Tag: امریکی سپریم کورٹ

  • امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ، ٹرمپ انتطامیہ کو بڑا جھٹکا

    امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ، ٹرمپ انتطامیہ کو بڑا جھٹکا

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور بڑا فیصلہ سامنے آگیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وینزیلا کے زیرحراست مبینہ گینگ ارکان کو ملک بدر نہیں کیا جائے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو امیگریشن کی تحویل میں وینزویلا کے زیرحراست افراد کو ملک بدر کرنے سے عارضی طور پر روک دیا۔

    امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے یہ حکم وینزویلا کے تارکین وطن کی جانب سے دائر مداخلت کی استدعا پر جاری کیا گیا تھا۔

    ججوں نے ایک مختصر غیر دستخط شدہ فیصلے میں کہا کہ حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس عدالت کے اگلے حکم تک وینزویلا کے کسی بھی زیر حراست شخص کو امریکا سے نہ نکالا جائے۔

    قدامت پسند جسٹس کلیرنس تھامس اور سیموئل الیٹو نے جاری کیے گئے فیصلے سے اختلاف کیا۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

    رپورٹ کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے قانونی اختیار پر شہری حقوق کی تنظیم کی دائر اپیل پر سماعت کے بعد سنایا گیا۔

    درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بے دخلی کا سامنا ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن گینگ کے اراکین ہیں اور عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس ہی کی ہوگی۔

    یاد رہے کہ ٹرمپ پہلے ہی جنگی قانون کے تحت تارکین وطن کو ایل سلواڈور کی جیل بھیج چکے ہیں
    جنگی قانون کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دشمن ملکوں کے شہریوں کو ملک بدر کرسکتے ہیں۔

    اس حوالے سے امریکی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1798سے اب تک یہ قانون جنگ کے دوران 3 بار استعمال ہوچکا ہے، تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔

  • ٹرمپ انتظامیہ اساتذہ کے پروگرام کی فنڈنگ روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے اختیار تسلیم کر لیا

    ٹرمپ انتظامیہ اساتذہ کے پروگرام کی فنڈنگ روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے اختیار تسلیم کر لیا

    واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ کو سپریم کورٹ سے بڑا ریلیف مل گیا ہے، اکثریتی فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کا اساتذہ فنڈنگ روکنے کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے جمعہ کو ٹرمپ انتظامیہ کو اساتذہ کی تربیت کے لیے محکمہ تعلیم کی گرانٹس کو ختم کرنے کی اجازت دے دی، سپریم کورٹ کے 5 ججز نے ٹرمپ انتظامیہ کا اختیار تسلیم کرنے کے حق اور 4 نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔

    چار پانچ کے اس فیصلے نے میساچوسٹس کے جج کے اس فیصلے کو روک دیا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ گرانٹس کو ختم کرنے میں درست قانونی طریقہ کار پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے شروع کیے گئے پروگرام میں تقریباً 65 ملین ڈالر کی گرانٹ کی ادائیگیاں باقی ہیں۔


    ویڈیو: ٹرمپ نے اپنی تصویر والے 5 ملین ڈالر مالیت کے گولڈن کارڈ کی رونمائی کر دی


    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے بھی فیصلے سے اختلاف کیا، فیصلے کے تحت ٹرمپ انتظامیہ اساتذہ کے پروگرام کی فنڈنگ روک سکتی ہے، یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سپریم کورٹ میں ان کے دوسرے دور میں پہلی جیت ہے۔

    پانچ ووٹوں کے ساتھ عدالت میں قدامت پسندوں ججز اکثریت میں تھے، جب کہ چیف جسٹس جان رابرٹس نے اختلاف رائے میں 3 لبرل ججز کا ساتھ دیا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضلعی عدالت کے جج کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ وفاقی قانون کے تحت فنڈز کی ادائیگی کا حکم دے۔

    واضح رہے کہ ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کو 150 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے۔

  • ٹرمپ کیلئے بری خبر، امریکی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    ٹرمپ کیلئے بری خبر، امریکی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف حکم جاری کرنیوالے جج کا مواخذہ کرنے سے انکار کردیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ انکے خلاف حکم جاری کرنیوالے واشنگٹن ڈی سی ڈسٹرکٹ کورٹ کے چیف جج James E. Boasberg کا مواخذہ ہونا چاہئے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کو جج نے حکم دیا تھا کہ وہ حالت جنگ کے دور کی متنازعہ اتھارٹی استعمال کرکے وینزویلا کے گینگ اراکین کو اس وقت تک ڈیپورٹ نہ کریں جب تک کہ کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔

