Tag: امریکا

  • آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا رابطہ، کشیدگی کم کرنے پر زور

    آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا رابطہ، کشیدگی کم کرنے پر زور

    اسلام آباد: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بڑھتی ہوئی پاک بھارت کشیدگی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فون پر رابطہ کیا ہے، امریکا کی جانب سے ایک بار پھر پاک بھارت کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کے لیے تعاون کی پیش کش کی گئی۔

    امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا فریقین کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات کریں، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا مارکو روبیو نے تعمیری بات چیت کے لیے مدد کی پیش کش کی ہے۔

    ترجمان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فریقین سے تحمل کی اپیل کی ہے۔

    آپریشن بُنۡیَانٌ مَّرْصُوْص


    واضح رہے کہ پاکستان کی بھارتی جارحیت کے خلاف جوابی کارروائی جاری ہے، پاکستان کی جانب سے نماز فجر کے وقت آپریشن ’بُنۡیَانٌ مَّرْصُوْص‘ کا آغاز کیا گیا، آپریشن میں پاک فوج نے بھارت کے علاقے بیاس میں براہموس میزائل اسٹوریج سائٹ کو تباہ کر دیا ہے۔

    پاک فوج نے ادھم پور ایئربیس اور پٹھان کوٹ میں ایئر فیلڈ کو ملیامیٹ کر دیا، اس کے علاوہ اڑی سیکٹر میں بھارت کے سپلائی ڈپو کو نیست و نابود کر دیا، جوابی حملے میں بھارت کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز کے جی ٹاپ کو بھی تباہ کر دیا گیا، آدم پور کی ایئر فیلڈ کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے، جہاں سے بھارت نے امرتسر میں سکھوں، پاکستان اور افغاستان پر میزائل داغے گئے تھے۔


    آپریشن بنیان مرصوص : بھارت کی کئی اہم فوجی تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ


    وہ تمام بیسز جہاں سے پاکستان کے عوام اور مساجد پر حملے کیے گئے ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، فوجی ایکشن کے علاوہ بھاررت کی بجلی تنصیبات پر بڑا سائبر اٹیک بھی کیا گیا، پاکستان نے سائبر اٹیک سے بھارت کے 70 فی صد بجلی گرڈ کو ناکارہ کر دیا، پاکستان نے دہرنگیاری میں بھارتی آرٹلری گن پوزیشن اور نگروٹا میں براہموس اسٹوریج سائٹ کو بھی تباہ کر دیا۔

    نگروٹا میں براہموس اسٹوریج سائٹ تباہ ہونے سے بھاری نقصانات کی اطلاعات ہیں، پاک فوج نے بھارت کی سورت گڑھ ایئر فیلڈ بھی ملیا میٹ کر دی، راجوڑی میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے والا بھارتی ملٹری انٹیلیجینس کا تربیتی مرکز اور بھارت کی سرسہ ایئر فیلڈ کو تباہ کر دیا گیا۔


    پاک بھارت کشیدگی سے متعلق تمام خبریں

  • امریکا نے سعودی عرب سے اسرائیل سے تعلقات کی شرط کو واپس لے لیا

    امریکا نے سعودی عرب سے اسرائیل سے تعلقات کی شرط کو واپس لے لیا

    امریکا کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدے کی خاطر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی شرط کو واپس لے لیا گیا ہے۔

    خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ٹرمپ 13 مئی کو سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہوں گے، جہاں 100 ارب ڈالرز سے زائد کے ممکنہ دفاعی معاہدے اور دیگر معاشی امور پر گفتگو ہوگی۔

    رپورٹس کے مطابق اس تبدیلی کو امریکا کی جانب سے بڑی سفارتی لچک کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اسے اسرائیلی سفارت کاری کیلیے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

    امریکا نے بائیڈن کے دور میں سعودی عرب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط عائد کردی تھی، تاہم غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں اور عرب عوام کے سخت ردِعمل کے باعث سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

    یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے اپنی شرط واپس لے لی ہے تاکہ جوہری مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکے۔

    واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف کا کہنا ہے کہ اسرائیل دنیا کے سامنے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

    اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی امداد پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے، جس کے باعث صورتحال بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں کسی بھی قسم کی امداد داخل کرنے کی اجازت نہیں دے رہا، غزہ میں دنیا کی نگاہوں کے سامنے اسرائیل جرائم، ظلم وستم اور نسل کشی کر رہا ہے۔

    امریکا کا پاک بھارت تنازع میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ

    انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کو براہ راست نشر کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کا صفایا کرنے کے مخصوص ارادے کے ساتھ غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے۔

  • امریکا سے تعلق رکھنے والے رابرٹ پریوسٹ کیتھولک مسیحیوں کے نئے پوپ منتخب

    امریکا سے تعلق رکھنے والے رابرٹ پریوسٹ کیتھولک مسیحیوں کے نئے پوپ منتخب

    ویٹی کن سٹی: رابرٹ پریوسٹ کیتھولک مسیحیوں کے نئے پوپ منتخب ہوگئے، وہ امریکا سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 69 سالہ رابرٹ پریوسٹ جن کا تعلق امریکا سے ہے انھیں پوپ فرانسس کا جانشین مقرر کردیا گیا ہے، نئے پوپ رابرٹ پریوسٹ نہ صرف پہلے امریکی پوپ ہیں بلکہ مسیحوں حلقوں میں وہ اپنی شائستگی اور نرم مزاجی کےلیے بھی جانے جاتے ہیں۔

    بدھ کو کیتھولک مسیحیوں کے نئے روحانی پیشوا کا انتخاب نہیں ہو سکا تھا، تاہم جمعرات کو ویٹی کن میں سسٹین چیپل سے سفید دھوان نکلا جس کے بعد وہاں موجود عقیدت مندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

    چمنی سے کالے دھویں کا اخراج، پوپ کا انتخاب نہ ہو سکا

    اس سے قبل بدھ کی شام سسٹین چیپل کی چمنی سے کالا دھواں نکلتا دکھائی دیا تھا، کالا دھواں نکلنا روایتی طور پر اس بات کی علامت تھی کہ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا کا انتخاب نہیں ہوسکا ہے۔

    پوپ کے چنائوں کےلیے کارڈینلز کی پہلی ووٹنگ ناکام رہی تھی، تاہم اس کے بعد دوسرے چنائوں میں پوپ رابرٹ کو منتخب کیا گیا۔

    خیال رہے کہ نئے روحانی پیشوا کے لیے ’جَلسہٴ انتخابِ پوپ‘ شروع ہوا تھا، جس میں 70 ممالک سے 80 سال سے کم عمر کے 133 کارڈینلز شریک ہوئے تھے۔

    سینٹ پیٹرز اسکوائر میں ہزاروں افراد جمع تھے تاکہ دھوئیں کے اشارے کا انتظار کیا جا سکے۔ کارڈینلز کی میٹنگ تقریباً 3 گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/trump-meeting-with-zelensky-putin/

  • امریکا کا پاکستان اور بھارت سے بات چیت کے براہ راست چینل دوبارہ کھولنے کا مطالبہ

    امریکا کا پاکستان اور بھارت سے بات چیت کے براہ راست چینل دوبارہ کھولنے کا مطالبہ

    واشنگٹن : امریکا نے پاکستان اور بھارت سے بات چیت کے براہ راست چینل دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان امریکی سیکیورٹی کونسل برائن ہیوز نے پاکستان بھارت کشیدگی پر بیان میں کہا کہ ہم پاکستان اور بھارت کےدرمیان صورتحال سےواقف ہیں، وزیرخارجہ مارکوروبیو نے دونوں ممالک کے ہم منصبوں سے بات کی۔

    ترجمان امریکی سیکیورٹی کونسل کا کہنا تھا کہ ہم بھارت اورپاکستان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، دونوں ممالک اپنی قیادت کے درمیان بات چیت کا چینل دوبارہ کھولیں، بات چیت کے ذریعے پاکستان بھارت میں کشیدگی روک سکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے میں مدد کی پیشکش کی تھی۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان اب ایک دوسرے پر حملے بند کریں اور دونوں ممالک میں بڑھتے ہوئے اختلافات کو دور کرنے میں مدد کی پیشکش کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ابھی حملے بند ہونے چاہئیں جس کے لیے میری ضرورت ہے تو کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔

  • ’امریکا چھوڑو، 1000 ڈالر لو‘

    ’امریکا چھوڑو، 1000 ڈالر لو‘

    واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے ان تارکین وطن کو 1,000 ڈالر سفری امداد کی پیشکش کی ہے جو امریکا سے رضاکارانہ طور پر خود ہی ڈی پورٹ ہونے کا انتخاب کریں گے۔

    روئٹرز کے مطابق محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے پیر کو کہا کہ تارکین وطن کو یہ پیشکش اس لیے کی گئی ہے کہ اگر انھیں جبری طور پر ملک بدری کے لیے پکڑا جائے گا تو اخراجات بہت زیادہ ہوں گے۔

    ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق رضاکارانہ طور پر روانہ ہونے والے تارکین وطن کے لیے وظیفے اور ممکنہ ہوائی کرائے پر ملک بدری سے کم لاگت آئے گی، کیوں کہ غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاری، حراست میں لیے جانے اور ملک بدر کیے جانے کی اوسط لاگت فی الحال تقریباً 17,000 ڈالر ہے۔

    ڈی ایچ ایس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے 20 جنوری سے اب تک 152,000 افراد کو ملک بدر کیا ہے، جو سابقہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت گزشتہ سال فروری سے اپریل تک ملک بدر کیے گئے 195,000 سے کم تعداد ہے۔

    ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ایک بیان میں کہا ’’اگر آپ یہاں غیر قانونی طور پر موجود ہیں تو، گرفتاری سے بچنے کے لیے امریکا سے خود ہی جلاوطن ہونا بہترین، محفوظ اور سب سے سستا طریقہ ہے۔‘‘

    محکمہ نے پیر کو جاری بیان میں یہ بھی کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن ’سی بی پی ہوم‘ نامی ایپ کے ذریعے حکومت کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، انھیں ملک بدری کی فہرست سے ہٹا دیا جائے گا، جو اس لیے ترتیب دی گئی ہے تاکہ سیکیورٹی ایجنسیاں انھیں پکڑ کر ڈی پورٹ کر سکیں۔

  • ٹرمپ نے تیسری مدتِ صدارت کے سلسلے میں اپنا ارادہ واضح کر دیا

    ٹرمپ نے تیسری مدتِ صدارت کے سلسلے میں اپنا ارادہ واضح کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کا تیسری مدت کے لیے صدارتی امیدوار بننے کا ارادہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ بہت لوگ چاہتے ہیں کہ میں تیسری مدت کے لیے صدارت کی دوڑ میں شامل ہو جاؤں، لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    اس سے پہلے صدر ٹرمپ از راہِ مذاق تیسری اور چوتھی مدت کے لیے بھی صدر بننے کا بیان دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی آئین میں دوسری عالمگیر جنگ کے بعد کی جانے والی 22 ویں ترمیم کے مطابق کوئی امریکی صدر دو مرتبہ صدر رہنے کے بعد تیسری مدت کے لیے صدارتی امیدوار نہیں بن سکتا۔


    ہالی ووڈ تیزی سے مر رہا ہے، ٹرمپ نے بڑے ٹیرف کا حکم دے دیا


    اتوار کو نشر ہونے والے انٹرویو میں این بی سی کے میٹ دی پریس ود کرسٹن ویلکر کو ٹرمپ نے بتایا ’’میں آٹھ سال کا صدر رہوں گا، دو بار کا صدر، میں نے اس کے بارے میں ہمیشہ سوچا، یہ بہت اہم ہے۔‘‘

    یاد رہے کہ 78 سالہ ٹرمپ پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی صدر کے طور پر تیسری یا چوتھی مدت کے لیے خدمات انجام دینے کے بارے میں ’’مذاق نہیں‘‘ کر رہے تھے۔ یعنی ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔ تاہم بعد میں انھوں نے کہا کہ ان کے بیانات کا مقصد ’’جعلی نیوز میڈیا‘‘ کو ٹرول کرنا تھا۔

