Tag: امریکی جامعات

  • امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں 2200 طلبہ گرفتار

    امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں 2200 طلبہ گرفتار

    نیویارک: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں گرفتار طلبہ کی تعداد 2200 تک پہنچ گئی ہے۔

    امریکی جوان نہتے مظلوم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ آواز بلند کر رہے ہیں، امریکا بھر میں فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کی لہر کے دوران 18 اپریل سے اب تک کالج اور یونیورسٹی کیمپسز میں دو ہزار دو سو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

    تاہم اس کے برعکس کئی امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران بھی اسرائیل مخالف احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے، اور کہا ہے کہ چھٹیوں میں کیمپ خالی نہیں کیے جائیں گے، دوسری جانب شکاگو یونیورسٹی کے صدر نے سختی سے کہا ہے کہ اسرائیل مخالف احتجاج کیمپ کسی صورت برداشت نہیں۔

    احتجاج کرنے والے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیاں اسرائیل اور غزہ میں جنگ کی حمایت کرنے والی کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کریں۔ مظاہروں کا مرکز نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے صدر نے جمعہ کے روز گزشتہ دو ہفتوں کو ’’کولمبیا کی تاریخ میں سب سے مشکل‘‘ قرار دیا۔

    طلبہ کی جانب سے شدید احتجاج اور دعوت نامہ واپس لیے جانے کے مطالبے کے بعد اقوام متحدہ میں امریکی سفیر اب ورمونٹ یونیورسٹی میں گریجویشن کی تقریب سے خطاب نہیں کریں گے، ان کا دعوت نامہ واپس لے لیا گیا ہے۔

    ادھر نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی کے طلبہ نے بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، فرانس کی مختلف یونیورسٹیز میں بھی اسرائیل مخالف احتجاج میں شدت آ گئی ہے، لیون یونیورسٹی کے طلبہ فلسطینی بچوں کے حق میں نعرے لگاتے رہے، پیرس میں بھی فلسطین اور اسرائیلی حامی طلبہ آمنے سامنے آ گئے، تاہم پولیس نے بیچ بچاؤ کرایا۔

    جرمنی میں بھی طلبہ نے فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کیا، مظاہرے کے دوران طلبہ اور برلن پولیس آمنے سامنے آئے، جس میں پولیس نے کئی کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت امریکا سے یورپ تک احتجاجی طلبہ فلسطینی روایتی کفایہ گلے میں ڈالے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

    غزہ میں صہیونی افواج کے حملے جاری

    فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں قابض صہیونی فوج کی وحشیانہ کارروائیاں 211 ویں دن بھی جاری رہیں، رفح، نصیرات، دیر البلح اور خان یونس کے اطراف اسرائیلی افواج کے حملوں میں 4 بچوں سمیت 26 فلسطینی شہید اور 51 زخمی ہوئے، شہدا کی مجموعی تعداد 34 ہزار 596 ہو گئی ہے، جب کہ 77 ہزار 816 زخمی ہیں۔

    امریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ولیم برنز مذاکرات کے لیے مصر پہنچ گئے ہیں، غزہ جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے حماس کا وفد آج قاہرہ روانہ ہوگا، بات چیت میں مصری اور قطری حکام بھی شریک ہوں گے، حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور قیدیوں کا تبادلہ ان کے اہم مطالبات ہیں۔

  • امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہرے زور پکڑگئے

    امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہرے زور پکڑگئے

    غزہ میں صیہونی افواج کے ظلم و ستم کے خلاف امریکا کے متعدد کالج کیمپس میں فلسطین کے حق میں مظاہروں میں شدت آگئی۔ کولمبیا، ہارورڈ، یو ایس سی، ٹیکساس یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیز میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یو ایس سی میں پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، ٹیکساس یونیورسٹی میں بھی ایک صحافی سمیت درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔

    ہارورڈ میں بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے پر یونیورسٹی کی جانب سے سخت کارروائی کی دھمکی دے دی گئی ہے۔

    لاس اینجیلس کی یونیورسٹی آف صدرن کیلی فورنیا میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ کیا گیا۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں اسرائیل مخالف احتجاج پر گرفتاریاں کی گئیں۔

    مظاہروں میں ”آزاد فلسطین” کے نعرے بلند کئے گئے، جبکہ احتجاجی مارچ کے دوران پولیس سے مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئیں، جبکہ ایک شخص حراست میں لے لیا گیا۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی طلبہ کے مظاہروں پر آپے سے باہر ہو گئے، نیتن یاہو نے امریکی طلبہ کے مظاہروں کو ’یہود دشمنی‘ کا نام دے دیا۔

