Tag: امریکا روس

  • الاسکا میں امریکی روسی صدور کی طے شدہ ملاقات پیوٹن کی فتح قرار

    الاسکا میں امریکی روسی صدور کی طے شدہ ملاقات پیوٹن کی فتح قرار

    الاسکا میں امریکی روسی صدور کی طے شدہ ملاقات پیوٹن کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان جمعہ کو ایک سربراہی اجلاس میں ملاقات ہوگی، امریکی ریاست الاسکا میں شیڈول ملاقات میں یوکرین جنگ کے خاتمے پر گفتگو ہوگی۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ صدر پیوٹن سے ملاقات ابتدائی نوعیت کی ہوگی، جس میں روسی صدر کو جنگ ختم کرنے پر آمادہ کرنے اور یوکرین کے علاقوں کی واپسی کے تبادلے کی کوشش کریں گے، اگر پیوٹن معاہدے کی اچھی تجاویز پیش کرتے ہیں تو وہ پہلے یوکرینی صدر زیلنسکی سے بات کریں گے۔

    دوسری طرف عالمی تجزیہ کاروں نے اس ملاقات کو روسی صدر کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن کو بغیر کسی پیشگی شرط، امریکا مدعو کیا جانا اُن کی جیت ہے، دونوں صدور کی اس ملاقات کے عالمی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے۔

    چوں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے، تو اس طرح یوکرین جنگ سے متعلق اگر کوئی مذاکراتی تصفیہ ہوتا بھی ہے تو اس کی پائیداری کے بارے میں خدشات فطری طور پر موجود رہیں گے۔


    چین امریکا ٹیرف معاہدے میں مزید توسیع، ٹرمپ نے دستخط کردئیے


    یوکرین امن مذاکرات سے کتنی توقع ہے، اس حوالے سے سینٹرل فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدوں سے شاذ و نادر ہی جنگیں ختم ہوتی ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد سے صرف 16 فی صد بین الریاستی جنگیں امن تصفیہ میں ختم ہوئیں۔ تقریباً 21 فی صد کا اختتام ایک طرف سے فیصلہ کن فوجی فتح کے ساتھ ہوا، جب کہ دوسرے 30 فی صد کا اختتام جنگ بندی کے ساتھ ہوا، کیوں کہ متحارب فریقوں کو فوجی تعطل کا سامنا تھا لیکن وہ رسمی تصفیہ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ امن معاہدے عموماً ٹوٹ جاتے ہیں۔

    تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک عجیب صورت حال ہے کہ ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات زیلنسکی اور یورپی اتحادیوں کے بغیر ہو رہی ہے، اور اس کے لیے انھیں امریکی سرزمین پر مدعو کیا گیا ہے، یعنی امریکا کا اُس زمین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال ٹرمپ کی ممکنہ سفارتی جیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

  • بائیڈن روس مخالف بیان بازی کیوں کر رہے ہیں؟ چینی اخبار کا انکشاف

    بائیڈن روس مخالف بیان بازی کیوں کر رہے ہیں؟ چینی اخبار کا انکشاف

    بیجنگ: چینی اخبار نے کہا ہے کہ روس مخالف بیان بازی سے بائیڈن امریکی مسائل سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔

    چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن امریکی معیشت کے مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنی حکومت کی درجہ بندی بچانے کے لیے روس کے خلاف سخت بیان بازی کر رہے ہیں۔

    اخبار کے مطابق امریکی صدر نے یوکرین کی صورت حال کے حوالے سے ”نسل کشی“ کی اصطلاح بعینہ اس مقصد کے لیے استعمال کی، بائیڈن نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے نسل کشی کی اصطلاح آسانی سے استعمال کی۔

    اخبار کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکا یہ طریقہ استعمال کر رہا ہے، روس اور یوکرین کے تنازع سے ٹھیک پہلے چین پر بھی امریکا نے سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے میں نسل کشی کرنے کا الزام لگایا تھا۔

