Tag: امریکہ

  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہیں، ایران

    امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہیں، ایران

    ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ اُنہوں نے وضاحت کی کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہو جائے تو ایران کو امریکہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں ”کوئی مسئلہ” نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکی صحافی ٹکر کارلسن کے ساتھ ایک انٹرویو میں واشنگٹن کے ساتھ اعتماد کے بحران کا انکشاف کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایران کیسے یقین کر سکتا ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کو دوبارہ ایران پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا؟

    رپورٹس کے مطابق پزشکیان نے اسرائیل پر انہیں قتل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا تاہم انہوں نے اس کوشش کی تاریخ نہیں بتائی۔

    ایرانی صدر نے کہا کہ میری جان لینے کی کوشش کے پیچھے امریکہ نہیں تھا۔ یہ اسرائیل تھا۔ میں ایک میٹنگ میں تھا، انہوں نے اس علاقے پر بمباری کرنے کی کوشش کی جہاں ہم میٹنگ میں مصروف تھے۔

    دوسری جانب ایران پر اسرائیل کی جانب سے ممکنہ دوبارہ حملے کے خدشے کے باعث ایرانی فوج کو مکمل ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

    ایرانی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تمام خطرات سے نمٹنے کے لیے ایران نے فوجی تیاریوں کو مکمل کرلیا ہے، جبکہ ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر نے کہا ہے کہ اگر جارحیت کی گئی جوابی کارروائی پہلے سے زیادہ شدید ہوگی۔

    ایرانی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ ایک بار پھر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئے ہیں اور ان کی نیتن یاہو سے حالیہ ملاقات کو ”پہلے سے طے شدہ ڈرامہ”قرار دیا جا رہا ہے۔

    ایرانی فوج کے ترجمان کے مطابق ملک کے خفیہ مقامات پر ہزاروں میزائل اور ڈرونز بالکل تیار ہیں، اس بار جنگ میں قدس فورس، نیوی اور آرمی کو مکمل طور پر استعمال کیا جائے گا۔

    برطانیہ نے تہران میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول دیا

    واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے شروع کیے تھے، جن میں ایران کے اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدانوں کو شہید کیا گیا تھا، اس کے بعد ایران نے بھی اسرائیلی علاقوں پر شدید میزائل حملے کیے، جس میں اسرائیل نے 28 اسرائیلی شہریوں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • امریکہ کے کئی بڑے شہر رفتہ رفتہ زمین میں کیوں دھنس رہے ہیں؟ ہوشربا انکشاف

    امریکہ کے کئی بڑے شہر رفتہ رفتہ زمین میں کیوں دھنس رہے ہیں؟ ہوشربا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ کے تقریباً 28 سب سے زیادہ آبادی والے شہر آہستہ آہستہ  زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔

    اس تبدیلی کی بڑی وجہ سیلاب کے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں جو ممکنہ طور پر شہری بنیادی ڈھانچے کیلیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں، یہ عوامل لوگوں کی رہائش اور ملکی معیشت کے لیے سنگین نتائج کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    نیچر سٹیز نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کئی شہروں کے زمین میں دھنسنے کی یہ صورتحال ہر جگہ پائی جاتی ہے اور متعلقہ عہدیداران و ذمہ داران کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

     sinking city

    ماضی میں نیو اورلینز جیسے ساحلی شہروں کے زمین میں دھنسنے کی خبریں آتی رہی ہیں۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ بڑے شہروں میں یہ عمل زیادہ شدت سے ہو رہا ہے۔ زمین میں دھنسنے کی وجوہات میں قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ انسانوں کے پیدا کردہ عوامل بھی شامل ہیں۔

    مثال کے طور پر برفانی دور کے بعد زمین کی ساخت میں تبدیلی، دریا کے کناروں پر بننے والے ڈیم جو قدرتی مٹی کو آگے بڑھنے نہیں دیتے اور تیسری اہم وجہ عمارتوں کا وزن جو زمین کو نیچے کی جانب دھکیلتا ہے۔

    flooding

    اس تحقیق میں ماہرین نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی ’انسر‘ کا استعمال کیا، جس سے زمین کی اوپر نیچے حرکت ملی میٹر کے پیمانے پر ناپی جا سکتی ہے۔

    اس ڈیٹا کی مدد سے ماہرین نے معلوم کیا کہ تمام 28 بڑے شہروں میں سے کم از کم 20 فیصد رقبہ زمین میں دھنس رہا ہے اور 25 شہروں میں 65 فیصد سے زیادہ علاقہ متاثر ہو رہا ہے۔

    سائنٹیفک امریکن نامی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جارہا ہے۔

