Tag: امریکا

  • امریکا جانے کے خواہشمند شہریوں کے لیے اہم خبر

    امریکا جانے کے خواہشمند شہریوں کے لیے اہم خبر

    کراچی: امریکا کیلئے پاکستان سے پروازوں کی بحالی جلد متوقع ہے، امریکا کی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی کو متعلقہ فیس کی مد میں 75 ہزار ڈالرز کی ادائیگی کردی گئی۔

    ذرائع نے بتایا کہ ایف اے اے کی 5 رکنی ٹیم کی حتمی کلئیرنس کےلئے مارچ میں آمد متوقع ہے، فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستانی پروازوں کی کیٹیگری سی اے ون سے ٹو کردی تھی، فیس پاکستانی پروازوں کی کیٹیگری سی اے ون میں بحالی کی مد میں ادا کی گئی۔

    پروازوں کی حتمی کلیئرنس کیلئے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے متعلقہ دستاویزات تیار کرلی ہیں، پابندی کے خاتمے پر نیویارک، شکاگو اور ہیوسٹن کیلئے پی آئی اے پروازیں بحال ہوں گی۔

    امریکا کیلئے پرواز کی بحالی کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ٹیم کی کلیئرنس کے بعد امریکا کیلئے پی آئی اے براہ راست پروازیں آپریٹ کرے گی۔

    ماضی میں قومی ایئرلائن امریکا کےلئے پروازیں مانچسٹر کے راستے آپریٹ کرتی تھی، پابندی کے خاتمے پر 2 سال بعد امریکا کےلئے پی آئی اے پروازیں آپریٹ کرے گی۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ کے اختتام پر امریکا کس حال میں ہوگا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ کے اختتام پر امریکا کس حال میں ہوگا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو ایک بڑی تجارتی جنگ کی نئی لیکن دور رس نتائج رکھنے والی کشمکش سے متعارف کرا دیا ہے، اور اب دنیا ایک بڑی تجارتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔

    ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ (بالخصوص چین، یورپی یونین، اور دیگر ممالک کے ساتھ) عالمی معیشت پر کئی ممکنہ اثرات ڈال سکتی ہے، اس کے نتائج قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں سطحوں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

    اس تجارتی جنگ کے ممکنہ نتائج اور اثرات میں سب سے اہم وہ معاشی سست روی ہے جو عالمی معیشت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی رکاوٹیں بڑھیں گی، تو عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔ اس میں سست روی پہلے ہی دیکھی جا رہی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عالمی اقتصادی ترقی کی شرح (2023 کے لیے) 2.7 فی صد ہے، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں سست روی کو ظاہر کرتی ہے۔

    اس جنگ کا براہ راست متاثر کنندہ وہ صارف ہے جو مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دب جائے گا، کیوں کہ تجارتی محصولات (ٹیرف) بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر عام صارفین پر پڑے گا۔ موجودہ عالمی صورت حال یہ ہے کہ سپلائی چین میں خلل، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور جغرافیائی سیاسی تناؤ جیسے عوامل عالمی افراط زر میں پہلے ہی حصہ ڈال رہے ہیں، جس سے دنیا بھر میں قیمتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

    ٹرمپ کی اس جنگ سے خود امریکی معیشت پر دیرپا اثر پڑے گا، چین اور دیگر ممالک پر ٹیرف لگانے کے بعد امریکی درآمدات مہنگی ہو گئیں، جس کا بوجھ عام امریکی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ امریکا میں بہت سے لوگ روزانہ میکسیکو میں اگائے گئے پھل کھاتے ہیں، چین میں بنائے گئے فون استعمال کرتے ہیں اور کینیڈا کی لکڑی سے بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ایک غیرجانب دار تنظیم ’ٹیکس فاؤنڈیشن‘ کے ایک تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے نفاذ سے 2025 میں ہر امریکی گھرانے پر ٹیکس میں اوسطاً 800 ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوگا۔

