تہران: ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کی جانب سے امریکا سے دوبارہ مذاکرات کے لیے مشروط آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانسیسی اخبارکو دیے گئے انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات شروع کرنے کیلیے آمادہ ہیں تاہم امریکا کو مذاکرات کے دوران ایران پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دیناہوگی اور امریکا غلطیوں کا ازالہ کرے تو مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری تنصیبات پر نقصان کے تخمینے کے بعد معاوضہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے، امریکا نے ہی مذاکرات توڑ کر کارروائی کا آغاز کیا، اس لیے اب ضروری ہے کہ امریکا اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرے، امریکا کے حالیہ حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔
ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ سمجھنا کہ ایران کو پر امن جوہری منصوبہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے درحقیقت یہ ایک سنگین غلط فہمی ہے، ایرانی جوہری پروگرام ایسا قومی سرمایہ ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اُنہوں نے کہا کہ سفارت کاری دو طرفہ معاملہ ہے اوردوست ممالک یا ثالثوں کے ذریعے ایک سفارتی ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران نے 16 دن میں 5لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدر کر دیا۔ 24 جون سے 9جولائی تک ایران سے 5لاکھ 8ہزار افغان مہاجرین بیدخل کیے گئے۔
ایک دن میں 51 ہزار افغان شہریوں کی ملک بدری کی گئی جو کہ اتوار کی ڈیڈلائن سے قبل ریکارڈ اخراج ہے۔ ایرانی حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی مقدم ہے غیرقانونی شہریوں کی واپسی ناگزیر ہے۔
سی این این کے مطابق ریاستی میڈیا پر افغانوں کی اسرائیل کیلئے مبینہ جاسوسی کی اعترافی ویڈیوز نشر کی گئیں، ایرانی پولیس کی افغان شہریوں کیخلاف بھرپور کارروائی کی ویڈیوز بھی نشر کی گئیں۔
’غزہ بچوں اور بھوکے لوگوں کا قبرستان بن چکا‘
ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں یا گرفتاری کا سامنا کریں۔
ایران ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افغان مہاجرین کا گھر ہے اور بہت سے لوگ وہاں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔
2023 میں، تہران نے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا جس کے مطابق وہ ملک میں ”غیر قانونی طور پر”رہ رہے تھے۔