    پہلی وجہ : زیر زمین پانی کا زیادہ استعمال ہے کیونکہ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ 80 فیصد زمین دھنسنے کے واقعات کا تعلق زیرِ زمین پانی کے نکالنے سے ہے، زمین کے نیچے سے پانی نکالنے سے زمین کی سطح نیچے بیٹھ جاتی ہے اور زمین خالی ہو کر بیٹھنے لگتی ہے۔

    دوسری وجہ : تیل اور گیس کی نکاسی ہے، ان وسائل کے نکالنے سے زمین کی ساخت شدید متاثر ہوتی ہے۔

    تیسری وجہ : عمارتوں کا وزن ہے کیونکہ بھاری عمارتیں اپنے وزن کی وجہ سے زمین پر دباؤ ڈالتی ہیں، جس سے زمین مزید نیچے دھنس سکتی ہے۔

    چوتھی وجہ : آب و ہوا کی تبدیلی ہے کیونکہ شدید بارشیں اور طوفان زمین کے مستحکم رہنے کو متاثر کرتے ہیں۔

    امریکہ کے 9 بڑے شہروں میں جن میں نیویارک، شکاگو، ہیوسٹن، ڈیلس، فورٹ ورتھ، کولمبس، سیئیٹل، ڈینور اور ڈیٹروئٹ شامل ہیں، وہاں زمین دھنسنے کی اوسط رفتار سالانہ 2 ملی میٹر سے زیادہ ہے۔

    اس کے علاوہ ہیوسٹن، فورٹ ورتھ اور ڈیلس میں رفتار سب سے زیادہ ہے، 4 ملی میٹر فی سال سے بھی زیادہ۔ صرف ہیوسٹن میں 42 فیصد علاقہ 5 ملی میٹر فی سال سے تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور 12 فیصد علاقہ 10 ملی میٹر سالانہ سے بھی زیادہ دھنس رہا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بظاہر یہ رفتار بہت کم لگتی ہے، لیکن اگر مسلسل دس سال ایسا ہو تو اس کے اثرات شدید ہوسکتے ہیں۔ زمین کے مختلف حصوں کا مختلف رفتار سے دھنسنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ اس سے عمارتیں ایک طرف جھک سکتی ہیں یا سڑکوں اور دیگر ڈھانچوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکہ کے شہر نیویارک کے لگارڈیا ایئرپورٹ کے آس پاس کا علاقہ شہر کے باقی حصوں سے زیادہ تیزی سے دھنس رہا ہے۔

  • دنیا کیسے چلتی ہے؟

    دنیا کیسے چلتی ہے؟

    بنیاد یہ ہے کہ آپ خواہ جنگ کریں، امن قائم کریں، یا قانون سازی کریں __ یہ سب سیاسی سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ اگر آپ دنیا میں کوئی حکومت یا ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، اگر پالیسی وضع کرنا اور طاقت کا توازن بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اہداف سیاسی نظاموں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

    اس لیے ایک شہری ہونے کے ناتے ہر شخص کی توجہ کا مرکز ملک میں اچھے اور بہتر سیاسی نظام کی تعمیر ہونا چاہیے۔ ایک شہری جو سیاسی طور پر ووٹر ہوتا ہے، کو سیاسی نظام پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ اس پر کتنی ہی پابندیاں عائد کیوں نہ ہو جائیں، وہ یہ بات واضح کہتا رہے کہ شفاف سیاسی نظام کے علاوہ ہر دوسری صورت مسترد ہے۔

    یہ جھگڑا کہ ’’دنیا کن عناصر پر چلی ہے‘‘ مقامی یا قومی سیاست کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہزار قسم کے مسائل میں گھرا شہری _ عملاً جس کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت نہ ہو _ نہ اس سوال کا درست جواب فراہم کر سکتا ہے، نہ درست جواب کی نوعیت کو ٹھیک سے سمجھ سکتا ہے۔ پریشانیوں، محرومیوں میں گھرا شہری جذبات کی گرفت میں ہوتا ہے۔

    آج کی حقیقی دنیا آئیڈیلزم اور لبرلزم کی گرفت میں ہے۔ جس نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام تشکیل دے رکھا ہے، جس کے تحت اقوام متحدہ جیسے اداروں، اقتصادی مفادات کی بجائے بین الاقوامی تعاون، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ اس کے لیے صرف طاقت اور معیشت کافی نہیں۔

    دنیا جن عناصر پر چلتی ہے، اگر ہم نے اس کا یہاں تصور کرنا شروع کر دیا، تو اجتماعی سطح پر ہمارے سماجی شعور میں زبردست وسعت پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کیوں کہ آئیڈیلزم کی ماری اس دنیا کے نظام کی زیریں سطح پر ایک زبردست تنقیدی نظام کا دھارا بھی بہہ رہا ہے۔ ایک ایسا شہری جس نے اپنے خطے میں کبھی ’تعمیری نظام‘ نہ دیکھا ہو، اس کے لیے کسی تنقیدی نظام کا درست تصور کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔

    طاقت، معیشت، فوج، سرحدیں _ یہ سب تلخ حقیقتیں ہیں۔ بد قسمت لوگ ان حقیقتوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہتے ہیں اور ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن سماجی تعمیر کے نظریے کا جال بھی ان سب کے گرد پوری طرح کسا ہوا ہے۔ اس لیے قومی سطح ہی نہیں بین الاقوامی تعلقات کو بھی یہ مختلف نظریات، شناخت، ثقافت، اقدار، اور بیانیوں کا تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔ ہماری اسی تلخ دنیا میں رئیلزم اور لبرلزم کے روایتی نظریات بھی چینلج ہوتے رہتے ہیں، یعنی: ’’دنیا جس طرح ہے، وہ اسی طرح ہو سکتی تھی — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسی طرح ہونی ہی تھی۔‘‘

    ریاستوں کا مفاد کیا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ریاستوں کا رویہ کیا ہے؟ اس کی تشکیل اُس کے خیالات اور سماجی شناخت سے ہوتی ہے، مفادات سے نہیں۔ یہ نکتہ اب عام طور پر کوٹ کیا جاتا ہے کہ ’’قومی مفاد‘‘ بھی ایک تشکیل شدہ (constructed) تصور ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

    امریکا اس کی قریب ترین مثال ہے __ بین الاقوامی سیاست کا اسٹرکچر مادی حقائق سے نہیں بلکہ سماجی تعمیر سے بنتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے بڑی فوج، ایٹمی ہتھیار، اور بڑی معیشت ہے لیکن ایران اور شمالی کوریا سمیت چند ممالک کے علاوہ باقی دنیا امریکی طاقت کو خطرہ نہیں تحفظ کی علامت سمجھتی ہے۔ یعنی یہاں طاقت خود کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ایک بیانیہ ہے جو اس طاقت کے لیے معنی فراہم کر رہا ہے۔ اس لیے خطرے اور تحفظ کی تشریح سماجی تناظرات کے تحت ہوتی ہے۔ امریکا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، 19 ویں صدی میں اس پر شناخت کے حوالے سے تفرُّد پسندی کا بھی دور گزر چکا ہے۔

    اس خطے کے شہری کا عام خیال یہ ہے کہ امریکا کا کردار اس کی فوجی اور ٹیکنالوجی کی، اور معاشی طاقت طے کرتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ امریکا کا کردار اس کی ’’قومی شناخت‘‘ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ بیانیاتی شناخت پر استوار ہے جو اسے عالمی نظام کا مربی بنا کر پیش کرتا ہے _ امریکا نے خود کو عالمی سیاست میں ’’جمہوریت کا محافظ‘‘ اور ’’آزادی کا علم بردار‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ سماجی تصور کی مدد سے ممکن ہو سکا، مادی قوت پر نہیں۔ اگر عالمی سلامتی کا بیانیہ (بیانیے ہمیشہ سوالیہ نشان کی زد پر اسی لیے ہوتے ہیں کہ یہ دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں) تشکیل نہ دیا جاتا تو افغانستان یا عراق پر حملہ ممکن نہ تھا۔

    سماجی تعامل اور تاریخی تجربات سے سیکھنے والے اگر سیاسی بیانیے طاقت ور نہ ہوتے تو برطانیہ، جاپان اور جرمنی آج اتحادی نہ ہوتے۔ روس، چین اور ایران گہرے رشتوں میں نہ بندھے ہوتے۔ ہمیں طاقت کی تعبیر سماجی سطح ہی پر کرنی پڑتی ہے، اور جب ہم دوستی اور دشمنی کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارا ایک اجتماعی تصور ہوتا ہے، اسی طرح قومی مفاد کوئی فطری چیز نہیں بلکہ سماجی بیانیہ ہے۔ اس لیے ہمیں ایسے سماجی بیانیے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اندرونی سطح پر ہماری شناخت کے مسائل کو حل کر سکے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری شناخت کو بہتر بنا سکے۔

    کسی نازک وقت کی آزمائش خود ایک کمزور بیانیے کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ تسلسل کے ساتھ آتا رہے تو آخرکار ’’نازک وقت‘‘ کے بیانیے پر لوگوں کا اعتماد کم زور ہو جاتا ہے۔

    تنقیدی نظام کا ایک دھارا فیمینزم بھی ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ایک گالی ہے۔ لیکن دنیا اس دھارے کو قبول کرتی ہے اس لیے یورپ اور امریکا میں عورت کی سماجی صورت حال باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہ فکر تو اس اوپر کے سارے بیانیے پر کہے گی کہ یہ مردانہ (patriarchal) انداز فکر ہے۔ کیا ہم اس تنقید کو کھلے دل سے عزت دے سکتے ہیں!

