Tag: امریکی ادیب

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا

    نکتہ رس اور تیز فہم آرٹ بکوالڈ نے زندگی کا خوب مطالعہ کیا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں۔

    آرٹ بکوالڈ (art buchwald) مشہور کالم نویس تھے۔ وہ اپنی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت کے زیرِ اثر واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اس خوب صورتی سے اپنی تحریر میں سموتے تھے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح تھے۔ دنیا بھر میں انھیں بہترین طنز نگار مانا گیا۔

    بکوالڈ نے امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار کے لیے 40 سال تک کالم لکھے جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ آرٹ بکوالڈ کی کتابوں کی تعداد 33 تھی۔

    کالم نگار کی حیثیت سے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ آرٹ بکوالڈ کو ان کے گہرے طنزیہ اور تیکھے جملوں نے امریکیوں میں مقبول بنایا۔ ان کا ایک مشہور جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    صرف امریکا میں ان کے مداح لاکھوں میں تھے۔ بعد میں انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک طنز نگار کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ بکوالڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں لکھتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں بکوالڈ کی شایع شدہ تحریروں پر نظر ڈالیں تو وہ سیاست اور سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں جس نے انھیں ایک بیدار مغز قلم کار کی حیثیت سے ہم عصروں میں بھی ممتاز کیا۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنا زورِ‌ قلم اور طنز و مزاح کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے بکوالڈ نے اپنی وفات سے ایک برس قبل اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بعد میں وطن واپس آکر اخبارات کے لیے ہزاروں کالم لکھے جس میں خاص طور امریکا میں اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے کے فرد تھے۔ اپنے والد کے کاروبار میں ناکامی کے بعد انھیں کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا جو طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر بلیغ و بامقصد ہوجاتا۔ آرٹ بکوالڈ کی شہرت اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور اہلِ قلم اور کالم نگار ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن اَروِنگ کو دنیا کے بہترین مصنّفین میں شمار کیا جاتا ہے جس کی ہجو میں تضحیک اور تذلیل نہ تھی اور جس کی ظرافت نے محض ٹھٹھا اور تمسخر نہیں اڑایا بلکہ اسے اپنے پُرکشش طرزِ بیان سے دل چسپ بنا دیا۔ 1859ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے ارونگ کی کتابیں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس نے اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی تھی اور کالج میں داخلہ لینے کے بجائے نئے نئے مقامات پر جانے، گھومنے پھرنے اور مختلف لوگوں سے میل ملاقات کا شغل اختیار کیا۔ وہ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا۔ یہ سب اسے بچپن ہی سے پسند تھا۔ اس شوق اور سیلانی طبیعت نے اروِنگ کو ایک سیّاح کے طور پر شہرت دی اور پھر امریکا کے مقبول مصنّفین کی صف میں‌ لا کھڑا کیا۔ بطور مصنّف اروِنگ کو پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد اپنے وطن لوٹا اور اپنا سفر نامہ شایع کروا دیا۔ بعد کے برسوں میں واشنگٹن اروِنگ کو دنیا نے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے پہچانا۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا ہے، ‘میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔’

    وہ 1783ء میں‌ نیویارک کے ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک محبِّ وطن مشہور تھا اور یہی خوبی اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس کو عظیم اور سب سے خوب صورت خطّہ مانتا تھا اور اس کے قدرتی نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ایک نہایت ملن سار تھا، وضع دار اور مجلس پسند شخص تھا۔ اسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور بہادر و مہم جُو قسم کے لوگ پسند تھے وہ دنیا کی سیر، بالخصوص تاریخی مقامات اور نوادرات دیکھنے کا شوق اور منفرد اور نمایاں کام کرنے والوں سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور ہر اس جگہ پہنچنے کو بیتاب ہو جاتا جہاں کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوسکتی تھی۔

    اروِنگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور امریکا میں اس کی اشاعت کے ساتھ ہی اروِنگ کا نام مشہور ہوگیا۔

    اروِنگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کر دی۔ 1849ء میں ارونگ نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور ان کے دور کے اہم واقعات بھی لکھے۔ اس کے علاوہ حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف ثابت ہوئی۔

    اروِنگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    اس مصنّف اور مضمون نگار کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام نے امریکی معاشرے اور وہاں ثقافت کو بہت متأثر کیا اور جس کا ثبوت امریکا کے مختلف شہروں میں اروِنگ کے یادگاری مجسمے اور اس سے موسوم متعدد لائبریریاں ہیں۔