    دی گارڈین کے مطابق صہیونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکا کی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کو ’خوف ناک‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی، اور کہا کہ ان مظاہروں کو ’روکنا ہوگا‘ انھوں نے طلبہ کو ’یہود دشمن‘ بھی قرار دے دیا۔

    غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، اقوام متحدہ بھی خوف زدہ

    نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ”امریکا کے کالج کیمپسز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہول ناک ہے“ صہیونی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ”یہودی مخالف ہجوم نے معروف یونیورسٹیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔“

  • سٹی کالج کے شعبۂ فزکس کو موصول ہونے والے پیکٹ میں کیا تھا؟ تفصیل جانیے

    سٹی کالج کے شعبۂ فزکس کو موصول ہونے والے پیکٹ میں کیا تھا؟ تفصیل جانیے

    کرسمس کے موقع پر امریکا کے تعلیمی ادارے کو موصول ہونے والے پیکٹ نے اساتذہ اور کالج انتظامیہ کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ اس پیکٹ سے ایک خط کے ساتھ 50 اور 100 ڈالر مالیت کے کرنسی نوٹ برآمد ہوئے اور یہ کالج کے سابق طالبِ علم کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ تعلیمی ادارے کو مذکورہ پیکٹ پچھلے سال نومبر کے مہینے میں موصول ہوا تھا، لیکن اسے کسی نے کھولا نہیں‌ تھا بلکہ دوسری ڈاک کی طرح اس پیکٹ کو بھی ایک جگہ رکھ دیا گیا۔ دراصل کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب کالج بند تھا اور وہاں انتظامی امور باقاعدگی سے انجام نہیں پا رہے تھے، جب کہ زیادہ تر کلاسیں آن لائن ہورہی تھیں۔ اس دوران موصول ہونے والا یہ پیکٹ بھی متعلقہ شعبہ میں مخصوص جگہ پر پڑا رہا۔

    یہ پیکٹ نیویارک کے علاقے ہالم میں واقع سٹی کالج کو موصول ہوا تھا۔ ڈاکٹر مینن اس کالج کے شعبۂ فزکس کے چیئرمین ہیں جو پچھلے سال کے آغاز ہی سے اس کیمپس کے طلبا کو اپنے گھر سے آن لائن تعلیم دے رہے تھے۔ گذشتہ دنوں یہ پیکٹ اس وقت کھولا گیا جب نئے سیمسٹر کے آغاز پر کالج میں تدریسی عمل شروع کرنے کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر مینن اپنے شعبے میں آئے جہاں انھوں نے ہیڈ آف فزکس ڈپیارٹمنٹ کے نام موصول ہونے والی ڈاک دیکھی۔

    پیکٹ پر 90 ڈالر مالیت کے ٹکٹ لگے تھے اور اسے ایکسپریس میل کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ مینن نے پیکٹ کھولا تو اس میں سے 50 اور 100 ڈالر مالیت کے کرنسی نوٹوں کے بنڈل موجود تھے جن کی مالیت ایک لاکھ 80 ہزار ڈالر تھی۔

    پیکٹ میں ایک خط بھی تھا جس پر بھیجنے والے نے لکھا تھا کہ وہ اس کالج میں فزکس اور ریاضی کا طالبِ علم رہ چکا ہے اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سائنس دان کے طور پر اپنا کام کر رہا ہے۔ اس نے لکھا کہ یہ رقم کالج کے فزکس اور ریاضی کے ضرورت مند طالبِ علموں کے لیے اس کی جانب سے عطیہ ہے۔ اس خط کے آخر میں کیل پیسلے کا نام اور کیلی فورنیا کا پتہ درج تھا جس پر ڈاکٹر مینن نے کالج میں‌ اس نام کے طالبِ علم کا ریکارڈ جاننے کی کوشش کی، لیکن ایسا کوئی نام سامنے نہیں‌ آسکا جس کے سے اس خیال کو تقویت ملی کہ رقم دینے والا اپنے جذبے اور عمل کی تشہیر نہیں چاہتا اور اسی لیے اس نے اپنا اصل نام اور شناخت ظاہر نہیں‌ کی۔