    روس کے خلاف میڈیا وار، کتنی رقم استعمال ہوئی؟

    خیال رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو نااہلی اور غیر مؤثر ہونے سے متعلق تنقید کا سامنا ہے، اس سے توجہ ہٹانے کے لیے بائیڈن نے روس پر ایک مبہم لیبل لگا دیا ہے تاکہ دنیا کے دوسری طرف تنازعات کے بارے میں چیخ چیخ کر لوگوں کی توجہ سست امریکی معیشت سے ہٹائی جا سکے۔

    اخبار کہتا ہے کہ موجودہ پس منظر کے خلاف نسل کشی جیسے الزامات کا استعمال انتہائی سخت ہے جو لوگوں کی توجہ امریکی مسائل سے ہٹانے کے لیے کارگر ہے۔

    چینی اخبار کے مطابق جو بائیڈن اس طرح اپنی حکومت کی نالائقی اور سیاسی کیریئر کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • ایٹم بم گرانے والا امریکا ہمیں نہ سکھائے، پیوٹن بہت عقل مند اور تعلیم یافتہ عالمی شخصیت ہیں: روس

    ایٹم بم گرانے والا امریکا ہمیں نہ سکھائے، پیوٹن بہت عقل مند اور تعلیم یافتہ عالمی شخصیت ہیں: روس

    ماسکو: کریملن نے امریکا کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹم بم گرانے والا امریکا ہمیں نہ سکھائے، پیوٹن کو جنگی مجرم کہنا ناقابل معافی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ولادیمیر پیوٹن کو جنگی مجرم کہنے پر روس نے سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کا روسی صدر کو جنگی مجرم کہنا ناقابل معافی ہے، صدر ولادیمیر پیوٹن بہت عقل مند اور تعلیم یافتہ عالمی شخصیت ہیں۔

    کریملن سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو ہمیں سکھانے کا کوئی حق نہیں، جنگ عظیم دوم میں امریکا نے جاپان میں ایٹم بم گرائے، امریکا نے ہمیشہ شہریوں پر بمباری کی، صدر بائیڈن ہمیں نہ سکھائیں۔

    دوسری طرف صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ مغرب کا عالمی سیاسی اور معاشی غلبہ ختم ہو رہا ہے، یوکرین میں کریملن کی فوجی مہم پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے روس پر عائد غیر معمولی پابندیوں کے تازہ ترین اقدامات ایک دور کے خاتمے کی علامت ہیں۔

    صدر پیوٹن نے کہا اب سے مغرب سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنا ‘عالمی تسلط’ کھو دے گا، مغربی فلاحی ریاست، نام نہاد گولڈن بلین کا افسانہ ٹوٹ رہا ہے، آج پوری دنیا کو مغرب کے عزائم کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور اس کی جانب سے کی جانے والی کوششیں کسی بھی قیمت پر اپنے مٹتے ہوئے غلبے کو برقرار رکھنے کی جدوجہد ہے۔

    صدر پیوٹن نے دنیا بھر میں خوراک کی قلت کی پیش گوئی بھی کی، کیوں کہ روس کے خلاف مغربی پابندیاں پوری عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا اور روس آمنے سامنے

    اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا اور روس آمنے سامنے

    نیویارک: امریکا کی درخواست پر بلائے گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں یوکرین کے معاملے پر امریکا اور روس آمنے سامنے آ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مشرقی یورپ میں فوجی تعطل پر ماسکو کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، امریکا نے یوکرین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنے پر روس پر تنقید کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پیر کے اجلاس کا استعمال کیا ہے۔

    واشنگٹن نے روس کو یوکرین پر حملے کی صورت میں سخت پابندیوں کی دھمکی دی ہے، امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین نے اجلاس سے قبل کہا کہ روسی اقدامات عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ جب کہ روسی نائب سفیر نے کہا کہ امید ہے سلامتی کونسل امریکی پی آر اسٹنٹ کی حمایت نہیں کرے گا۔

    ادھر روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی اور روسی وزرائے خارجہ کے درمیان سیکیورٹی کونسل کی سائیڈ لائن پر ملاقات ہونے کا امکان ہے۔

    اجلاس کے ذریعے امریکا نے ماسکو پر یوکرین کی سرحد پر تعینات ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کو واپس بلانے کے لیے دباؤ ڈالا۔

    اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ روس کے اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین قلب پر حملے کے مترادف ہیں، یہ امن اور سلامتی کے لیے اتنا ہی واضح خطرہ ہے جتنا کہ کوئی تصور کر سکتا ہے۔

    انھوں نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میری بات واضح طور پر سن لیں، کئی دہائیوں میں یہ یورپ میں فوجیوں کی نقل و حرکت کی کارروائیوں میں سب سے بڑی نقل و حرکت ہے۔

    دوسری طرف روسی سفیر واسیلی نیبنزیا نے سختی سے امریکا کے دلائل کو مسترد کر دیا، اور واشنگٹن پر الزام لگایا کہ وہ بیان بازی کے ذریعے کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔

    نیبنزیا نے امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود حملے کی دعوت دے رہے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ یہ ہو، اور آپ اس کے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، گویا آپ اپنے الفاظ کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔

  • شہری روس کا سفر نہ کریں: امریکا

    شہری روس کا سفر نہ کریں: امریکا

    واشنگٹن: امریکا نے اپنے شہریوں کو روس کا سفر نہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے اپنے شہریوں کو روس کا سفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے، امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یوکرین کی سرحد پر جاری کشیدگی کی وجہ سے شہری روس کا سفر نہ کریں۔

    یوکرین کی مشرقی سرحدوں پر کشیدگی بڑھنے کے باعث اتوار کو امریکی محکمہ خارجہ نے روس کا سفر کرنے کے خلاف سطح 4 کی وارننگ جاری کی ہے۔

    محکمے کی طرف سے جاری کردہ ٹریول ایڈوائزری میں، امریکی حکام نے امریکیوں سے سختی سے کہا ہے کہ وہ روس کے سفر کے تمام منصوبے منسوخ کر دیں، کیوں کہ امریکی شہریوں کو جاری بحران کے دوران "ہراساں” کیے جانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب یوکرین میں امریکی سفارت خانے نے کیف میں حکام کو سابق سوویت ملک چھوڑنے کے لیے کہا کیوں کہ حالات تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

    برطانیہ نے بھی یوکرین میں سفارت خانے کا کچھ عملہ برطانیہ واپس بلا لیا ہے، حکام کا کہنا تھا کہ سفارت خانے کے کچھ عملے کی واپسی روس کی جانب سے بڑھتے خطرے کے باعث کی جا رہی ہے۔

    بڑی خبر: نیٹو نے روس کے قریب افواج کو اسٹینڈ بائی کر دیا

    آسٹریا کے وزیر خارجہ کا بھی کہنا تھا کہ یوکرین میں اس کے سفارت خانے کے عملے کے انخلا کا منصوبہ ہے۔

    واضح رہے کہ روس یوکرین تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، نیٹو نے روس کے قریب کسی بھی حملے کے لیے افواج کو اسٹینڈ بائی کر دیا ہے، نیٹو نے روس کے قریب بحری جہاز اور لڑاکا طیارے بھی پہنچا دیے۔

    واضح رہے کہ روس کی جانب سے اپنے پڑوسی ملک کے قریب 1 لاکھ فوجیوں کو جمع کرنے کے بعد یوکرین میں کشیدگی عروج پر ہے، مغرب کا کہنا ہے کہ ماسکو، جو کیف اور نیٹو کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے ناراض ہے، یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے، دوسری طرف کریملن نے بارہا دراندازی کی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے۔

  • روس یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، امریکا کا دعویٰ

    روس یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، امریکا کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکا کا کہنا ہے کہ روس ‘کسی بھی وقت’ یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، کیوں کہ اس نے اپنی افواج یوکرین سے ملنے والی سرحد کے قریب جمع کر لی ہیں۔

    یوکرین پر کشیدگی میں واضح اضافے کے بعد امریکا نے منگل کو خبردار کیا ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے نیوز کانفرنس میں کہا ’ہم اب ایسے مرحلے پر ہیں جس میں روس کسی بھی وقت یوکرائن پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔‘

    تاہم موجودہ صورت حال کو ‘انتہائی خطرناک’ قرار دیتے ہوئے بھی واشنگٹن نے ماسکو کے ساتھ سفارت کاری کے دروازے کھلے رکھے ہیں، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بات کی، اور دونوں رہنما اس ہفتے جنیوا میں ملاقات پر رضامند ہوئے۔

    وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو مورد الزام ٹھہرایا کہ انھوں نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ روسی فوجیوں کو جمع کر کے بحران پیدا کیا ہے، انھوں نے کہا اس میں روسی افواج کو حال ہی میں بیلاروس میں مشترکہ مشقوں کے لیے منتقل کرنا، اور یوکرین کی مشرقی سرحدوں پر اضافی مشقیں کرنا شامل ہیں۔

    جین ساکی نے کہا یہ اب واضح ہونا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے، اب ہم ایک ایسے مرحلے پر ہیں جہاں روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔

    ساکی نے امریکی مؤقف کا اعادہ کیا کہ اگر روس نے سفارتی راستہ اختیار نہ کرنے کا انتخاب کیا تو اسے "سنگین نتائج” کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    واضح رہے کہ مغربی ممالک روس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ یوکرین سے ملنے والی سرحد کے قریب جمع کردہ اپنی تقریباً ایک لاکھ اہل کاروں پر مبنی فوج کو وہاں سے ہٹا لے۔ جین ساکی کے مطابق امریکا کو معلوم ہوا تھا کہ روسی حکومت، دسمبر کے اواخر سے جنوری کے اوائل کے دوران یوکرین میں اپنے سفارت کاروں کے اہل خانہ کو وہاں سے نکالنے کی تیاری کر رہی تھی۔

  • جو بائیڈن اور ولادی میر پیوٹن کی ایک دوسرے کو فون پر دھمکیاں

    جو بائیڈن اور ولادی میر پیوٹن کی ایک دوسرے کو فون پر دھمکیاں

    واشنگٹن: جو بائیڈن اور ولادی میر پیوٹن نے ایک دوسرے کو فون پر دھمکیاں دی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرین کے معاملے پر امریکا اور روس نے ایک دوسرے کو وارننگ دے دی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب کو خبردار کیا کہ یوکرین پر کسی بھی حملے کی صورت میں سخت ردعمل سامنے آئے گا۔

    صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکی صدر کو کہا کہ ماسکو کے خلاف کسی بھی قسم کی پابندیاں ایک سنگین غلطی ہوگی۔

    عالمی میڈیا کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی پر جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن میں ٹیلیفون پر پچاس منٹ تک بات ہوئی۔

    امریکی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بتایا کہ صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب پر واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار ماسکو کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔

    جب کہ پیوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب کو خبردار کیا کہ یوکرین کے معالے پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے تعلقات میں مکمل خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔

  • مغربی ممالک نے افغانستان میں کون سی بڑی غلطی کی؟ روسی وزیر خارجہ کا اہم بیان

    مغربی ممالک نے افغانستان میں کون سی بڑی غلطی کی؟ روسی وزیر خارجہ کا اہم بیان

    ماسکو: امریکا کے دیگر ممالک میں جمہوریتیں نافذ کرنے پر روس نے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امید ہے امریکا اب آئندہ کسی ملک میں جمہوریت نافذ نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امید ظاہر کی ہے کہ مغربی رہنما اپنا وعدہ پورا کریں گے اور دوسری ریاستوں میں جمہوریت کو پھیلانے کی نئی کوششیں نہیں کریں گے۔

    لاوروف نے افغانستان میں مغربی نظام متعارف کرانے کی کوشش کو "سب سے بڑی غلطی” قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ وہ ملک ہے جہاں روایتی طور پر کبھی کوئی ایک مرکز قائم نہ ہو سکا۔

    روسی وزیر خارجہ نے ماسکو اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (ایم جی آئی ایم او) کے طلبہ اور لیکچررز کے سامنے اپنے خطاب میں کہا کہ میرا ماننا ہے کہ کسی بھی ریاست کا طریقہ کار اس کی روایات، رواج کی عکاسی کرتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے آرام دہ اور پرسکون ہونا چاہیے جو وہاں رہتے ہیں اور وہاں اپنی نسل پالتے ہیں۔