    خیال رہے کہ ان کی کمپنی ’ٹرمپ آرگنائزیشن‘ کی جانب سے ’’ٹرمپ 2028‘‘ والی ٹوپیاں فروخت کی جا رہی ہیں، جس سے ان قیاس آرائیوں کو ہوا ملتی ہے کہ وہ جنوری 2029 میں اپنی دوسری میعاد ختم ہونے کے بعد پھر امیدوار بنیں گے۔

  • ہالی ووڈ تیزی سے مر رہا ہے، ٹرمپ نے بڑے ٹیرف کا حکم دے دیا

    ہالی ووڈ تیزی سے مر رہا ہے، ٹرمپ نے بڑے ٹیرف کا حکم دے دیا

    واشنگٹن: مرتے ہوئے ہالی ووڈ کو بچانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئے ٹیرف کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز ٹیرف کی جنگ میں نیا محاذ کھول دیا ہے، جس کا ہدف اب امریکا سے باہر بننے والی فلمیں ہیں، جن پر 100 فی صد ٹیکس کی اجازت دے دی گئی ہے۔

    سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر صدر ٹرمپ نے لکھا کہ محکمہ تجارت اور امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کو انھوں نے اجازت دی ہے کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر تیار کردہ تمام فلموں پر سو فی صد ٹیکس لگا دیں۔

    صدر ٹرمپ نے مزید لکھا کہ امریکا میں فلمی صنعت بہت تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔ دوسرے ممالک فلم سازوں اور اسٹوڈیوز کو امریکا سے دور لے جانے کے لیے ہر قسم کے مراعات دے رہے ہیں۔ یہ منظم کوشش، پیغام رسانی اور پراپیگنڈا بھی ہے۔ اس لیے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔


    ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں سے خوف زدہ امریکی شہری ملک چھوڑنے پر مجبور


    وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا دیگر ممالک امریکا سے فلم سازی کی صلاحیتیں چوری کر رہے ہیں۔ اگر وہ امریکا میں فلم بنانے کو تیار نہیں ہیں، تو ہمیں ان فلموں پر ٹیکس لگانا چاہیے جو باہر سے آتی ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق ٹرمپ نے ملک سے باہر بننے والی فلموں پر 100٪ ٹیرف کا اعلان کیا ہے، اور کہا ہے کہ دوسرے ممالک کی جانب سے امریکی فلم سازوں کو دی گئی لالچ سے امریکی فلم انڈسٹری بہت تیزی سے موت کی طرف جا رہی ہے۔

    ٹرمپ نے محکمہ تجارت جیسی سرکاری ایجنسیوں کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ٹیرف کے حکم پر عمل شروع کر دیں، انھوں نے مزید کہا ’’ہم چاہتے ہیں میڈ اِن امریکا فلمیں پھر سے آئیں!‘‘ تاہم اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ محصولات کو کیسے لاگو کیا جائے گا۔

    یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ آیا ٹیرف کا اطلاق اسٹریمنگ سروسز پر ریلیز ہونے والی فلموں کے ساتھ ساتھ تھیٹروں میں دکھائی جانے والی فلموں پر بھی ہوگا، یا ان کا حساب پیداواری لاگت یا باکس آفس کی آمدنی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ جنوری میں ٹرمپ نے ہالی ووڈ اداکاروں جون ووئٹ، سلویسٹر اسٹالون اور میل گبسن کو مقرر کیا تھا کہ وہ ہالی ووڈ کو پھر سے پہلے سے زیادہ بڑا، زیادہ بہتر اور زیادہ مضبوط بنائیں۔

  • قومی سلامتی کے برطرف مشیر والٹز نے ٹرمپ سے ملاقات سے قبل کس سے رابطہ کیا تھا؟ امریکی اخبار کا انکشاف

    قومی سلامتی کے برطرف مشیر والٹز نے ٹرمپ سے ملاقات سے قبل کس سے رابطہ کیا تھا؟ امریکی اخبار کا انکشاف

    واشنگٹن: امریکا کے قومی سلامتی کے برطرف مشیر مائیک والٹز کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل انھوں نے اسرائیل سے بات چیت کر لی تھی، جس نے ٹرمپ کو ناراض کر دیا تھا۔

    امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ اوول ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایران کے خلاف فوجی آپشنز کے بارے میں اہم ملاقات ہونے والی تھی، تاہم مائیک والٹز نے اس ملاقات سے بھی قبل نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کر لی۔

    اخبار نے لکھا کہ مائیکل والٹز سے ٹرمپ مایوس ہوتے جا رہے تھے، انھوں نے اس سے قبل ایک حساس سگنل گروپ چیٹ میں ایک صحافی کو شامل کر لیا تھا جس کی وجہ سے حساس چیٹ لیک ہو گئی، جب کہ وہ شروع ہی سے ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث تھے، جن میں ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی بحث بھی شامل تھی۔ اخبار کے مطابق مائیک والٹز اوول آفس میں اپنے باس کے مقابلے میں فوجی طاقت کے استعمال کے لیے زیادہ بے چین نظر آتا تھا۔


    سگنل ایپ پر ٹرمپ کے جنگی منصوبے کی چیٹ کیسے لیک ہوئی؟ ذمہ دار خود ہی سامنے آ گیا


    اخبار نے یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر کی برطرفی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ والٹز کا خارجہ پالیسی سے متعلق مؤقف بہت سخت تھا، والٹز نے ٹرمپ کے مؤقف کے برعکس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف سخت رویہ اپنانے کو ترجیح دی۔

    اخبار نے انکشاف کیا کہ ٹرمپ اس وقت غصے میں آ گئے جب والٹز اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران اس بات پر متفق نظر آئے کہ یہ ایران پر حملہ کرنے کا وقت ہے۔ تاہم دوسری طرف نیتن یاہو کے دفتر نے تردید کی ہے کہ وزیر اعظم نے ٹرمپ سے ملاقات سے قبل ایران کے خلاف فوجی کارروائی پر متفقہ مؤقف اپنانے کے لیے والٹز کے ساتھ رابطہ کیا تھا۔

  • امریکا کا پاکستان اور بھارت سے کشیدگی کا ذمہ دارانہ حل نکالنے پر زور

    امریکا کا پاکستان اور بھارت سے کشیدگی کا ذمہ دارانہ حل نکالنے پر زور

    واشنگٹن: امریکا نے پاکستان اور بھارت سے پہلگام حملے کے بعد بڑھتی کشیدگی کا ذمہ دارانہ حل نکالنے پر زور دیا ہے۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ میں کہا امریکا دونوں ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مختلف سطح پر رابطے میں ہے۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی ہم منصب جے شنکر اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے بدھ کو بات کی تھی۔

    بھارت کو ملنے والا جواب فوری اور بھرپور ہوگا، آرمی چیف کا ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینجزکا دورہ

    ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ دونوں  سے گفتگو میں وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاک بھارت کو مسائل کے ذمہ دارانہ حل کا مشورہ دیا ہے، انہوں نے کہا کہ دونوں ملک ایسا حل نکالیں جو طویل مدتی امن اور علاقائی استحکام برقرار رکھے۔

    ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے وزیراعظم نریندر مودی سے کہا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور بھارتی وزیراعظم مودی کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

    واضح رہے کہ بھارت نے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے جبکہ پاکستان  نے اس کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

    حملے کے بعد نہ صرف بھارت نے پانی کی تقسیم سے متعلق معاہدہ معطل کر دیا اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی ایئرلائنز کے لیے فضائی حدود بند کر دیں بلکہ سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔

  • دنیا کیسے چلتی ہے؟

    دنیا کیسے چلتی ہے؟

    بنیاد یہ ہے کہ آپ خواہ جنگ کریں، امن قائم کریں، یا قانون سازی کریں __ یہ سب سیاسی سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ اگر آپ دنیا میں کوئی حکومت یا ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، اگر پالیسی وضع کرنا اور طاقت کا توازن بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اہداف سیاسی نظاموں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

    اس لیے ایک شہری ہونے کے ناتے ہر شخص کی توجہ کا مرکز ملک میں اچھے اور بہتر سیاسی نظام کی تعمیر ہونا چاہیے۔ ایک شہری جو سیاسی طور پر ووٹر ہوتا ہے، کو سیاسی نظام پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ اس پر کتنی ہی پابندیاں عائد کیوں نہ ہو جائیں، وہ یہ بات واضح کہتا رہے کہ شفاف سیاسی نظام کے علاوہ ہر دوسری صورت مسترد ہے۔