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ حیران کن تو ہے ہی، لیکن لائقِ تحسین عمل ہے اور ڈاکٹر مینن کے مطابق وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کالج نقدی کی شکل میں یہ عطیہ قبول کرے گا بھی یا نہیں۔ چوں کہ رقم دہندہ نے اپنا نام اور شناخت پوشیدہ رکھی تھی، اس لیے یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ یہ جائز اور قانونی طریقے سے کمائی گئی رقم ہے یا نہیں، جس پر کالج کے پبلک سیفٹی ڈپارٹمنٹ نے وفاقی حکام سے رابطہ کیا اور ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا صرف نام ہی نہیں بلکہ کیلیفورنیا کا ایڈریس بھی فرضی ہے۔ اس کے بعد حکام نے تحقیقات کا دائرہ بینکوں تک بڑھایا تو معلوم ہوا کہ یہ رقم ریاست میری لینڈ کے ایک بینک سے نکلوائی گئی تھی اور اس اکاؤنٹ میں جائز ذرایع سے جمع کی گئی رقم موجود تھی اور کسی قسم کی غیر قانونی یا مشکوک سرگرمی کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ اس پر کالج کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے گم نام شخص کا یہ عطیہ قبول کرلیا۔

    سٹی کالج آف نیویارک کو عطیہ کی گئی اس رقم سے ہر سال فزکس اور ریاضی کے دو طالبِ علموں کو دس سال سے زیادہ عرصے تک مکمل ٹیوشن فیس کے مساوی وظیفہ دیا جا سکتا ہے۔

    1847ء میں قائم کیے گئے سٹی کالج آف نیویارک امریکا کے تعلیمی اداروں میں ایک جانا پہچانا نام ہے اور اس کے تحت باقاعدہ تعلیمی نیٹ ورک چلایا جارہا ہے جن میں سرکاری سطح پر تعلیم حاصل کرنے والوں میں دو لاکھ 60 ہزار سے زائد طالبِ علم شامل ہیں۔ اس کالج کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شہرۂ آفاق سائنس دان آئن اسٹائن نے 1921ء میں اپنے اوّلین لیکچرز میں سے ایک لیکچر اس ادارے میں دیا تھا۔

  • تمام کتابیں، آدھی جائیداد کالج کو عطیہ کرنے والا کون تھا؟

    تمام کتابیں، آدھی جائیداد کالج کو عطیہ کرنے والا کون تھا؟

    جان ہارورڈ کو نوجوانی میں تپِ دق (ٹی بی) نے آ گھیرا۔ یہ 1638 عیسوی کی بات ہے جب ایسے کسی مرض کے لاحق ہوجانے کے بعد زندہ رہنے کی امید کرنا تو فطری اور یقینی تھا، مگر ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔

    جان ہارورڈ کا تعلق لندن سے تھا۔ بعد میں وہ امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں جا بسا تھا۔

    وہ اپنے زمانے کا نہایت مال دار اور صاحبِ جائیداد شخص تھا۔ وہ اپنے قصبے کے ایک گرجا گھر کا مہتمم بھی تھا۔ اسے علم و ادب کا شائق کہا جاتا ہے جس کے ذاتی کتب خانہ میں کئی کتابیں موجود تھیں۔

    ٹی بی کے موذی مرض میں شدت آتی گئی اور اسے موت کا خوف ستانے لگا۔ اس نے لوگوں سے میل جول ترک کردیا اور گھر سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا تھا۔

    دوست احباب گھر پر اس سے ملنے آتے رہتے تھے۔ ایک روز اس کا قریبی دوست اور مقامی گرجا کے پادری اس کے گھر آئے ملنے آئے تو جان ہارورڈ نے انھیں اپنی وصیت میں کہا کہ بعد از موت اس کی ساری کتابیں اور آدھی جائیداد مقامی کالج کو دے دی جائیں۔

    1638 میں ایک روز وہ دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس کی وصیت کے مطابق کتابیں اور جائیداد کالج کو عطیہ کردی گئیں۔ اگلے برس کالج انتظامیہ نے جان ہارورڈ کے اس جذبے اور پُرخلوص مالی مدد پر متعلقہ مجلس کے فیصلے کے مطابق درس گاہ کو جان ہارورڈ سے منسوب کر دیا جو آج دنیا بھر میں جانی پہچانی جامعہ ہے۔

  • امریکی جامعات کو قطر کی مشکوک فنڈنگ کے خلاف تحقیقات شروع

    امریکی جامعات کو قطر کی مشکوک فنڈنگ کے خلاف تحقیقات شروع

    واشنگٹن : امریکی مانیٹرنگ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ قطر نے تعلقات میں کشیدگی کے بعد بھی ایک عشرے کے دوران امریکی جامعات کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم دی۔