    یہ ایک ایسی جنگ میں جس میں برآمد کنندگان کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین اور یورپ نے بھی جوابی ٹیرف لگائے، جس سے امریکی برآمدات کم ہو گئیں، خاص طور پر زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے متاثر ہونے لگے ہیں۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں تقریباً دو تہائی (63 فی صد) مینوفیکچررز (جو اپنی مصنوعات برآمد کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ وہ امریکی محصولات سے متاثر ہوں گے۔ 1,200 سے زائد فرموں نے کہا کہ ایک طرف ان کی لاگت پر براہ راست اثر پڑے گا، اور دوسری طرف بڑی پریشانی یہ لاحق ہو گئی ہے کہ مصنوعات کی عالمی مانگ میں کمی آئے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں زیادہ لاگت کی وجہ سے پیداواری یونٹس بند کرتی ہیں، یا بیرون ملک منتقل کرتی ہیں، تو ملازمتوں میں کمی ہو سکتی ہے، یعنی روزگار پر دباؤ کا ایک پریشان کن مسئلہ سر اٹھائے گا۔ ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں کے انجام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں امریکا چین بزنس کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں ان کی تجارتی پالیسیوں سے ڈھائی ملازمتیں ختم ہوئی تھیں۔

    غزہ میں کوئی رئیل اسٹیٹ آپریشن نہیں چل رہا، فرانسیسی صدر کا ٹرمپ کے بیان پر رد عمل

    ٹرمپ کے طور طریقوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے انھیں اپنی طاقت کے زعم میں یہ یقین بالکل نہی تھا کہ ان کے اقدامات کے جواب میں چین اور دیگر ممالک کا ردعمل نہیں آئے گا۔ لیکن ٹرمپ کی تجارتی جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دیگر ممالک متبادل منڈیاں تلاش کرنے لگے ہیں، چین اور یورپ امریکی مصنوعات کی بجائے دیگر ممالک سے تجارت بڑھانے پر توجہ دینے لگے ہیں، جس سے امریکا کی عالمی مارکیٹ میں گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کی جنگ کا بھی امریکا کو شدید نقصان پہنچ سکا ہے، امریکا نے ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں پر پابندیاں لگائیں، جس کے جواب میں چین نے اپنی ٹیکنالوجی کی خود کفالت پر کام تیز کر دیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے کاروباری ماحول پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے، اور سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار ابھی سے محتاط ہو گئے ہیں، جس کا اثر عالمی اسٹاک مارکیٹس پر بھی پڑنے لگا ہے۔ دی گارڈین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے امریکی محصولات پر دستخط کیے جانے کے بعد سے عالمی اسٹاک مارکیٹ دباؤ میں آ گئی ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر اسٹاک ایکسچینجز میں کاروبار تیزی سے نیچے گرا۔

    امریکی صدر کی شروع کی گئی جنگ کا ایک اثر سپلائی چینز میں تبدیلی پر مرتب ہوگا، کئی عالمی کمپنیاں جو امریکا اور چین دونوں سے جڑی تھیں، اپنی سپلائی چینز کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ عالمی سپلائی چینز پیشین گوئیوں پر پروان چڑھتی ہیں، اور ٹیرف کی جنگ نے اس کے توازن میں خلل ڈال دیا ہے، ٹیرف قیمتوں، طلب اور تجارتی راستوں کو بدلنے لگا ہے، جسے سے ظاہر ہے کہ بہترین طور پر منظم تجارتی اداروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔

    ٹرمپ نے جنگ شروع تو کر دی ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات سے شاید وہ ابھی نا واقف ہیں۔ ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آ جائے گی۔ اگر چین، یورپ، اور دیگر ممالک تجارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو امریکی معیشت کا عالمی تجارتی نظام میں کردار کم ہو جائے گا۔ مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک نئے تجارتی معاہدے کریں گے جس سے موجودہ حالات بدل جائیں گے، اور نئی تجارتی پالیسیاں بننے لگیں گی۔

    مختصر یہ کہ اس تجارتی جنگ کے نتائج معیشت، سیاست، اور عالمی طاقتوں کے توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ لمبے عرصے تک جاری رہا تو عالمی معیشت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی سفارتی حل نکالا جائے، اور ایک ایک نیا لیکن متوازن تجارتی نظام تشکیل دیا جائے۔

  • ڈھائی صدی سے رائج ’’پینی‘‘ امریکا پر کیسے بوجھ بن گئی؟ صدر ٹرمپ کا نیا حکم جاری

    ڈھائی صدی سے رائج ’’پینی‘‘ امریکا پر کیسے بوجھ بن گئی؟ صدر ٹرمپ کا نیا حکم جاری

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینی (ایک سینٹ کا سکا) کو امریکی خزانے پر بوجھ قرار دیتے ہوئے محکمہ خزانہ کو نئے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