    جج کا کہنا تھا کہ ڈیپورٹ کیے جانیوالے ایسے افراد کو لے جانے والے طیاروں کو واپس موڑنا چاہیے تاہم وائٹ ہاؤس نے اگلے روز کہا تھا کہ 137 افراد کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔

    امریکی صدر نے الزام لگایا ہے کہ جج Boasberg انتہائی دائیں بازو کے پاگل شخص ہیں اور ان ٹیڑھے دماغ کے ججوں میں سے ہیں جن کے سامنے انہیں پیش ہونا پڑا تھا، انکا ہرصورت مواخذہ ہونے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں ججوں کے مواخذہ کی کارروائی شاذونادر ہی کی جاتی ہے، امریکا میں 1804ء سے ابتک صرف 15ججوں کا مواخذہ کیا گیا ہے، آخری بار یہ اقدام 2010ء میں کیا گیا تھا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً ناممکن ہے کہ جج Boasberg کیخلاف مواخذہ کیلئے کانگریس میں مطلوبہ ووٹ حاصل کئے جائیں۔

    چیف جسٹس جان رابرٹس کا میڈیا کے استفسار پر غیرمعمولی طور پر جاری اپنے بیان میں کہنا تھا کہ
    کہا کہ دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ عدالتی فیصلوں پر اختلاف رائے کی بنا پر کسی جج کا مواخذہ مناسب ردعمل نہیں۔

    سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل کی خفیہ دستاویزات جاری، کہاں ملیں‌ گی؟ جانیے

    چیف جسٹس واضح کرچکے ہیں کہ ججوں کیخلاف ذاتی حملے حد سے تجاوز کرگئے ہیں، تشدد، دھمکیاں اور احکامات نہ ماننا ملک کمزور کرنے کے مترادف ہے اور ناقابل قبول ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کو استثنیٰ کیسے دیا؟ جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے حوالے سے بڑی آئینی ترامیم کا اعلان کر دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ کو استثنیٰ کیسے دیا؟ جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے حوالے سے بڑی آئینی ترامیم کا اعلان کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے سپریم کورٹ میں بڑی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر جو بائیڈن امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کے لیے میعاد کی حدیں اور ایک قابل نفاذ اخلاقیاتی کوڈ کا مطالبہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے تحت ہائی کورٹ اور اس کے کام کرنے کے طریقے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

    اس حوالے سے اپنی تجاویز وہ آئندہ چند ہفتے میں پیش کریں گے، تجاویز میں ججوں کے عہدے کی معیاد مقرر کیا جانا اور اخلاقی قدروں پر لازمی عمل شامل ہوگا، صدر بائیڈن نے تجاویز پر آئینی ماہرین اور اراکین کانگریس سے صلاح مشورے بھی مکمل کر لیے ہیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کا یہ مجوزہ منصوبہ سپریم کورٹ کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دے گا، تاہم ان تجاویز کو کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ ان تجاویز کے نفاذ کے لیے یا تو آئینی ترمیم یا کانگریس کی کارروائی درکار ہوگی، اور یہ دونوں راستے موجودہ سیاسی ماحول میں ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی وہ بائیڈن خود سپریم کورٹ میں کسی بھی تبدیلی کے مخالف رہے ہیں۔

    طالبان یقینی بنائیں افغان سرزمین سے دہشتگرد حملے نہ ہوں، امریکا

    جو بائیڈن اس آئینی ترمیم پر بھی غور کر رہے ہیں کہ صدر اور آئینی عہدوں پر موجود دیگر شخصیات کو حاصل وسیع تر استثنیٰ بھی ختم کر دیا جائے۔

    صدر بائیڈن نے ٹرمپ کو آفیشل ایکٹ کے معاملے پر استثنیٰ کے عدالتی فیصلے پر کڑی تنقید کی تھی اور عدالتی فیصلے کو قانونی اصولوں پر حملہ اور قانون کی حکمرانی پر ضرب قرار دیا تھا۔

