Tag: امریکی سائنسدان

  • امریکی سائنسدان نے اسلام قبول کرلیا

    امریکی سائنسدان نے اسلام قبول کرلیا

    بین الاقوامی شہرت یافتہ امریکی سائنسدان پروفیسر ہنری نے اسلام قبول کرلیا۔

    بین الاقوامی شہرت یافتہ امریکی سائنسدان پروفیسر ہنری کا نام ڈاکٹر احمد حسن بطل نے عبد الحق رکھا ہے کیونکہ حق اور علم ان کے لیے رب تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔

    رپورٹ کے مطابق انہوں نے رمضان المبارک کا پہلا روزہ بھی رکھ لیا، نماز تراویح بھی ادا کی اور جلد عمرہ ادائیگی کیلئے روانہ ہوں گے۔

    ڈاکٹر ہنری اسٹیم سیل میڈیسن میں دنیا کا سب سے بڑانام ہے اور انہیں ممتاز سائنسدانوں میں شمار کیا جاتا ہے، پروفیسر ڈاکٹر ہنری مشہور امریکی یونیورسٹی ہارورڈ میں پروفیسر ہیں۔

    وہ موروثی نابینا پن کے علاج کیلئے اسٹیم سیل دوا کے موجد ہیں، جسے حال ہی میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے تیسرے اور آخری مرحلے میں جانچ کے لیے منظور کرلیا گیا ہے۔

  • بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    تھامس ایلوا ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنس دان کا سنِ پیدائش 1847ء ہے جو زندگی کی 84 بہاریں دیکھنے کے بعد 1931ء آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    آج کی طرح ایڈیسن کے زمانے میں نہ تو خبر رسانی کے ذرایع ایسے تھے کہ کسی کارنامے کی سیکنڈوں میں دنیا کو خبر ہوجائے اور نہ ہی مستند معلومات کا حصول سہل تھا۔ کوئی خبر، اطلاع، اعلان یا کسی بھی واقعے کے بارے میں‌ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے۔ اس طرح مبالغہ آرائی، جھوٹ یا غلط فہمی بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایسا ہی کچھ ایڈیسن کے ساتھ بھی ہوا اور اس کی ایجادات، سائنسی تھیوری یا اکثر کارناموں پر اسے حاسدین کی مخالفت کے ساتھ لعن طعن بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس پر الزام لگا کہ وہ دوسروں کی سائنسی نظریات اور ان کی تحقیق و تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ اس نے ہمفرے ڈیوی کے خیالات اور آئیڈیا پر کام کر کے ایک تجربہ کیا اور بلب ایجاد کرلیا۔ تاہم اسے اوّلین برقی قمقمے کا موجد مانا جاتا ہے۔

    تھامس ایڈیسن ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس خاندان کے آمدنی کے ذرائع محدود تھے جس میں تھامس اور اس کے 8 بہن بھائیوں کی پرورش مشکل تھی۔ اس کے باوجود اس کی والدہ نے جو ایک اسکول میں استانی تھیں، اپنے بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔

    یہ عجیب بات ہے، مگر اس زمانے کے اکثر سائنس داں اور اہم اشیا اور قابلِ ذکر ایجادات کے لیے مشہور شخصیات کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا شکار رہی ہیں۔ ایڈیسن کو بھی 8 برس کی عمر میں تیز بخار ہوا جس سے ان کے دونوں کانوں کی سماعت متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ کچھ بھی سننے کے قابل نہیں رہا۔ ایڈیسن کو بچپن سے سائنسی تجربات کا بہت شوق تھا۔

    وہ بارہ سال کا ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام کرنے لگا۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا کیبن بنا لیا، اور بعد میں اسی جگہ کو ایک لیبارٹری میں تبدیل کرکے برقی کام شروع کردیا۔ اس نے اپنی ذہانت اور شوق و لگن سے کچھ ایسے تجربات کیے جنھوں نے اسے موجد بنا دیا۔

    ایڈیسن نے آٹومیٹک ٹیلگراف کے لیے ٹرانسمیٹر ریسور ایجاد کیا اور اس اثنا میں چند مزید چھوٹی ایجادات کیں جن سے اسے خاصی آمدنی ہوئی۔ بعد میں وہ ایک ذاتی تجربہ گاہ بنا کر سائنسی تجربات اور ایجادات میں‌ مصروف ہوگیا جن میں فونو گراف (جس نے آگے چل کر گرامو فون کی شکل اختیار کی) بلب، میگا فون، سنیما مشین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    اس امریکی موجد کو 1915ء میں نوبل پرائز بھی ملا۔ بچپن سے تنگی اور عسرت دیکھنے کے علاوہ بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود ایڈیسن نے ہمّت نہ ہاری اور آج اس کا شمار انیسویں صدی کے بہترین موجد کے طور پر کیا جاتا ہے۔

  • ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    جہاں بہت سے لوگ میز پر رکھے ہوئے کسی پھلی کے بیج کو محض بیچ اور ایک دانہ سمجھتے تھے، وہاں پرسی جولین (Percy Lavon Julian) کو وہ میز اپنے لیے ایک تجربہ گاہ نظر آتی تھی۔ پھلی کا وہ دانہ بھی اس کے لیے بہت اہم ہوتا تھا۔