    ارب پتی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے دوسری مدت کے لیے صدر کا عہدہ سنبھالا ہے، تب سے ان کے کیے گئے فیصلے تنقید کی زد میں آ رہے ہیں۔

    اب صدر ٹرمپ نے تقریباً ڈھائی صدی سے امریکی معیشت میں استعمال ہونے والی پینی (ایک سینٹ کا سکہ) کو امریکی خزانے پر بوجھ قرار دیتے ہوئے محکمہ خزانہ کو یہ نئے سکے بنانے اور جاری کرنے سے روک دیا ہے، تاہم پرانے سکے مارکیٹ میں موجود رہیں گے۔

    اس حوالے سے سوشل میڈیا سائٹ ’‘ ٹروتھ سوشل’’ پر ٹرمپ نے نے پوسٹ میں کہا ہے کہ ’’طویل عرصے سے امریکا ایک سینٹ کا سکہ بنانے میں دو سینٹ سے زائد کی لاگت آ رہی ہے، اس لیے یہ سکا امریکی خزانے پر بوجھ ہی ہے۔‘‘

    امریکی صدر نے اپنی پوسٹ میں مزید بتایا کہ انہوں نے سیکریٹری آف یو ایس ٹریژری کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئے سکے بنانا بند کر دیں۔

    ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سینٹ کا سکہ ختم کرنے کی اپنی خواہش کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا لیکن ان کے حکومتی کارکردگی کے محکمے کے نگران ایلون مسک نے پچھلے مہینے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں ایک پینی (سینٹ) کا سکہ ڈھالنے پر اٹھنے والے اخراجات سے متعلق سوال اٹھایا تھا۔

    امریکی ٹکسال نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2024 کے مالی سال کے دوران جو 30 ستمبر کو ختم ہوا تھا، ایک سینٹ کے تین ارب 20 کروڑ سکے ڈھالنے پر 8 کروڑ 53 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ تفصیل کے مطابق ایک سینٹ کا سکہ ڈھالنے پر لگ بھگ پونے چار سینٹ خرچ ہوئے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں ایک سینٹ کے سکے کا پہلی بار اجرا 1793 میں کیا گیا تھا۔

  • امریکا میں ایک اور مسافر طیارہ خوفناک حادثے کا شکار

    امریکا میں ایک اور مسافر طیارہ خوفناک حادثے کا شکار

    امریکا: ایریزونا ایئرپورٹ پر ایک اور طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا، اسکاٹسڈیل ایئر پورٹ پر چھوٹا طیارہ رن وے سے پھسل کر دوسرے طیارے سے ٹکرا گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مسافر طیارے کو حادثہ لینڈنگ کے دوران پیش آیا، جس میں 1 شخص ہلاک اور 4 افراد زخمی ہوگئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق حادثہ مقامی وقت کے مطابق دوپہر میں پیش آیا، جس کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ حادثے کے بعد ایئر پورٹ پر طیاروں کی آمد و رفت بھی کچھ دیر کے لیے روک دی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ حالیہ دنوں کے دوران پیش آئے طیارہ حادثوں کے بعد سے امریکا میں فضائی سفر کے حوالے سے سخت نگرانی شروع کردی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ امریکی ریاست الاسکا میں گرنے والے چھوٹے طیارے کا ملبہ بھی مل گیا، طیارے میں موجود تمام افراد ہلاک ہوگئے۔

    رپورٹ کے مطابق طیارہ گرنے کے سبب 10 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے، طیارے کا اڑان بھرتے ہی آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

    الاسکا کے محکمہ پبلک سیفٹی نے بتایا تھا کہ بیرنگ ایئر کا لا پتا ہونے والا طیارہ یونالکلیٹ سے نوم شہر جا رہا تھا جس نے دوپہر 2 بج کر 37 منٹ پر الاسکا کے قصبے انالکلیٹ سے اڑان بھری تھی اور آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد اس کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

    امریکی فوج کا طیارہ گر کر تباہ، 4 افراد ہلاک

    یاد رہے کہ 30 جنوری کو دارالحکومت واشنگٹن میں ایک مسافر طیارہ امریکی فوج کے ہیلی کاپٹر سے درمیانی ہوا میں ٹکرا گیا تھا، جس میں سوار تمام 67 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