    پاک و ہند کے نام وَر ادیبوں نے اروِنگ کی کتابوں اور منتخب مضامین کو انگریزی سے اردو میں ڈھالا اور یہ قارئین میں مقبول ہوئے۔ ممتاز ادیب غلام عباس نے 1930ء میں ارونگ کی کتاب “Tales of the Alhambra” کا آزاد ترجمہ ’’الحمرا کے افسانے‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو اس زمانے کی مقبول کتاب بنی۔کتاب کے قارئین میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے آگے چل کرادب میں اونچا رتبہ پایا اور یہ ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ٹھہری۔ اسی طرح اس کا طلسماتی سپاہی کا قصہ سیّد وقار عظیم کے قلم سے اردو میں‌ ترجمہ ہوا اور پسند کیا گیا۔

  • مارک ٹوین: مشہور امریکی طنز نگار جن کی حاضر جوابی کی بھی مثال دی جاتی ہے

    مارک ٹوین: مشہور امریکی طنز نگار جن کی حاضر جوابی کی بھی مثال دی جاتی ہے

    مارک ٹوین دنیا بھر میں‌ طنز نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ وہ ایک ناول نگار، صحافی اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 21 اپریل 1910ء کو مارک ٹوین نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    اس امریکی مصنّف کا اصل نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا جو 1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہوئے۔ وہ جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ ان کے ناول ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ بھی شائقینِ ادب میں بہت مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے مارک ٹوین و توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اپنی دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس مارک ٹوین بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

  • فاکنر اور امریکی روح کی پنہاں کشمکش

    فاکنر اور امریکی روح کی پنہاں کشمکش

    فاکنر کا فن امریکی ادب کی ٹیڑھی کھیر ہے۔ فاکنر کو پڑھنا اور سمجھنا دونوں محنت طلب کام ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ 1946ء میں فاکنر کی ایک بھی کتاب ناشروں سے دست یاب نہ ہو سکتی تھی۔ اگر فرانسیسی اوّل اوّل اس کا جوہر نہ پہچانتے اور بعد ازاں اسے نوبل انعام نہ ملتا تو شاید آج بھی اس کی تصنیفات عام طور پر دست یاب نہ ہوتیں اور ہیرمین میلول کی طرح وہ بھی گمنامی کی زندگی بسر کرتا، حالاں کہ فاکنر ہیمنگوے سے کہیں زیادہ امریکی ہے اور اس کی اچھی تحریروں سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوبی علاقے کی مٹی کی مہک صاف آتی ہے، لیکن اس کی مشکل پسندی اور اضطراب نے اسے مقبول نہ ہونے دیا۔ اُس کے بجائے ہیمنگوے امریکی ادب کا بین الاقوامی نمائندہ قرار پایا۔

    مندرجہ بالا سطور محمد سلیم الرّحمٰن کے مضمون سے نقل کی گئی ہیں جو انھوں نے امریکا کے نام وَر ادیب اور ناول نگار ولیم فاکنر پر لکھا تھا۔

    1897ء میں‌ پیدا ہونے والے ولیم فاکنر نے 1962ء میں‌ سانس لینے کی مشقت سے نجات پائی۔ اس نے قلم اور اپنے تخیل سے ادب نگری کو مالا مال کر دیا، اس کی ناول نگاری اور مختصر کہانیوں کے علاوہ شاعر اور مضمون نویس کے طور پر پہچان بنائی۔ اسے ادبی جینیئس کہا جاتا ہے جو بعد میں نوبیل انعام کا مستحق قرار پایا۔

    محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے ایک مضمون میں اس امریکی تخلیق کار کے بارے میں لکھا:

    "فاکنر نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں دراصل یہ دکھایا ہے کہ خانہ جنگی ابھی ختم نہیں ہوئی، اسی شد و مد سے جاری ہے۔ صرف پیکار کی سطحیں بدل گئی ہیں اور یہ کہ امریکی سرزمین پر کالوں کا وجود اور ان کے ساتھ بدسلوکیاں، جو مسیحی تعلیمات کے صریحاً منافی ہیں، پھانسوں کی طرح ہیں جو سفید فام باشندوں کے ضمیر میں کھٹکتی رہتی ہیں اور شاید ضمیر تو نام ہی ایسی چیز کا ہے جس میں کچھ نہ کچھ پھانس کی طرح کھٹکتا رہے۔

    فاکنر ان فن کاروں میں نہیں جو کسی نقطہ نظر کو زندگی پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اس کا وژن تو ایک جہان ہے، جس میں جنگل اور دریا اور جانوروں کی صورت میں فطرت بھی موجود ہے، شکاری بھی ہیں۔ جانوروں کے بھی، کالوں کے بھی اور اپنے ضمیر کے شکار بھی، اور جہاں زندگی، ہومر کے پیر مردِ بحری کی طرح، شکلیں بدل کر سامنے آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کی بدلتی ہوئی شکلوں میں ہمیں اپنے سوالوں کے جوابوں کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