  • امریکی سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ! ٹرمپ صدارتی انتخابات کیلئے اہل قرار

    امریکی سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ! ٹرمپ صدارتی انتخابات کیلئے اہل قرار

    امریکا کی سپریم کورٹ نے ملک کے سابق ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دیدیا ہے۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کے روز متفقہ طور پر امریکی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات کے لیے اہل ہیں۔ اب کوئی دوسری ریاست ٹرمپ کو آئین میں بغاوت کی شق کا استعمال کرتے ہوئے صدارتی ووٹنگ سے نہیں روک سکتی۔

    امریکی عدالت کا اپنے فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ ریاستوں کی سپریم کورٹ فیصلہ نہیں کرسکتیں کہ کوئی صدارتی امیدوار نااہل ہے۔

    سپریم کورٹ نے پیر کے روز متفقہ طور پر کولوراڈو کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپبلکن صدارتی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ریاستوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص بغاوت میں ملوث ہو بھی تو اسے وفاقی دفتر خاص طور پر ایوان صدر کے لیے نااہل قرار دینے والی شق نافذ کی جائے۔

    ٹرمپ نے اس فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی پوسٹ میں لکھا کہ ’’یہ امریکہ کی بڑی جیت ہے!‘‘

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو رواں سال امریکا کے صدر کا الیکشن دوبارہ لڑنے کے خواہشمند ہیں انھیں مختلف قانونی مسائل کا سامنا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ عقل اور آئین دونوں سے متصادم ہے: صدر بائیڈن

    سپریم کورٹ کا فیصلہ عقل اور آئین دونوں سے متصادم ہے: صدر بائیڈن

    واشنگٹن: امریکی صدر نے اسلحے کی اجازت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو عقل اور آئین سے متصادم قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر جو بائیڈن نے امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عقل اور آئین دونوں سے متصادم ہے، فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے امریکی صدر بائیڈن کی گن کنٹرول کی کوششوں کو بڑا دھچکا پہنچا ہے، امریکی سپریم کورٹ نے عوامی مقامات پر بھی اسلحہ لے جانے کی اجازت دے دی ہے۔

    امریکی سپریم کورٹ نے اسلحہ ساتھ رکھنے پر پابندی ختم کر دی

    امریکی سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ شہری اپنے دفاع کے لیے عوامی مقامات پر اسلحہ لے جا سکتے ہیں، اس فیصلے کے حق میں سپریم کورٹ کے 6 قدامت پسند ججوں نے ووٹ دیا، جب کہ گن کنٹرول کے حامی سپریم کورٹ کے 3 لبرل ججز نے فیصلے کی مخالفت کی۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پر رد عمل میں کہا کہ انھیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی، یہ فیصلہ عقل اور آئین دونوں سے متصادم ہے، اس پر سب کو تشویش ہونی چاہیے۔

    بائیڈن کا کہنا تھا کہ شہری گن سیفٹی کے لیے آواز بلند کریں، امریکی شہریوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ امریکا میں گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کا گن کنٹرول کے لیے قانون سازی پر اتفاق ہوا تھا۔

  • امریکا میکسیکو سرحدی دیوار، امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ سنادیا

    امریکا میکسیکو سرحدی دیوار، امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ سنادیا

    واشنگٹن : میکسیکوکے ساتھ امریکی سرحد پردیوار کی تعمیرکے لئے امریکی سپریم کورٹ نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے فنڈزاستعمال کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے کیلیفورنیا کے جج کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے صدرڈونلڈ ٹرمپ کو میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈز استعمال کی اجازت دے دی۔

    امریکی میڈٰیا کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی سرحد پر دیوار کے ایک حصے کے لیے پینٹاگون کے لیے مختص فنڈز میں سے ڈھائی ارب ڈالر استعمال کر سکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے اس فیصلے کے خلاف جبکہ چار نے اس فیصلے کے حق میں ووٹ دے کر اب انھیں اجازت دے دی۔

    امریکہ کی عدالت عظمی کے فیصلے کا مطلب ہے کہ اب ریاست کیلیفورنیا، اریزونا اور نیو میکسیکو میں دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈز کا استعمال ہو سکے گا۔

    .دوسری جانب صدر ٹرمپ نے عدالت کے اس فیصلے کو اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں عظیم فتح قرار دیا ہے۔