    یہ جھگڑا کہ ’’دنیا کن عناصر پر چلی ہے‘‘ مقامی یا قومی سیاست کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہزار قسم کے مسائل میں گھرا شہری _ عملاً جس کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت نہ ہو _ نہ اس سوال کا درست جواب فراہم کر سکتا ہے، نہ درست جواب کی نوعیت کو ٹھیک سے سمجھ سکتا ہے۔ پریشانیوں، محرومیوں میں گھرا شہری جذبات کی گرفت میں ہوتا ہے۔

    آج کی حقیقی دنیا آئیڈیلزم اور لبرلزم کی گرفت میں ہے۔ جس نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام تشکیل دے رکھا ہے، جس کے تحت اقوام متحدہ جیسے اداروں، اقتصادی مفادات کی بجائے بین الاقوامی تعاون، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ اس کے لیے صرف طاقت اور معیشت کافی نہیں۔

    دنیا جن عناصر پر چلتی ہے، اگر ہم نے اس کا یہاں تصور کرنا شروع کر دیا، تو اجتماعی سطح پر ہمارے سماجی شعور میں زبردست وسعت پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کیوں کہ آئیڈیلزم کی ماری اس دنیا کے نظام کی زیریں سطح پر ایک زبردست تنقیدی نظام کا دھارا بھی بہہ رہا ہے۔ ایک ایسا شہری جس نے اپنے خطے میں کبھی ’تعمیری نظام‘ نہ دیکھا ہو، اس کے لیے کسی تنقیدی نظام کا درست تصور کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔

    طاقت، معیشت، فوج، سرحدیں _ یہ سب تلخ حقیقتیں ہیں۔ بد قسمت لوگ ان حقیقتوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہتے ہیں اور ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن سماجی تعمیر کے نظریے کا جال بھی ان سب کے گرد پوری طرح کسا ہوا ہے۔ اس لیے قومی سطح ہی نہیں بین الاقوامی تعلقات کو بھی یہ مختلف نظریات، شناخت، ثقافت، اقدار، اور بیانیوں کا تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔ ہماری اسی تلخ دنیا میں رئیلزم اور لبرلزم کے روایتی نظریات بھی چینلج ہوتے رہتے ہیں، یعنی: ’’دنیا جس طرح ہے، وہ اسی طرح ہو سکتی تھی — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسی طرح ہونی ہی تھی۔‘‘

    ریاستوں کا مفاد کیا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ریاستوں کا رویہ کیا ہے؟ اس کی تشکیل اُس کے خیالات اور سماجی شناخت سے ہوتی ہے، مفادات سے نہیں۔ یہ نکتہ اب عام طور پر کوٹ کیا جاتا ہے کہ ’’قومی مفاد‘‘ بھی ایک تشکیل شدہ (constructed) تصور ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

    امریکا اس کی قریب ترین مثال ہے __ بین الاقوامی سیاست کا اسٹرکچر مادی حقائق سے نہیں بلکہ سماجی تعمیر سے بنتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے بڑی فوج، ایٹمی ہتھیار، اور بڑی معیشت ہے لیکن ایران اور شمالی کوریا سمیت چند ممالک کے علاوہ باقی دنیا امریکی طاقت کو خطرہ نہیں تحفظ کی علامت سمجھتی ہے۔ یعنی یہاں طاقت خود کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ایک بیانیہ ہے جو اس طاقت کے لیے معنی فراہم کر رہا ہے۔ اس لیے خطرے اور تحفظ کی تشریح سماجی تناظرات کے تحت ہوتی ہے۔ امریکا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، 19 ویں صدی میں اس پر شناخت کے حوالے سے تفرُّد پسندی کا بھی دور گزر چکا ہے۔