    فاکنر کو پڑھے بغیر امریکی روح کی پنہاں کشمکش کے بارے میں رائے قائم کر لینا ایسا ہی ہے جیسے ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگانا۔”

  • وہ مضمون جس کی اشاعت سے وائٹ ہاؤس میں بھونچال آگیا

    وہ مضمون جس کی اشاعت سے وائٹ ہاؤس میں بھونچال آگیا

    جنگِ ویت نام کے خلاف آواز اٹھانے اور تحریک چلانے والوں میں جہاں برٹرینڈرسل اور ژاں پال سارتر جیسے بلند قامت ادیبوں کا نام شامل ہے، وہیں نوم چومسکی نے بھی امریکی جارحیت کو بے نقاب کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

    اس دور میں ان کا جامع مضمون "دانش وروں کی ذمے داری” شایع ہوا جس نے جنگ مخالف کارکنوں کے جذبے میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    امریکا کی حکومت حُرّیت پسند ویت نامیوں کو بزور کچلنے پر تُلی ہوئی تھی۔ امریکا کے عوام سچّی خبروں سے محروم تھے، کیوں کہ حسبِ معمول امریکی امریکی میڈیا "مادرِ وطن کی عظمت” کا علم اٹھائے ہوئے تھا۔ اس عالم میں نوم چومسکی نے امریکی دانش وَروں کو جھنجھوڑا۔

    1967ء میں ان کا متذکرہ بالا مضمون "نیویارک ریویو” میں شایع ہوا تو وائٹ ہاؤس میں بھونچال آگیا، کیوں کہ یہ وہ دور تھا جب امریکی انتظامیہ فوج کے لیے جبری بھرتی کا قانون نافذ کرچکی تھی۔

    چومسکی نے یاد دلایا کہ ناجائز سرکاری پالسییوں کو مسترد کرنے کے سلسلے میں عام شہریوں کے مقابلے میں دانش وروں پر زیادہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے۔ "انھیں سچ بولنا چاہیے اور جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہیے۔”

    اس مضمون کی اشاعت کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا گیا اور دانش وروں اور طلبہ نے بڑے پیمانے پر اس جنگ کے خلاف احتجاجی پروگرام منظم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    نیویارک یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے نام وَر چیئرمین، ریزیل ایبلسن نے لکھا: "ویت نام میں امریکی جارحیت کے خلاف طاقت وَر، پُراثر اور مدلل مضمون میں نے آج تک نہیں پڑھا۔”

    (احفاظ الرّحمٰن کی کتاب ” جنگ جاری رہے گی” سے ایک ورق)

  • خود کُشی کی چوتھی کوشش میں‌ کام یاب سلویا کی درد ناک کہانی!

    خود کُشی کی چوتھی کوشش میں‌ کام یاب سلویا کی درد ناک کہانی!

    کچھ لوگوں کا کہنا تھاکہ سلویا نے خود کُشی نہیں کی تھی، اور اس کی موت ایک حادثے کے سبب ہوئی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کیوں مقفل کیا تھا؟ وہ تو اس کی عادی نہیں تھی۔

    یہی نہیں بلکہ اس درد ناک موت کو خود کُشی ماننے کے سوا کوئی راستہ یوں بھی نہیں بچتا تھا کہ سلویا پہلے بھی تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرچکی تھی۔ وہ ذہنی مرض کا شکار رہی تھی اور ماہرِ نفسیات سے علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات نہیں مل سکی تھی اور فقط 30 سال کی عمر میں موت کو گلے لگا لیا۔

    سلویا پلاتھ نے ایک منفرد شاعرہ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ وہ امریکا میں 27 اکتوبر 1932 کو پیدا ہوئی۔ والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور مناظر میں کشش محسوس کرتی تھی۔ زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اس نے اپنے اندر ایک شاعرہ دریافت کرلی۔ 18 سال کی عمر میں ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد کے برسوں میں نثر کی طرف متوجہ ہوئی اور آغاز بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ پھر ایک ناول The Bell Jar بھی لکھ ڈالا جو اس کی شہرت کا سبب بنا۔

    کہتے ہیں کہ اس ناول کے چند ابواب سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960 میں شایع ہوا۔ دیگر شعری مجموعے سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں میں شایع ہوئے۔ اس امریکی تخلیق کار کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعدازمرگ اسے پلٹزر پرائز دیا گیا۔

    سلویا پلاتھ کی نجی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی اور دو بچوں کی ماں بننے کے بعد جب یہ رفاقت تلخیوں کی نذر ہوکر ختم ہوئی تو حساس طبع اور زود رنج سلویا خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ یہ 1963 کی بات ہے جب وہ ایک روز مردہ پائی گئی۔