    امریکی ایوان کی سپیکر نینسی پلوسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو ڈونلڈ ٹرمپ کو فوجی فنڈ چوری کر کے کانگرس سے نامنظور ایک فضول، غیر موثر سرحدی دیوار پر خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے، انتہائی غلط ہے۔ ہمارے بڑوں نے بادشاہت کے بجائے ایک ایسی جمہوریت بنائی تھی جسے لوگ چلائیں۔

    یاد رہے اس سے قبل ریاست کیلیفورنیا کے جج نے اپنے فیصلے میں صدر ٹرمپ کو سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈز کے استعمال سے روک دیا تھا، کیلیفورنیا کی عدالت نے یہ دلیل دی تھی کہ امریکی کانگرس نے دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈز کو خصوصی طور پر مختص نہیں کیا ہے۔

    خیال رہے رواں سال کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے ایمرجنسی نافذ کر دی تھی ان کا کہنا تھا کہ انھیں قومی سلامتی کی خاطر دیوار کی تعمیر کے لیے 6.7 ارب ڈالر درکار ہیں۔ لیکن یہ رقم 3200 کلو میٹر پر پھیلی سرحد پر باڑ لگائے جانے کے تخمیے 23 ارب ڈالر سے بہت کم ہے۔

    ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا ایمرجنسی نافذ کرنا امریکی آئین کی روشنی میں ان کا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا تھا۔اے سی ایل یو سمیت دیگر تنظیموں اور 20 ریاستوں نے صدر ٹرمپ کے ایمرجنسی اختیارات کو اس طرح استعمال کرنے کے خلاف قانونی راستہ اختیار کیا۔

    خیال رہے 2016 کی انتخابی مہم کے دوران امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سرحدی دیوار تعمیر کرنا صدر ٹرمپ کے مرکزی منشور کا حصہ تھا۔جبکہ ان کی حریف ڈیموکریٹک پارٹی ان کے مؤقف کی سخت مخالفت کرتی آئی ہے۔

  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا : سپریم کورٹ سے بھی تارکین وطن پر پابندی کی درخواست مسترد

    ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا : سپریم کورٹ سے بھی تارکین وطن پر پابندی کی درخواست مسترد

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تارکین وطن پر پابندی کی درخواست مسترد کردی، عدالت نے وفاقی جج کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پر ہزمیت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی سپریم کورٹ نے بھی وفاقی جج کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو میکسیکو سے امریکہ میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کے داخلے پر پابندی لگانے سے روک دیا۔

    واضح رہے کہ رواں سال 4 اپریل کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا عزم کیا تھا کہ ملک کے جنوب میں واقع میکسکو کی سرحد کی حفاظت کے لیے وہ امریکی فوج تعینات کریں گے۔

    امریکی صدر نے اس سے قبل غیر قانونی تارکین وطن کے معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شمالی امریکہ کے آزاد تجارت کے معاہدے ’نافٹا‘ کو بھی ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: تارکینِ وطن پر پابندی، وفاقی جج نے ٹرمپ کا حکم نامہ معطل کردیا

    بعد ازاں عدالت کی جانب سے پناہ گزینوں سے متعلق نئے قوانین کی بحالی کی درخواست رد کی گئی تھی، وفاقی جج نے ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق احکامات پرعمل درآمد رکوا دیا تھا۔

    وفاقی جج کے فیصلے کے خلاف امریکی صدر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، ٹرمپ نے عدالت سے غیرقانونی تارکین وطن پر پابندی بحال کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اب سپریم کورٹ نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

  • امریکی سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ایف بی آئی نے روک دی

    امریکی سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ایف بی آئی نے روک دی