    سرگئی لاوروف نے کہا مغربی ممالک نے دیگر ممالک میں جمہوریتوں کے نفاذ کے اپنے عمل سے خود کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔

    انھوں نے کہا امریکی صدر جو بائیڈن اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے عملی طور پر یہ کہا ہے کہ اب وہ کسی دوسرے ملک میں جمہوریت کو جبراً مسلط نہیں کریں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ وعدے کیسے پورے ہوں گے۔

    روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مغرب کی جانب سے کسی دوسرے ملک پر جمہوریت نافذ نہ کرنے کے وعدے پورے کیے جائیں گے۔

  • بائیڈن اور ولادی میر کی پہلی ملاقات

    بائیڈن اور ولادی میر کی پہلی ملاقات

    واشنگٹن: امریکی اور روسی صدور کی پہلی ملاقات طے ہو گئی، وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ 16 جون کو سوئٹزرلینڈ میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن سربراہی اجلاس کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی، منگل کو وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس اور کریملن نے مل کر انتظامات طے کر لیے ہیں۔

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ دونوں صدور کی پہلی ملاقات 16 جون کو جنیوا میں ہوگی، دونوں رہنما اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے، نیز دونوں ممالک تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔

    وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنما تمام سلگتے مسائل پر بات چیت کریں گے، کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکا اور روس کے تعلق میں استحکام اور شفافیت بحال ہو۔

    کریملن نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ تزویراتی استحکام کی مشکلات، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ایجنڈے پر موضوعاتی امور، بشمول کرونا وبا کے خلاف جنگ میں باہمی تعامل، اور علاقائی تنازعات کے حل کے سلسلے میں روسی امریکی تعلقات میں مزید بہتری کے امکانات پر گفتگو کی جائے۔

    یہ متوقع طویل ملاقات بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے بین الاقوامی سفر کے اختتام پر ہوگی، حکام نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو رواں ہفتے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے لیے جنیوا بھیجا تھا، تاکہ ملاقات کے سلسلے میں تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔

    جنیوا میں یہ ملاقات کس مقام پر ہوگی، اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا، ان کا کہنا تھا کہ جب تک تمام تر تفصیلات طے نہیں ہو جاتیں، وہ اس پر کچھ نہیں بتا سکتے۔

  • امریکی جنگی طیاروں نے 4 روسی بمبار طیارے فضا میں روک لیے

    امریکی جنگی طیاروں نے 4 روسی بمبار طیارے فضا میں روک لیے

    ماسکو: امریکی جنگی طیاروں نے 4 روسی بمبار طیاروں کو فضا میں روک لیا اور ساتھ لے گئے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ امریکی فائٹر جیٹس نے چار روسی بمبار طیاروں کو مشترکہ سرحد کے قریب غیر جانب دار پانیوں کے اوپر روکا اور اپنے جلو میں ساتھ لے گئے۔

    مذکورہ روسی طیارے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، خبر ایجنسی کے مطابق انھیں الاسکا کے قریب دیکھا گیا تھا اور پھر امریکی طیاروں نے انھیں روک لیا، روسی ڈیفنس منسٹری کا کہنا تھا کہ طیارے معمول کی پرواز پر تھے۔

    روس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے Tu-95MS بمبار طیارے گیارہ گھنٹوں کی پرواز پر تھے، اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اڑان بھر رہے تھے، پھر پروزا کے دوران الاسکا کے قریب کسی موقع پر امریکی F-22 راپٹر ٹیٹیکل فائٹرز انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔

    جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے روسی بمبار طیارے Tu-95MS کی فائل فوٹو

    روسی وزارت دفاع نے غیر ملکی میڈیا کو واضح کیا کہ روسی طیارے معمول کی پرواز پر نیوٹرل سمندری علاقے کے اوپر تھے۔

    امریکی F 22 راپٹر طیارے کی فائل فوٹو

    روسی طیاروں Tu-95 کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ اسٹریٹیجک (کروز یا بیلسٹک قسم کے) میزائل طیارے ہیں، جو 1952 سے مختلف مقاصد کے لیے استعمال میں ہیں، اور اب بھی انھیں روسی ایئر فورس آپریٹ کر رہی ہے۔