    جولین آگے چل کر ایک کیمیا دان بنے۔ وہ نباتات کے ماہر تھے۔ پودوں کے قدرتی اجزا اور ان کی خصوصیات پر تحقیق اور تجربات کرتے ہوئے انھوں نے انسانوں کے بعض امراض کا علاج دریافت کیا۔

    انھوں نے کالا بار پھلی سے معمر افراد میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ بننے والی بیماری، موتیے کا علاج دریافت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق اور تجربات سے جوڑوں کے درد کی بیماری، گٹھیا کے لیے ٹیکوں سے لے کر دوسری عالمی جنگ میں طیارہ بردار جہازوں پر لگنے والی آگ کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں انہی کی دریافت ہیں۔

    کالا بار ایک زہریلی پھلی ہے جس کے بارے میں اس کیمیا دان نے کہا تھا، “جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو جامنی رنگ کی یہ پھلی خوب صورت دکھائی دی، مگر یہ نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت ہے بلکہ اس کے اندر جو کچھ ہے، وہ بھی کارآمد ہے۔”

    جولین کا شمار بیسویں صدی کے عظیم امریکی سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ افریقی نژاد امریکی تھے جنھیں‌ اس زمانے میں‌ نسل پرستی اور سیاہ فاموں سے ناروا سلوک اور ہر میدان میں تفریق و امتیاز کا سامنا بھی رہا، لیکن انھوں‌ نے اپنی تمام توانائی انسانوں کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کی بھلائی پر صرف کی اور اپنے کام میں‌ مگن رہے۔

    1975ء میں جولین اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جولین 1899ء میں منٹگمری، الاباما میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ امریکا میں‌ غلام بنا کر لائے گئے افریقیوں کی اولاد تھے۔ اس دور میں‌ سیاہ فاموں‌ کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں‌ تعلیم کے یکساں‌ اور معیاری مواقع میسر نہیں‌ تھے، جولین نے بھی نسلی بنیادوں پر قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں سیاہ فام طلبا آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکتے تھے۔

    جولین کے والدین استاد تھے اور انھوں نے اپنے چھے بچّوں کے لیے گھر میں‌ ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس نے جولین کو لکھنے پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد دی۔ بعد میں‌ جولین نے انڈیانا کی ڈی پاؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

    کالج کے زمانے میں‌ جولین نے ویٹر کے طور پر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ طلبا کی ایک رہائشی عمارت کے آتش دانوں میں لکڑیاں جھونکنے کا کام بھی کیا جس کے بدلے انھیں کیمپس میں رہائش کے لیے ایک کمرہ ملا ہوا تھا۔ 1920ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب انھوں نے ملازمت حاصل کرنا چاہی تو بعض نجی کمپنیوں نے انکار کردیا۔ جولین مایوس نہیں ہوئے اور کوشش جاری رکھی، بالآخر گلڈن کمپنی نے انھیں موقع دیا اور جولین نے بھی خود کو اہل ثابت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق نے لیٹکس رنگوں کی تیاری میں اس کمپنی کو بہت مدد دی۔

    1935ء میں جولین نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور کالا بار پر تحقیق اور تجربات سے فائیسو سٹیگمین کی وہ مقدار حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے جس سے موتیے کے مریضوں کے علاج میں‌ مدد ملی۔ ان کی کوششوں کے بعد ہی موتیے کے علاج کے لیے کافی مقدار میں فائیسو سٹیگمین بننا شروع ہوئی۔

    امریکا اور دنیا بھر میں‌ اس سیاہ فام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا اور انھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • امریکی سائنس دانوں کا کرونا کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف

    امریکی سائنس دانوں کا کرونا کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف

    واشنگٹن: امریکی سائنس دانوں نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک تہلکہ خیز انکشاف کر دیا ہے، جس سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سائنس دانوں نے اپنی مسلسل تحقیقات کے نتیجے میں تازہ انکشاف کیا ہے کرونا وائرس سانس لینے اور بات کرنے سے بھی پھیل سکتا ہے، اس سلسلے میں سائنس دانوں نے وائٹ ہاؤس کو خط کے ذریعے خبردار کر دیا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق میں سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ کرونا وائرس صرف چھونے، کھانسنے یا چھینکنے سے نہیں بلکہ باتیں کرنے اور سانس لینے سے پھیل سکتا ہے، اس لیے امریکیوں کو وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مزید احتیاط کرنی ہوگی۔

    خیال رہے کہ ڈاکٹرز تواتر کے ساتھ کہتے آ رہے ہیں کہ عام لوگوں کو سرجیکل ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اب نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی ایک کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ہاروی فائنبرگ نے کہا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ سرجیکل ماسک کی ضرورت طبی عملے اور مریضوں کو ہے تاہم یہ بہتر ہے کہ میں اس کی جگہ کوئی مفلر یا رومال منہ پر باندھوں۔ کرونا وائرس ٹاسک فورس کے ممبر ڈاکٹر اینتھنی فاسی نے کہا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ماسک کے وسیع استعمال کی تجویز پر نہایت توجہ سے غور کیا جا رہا ہے۔