  • امریکا میں ہزاروں سرکاری ملازمین کی نوکریاں چھوڑنے کی خواہش

    امریکا میں ہزاروں سرکاری ملازمین کی نوکریاں چھوڑنے کی خواہش

    امریکی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ 65 ہزار سے زائد ملازمین نے امریکا کی سرکاری ملازمتیں چھوڑنے کی خواہش ظاہر کا اظہار کردیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ملازمت چھوڑنے کی خواہش ظاہر کرنے والے ملازمین کی تعداد میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق فوج اور پوسٹل سروس کے علاوہ امریکا میں 23 لاکھ وفاقی ملازمین ہیں اور مستعفی ہونے کے خواہشمندوں کی تعداد 3 فیصدتک پہنچ گئی ہے۔

    حکومتی استعداد سے متعلق محکمے کے سربراہ ایلون مسک نے تخمینہ لگایا تھا کہ 5 سے 10 فیصد سرکاری ملازمین نوکریاں چھوڑ دیں گے۔

    ٹرمپ حکومت نے مراعات کے بدلے نوکری چھوڑنا اختیار کیے جانے کی ڈیڈلائن پیر تک بڑھائی تھی تاہم امریکی عدالت کے جج نے ملازمین کو مراعات دے کر برخاست کرنے کا پروگرام روک دیا ہے۔

    میساچوسٹس کے جج نے قانونی حیثیت کے تعین تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر عمل روکا ہے۔

    دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل کے تمام یرغمالی ہفتے تک رہا نہ ہوئے تو غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی منسوخی کا اعلان کردوں گا۔

    واشنگٹن میں مختلف ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اگر ہفتے کی دوپہر تک غزہ میں موجود تمام یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدہ ختم کردیں گے جس سے جنگ”کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

    ’فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق نہیں ہو گا‘

    وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر اردن اور مصر فلسطینی پناہ گزینوں کو نہیں لیتے تو ان کی امداد بند کردیں گے تاہم مجھے امید ہے کہ اردن مان جائے گا۔

  • ’’ہمارے پاس ایک غنڈا اور ٹھگ ہے جو امریکا کا صدر ہے‘‘ یہ بات کس نے کہی؟

    ’’ہمارے پاس ایک غنڈا اور ٹھگ ہے جو امریکا کا صدر ہے‘‘ یہ بات کس نے کہی؟

    گریناڈا: ’’میں جس جگہ سے آ رہا ہوں، وہ جگہ یعنی امریکا ایک بہت ہی تاریک دور سے گزر رہا ہے، ہمارے پاس ایک غنڈا اور ٹھگ موجود ہے جو امریکا کا صدر ہے۔‘‘ مشہور امریکی اداکار کے اس بیان نے دنیا بھر میں آگ لگا دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مشہور و معروف امریکی اداکار رچرد گیئر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید ہی نہیں لوگوں کو چونکا دینے والی تنقید کی ہے، انھوں نے ٹرمپ کو ’’غنڈہ‘‘ اور ’’ٹھگ‘‘ قرار دے دیا۔

    رچرڈ گیئر ہفتے کے روز اسپین کے شہر گریناڈا میں ہسپانوی آسکرز کی تقریب میں شریک تھے، انھوں نے ایک ایوارڈ بھی وصول کیا اور دھواں دھار تقریر کی، جس نے اسپین اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں ہیڈ لائنز بنائیں۔

    اے ایف پی کے مطابق اسپین کے اعلیٰ فلمی اعزازات میں سے ایک، بین الاقوامی گویا ایوارڈ حاصل کرنے والے 75 سالہ رچرڈ گیئر نے کہا کہ آمریت صرف امریکا تک محدو د نہیں یہ ’’ہر جگہ‘‘ عروج پر ہے۔

    انھوں نے کہا ’’ہم امریکا میں ایک انتہائی تاریک دور میں ہیں، جہاں ہمارے پاس ایک غنڈا، ایک ٹھگ ہے، جو امریکا کا صدر ہے۔ لیکن یہ صرف امریکا میں نہیں، ہر جگہ ہو رہا ہے، آمریت ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔‘‘

  • اینٹ کا جواب پتھر سے، امریکا پر چین کا جوابی ٹیرف لاگو ہو گیا

    اینٹ کا جواب پتھر سے، امریکا پر چین کا جوابی ٹیرف لاگو ہو گیا

    بیجنگ: اینٹ کا جواب پتھر سے، یا ’جیسے کو تیسا‘ کے مصداق چین کا جوابی ٹیرف آج سے امریکا پر لاگو ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی مصنوعات پر چین کے درآمدی ٹیکس کا اطلاق آج پیر سے ہو گیا ہے، چینی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی کوئلے اور مائع قدرتی گیس پر 15 فی صد سرحدی ٹیکس لگایا گیا ہے۔