    تنقید کا ایک دھارا یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی نظام مغربی طاقتوں کا تشکیل کردہ ہے، اور وہ اپنے نوآبادیاتی مفادات، شناخت، اور بیانیے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا اس تنقید کو بھی قبول کرتی ہے اور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی سطح پر خود کو اس حوالے سے بہتر بناتی رہتی ہے۔

    دراصل، دنیا کیسے چلتی ہے، اس حوالے سے طاقت کے نظام، سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کو جوں کا توں مان لینا خود ایک مسئلہ ہے، اس لیے روایتی مفروضات کو چیلنج کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی دنیا کی محض تشریح کافی نہیں، اسے بدلنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔

    دنیا کیسے چلتی ہے؟ یہ دیکھیں کہ اس وقت عالمی نظام میں اقدار اور ثقافتی معیارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غلامی، نوآبادیات اور ایٹمی ہتھیار ایک وقت میں جائز سمجھے جاتے تھے، مگر اب ناقابلِ قبول ہیں۔ تاریخی عمل کے ذریعے انسانی حقوق اور جمہوریت ہی نے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ جیسے اصول نے بھی ایک عام قدر کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    آج کی دنیا کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے فلسفیانہ تصورِ ‘‘ساخت’’ یا زیر سطح نظاموں (underlying structures) کا مطالعہ بھی ضروری ہے، بنیادی طور پر یہ لسانیات (سوئس ماہر لسانیات فرڈیننڈ سوسیور نے بیسویں صدی کی ابتدا میں میں یہ تصور پیش کیا) اور ثقافتی بشریات (Cultural anthropology__ کلاڈ لیوی اسٹراس نے اس کا بشریات پر اطلاق کیا) کے شعبے کا تصور تھا، لیکن اس میں اتنی فکری کشش تھی کہ یہ فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، سماجیات، ادب اور بین الاقوامی تعلقات جیسے متنوع شعبوں تک پھیل گیا۔ اس تصور نے دراصل غیر مرئی ساختوں (invisible structures) کی دریافت کی، اور پتا چلا کہ کسی بھی نظام کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ تصور ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ کوئی مظہر خواہ کسی بھی شعبے کا ہو، ساخت (structure) کے تصور میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس مظہر کے اساسی پیٹرنز یا سسٹمز کو بے نقاب کر سکے، اور بتا سکے کہ دراصل معانی کیسے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج ساختیات کا یہ تصور طاقت، شناخت، ثقافت، قانون اور بین الاقوامی نظام کو سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کسی شے کا مطلب اس کے مخالف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ اس کی انفرادی حقیقت سے۔ ساختیات نے بتایا کہ نظریہ خود بہ خود پیدا نہیں ہوتا، نہ یہ کسی انسان کی سوچ ہوتی ہے، نہ کوئی آفاقی سچائی _ بلکہ یہ ثقافتی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ترقی کا نظریہ مغرب کے مخصوص تاریخی، لسانی، اور معاشی ساخت سے پیدا ہوا۔

    اگر ہم عالمی نظام کی ساخت کو سمجھنا شروع کریں گے تو ہمارے راستے میں مارکسی نظریات بھی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، ان کے بغیر فہم کی ہماری کوشش علمی نہیں ہوگی، بلکہ تعصب کا شکار ہو جائے گی۔ یعنی زبان، ذہن، بیانیے، اور ثقافتی کوڈز کا تجزیہ ہی کافی نہیں، مادّی حقیقت سب سے اہم ہے، کیوں کہ سماجی شعور مادی حالات سے پیدا ہوتا ہے۔ لوئی التسر نے ساختیات اور مارکسزم کو ملا کر ایک امتزاجی نقطہ نظر پیش کیا۔ ساختیات اگرچہ غیر سیاسی ہے لیکن سیاست کے شعبے پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔ لیکن ساختیات تاریخ سے کٹی ہوئی ہے اس لیے مارکسی فہم اس گیپ کو بھرتی ہے۔

    اسی طرح، ساختیات سے آگے کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ خود یہ تصور بھی کافی کرخت اور بے لوچ ہے، جس کی وجہ سے یہ محدود ہو گیا ہے۔ کیوں کہ جب معانی، ساخت، اور شناخت جیسے قضیوں کا مزید تجزیہ کیا گیا تو دریافت ہوا کہ ان میں استحکام نہیں ہے؛ معنی سیال ہے، سیاق بدلتے ہی معنیٰ بھی بدل جاتا ہے۔ ساختیات نے بتایا کہ ہر نظام میں ایک ساخت اور مستقل مرکز ہوتا ہے، پوسٹ اسٹرکچرلزم نے واضح کیا کہ مرکز کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ یہ فلسفیانہ تناظر ہمیں عالمی سیاست کے ’’مراکز‘‘ کو سمجھنے میں وسیع مدد فراہم کرتے ہیں۔ کہ کس طرح کوئی مرکز ہمیشہ قائم نہیں رہتا، یعنی، تاریخ بدلتی رہتی ہے، ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔

    ساخت نظر نہیں آتی، لیکن ہمیں اپنے معنی کے ذریعے متاثر کرتی ہے۔ انسان، ادارے، نظریات — سب ان ہی ساختوں کے ’’زیر اثر‘‘ ہوتے ہیں۔ شناختیں، تصورات اور معانی ان ساختوں کی پیداوار ہیں، پہلے سے موجود structures of meaning ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں بتاتی ہیں کہ دیکھو دنیا کی حقیقتیں بس یہی ہیں! ہم ہر پل ان ساختوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ان سے روگردانی پر یہ ساختیں ہم سے ناراض دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ ساختیں سماجی قوتوں کو ہماری سرکوبی کے لیے متحرک کر دیتی ہیں۔ طے شدہ معنی والی ان ساختوں پر سوال اٹھانا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ، ایک اور حقیقت بھی ہے، جسے ہم آسانی سے فراموش کرتے رہتے ہیں __ یہ کہ ریاستیں اور انسان اپنے بیانیے، شناخت اور اقدار وقت کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اور کرتے رہتے ہیں۔

  • امریکہ سے سینکڑوں ‘غیر قانونی تارکین وطن’ ملک بدر

    امریکہ سے سینکڑوں ‘غیر قانونی تارکین وطن’ ملک بدر

    واشنگٹن : امریکہ میں سینکڑوں ’غیرقانونی‘ تارکین وطن کو گرفتار کرکے ملک بدر کر دیا گیا، یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے حالیہ فیصلوں میں سے ایک ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے 538 نے غیرقانونی جرائم پیشہ تارکین وطن کو گرفتار کیا ہے اور سینکڑوں کو فوجی ہوائی جہاز کے ذریعے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

    یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں بتائی،

    ان کا کہنا تھا کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری کی کارروائی ہے، صدرٹرمپ کے عوام سے کیے گئے وعدے پورے ہو رہے ہیں۔

    نومنتخب صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے موقع پر اپنے منشور میں غیر قانونی امیگریشن کے خلاف سخت قوانین نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا اور انہوں اپنے دوسرے دور صدارت کا آغاز بھی کئی ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے کیا، جن کا مقصد امریکہ میں غیر قانونی داخلے کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنا تھا۔

    صدر ٹرمپ نے امریکی تاریخ میں ڈی پورٹ کا سب سے بڑا آپریشن شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس سے ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں موجود ایک کروڑ 10 لاکھ غیرقانونی تارکین وطن متاثر ہوں گے۔

    اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا سے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ختم کردیں گے اور ملکی سرحدوں کاتحفظ ہرقیمت پریقینی بنائیں گے کسی کو امریکا سے ناجائز فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔

    اپنے پہلے خطاب میں ٹرمپ نے جنوبی سرحدوں پر نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر سے جرائم پیشہ افراد ہمارے ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہوئے آج سے ہم لاکھوں غیرقانونی طور پر آئے لوگوں کو واپس بھیجیں گے۔

  • شمالی ورجینیا کا ایک قصبہ جہاں جگنو روشنی بکھیرتے ہیں!

    شمالی ورجینیا کا ایک قصبہ جہاں جگنو روشنی بکھیرتے ہیں!

    میں شمالی ورجینیا کے جس قصبے میں رہتا ہوں، اس میں ہر طرف ہریالی ہے۔ گھر کے چاروں طرف اتنے اور ایسے اونچے اونچے درخت ہیں کہ جنگل کا گمان ہوتا ہے۔ سڑکوں کے اطراف گھاس کے قطعات اور رنگ برنگے پھول نظر آتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتا ہوں تو خوش آواز پرندے گیت گاتے ملتے ہیں۔ سہ پہر کو واپسی پر تتلیاں استقبال کرتی ہیں۔ مغرب کے بعد جگنو روشنی بکھیرتے ہیں۔ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں، حقیقت کا بیان ہے۔