    امریکی صدر کا دوسری مرتبہ ٹیسٹ، کاروبار اور بے روزگاروں کے لیے بڑے اعلانات

    خیال رہے کہ امریکا میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 2 لاکھ 45 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ 6,088 مریض ہلاک ہو چکے ہیں۔

    آج ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ کرونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، ریاستوں کو بھی از خود ماسک اور حفاظتی سامان جمع کرنا چاہیے، ہم انھیں بیک اپ فراہم کریں گے، ملک ہزاروں وینٹی لیٹرز کی تیاری جاری ہے۔ دریں اثنا امریکی صدر نے دوسری مرتبہ کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا، یہ ٹیسٹ نئی متعارف ہونے والی مشین سے کیا گیا، ٹرمپ نے کہا کہ میرے ٹیسٹ کا نتیجہ 15 منٹ میں آ گیا جو منفی تھا۔

  • امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    واشنگٹن : سائنسدانوں نے پہلی بار ادویات اور جین ایدیٹنگ کی مدد سے لیبارٹری کے چوہے کے پورے جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی سے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس 2 نکاتی طریقہ کار کی مدد سے اس لاعلاج مرض کے شکار انسانوں کے لیے پہلی بار علاج تشکیل دیا جائے گا اور انسانوں پر اس کی آزمائش اگلے سال سے شروع ہوگی۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اب تک صرف 2 افراد کے ایچ آئی وی کا علاج ہوسکتا ہے جو کہ دونوں بلڈ کینسر کا شکار تھے اور ایک خطرنک بون میرو ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزر کر دونوں بیماریوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔مگر یہ طریقہ کار ہر ایک پر کام نہیں کرتا بلکہ کچھ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض ایچ آئی وی اور کینسر دونوں بیماریوں کا شکار ہوں۔

    امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کے ماہرین نے ایچ آئی وی سے نجات دلانے والے نئے طریقہ کار کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی جو کہ 5 سال سے اس پر کام کررہے تھے۔

    اس طریقہ کار میں انہوں نے آہستی سے اثر کرنے والی ادویات اور جین ایڈیٹنگ کرسپر کاس 9 کا استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں لیبارٹری کے ایک تہائی چوہوں کے مکمل جینوم سے ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس کامیابی پر ہمیں یقین ہی نہیں آیا، پہلے تو ہمیں لگا کہ یہ اتفاق ہے یا گرافس میں کوئی گڑبڑ ہے، مگر کئی بار اس عمل کو دہرانے کے بعد ہمیں یقین آیا ہے کہ ہم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ طبی جریدوں نے بھی ہم پر یقین نہیں کیا اور کئی بار ہمارے مقالے کو مسترد کیا گیا اور ہم بڑی مشکل سے یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ایچ آئی وی کا علاج اب ممکن ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے نجات اس لیے لگ بھگ ناممکن ہوتی ہے کیونکہ یہ وائرس جینوم کو متاثر کرتا ہے اور خود کو خفیہ مقامات پر چھپا کر کسی بھی وقت دوبارہ سر اٹھالیتا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ویسے اس وقت ایسی انتہائی موثر ادویات موجود ہیں جو اس وائرس کو دبا دیتی ہیں اور مریض میں یہ وائرس ایڈز کی شکل اختیار نہیں کرپاتا جس سے صحت مند اور لمبی زندگی گزارنا ممکن ہوجاتی ہے، تاہم یہ ادویات ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

    اب محققین اس نئے طریقہ کار کو بندروں پر آزمائیں گے اور توقع ہے کہ اگلے سال موسم گرما میں انسانوں پر اس کا ٹیسٹ شروع ہوگا۔محققین کا کہنا تھا کہ ابھی اسے مکمل علاج قرار نہیں دیا جاسکتا ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی کا مکمل علاج ممکن ہے۔

  • امریکی ماہرین نے تھری ڈی پرنٹڈ لینس تیارکرلئے

    امریکی ماہرین نے تھری ڈی پرنٹڈ لینس تیارکرلئے

    نیو یارک : امریکی سائنسدانوں نے ایسا تھری ڈی پرنٹڈ لینس تیار کیا ہے جسے اب شائقین آنکھوں پر لگا کر گھر بیٹھے  مووی کے مزے لے سکیں گے۔ تفصیلات کے مطابق اب فلم دیکھنے کے لئے نہ تو سینما جانے کا جھنجھٹ اور نہ ہی ٹی وی آن کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔

    کیونکہ امریکی سائنسدانوں نے اس کا حل نکال لیا ہے اور ایسا تھری ڈی پرنٹڈ لینس تیار  کیا ہے جسے لگائیں اورگھرپربیٹھ کرمووی کے مزے لیں ۔تھری ڈی پرنٹڈ لینس کسی بھی مووی کو تصویری شکل میں محفوظ کرکے پہننے والے شخص کو دکھائیں گی۔

    تھری ڈی لینس کو امریکی فضائیہ کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے جو امریکی فضائیہ کے آپریشن میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