    اس خطے کے شہری کا عام خیال یہ ہے کہ امریکا کا کردار اس کی فوجی اور ٹیکنالوجی کی، اور معاشی طاقت طے کرتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ امریکا کا کردار اس کی ’’قومی شناخت‘‘ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ بیانیاتی شناخت پر استوار ہے جو اسے عالمی نظام کا مربی بنا کر پیش کرتا ہے _ امریکا نے خود کو عالمی سیاست میں ’’جمہوریت کا محافظ‘‘ اور ’’آزادی کا علم بردار‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ سماجی تصور کی مدد سے ممکن ہو سکا، مادی قوت پر نہیں۔ اگر عالمی سلامتی کا بیانیہ (بیانیے ہمیشہ سوالیہ نشان کی زد پر اسی لیے ہوتے ہیں کہ یہ دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں) تشکیل نہ دیا جاتا تو افغانستان یا عراق پر حملہ ممکن نہ تھا۔

    سماجی تعامل اور تاریخی تجربات سے سیکھنے والے اگر سیاسی بیانیے طاقت ور نہ ہوتے تو برطانیہ، جاپان اور جرمنی آج اتحادی نہ ہوتے۔ روس، چین اور ایران گہرے رشتوں میں نہ بندھے ہوتے۔ ہمیں طاقت کی تعبیر سماجی سطح ہی پر کرنی پڑتی ہے، اور جب ہم دوستی اور دشمنی کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارا ایک اجتماعی تصور ہوتا ہے، اسی طرح قومی مفاد کوئی فطری چیز نہیں بلکہ سماجی بیانیہ ہے۔ اس لیے ہمیں ایسے سماجی بیانیے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اندرونی سطح پر ہماری شناخت کے مسائل کو حل کر سکے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری شناخت کو بہتر بنا سکے۔

    کسی نازک وقت کی آزمائش خود ایک کمزور بیانیے کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ تسلسل کے ساتھ آتا رہے تو آخرکار ’’نازک وقت‘‘ کے بیانیے پر لوگوں کا اعتماد کم زور ہو جاتا ہے۔

    تنقیدی نظام کا ایک دھارا فیمینزم بھی ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ایک گالی ہے۔ لیکن دنیا اس دھارے کو قبول کرتی ہے اس لیے یورپ اور امریکا میں عورت کی سماجی صورت حال باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہ فکر تو اس اوپر کے سارے بیانیے پر کہے گی کہ یہ مردانہ (patriarchal) انداز فکر ہے۔ کیا ہم اس تنقید کو کھلے دل سے عزت دے سکتے ہیں!

    تنقید کا ایک دھارا یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی نظام مغربی طاقتوں کا تشکیل کردہ ہے، اور وہ اپنے نوآبادیاتی مفادات، شناخت، اور بیانیے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا اس تنقید کو بھی قبول کرتی ہے اور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی سطح پر خود کو اس حوالے سے بہتر بناتی رہتی ہے۔

    دراصل، دنیا کیسے چلتی ہے، اس حوالے سے طاقت کے نظام، سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کو جوں کا توں مان لینا خود ایک مسئلہ ہے، اس لیے روایتی مفروضات کو چیلنج کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی دنیا کی محض تشریح کافی نہیں، اسے بدلنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔

    دنیا کیسے چلتی ہے؟ یہ دیکھیں کہ اس وقت عالمی نظام میں اقدار اور ثقافتی معیارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غلامی، نوآبادیات اور ایٹمی ہتھیار ایک وقت میں جائز سمجھے جاتے تھے، مگر اب ناقابلِ قبول ہیں۔ تاریخی عمل کے ذریعے انسانی حقوق اور جمہوریت ہی نے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ جیسے اصول نے بھی ایک عام قدر کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    آج کی دنیا کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے فلسفیانہ تصورِ ‘‘ساخت’’ یا زیر سطح نظاموں (underlying structures) کا مطالعہ بھی ضروری ہے، بنیادی طور پر یہ لسانیات (سوئس ماہر لسانیات فرڈیننڈ سوسیور نے بیسویں صدی کی ابتدا میں میں یہ تصور پیش کیا) اور ثقافتی بشریات (Cultural anthropology__ کلاڈ لیوی اسٹراس نے اس کا بشریات پر اطلاق کیا) کے شعبے کا تصور تھا، لیکن اس میں اتنی فکری کشش تھی کہ یہ فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، سماجیات، ادب اور بین الاقوامی تعلقات جیسے متنوع شعبوں تک پھیل گیا۔ اس تصور نے دراصل غیر مرئی ساختوں (invisible structures) کی دریافت کی، اور پتا چلا کہ کسی بھی نظام کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ تصور ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ کوئی مظہر خواہ کسی بھی شعبے کا ہو، ساخت (structure) کے تصور میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس مظہر کے اساسی پیٹرنز یا سسٹمز کو بے نقاب کر سکے، اور بتا سکے کہ دراصل معانی کیسے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج ساختیات کا یہ تصور طاقت، شناخت، ثقافت، قانون اور بین الاقوامی نظام کو سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کسی شے کا مطلب اس کے مخالف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ اس کی انفرادی حقیقت سے۔ ساختیات نے بتایا کہ نظریہ خود بہ خود پیدا نہیں ہوتا، نہ یہ کسی انسان کی سوچ ہوتی ہے، نہ کوئی آفاقی سچائی _ بلکہ یہ ثقافتی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ترقی کا نظریہ مغرب کے مخصوص تاریخی، لسانی، اور معاشی ساخت سے پیدا ہوا۔