    گھر کے عقب میں ایک ندی بہتی ہے۔ سردیوں میں سکڑ جاتی ہے، لیکن گرمیوں میں خوب شور مچاتی ہے۔ سال کا بیش تر حصہ موسم خوش گوار رہتا ہے۔ اکثر بادل چھائے رہتے ہیں۔ ہفتے میں ایک دو بار بارش ہو جاتی ہے۔ صبح یا شام کو ہوا تیز چلتی ہے تو خنکی ہو جاتی ہے۔ محلہ صاف ستھرا ہے اور کئی اقوام کے تارکین وطن آباد ہیں۔ ہم سائے ہم درد ہیں۔ بجلی پانی جانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس قصبے کی آبادی صرف 40 ہزار ہے، لیکن بہترین اسکول، اپنا کالج اور کئی اسپتال ہیں۔ ڈاک خانہ، لائبریری اور عجائب گھر ہے۔ مسجد اور امام بارگاہ بھی ہے۔ گرمیوں میں سورج نو بجے غروب ہوتا ہے، لیکن بہت سی دکانیں پانچ بجے اور باقی سات بجے تک بند ہو جاتی ہیں، سپر مارکیٹس کا وقت نو بجے ہے۔ بعض میڈیکل اسٹور 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ ہر گلی محلے میں دکان نہیں ہوتی۔ کاروباری علاقہ مخصوص ہے، جہاں رہایش نہیں ہوتی۔ شمالی ورجینیا میں ایسے ہر مقام پر مفت بے حساب پارکنگ دست یاب ہوتی ہے۔ آٹے دال اور دوا سمیت ہر شے خالص ملتی ہے۔ کھانے پینے کے ہر شے پر استعمال کی آخری تاریخ درج ہوتی ہے۔ مسلمان دکانوں کے علاوہ دوسرے سپر اسٹورز پر بھی حلال گوشت مل جاتا ہے۔

    نہ کوئی فون چھینتا ہے، نہ گاڑی چوری ہوتی ہے، نہ کبھی کوئی پولیس والا دکھائی دیا۔ ڈاکیا گھر کے باہر کتابوں کے پیکٹ رکھ جاتا ہے۔ کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ شراب ہر اسٹور میں بکتی ہے، لیکن آج تک کسی کو نشے میں دھت نہیں دیکھا۔ ہمارے محلے میں زیادہ ہندوستانی پاکستانی نہیں، لیکن کہیں ملیں بھی تو آنکھیں نہیں ملاتے۔ باقی ہر قوم کے واقف اور اجنبی سب مسکرا کے ملتے ہیں۔ ہیلو ہائے اور ’گڈ مارننگ‘ ضرور کہتے ہیں۔ سڑک کی صفائی کرنے والا محنت کش میکسیکن ہر صبح ”یو ہیو اے بلیسڈ ڈے“ کہتا ہے۔

    علاج منہگا ہے اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ ہفتوں بعد ملتا ہے، لیکن اسپتالوں کی ایمرجینسی 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ نام پتا بعد میں پوچھتے ہیں، طبی امداد پہلے فراہم کرتے ہیں۔ کوئی حادثہ ہو جائے، تو ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس چند منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ ایمبولینس میت ڈھونے والا ’کیری ڈبا‘ نہیں، جان بچانے والی گاڑی ہوتی ہے۔سڑکوں پر اسپیڈ بریکر نہیں ہوتے۔ سائیکل چلانے والوں کے لیے بیش تر سڑکوں پر الگ لین بنی ہے۔ اسٹریٹ لائٹس رات بھر روشن رہتی ہیں۔ سگنل آدھی رات کے بعد بھی کام کرتے ہیں اور قانون پسند شہری ان کا احترام کرتے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی سگنل پر کبھی کبھی خیرات مانگنے والے مل جاتے ہیں، لیکن نہ گاڑی کے سامنے آتے ہیں، نہ انگلی سے شیشہ بجاتے ہیں، نہ کچھ کہتے ہیں۔ بس ایک پلے کارڈ لے کر کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کو گانا بجانا آتا ہے تو اپنا ساز لے کر میٹرو اسٹیشن کے سامنے پہنچ جاتا ہے۔

    ہر سڑک پر راستہ بتانے والے بورڈ لگے ہیں۔ ٹریفک کی علامتوں کے علاوہ جگہ جگہ حد رفتار کی نشان دہی کی گئی ہے۔ عام طور پر سر راہ اشتہاری بورڈ نہیں لگائے جاتے۔ ہر آبادی کی طرح ہمارے قصبے کے برابر سے بھی ہائی وے گزرتی ہے۔ اس ہائی وے پر آپ ایک لین میں رہتے ہوئے ایک رفتار سے سیکڑوں میل سفر کر سکتے ہیں۔ نہ کوئی ہارن بجاتا ہے، نہ ڈپر مارتا ہے۔ سپر ہائی وے پر کوئی پیٹرول پمپ تک نہیں ہوتا۔ ایندھن لینا ہے یا کچھ کھانا پینا ہے، تو ہائی وے سے اتریں اور قریبی کمرشل ایریا جائیں۔