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ کے لیے ٹرمپ کی جانب سے نامزد جج کی تعیناتی منظوری کے باوجود ایف بی آئی نے جنسی ہراسگی کے الزامات کے باعث روک دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی سپریم کورٹ کے لیے نامزد متنازع جج بریٹ کیوانوف کی تعیناتی سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کی منظوری کے باوجود فیڈرل انوسٹی گیشن بیورو کی جانب سے روک دی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی کو خاتون نے بریٹ کیوانوف کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت درج کروائی تھی جس کے باعث تعیناتی کا معاملہ روکا گیا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے نامزد متنازع جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری کے حوالے سے 11 ریپبلیکن اراکین سینیٹ امریکی صدر کے فیصلے پر متفق نظر آئے جبکہ 10 دیموکریٹ اراکین سینیٹ نے جج کی تعیناتی کے خلاف حق رائے دہی استعمال کیا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اراکین کی صورتحال دیکھنے اور ایف بی آئی کے مداخلت کے باعث تعیناتی کا معاملہ فل سینیٹ میں جائے گا جہاں ٹرمپ حامیوں کی اکثریت کم جبکہ ڈیموکریٹ اراکین سینیٹ کی تعداد 51 کے مقابلے میں 49 ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایریزونا سے تعلق رکھنے والے ریپبلیکن سینیٹ جیف فلیک نے درخواست کی ہے کہ تعیناتی کا معاملہ فل سینیٹ میں بھیجنے سے قبل ایک ہفتے کا تعطل دیا جائے تاکہ امریکی سیکیورٹی ایجنسی ایف بی آئی جج پر عائد جنسی ہراسگی کے الزامات کی تحقیقات کرسکے۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے نامزد جج بریٹ کیوانوف پر خاتون ڈاکٹر کرسٹین بلیسی فورڈ نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔

    ڈاکٹر کرسٹین بلیسی فورڈ کا کہنا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں بریٹ کیوانوف نے 36 برس قبل سنہ 1980 میں ایک تقریب کے دوران شراب نوشی کی کثرت کے باعث مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق جج بریٹ کیوانوف نے گذشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران خاتون ڈاکٹر کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا میں زمانہ طالب علمی کیا زندگی میں کسی کو جنسی ہراساں نہیں کیا۔

    بریٹ کیوانوف کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کی جانب سے مجھ پر خاتون ڈاکٹر کے عائد جنسی ہراسگی کے الزامات کی ایف بی آئی کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہے۔

  • صدر اوباما کے امیگریشن بل پر امریکی سپریم کورٹ میں ڈیڈ لاک

    صدر اوباما کے امیگریشن بل پر امریکی سپریم کورٹ میں ڈیڈ لاک

    واشنگٹن : امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو امیگریشن بل کے ذریعے تحفظ دینے کے صدارتی بل پر عمل در آمد کو سپریم کورٹ کی جانب سے روک دیا گیا ہے۔

    صدر براک اومابا کے امیگریشن بل پر عمل در آمد کو سپریم کورٹ کی جانب سے روکے جانے پر امریکا بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

    حیران کن طور پر اس فیصلے پر سپریم کورٹ کے چار جج اس بل کے حق میں جبکہ چار ہی مخالفت میں رولنگ دیتے نظر آئے اور اسی ڈیڈ لاک کے باعث امیگریشن بل پر عمل در آمد اب ممکن نہیں رہا۔

    اس ڈیڈ لاک کو ری پبلکن پارٹی کی جانب سے خوب پذیرائی مل رہی ہے یہاں تک کہ ہاؤس اسپیکر پال رائن کہتے ہیں کہ قانون بنانے کا اختیار صرف کانگریس کو ہے امریکی صدر کو نہیں۔

    دوسری جانب امریکی صدر براک اوباما سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ پر امیگریشن بل پر ڈیڈ لاک کی ایک بڑی وجہ سپریم کورٹ کے ہی جج جسٹس انٹونن سکالیا کی وفات ہے ۔ ان کے وفات کے بعد ابھی تک نئے جج کی تعیناتی نہیں ہوسکی۔

    سپریم کورٹ کے جج کی تعداد نو ہوتی تو فیصلہ شاید مختلف ہوتا۔ صدر اوباما نے گزشتہ ماہ میرک گارلینڈ کو سپریم کورٹ کا نیا جج تعینات کیا تھا تاہم ری پبلکن سینیٹرز اس تقرری کی منظوری دینا نہیں چاہتے۔

    سپریم کورٹ کے ڈیڈ لاک پر امریکہ میں موجود تارکین وطن مختلف ریاستوں میں احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں اور اس بل کی فوری منظوری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

    ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی کے مطابق امریکا میں اس وقت 12 کروڑ افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور صدر اوباما امیگریشن بل کے ذریعے ان تارکین وطن کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر اوباما کی مدت میں اس بل پر عمل در آمد ہوتا اب مشکل نظر آتا ہے۔