثری مجموعے شائع ہوئے’ پانچ مختصرکہانیوں کے مجموعے اور 16 متفرق نثری مجموعے قرطاس کی نذرکیے۔

    پنجابی کی معروف شاعر اور ادیب امرتا پریتم 31 اکتوبر 2006میں 86 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئیں تھیں لیکن ان کا چھوڑا ہوا ادبی ورثہ‘ جب تک زبان وادب زندہ ہے انہیں زندہ رکھے گا۔