    تفصیلات کے مطابق حال ہی میں جب امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دیئے گئے عشایے میں فخریہ انداز میں شرکت کی تو اس عشائیے میں موجود دیگر مہمانوں میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے چیئرمین بھی موجود تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جارج ٹاؤن امریکا کی ان چھ جامعات میں سے ایک ہے جنہیں قطر کی طرف سے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے اور ان جامعات کی قطر میں بھی ذیلی شاخیں موجود ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امیر قطر کی ملاقات کو زیادہ وقت نہیں گذرا مگر امریکی وزارت خزانہ نے جارج ٹاؤن اور دیگر تین جامعات ٹیکساس اے اینڈ ایم، کورنیل اور روٹگرز یونیورسٹیوں میں قطری فنڈنگ کی تحقیقات شروع کی ہیں۔

    امریکی مانیٹرنگ حکام کا کہنا تھا کہ امریکی جامعات کو بیرون ملک سے ملنے والے عطیات میں قطر کی طرف سے فراہم کی گئی یہ سب سے بڑی رقم ہے۔امریکی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جامعات نے بیرون ملک سے حاصل ہونے والے فنڈز اور تحائف کے بارے میں وفاقی حکام کو مطلع نہیں کیا۔

    خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کے پاس ایسی کوئی فہرست نہیں جس میں ریاستوں میں موجود تعلیمی اداروں کو بیرون ملک سے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم کے بارے میں مطلع کیا جائے۔

    امریکی تحقیق کاروں نے ملک بھر کی بیشتر جامعات کو ہدایت کی کہ وہ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بیرون ملک سے حاصل ہونے والی رقم اور عطیات کی تفصیل فراہم کریں،جامعات کو لکھے گئے مکتوبات میں چین اور قطر کی طرف سے فراہم کردہ عطیات کا خاص طور پر ذکر کرنے کو کہا گیا ہے۔

    خبر رساں ادارے کا کہناتھا کہ اس وقت امریکا اور چین کے درمیان تعلیمی شعبے میں تعاون اور تعلقات بھی کشیدگی کا شکار ہیں جب کہ امریکا قطر کے حوالے سے بھی بہت سے تحفظات رکھتا ہے۔ ان تحفظات میں قطر کی دہشت گردی کے لیے فنڈنگ بھی شامل ہے۔

    امریکی وفاقی حکام نے جامعات کو ملنے والی بیرون ملک سے امداد کی جو تفصیلات اکٹھی کی ہیں ان میں امداد دینے والے ملکوں میں قطر کا نام نمایاں ہے۔ اگرچہ قطر کا حجم اتنا بڑا نہیں مگر اس کی طرف سے امریکا کی 28 جامعات کو گذشتہ ایک عشرے کے دوران ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے عطیات دیے گئے۔

    انگلینڈ کی جامعات بیرون ملک سے حاصل ہونے والی امداد میں 90 کروڑ ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔یہ امربھی حیران کن ہے کہ امریکا کی 28 جامعات میں سے 26 کوکل عطیات کا صرف 2 فی صد اور 6 جامعات کو 98 فی صد عطیات دیے گئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ان چھ جامعات کی قطر میں ذیلی شاخیں بھی کام کر رہی ہیں،قطر کے حکمران خاندان کے ماتحت قطر فاؤنڈیشن کی طرف سے ‘ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کو 40 ملین ڈالر سالانہ امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھی قائم ہے۔

    امریکی اخبار کے مطابق امریکی وزارت تعلیم کے حکام نے جارج ٹاﺅن یونیورسٹی اور ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹیوں کے قطر اور چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ‘ہواوے’ کے ساتھ رابطوں کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

    امریکی حکام کو شبہ ہے کہ ہواوے اپنے جدید ترین موبائل فوج اور اسمارٹ فون کی مدد سے امریکا کی قومی سلامتی کے راز چوری کرنے کے ساتھ جاسوسی کرسکتی ہے۔

    امریکی وزارت تعلیم نے قطر سے مدد لینے والی جامعات کے سربراہان کو سخت الفاظ میں پیغامات بھیجے ہیں جن میں انہیں کہا گیاہے کہ وہ 30 دن کے اندر اندر قطر اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد کی تفصیلات فراہم کریں ورنہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