    اگر ہم عالمی نظام کی ساخت کو سمجھنا شروع کریں گے تو ہمارے راستے میں مارکسی نظریات بھی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، ان کے بغیر فہم کی ہماری کوشش علمی نہیں ہوگی، بلکہ تعصب کا شکار ہو جائے گی۔ یعنی زبان، ذہن، بیانیے، اور ثقافتی کوڈز کا تجزیہ ہی کافی نہیں، مادّی حقیقت سب سے اہم ہے، کیوں کہ سماجی شعور مادی حالات سے پیدا ہوتا ہے۔ لوئی التسر نے ساختیات اور مارکسزم کو ملا کر ایک امتزاجی نقطہ نظر پیش کیا۔ ساختیات اگرچہ غیر سیاسی ہے لیکن سیاست کے شعبے پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔ لیکن ساختیات تاریخ سے کٹی ہوئی ہے اس لیے مارکسی فہم اس گیپ کو بھرتی ہے۔

    اسی طرح، ساختیات سے آگے کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ خود یہ تصور بھی کافی کرخت اور بے لوچ ہے، جس کی وجہ سے یہ محدود ہو گیا ہے۔ کیوں کہ جب معانی، ساخت، اور شناخت جیسے قضیوں کا مزید تجزیہ کیا گیا تو دریافت ہوا کہ ان میں استحکام نہیں ہے؛ معنی سیال ہے، سیاق بدلتے ہی معنیٰ بھی بدل جاتا ہے۔ ساختیات نے بتایا کہ ہر نظام میں ایک ساخت اور مستقل مرکز ہوتا ہے، پوسٹ اسٹرکچرلزم نے واضح کیا کہ مرکز کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ یہ فلسفیانہ تناظر ہمیں عالمی سیاست کے ’’مراکز‘‘ کو سمجھنے میں وسیع مدد فراہم کرتے ہیں۔ کہ کس طرح کوئی مرکز ہمیشہ قائم نہیں رہتا، یعنی، تاریخ بدلتی رہتی ہے، ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔

    ساخت نظر نہیں آتی، لیکن ہمیں اپنے معنی کے ذریعے متاثر کرتی ہے۔ انسان، ادارے، نظریات — سب ان ہی ساختوں کے ’’زیر اثر‘‘ ہوتے ہیں۔ شناختیں، تصورات اور معانی ان ساختوں کی پیداوار ہیں، پہلے سے موجود structures of meaning ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں بتاتی ہیں کہ دیکھو دنیا کی حقیقتیں بس یہی ہیں! ہم ہر پل ان ساختوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ان سے روگردانی پر یہ ساختیں ہم سے ناراض دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ ساختیں سماجی قوتوں کو ہماری سرکوبی کے لیے متحرک کر دیتی ہیں۔ طے شدہ معنی والی ان ساختوں پر سوال اٹھانا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ، ایک اور حقیقت بھی ہے، جسے ہم آسانی سے فراموش کرتے رہتے ہیں __ یہ کہ ریاستیں اور انسان اپنے بیانیے، شناخت اور اقدار وقت کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اور کرتے رہتے ہیں۔