    ہمارے گھر سے چار قدم پر بس اسٹاپ ہے جہاں آٹھ مختلف روٹس کی بسیں ہر چند منٹ بعد ٹھیرتی ہیں۔ بہت سے بس اسٹاپ پر بینچیں لگی ہوتی ہیں اور بارش سے بچنے کے لیے سائبان ہوتے ہیں۔ اسکول بس رکتی ہے، تو آگے پیچھے کی تمام گاڑیاں ٹھیر جاتی ہیں۔ جب تک اسکول بس دوبارہ نہ چلے، کوئی گاڑی حرکت نہیں کرتی۔

    شمالی ورجینیا کے اسکول اچھی پڑھائی کے لیے مشہور ہیں۔ بارہویں تک تعلیم مفت ہے۔ فیس، کتابوں کاپیوں اور لیپ ٹاپ کے لیے ایک پیسا نہیں دینا پڑتا۔ کوئی یونیفارم نہیں۔ بچہ جو مرضی کپڑے پہن آئے۔ اسکول وین بھی مفت، لیکن یہ سہولت ایک میل سے کم فاصلے پر رہنے والے بچوں کے لیے دست یاب نہیں۔ انہیں پیدل اسکول آنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بڑے رقبے پر ہیں۔ کئی عمارتیں اور کئی میدان۔ لیب اور جمنازیم۔ ہر بچے کے لیے روزانہ ورزش، بھاگ دوڑ اور کھیل میں حصہ لینا لازم ہے۔ محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کہتا ہے کہ آپ ہم سے اپنی زبان میں بات کریں۔ اسکول یا اسپتال میں کوئی آپ کی زبان جاننے والا نہیں تو وہ ایسا شخص بھرتی کرتے ہیں۔

    چہار جانب درختوں کے باوجود قصبے میں کئی پارک ہیں۔ ایک پارک ایک مربع میل کا ہے۔ کسی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو بہتے پانی کا رخ بدلنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو کوئی جانور یا پرندہ مارنے کی اجازت نہیں۔ کئی تنظیمیں ہیں جو مالک سے بچھڑ جانے والے پالتو جانوروں کو سنبھالتی ہیں۔ انہیں بچوں کی طرح پالتی ہیں۔ کوئی گود لینا چاہے تو مفت فراہم کرتی ہیں۔ صبح سویرے لوگ جاگ جاتے ہیں اور سر شام سو جاتے ہیں۔ صبح اور سہ پہر ایک دو گھنٹوں کے سوا زیادہ ٹریفک نہیں ملتا۔ کسی گاڑی یا گھر سے تیز موسیقی بلند نہیں ہوتی۔ مسجد، امام بارگاہ یا گرجا گھر پر لاؤڈ اسپیکر نہیں لگایا جاتا۔

    (مصنّف: مبشر علی زیدی)

  • امریکہ نیتن یاہو کو فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے وقت دے رہا ہے، حماس

    امریکہ نیتن یاہو کو فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے وقت دے رہا ہے، حماس

    حماس کے سیاسی بیورو رکن اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور اسیروں کے تبادلے سے متعلقہ کوئی بھی نئی امریکی شرط اسرائیلی عوام کے غصے کو کم کرنے اور فلسطینیوں کو مزید قتل کرنے کیلیے وقت دینے کا بہانہ ہوگا۔

    حماس کے سیاسی بیورو رکن اسامہ حمدان کاقطری چینل الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو بائیڈن کی معاہدے کے حوالے سے کسی نئی پیشکش کی اطلاع مجھے میڈیا سے ملی ہے۔

    امریکہ نے صرف ثالث ممالک سے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں البتہ وہ اس جنگ میں اسرائیل کا اتحادی ہے جس نے اسرائیلی وزیر اعظم پر دباؤ ڈالنے کی بھی خاص کوشش نہیں کی۔

    حماس کے سیاسی بیورو رکن کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اسرائیل کی شرائط پر ممکن نہیں ہوگی، حملوں کے مکمل خاتمے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا تک اسیر اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔

    اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کا پیشکش کے حوالے سے بیان اسرائیل -امریکہ ناکامی کا نتیجہ ہے جو کہ صرف اسرائیلی عوام کے غصے کو کم کرنے سمیت مزید فلسطینوں کا قتل کرنے کیلیے نیتین یاہو کومزید وقت فراہم کرے گا۔

    حماس کے رکن حمدان نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ حماس نے فلاڈیلفی راہداری میں اسرائیلی فوج کی موجودگی کے ہر فارمولے کو مسترد کر دیا ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دو ستمبر کی اپنی اشاعت میں ایک نامعلوم عہدیدار کے حوالے سے خبر میں لکھا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی تجویز پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

  • ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیل اور امریکہ کو خبردار  کردیا

    ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیل اور امریکہ کو خبردار کردیا

    تہران : ایرانی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر نہیں روکا تو مشرق وسطیٰ کے حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ نے اسرائیل اور امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر نہیں روکتا تو مشرق وسطیٰ کے حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