    امریکی خام تیل، زرعی مشینری اور بڑے انجن والی کاروں پر 10 فی صد ٹیرف عائد ہوگا، گزشتہ ہفتے امریکا نے چین کی تمام درآمدی مصنوعات پر 10 فی صد ٹیرف عائد کیا تھا۔

    ایک دوسرے پر اضافی ٹیرف لاگو کرنے کے اقدامات سے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ بڑھ گئی ہے، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کی پرواہ نہیں ہے، اس لیے انھوں نے مزید ممالک پر محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔

    اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی فوٹیج دیکھ کر ٹرمپ کو کیا ہوا؟

    واضح رہے کہ اتوار کو ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکا میں تمام اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائد کریں گے، جس کا مکمل اعلان آج پیر کو کیا جائے گا۔ سپر باؤل کے لیے جاتے ہوئے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ دوسری اقوام پر باہمی محصولات کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کو نشانہ بنایا جائے گا۔

    گزشتہ ہفتے چینی حکام نے ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی گوگل کی اجارہ داری کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کیا تھا، اور ڈیزائنر برانڈز کیلون کلین اور ٹومی ہلفیگر کے امریکی مالک PVH کو بیجنگ کی ’ناقابل اعتماد ادارے‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ چین نے 25 نایاب دھاتوں پر برآمدی کنٹرول بھی نافذ کر دیا ہے، جن میں سے کچھ بہت سی برقی مصنوعات اور فوجی ساز و سامان کے اہم اجزا ہیں۔

  • امریکا طیاروں‌ کے بعد اب ٹرین حادثات کی زد میں، تین گھنٹے میں 2 حادثے

    امریکا طیاروں‌ کے بعد اب ٹرین حادثات کی زد میں، تین گھنٹے میں 2 حادثے

    امریکا مسلسل طیارہ حادثات کے بعد اب ٹرین حادثات کی زد میں آ گیا اور تین گھنٹے کے دوران دو ریل حادثات سامنے آئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست نیبراسکا میں تین گھنٹے کے دو ٹرین حادثات رونما ہوئے ہیں۔ ایک واقعہ میں مال بردار گاڑیوں کی کئی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور دوسرے واقعے میں متعدد کنٹینرز میں آگ لگ گئی۔

    ان حادثات میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلات فی الحال سامنے نہیں آ سکی ہیں تام حادثے کے پیش نظر اپ اور ڈاؤن ٹریکس کو بند کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں حال میں ہی تواتر کے ساتھ کئی طیارہ حادثات رونما ہوئے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

    سب سے بڑا حادثہ جنوری کے آخری ہفتے میں پیش آیا جب واشنگٹن کے قریب مسافر طیارے سے فوجی ہیلی کاپٹر فضا میں ٹکرا گیا۔ اس حادثے میں جہاز کے عملے سمیت سوار 100 سے زائد مسافر لقمہ اجل بن گئے جن میں ایک پاکستانی خاتون بھی شامل تھیں۔

    یکم فروری کو امریکی ریاست پنسلونیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ایک اور طیارہ دوران پرواز گر کر تباہ ہوگیا، جس میں ایک بچہ اور پانچ دیگر افراد سوار تھے جو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے۔

    اس سے اگلے ہی روز ہیوسٹن میں ایک اور مسافر طیارے میں ٹیک آف کے دوران اچانک آگ بھڑک اٹھی، طیارے میں عملے کے پانچ ارکان سمیت 104 مسافر سوار تھے۔ تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    الاسکا میں ایک اور مسافر طیارہ اڑان بھرنے کے آدھے گھنٹے بعد لاپتہ ہوگیا جس کا ملبہ بعد ازاں مل گیا۔ گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں پائلٹ سمیت سوار 10 مسافر ہلاک ہوئے۔