    امیر عبداللہیان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر انھوں نے فوری طور انسانیت کے خلاف جرائم اور غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ بند نہ کیا تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یوں خطہ قابو سے باہر ہو جائے گا۔

    دوسری جانب امریکا کی اسرائیل کو بھرپور مدد فراہم کرنے پر ایران کا کہنا ہے کہ امریکا نہتے فلطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم کا پارٹنر بن رہا ہے، اسرائیلی ظلم کے خلاف قراداد بھی ویٹو کردی۔

    ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا سلامتی کونسل امن قائم کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے، حماس رہنما اسماعیل ہنیہ نے ایرانی وزیرِخارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ جرائم کو روکنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔
    irani fo

  • امریکہ کا 247واں یومِ آزادی آج منایا جائے گا

    امریکہ کا 247واں یومِ آزادی آج منایا جائے گا

    واشنگٹن: امریکہ کا 247واں  یومِ آزادی آج دھوم دھام سے منایا جائے گا اس روز  امریکی ثقافت کا خاص اظہار باربی کیوز کے اہتمام، پریڈز اور آتش بازی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 4 جولائی کو امریکہ کا یومِ آزادی منانے کی ابتداء تب ہوئی جب امریکہ کی دوسری کانٹی نینٹل کانگریس نے 1776 میں اعلانِ آزادی کو متفقہ طور پر منظور کر لیا اور یوں امریکی نو آبادیوں نے سلطنتِ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔

    اس کے ایک سال بعد ‘ لائبریری آف کانگریس’ کے مطابق، فلا ڈلفیا میں امریکہ کا یومِ آزادی منایا گیا۔

    247واں  یومِ آزادی کی خوشی میں وائٹ ہاؤس میں اہم تقریب ہو گی، نیویارک سمیت مختلف شہروں میں رنگا رنگ پریڈ اور آتش بازی کو مظاہرہ کیا جائے گا جبکہ یومِ آزادی پر ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا آبائی باشندوں کے علاوہ ہجرت کرکے آنے والوں کا ملک ہے جہاں پر اکثریت ان افراد کی ہے جو دوسرے ممالک سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے ہیں۔

  • روس  کا امریکہ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی ڈیل معطل کرنے کا اعلان

    روس کا امریکہ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی ڈیل معطل کرنے کا اعلان

    ماسکو : روس نے جارحانہ پالیسوں کے باعث امریکہ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی ڈیل معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی صدر ولامیر پیوٹن نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ نیو اسٹارٹ معاہدہ معطل کر رہے ہیں۔

    پیوٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی روس کے خلاف جارحانہ پالیسز کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا تاہم روسی کمپنی روزاٹام ایٹمی تجربات کے لیے اپنی تیاری جاری رکھے گی۔

    نیواسٹار معاہدے میں روس اور امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد محدود رکھنے کا کہا گیا تھا۔

    دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے روسی صدر کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ روس نے ایٹمی ہتھیاروں کے کنڑول بارے غیر ذمہ دارانہ فیصلہ کیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ روس کا نیواسٹارٹ معاہدے میں شرکت کو معطل کرنا افسوسناک ہے اور ہم غور سے دیکھ رہے ہیں کہ روس کیا کرنا چاہتا ہے۔

  • امریکہ  نے چینی فضائی حدود میں  امریکی غباروں کی پرواز کی تردید کر دی

    امریکہ نے چینی فضائی حدود میں امریکی غباروں کی پرواز کی تردید کر دی

    واشنگٹن: امریکہ نے چینی حدود میں امریکی غباروں کی پرواز کی تردید کر دی اور چینی حکومت کا دعوی غلط قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ نے بیجنگ کے اس دعوے کی تردید کی کہ واشنگٹن چینی فضائی حدود میں جاسوسی غبارے اڑا رہا ہے، یہ الزامات اس وقت لگائے گئے جب امریکہ نے ہفتے کے آخر میں ایک چوتھی "نامعلوم چیز” کو مار گرایا۔

    وائٹ ہاؤس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ "ہم چین پر نگرانی کے غبارے نہیں اڑا رہے ہیں۔”

    قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ بیجنگ کا چین پر امریکی غباروں کی پرواز کا دعوی غلط ہے اور امریکہ نے جن غباروں کی نشاندہی کی ہے کہ وہ چین کے زیر کنٹرول ہیں۔

    چین جنوبی بحیرہ چین کی وسیع رقبے پر دعوی کرتا ہے جبکہ یو این کنونشن آن دی لاء آف چین کے ان دعوں کو تسلیم نہیں کرتا، امریکہ کو ان حدود میں نیویگیشن آپریشن کرنے کی آزادی ہے۔

    دوسری جانب چین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سے اب تک 10 امریکی غباروں نے بلا اجازت چینی فضائی حدود میں پرواز کی۔