  • امریکی عدالت نے ایلون مسک کی ٹیم کو حکومتی نظام تک رسائی سے روک دیا

    امریکی عدالت نے ایلون مسک کی ٹیم کو حکومتی نظام تک رسائی سے روک دیا

    واشنگٹن: امریکی عدالت نے یہ کہتے ہوئے ایلون مسک کی ٹیم کو حکومتی نظام تک رسائی سے روک دیا ہے کہ حساس معلومات کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کھربوں ڈالرز کی ادائیگی کرنے والے حکومتی نظام سے متعلق حساس معلومات افشا ہونے کے خدشے کے پیش نظر امریکی عدالت کے جج نے ایلون مسک کی ٹیم کو حکومتی نظام تک رسائی سے روک دیا۔

    امریکا کے وفاقی جج نے مسک کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (ڈی او جی ای) کو محکمہ خزانہ کے ریکارڈ میں موجود لاکھوں امریکیوں کے ذاتی مالیاتی ڈیٹا تک رسائی سے روکا ہے۔

    19 ریاستوں کے ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز کی جانب سے ایلون مسک کی ٹیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا، جس میں انھوں نے انھوں نے دلیل دی کہ مسک ایک ’خصوصی سرکاری ملازم‘ ہیں اور ڈوج سرکاری محکمہ نہیں ہے، اس لیے انھیں رسائی دینا وفاقی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ مقدمے پر مختصر فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ محکمہ خزانہ میں لاکھوں شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی دینا قانونی طور پر ممکن نہیں ہے۔ جج نے حکم دیا کہ مسک اور ڈوج (doge) کمپنی اپنے پاس موجود ریکارڈ فوری طور پر تلف کر دے۔

    ٹرمپ نے ’برے لوگ‘ قرار دے کر انٹونی بلنکن کی سیکیورٹی بھی ختم کر دی

    مسک نے عدالتی فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاگل پن قرار دے دیا اور جج کو سرگرم کارکن بھی کہا، ایلون مسک کا کہنا تھا کہ ٹیکس دہندگان کی رقم فراڈ سے کیسے بچائیں گے، اگر اس کے استعمال کا پتا نہ ہو۔

  • ٹرمپ نے ’برے لوگ‘ قرار دے کر انٹونی بلنکن کی سیکیورٹی بھی ختم کر دی

    ٹرمپ نے ’برے لوگ‘ قرار دے کر انٹونی بلنکن کی سیکیورٹی بھی ختم کر دی

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’برے لوگ‘ قرار دے کر انٹونی بلنکن اور جیک سلیوان کی سیکیورٹی بھی ختم کر دی۔

    روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے حکام نے ہفتہ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے سابق وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور سابق قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی سیکیورٹی کلیئرنس بھی ختم کر دی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے ایک دن قبل اطلاع دی تھی کہ انھوں نے اپنے پیشرو جو بائیڈن کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی ہے، اور ڈیلی انٹیلیجنس بریفنگ تک ان کی رسائی بھی روک دی۔

    ٹرمپ کے خلاف مقدمات پر اٹارنی جنرل نیویارک کی بھی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی، جو بائیڈن کی ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا موناکو نے 6 جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملوں پر محکمہ انصاف کے ردعمل کو مربوط کرنے میں مدد کی تھی۔

    ٹرمپ نے کہا کہ یہ برے لوگ ہیں اس لیے ان کے تمام پاسز منسوخ کر دیے ہیں، انھوں نے کہا بائیڈن نے سابق صدر کی حیثیت سے خفیہ معلومات تک میری رسائی بھی روکی تھی۔

    حکام کے مطابق ٹرمپ نے نیویارک کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز اور مین ہٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ کی کلیئرنس بھی ہٹا دی، ان دونوں نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات چلائے تھے۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدور روایتی طور پر انٹیلی جنس بریفنگ حاصل کرتے رہے ہیں، تاکہ وہ موجودہ صدور کو قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی پر مشورے دے سکیں، تاہم روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس نئی پریکٹس سے واشنگٹن میں بڑھتی ہوئی دراڑ واضح ہو رہی ہے۔ بائیڈن نے 2021 میں ٹرمپ کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس منسوخ کی تھی۔

    امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے بھی گزشتہ ماہ ریٹائرڈ آرمی جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سابق چیئرمین مارک ملی کے لیے ذاتی سیکیورٹی اور سیکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی تھی۔ مارک ملی نے ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران فوج کی سربراہی کی تھی، لیکن جب وہ بائیڈن کی انتظامیہ کے دوران 2023 میں فور سٹار جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہو گئے، تو اس کے بعد انھوں نے ٹرمپ پر زبردست تنقید کی۔