Tag: امریکی صدارتی انتخابات

  • امریکی صدارتی انتخابات میں مسلم کمیونٹی عدم دلچسپی اور تذبذب کا شکار

    امریکی صدارتی انتخابات میں مسلم کمیونٹی عدم دلچسپی اور تذبذب کا شکار

    غزہ اور لبنان میں جنگ کے باعث امریکی صدارتی انتخابات میں مسلم کمیونٹی عدم دلچسپی اور تذبذب کا شکار ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے حقوق سے متعلق دونوں بڑی پارٹیوں کے صدارتی امیدواران کی پالیسیاں کمیونٹی کے معیار پر پوری نہیں اترتیں، جس کی وجہ سے متعدد مسلم ووٹرز احتجاجاً ووٹ ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں۔

    امریکا کی سب سے بڑی مسلم سول رائٹس اور وکالت کی تنظیم کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز نے آخری انتخابی سروے کے نتائج جاری کردئیے۔

    کئیر کے مطابق گرین پارٹی کی امیدوار جل اسٹائن کی حمایت بیالیس فیصد جبکہ ہیرس کو اکتالیس فیصد اور ٹرمپ کو مسلم کمیونیٹی میں دس فیصد حمایت حاصل ہے۔

    امریکا میں مسلم ووٹرز کی تعداد تقریباً 25 لاکھ ہے، مسلم ووٹرز کا کردار ایریزونا، جارجیا، مشی گن اور پنسلوانیا میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

  • کملا ہیرس کی انتخابی مہم، ایک ہفتے میں 200 ملین ڈالر فنڈنگ، ڈیڑھ لاکھ رضا کار تیار

    کملا ہیرس کی انتخابی مہم، ایک ہفتے میں 200 ملین ڈالر فنڈنگ، ڈیڑھ لاکھ رضا کار تیار

    واشنگٹن: نائب امریکی صدر کملا ہیرس کی صدارتی انتخابی مہم میں تیزی آ گئی ہے، انھوں نے انتخابی مہم کے ایک ہفتے میں 200 ملین ڈالر کی فنڈنگ حاصل کر لی اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد رضا کار تیار کر لیے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدارتی ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کی انتخابی مہم جاری ہے، انھوں نے انتخابی مہم کے لیے ایک ہفتے میں دو سو ملین ڈالر جمع کر لیے، رائے عامہ کے نئے پول میں کملا ہیرس کی مقبولیت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

    کملا ہیرس کی انتخابی مہم میں ایک لاکھ ستر ہزار نئے رضاکار بھی شامل ہو گئے ہیں، ڈیموکریٹ کارکنوں نے رجسٹریشن کروا لی، ڈیموکریٹ سپر پیک نے بھی بائیڈن کی دست برداری کے بعد فنڈ ریلیز کر دیے۔

    کملا ہیرس کی انتخابی مہم کے ترجمان نے بتایا کہ فیصلہ کن ریاستوں میں بھرپور مہم جاری ہے، ہیرس کا کہنا تھا کہ ’’میں قوم کو آگے لے جانے کے لیے لڑوں گی، ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے ملک کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

    کملا ہیرس کا نوزائیدہ بچوں کے قتل کی اجازت دینے کا ارادہ ہے، ٹرمپ نے مذہبی بنیاد پر الزامات لگا دیے

    سی سی این کے مطابق ہیرس کو صدارتی امیدوار بنوانے کے لیے سیاہ فام خواتین تیزی سے ان کی حمایت میں اکھٹی ہو رہی ہیں، اور ملک بھر میں ہزاروں سیاہ فام خواتین منتظمین ووٹرز کے اندراج کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

  • 48 سال میں پہلی بار 3 بڑے نام امریکی صدارتی انتخابات سے باہر

    48 سال میں پہلی بار 3 بڑے نام امریکی صدارتی انتخابات سے باہر

    48 سال میں پہلی بار 3 بڑے نام امریکی صدارتی انتخابات سے باہر ہو گئے ہیں، 1976 کے بعد پہلی بار بائیڈن، کلنٹن اور بُش اس دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔

    امریکا میں رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات گزشتہ نصف صدی میں پہلی بار تین بڑے ناموں کے بغیر ہو رہے ہیں، 1976 کے بعد 2024 کی صدارتی دوڑ میں پہلی بار جو بائیڈن، بل کلنٹن اور جارج بُش شامل نہیں ہیں۔

    امریکا کے پچھلے 11 صدارتی انتخابات میں بُش، کلنٹن اور بائیڈن صدارتی ٹکٹ ہولڈر رہے، اب ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل ان تینوں بڑے ناموں میں کوئی نہیں ہے۔

    سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بُش 1980، 84 اور 88 میں بالترتیب نائب صدر اور صدر بن کر اقتدار میں آئے۔ بل کلنٹن 1992 اور 96 میں امریکا کے صدر بنے۔

    امریکی صدر نے انتخابات سے دستبرداری کی اصل وجہ بتادی، قوم سے اہم خطاب

    2000 اور 2004 میں جارج ایچ ڈبلیو بُش کے بیٹے جارج بُش امریکا کے صدر بنے۔ بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن 2016 میں ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار تھیں۔ صدر بائیڈن 2008 اور 2012 میں سابق صدر بارک اوباما کے نائب صدر بنے اور 2020 میں امریکا کے صدر بنے۔

    جو بائیڈن رواں برس صدارتی دوڑ میں شامل رہے لیکن چند روز قبل دست بردار ہو گئے اور اب ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کے مدمقابل ان تینوں بڑے ناموں میں کوئی نہیں ہے۔

  • جو بائیڈن کے معاملے پر ڈیموکریٹس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے، کملا ہیرس متبادل امیدوار؟

    جو بائیڈن کے معاملے پر ڈیموکریٹس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے، کملا ہیرس متبادل امیدوار؟

    واشنگٹن: صدر جو بائیڈن کو الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونا چاہیے یا نہیں، ڈیموکریٹس اس معاملے پر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں نے گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کے فیصلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نجی طور پر ایک ملاقات کی۔

    صدر جو بائیڈن خود کو تواتر کے ساتھ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا واحد مقابل قرار دیتے آ رہے ہیں، لیکن ان کی جسمانی اور ذہنی تندرستی کے بارے میں بھی سوالات مستقل طور پر گردش میں ہیں۔

    منگل کے روز بند کمرے کی بات چیت میں ڈیموکریٹس نمائندگان کی رائے تقسیم ہوتی نظر آئی، واشنگٹن میں کئی گھنٹے کی ملاقات کے بعد بھی ڈیموکریٹس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ سینیٹر چک شومر نے بائیڈن کی حمایت کی تو نیو جرسی سے ڈیموکریٹ رکن مکی شیریل نے بائیڈن کو دست برداری کا مشورہ دے دیا۔

    کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری

    اب تک 7 ڈیموکریٹس امیدوار صدر بائیڈن سے دست برادری کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ کچھ ہائی پروفائل ڈیموکریٹس 59 سالہ نائب صدر کملا ہیرس کے حق میں بات کرنے لگے ہیں کہ وہ بائیڈن کی جگہ ایک فطری امیدوار ہیں، اتوار کو کیلیفورنیا کے کانگریس مین ایڈم شِف نے این بی سی کے میٹ دی پریس کو بتایا کہ یا تو جو بائیڈن کو زبردست طور سے جیتنے کے قابل ہونا پڑے گا، یا پھر انھیں مشعل کسی ایسے شخص کو سونپنا ہوگا جو یہ کر سکتا ہو، کملا ہیرس ٹرمپ کے خلاف ’’بہت اچھی طرح سے جیت سکتی ہیں۔‘‘

    دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ کون صدارت کے لیے فٹ ہے، میامی میں ریلی سے خطاب میں انھوں نے کہا مجھے لگتا ہے میں نے صدارتی مباحثے میں بائیڈن کو بدترین شکست دی ہے۔ واضح رہے کہ بائیڈن کی مباحثے میں کارکردگی کے بعد ہی ڈیموکریٹس نے ان سے دست برداری کا مطالبہ کیا ہے۔

  • ’’پارٹی ووٹرز نے چنا ہے، میڈیا اور ڈونرز کی کیوں سنی جائے؟‘‘

    ’’پارٹی ووٹرز نے چنا ہے، میڈیا اور ڈونرز کی کیوں سنی جائے؟‘‘

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ وہ الیکشن سے دست بردار نہیں ہوں گے، انھوں نے کہا اب پیچھے ہٹا تو صدارتی الیکشن اور کانگریس میں پارٹی کا نقصان ہوگا۔

    جو بائیڈن نے اپنی سیاسی جماعت کے اراکین کانگریس پر واضح کر دیا ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پھر ہرا دیں گے، بائیڈن نے واضح کیا کہ اگر انھیں مکمل یقین نہ ہوتا کہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرانے کے لیے بہترین امیدوار ہیں تو وہ دوبارہ صدارت کا الیکشن نہ لڑتے۔

    امریکی صدر نے کہا کہ پارٹی ووٹرز نے انھیں ہی صدارتی امیدار چنا ہے تو کیا ان کی رائے کی بجائے میڈیا، سیاسی پنڈتوں اور ڈونرز کی بات سنی جائے؟ بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت کے لیے کیسے کھڑے ہوں گے، اگر ہم اپنی پارٹی ہی میں اسے نظر انداز کر دیں۔ جو بائیڈن نے مزید کہا کہ یہ وقت ہے کہ پارٹی متحد ہو کر آگے بڑھے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرائے۔

    کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری

    انھوں نے عزم کیا کہ ’’صدارتی دوڑ سے باہر نہیں ہوں گا، آخری دم تک لڑوں گا۔‘‘

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن سے پھر مدد مانگ لی

    ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن سے پھر مدد مانگ لی

    ڈیلاس: سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن سے انتخابات کے سلسلے میں ایک بار پھر مدد مانگ لی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدارتی الیکشن میں فنڈنگ کے لیے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر این آر اے سے رجوع کر لیا ہے، این آر اے نے گزشتہ الیکشن میں ٹرمپ کے لیے 30 ملین ڈالر کی فنڈنگ کی تھی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو ٹکساس کے شہر ڈیلاس میں این آر اے کنونشن میں جو بائیڈن کی گن کنٹرول پالیسی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ آئین اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے مگر بائیڈن انتظامیہ ایسا نہیں چاہتی، بارڈر پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث جرائم پیشہ افراد ملک میں آ چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکا میں رواں سال گن وائلنس سے 6 ہزار 218 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی طویل تقریر میں وعدہ کیا کہ وہ جیت گئے تو گن کنٹرول پالیسی کو ختم کر دیں گے، لیکن اس کے لیے اسلحہ رکھنے والوں کو جا کر ان کے حق میں ووٹ ڈالنا ہوگا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ایک باغی گروپ ہیں، لیکن آئیے اس بار باغی ہو کر ہی ووٹ دیں۔ خیال رہے کہ امریکا کے سب سے بڑے اس ’گن رائٹس گروپ‘ نے ٹرمپ کی 2016، 2020 اور 2024 میں تین بار حمایت کی ہے۔

  • صدارتی امیدوار نکی ہیلی نے بائیڈن اور ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لے لیا

    صدارتی امیدوار نکی ہیلی نے بائیڈن اور ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لے لیا

    واشنگٹن: امریکی صدارتی امیدوار نکی ہیلی نے بائیڈن اور ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لے لیا، انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کیا ہم واقعی دو 80 سالہ لوگوں کو صدارتی انتخاب لڑتے دیکھنا چاہتے ہیں؟

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریپبلکن صدارتی امیدوار نکی ہیلی نے اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو ’’خود اعتمادی سے محروم‘‘ قرار دے دیا ہے، جب کہ موجودہ صدر جو بائیڈن اور ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے دوہرا خطرہ بھی قرار دیا۔

    بی بی سی کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’پیدائش‘ سے متعلق سازشی تھیوری پیش کرتے ہوئے نکی ہیلی کی صدارتی انتخاب کے لیے اہلیت پر سوال اٹھایا تھا، نکی ہیلی کے والدین امریکا میں پیدا نہیں ہوئے تاہم خود نکی امریکا میں پیدا ہوئیں جس پر وہ اس عہدے کے لیے انتخاب لڑ سکتی ہیں۔

    نکی ہیلی نے اس پر ٹرمپ کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ’’میں ٹرمپ کو اچھی طرح جانتی ہوں، جب وہ خود کو ’غیر محفوظ‘ سمجھتے ہیں تو وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ اس سے قبل ٹرمپ نے بارک اوباما سے متعلق بھی اسی طرح کی غلط سازشی تھیوری پھیلائی تھی کہ انھوں نے ہوائی میں پیدا ہونے کا جعلی پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوایا تھا، جب کہ وہ کینیا میں پیدا ہوئے تھے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق نکی ہیلی پارٹی کی صدارتی امیدوار بننے کے لیے ریپبلکن دوڑ کے اگلے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قریب ترین حریف ہیں، نیو ہیمپشائر میں ووٹر منگل کو اپنے امیدوار کا انتخاب کریں گے اور اگرچہ ہیلی نے اس فرق کو کم کر دیا ہے، تاہم پولنگ اب بھی بتاتی ہے کہ سابق صدر کو کافی برتری حاصل ہے۔ امریکی ریسرچ گروپ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک سروے میں انھیں ریاست کے ریپبلکن ووٹروں میں 33 فیصد حمایت حاصل ہے، جب کہ ٹرمپ کو 37 فیصد حمایت حاصل ہے۔

    نکی ہیلی ٹرمپ کے دور صدارت میں اقوام متحدہ کی سفیر تھیں، ریاست نیو ہیمپشائر میں ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے ٹرمپ نے ان کو نشانے پر لے لیا ہے، وہ جنوبی کیرولائنا میں بھارتی تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔

    نیو ہیمپشائر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نکی ہیلی نے کہا کہ امریکا نسل پرست نہیں ہے اور موجودہ صدر جو بائیڈن اور ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ دونوں جمہوریت کے لیے دوہرا خطرہ ہیں۔ فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا ’’امریکا کبھی بھی نسل پرست ملک نہیں رہا، میں جنوبی کیرولائنا کی ایک دیہی کاؤنٹی میں پلی بڑھی، جہاں نسل پرستانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن میرے والدین نے یہ یقین پیدا کیا کہ امریکا نسل پرست ملک نہیں ہے۔‘‘

    ہیلی نے کہا ’’کیا ہم واقعی دو 80 سالہ لوگوں کو صدر کے لیے انتخاب لڑتے دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ دنیا جل رہی ہے؟ یہ سمجھیں کہ اگر آپ کا وقت ختم ہو گیا ہے تو راستے سے ہٹ جائیں اور لیڈروں کی نئی نسل کو سامنے آنے دیں۔‘‘

  • ٹرمپ اور بائیڈن نے ایک دوسرے پر کیا الزامات لگائے؟

    ٹرمپ اور بائیڈن نے ایک دوسرے پر کیا الزامات لگائے؟

    واشنگٹن: امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدارتی الیکشن کی مہم میں امریکی صدر جو بائیڈن نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔

    جوبائیڈن نے امریکی کیپٹل پر حملے کی تیسری برسی پر ووٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا امریکی عوام ٹرمپ کو دوبارہ منتخب نہ کریں کیوں کہ ملک اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔

    بائیڈن خامیوں سے بھرے، نااہل، کرپٹ اور ناکام شخص ہیں، ٹرمپ

    جو بائیڈن نے اپنے حامیوں سے پنسلوینیا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک اور جمہوریت کو ٹرمپ سے خطرہ ہے، ٹرمپ نے 6 جنوری کو حامیوں کو کپیٹل ہل پر حملے کے لیے اکسایا۔

    امریکی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نازیوں سے تشبیہ دیدی

    دوسری طرف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئیوا میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹس 2020 کی طرح 2024 کا الیکشن چوری کرنا چاہتے ہیں، بائیڈن انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انھوں نے کہا بائیڈن انتظامیہ نے ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کو میرے پیچھے لگایا، جوبائیڈن اسٹیج پر آ جائے تو واپسی کا راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا۔

  • کوئی بھی سزا امریکی صدارتی انتخابات لڑنے سے نہیں روک سکتی، ٹرمپ

    کوئی بھی سزا امریکی صدارتی انتخابات لڑنے سے نہیں روک سکتی، ٹرمپ

    امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی سزا مجھے امریکی صدارتی انتخابات لڑنے سے نہیں روک سکتی۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے رکن اور سابق امریکی صدر نے خود پر لگنے والے متعدد الزامات پر کھل کر گفتگو کی ہے، انھوں نے کہا کہ ’’اگر کسی فوجداری تحقیقات کے نتیجے میں انھیں سزا ہو بھی گئی تو وہ 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم کو ختم نہیں کریں گے۔‘‘

    ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران ان سے میزبان نے سوال کیا کہ سزا ہونے پر ان کی انتخابی مہم رک سکتی ہے؟ جس پر ٹرمپ نے امریکی آئین میں ایسا کچھ نہیں ہے، اس لیے صدارتی انتخابی مہم نہیں رکے گی۔

    77 سالہ سابق امریکی صدر نے اپنے مخالفین کے بارے میں کہا کہ ’یہ لوگ بیمار ہیں اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ بالکل بھیانک ہے۔‘

    واضح رہے کہ امریکی صدر دو بار مواخذے کا سامنے کرچکے ہیں، گزشتہ ماہ خفیہ دستاویزات کے مقدمے میں پہلی بار ان پر فرد جرم عائد ہوئی، ان پر الزام ہے کہ اعلٰیٰ خفیہ جوہری اور دفاعی معلومات اپنے پاس رکھ کر انھوں نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ۔

    امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف الزامات کے دائرے کو مزید وسیع کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جج نے 1990 کی دہائی میں ایک مصنفہ کے ساتھ زیادتی کا مرتکب قرار دیا تھا جب کہ انھیں ایک پورن اسٹار کے ساتھ تعلقات چھپانے جیسے درجنوں سنگین الزامات کا بھی سامنا ہے۔

  • خفیہ دستاویزات کیس میں ٹرمپ کو بڑا ریلیف مل گیا

    خفیہ دستاویزات کیس میں ٹرمپ کو بڑا ریلیف مل گیا

    واشنگٹن: خفیہ دستاویزات کیس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالتی سماعت میں بڑا ریلیف مل گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کی سماعت اب آئندہ برس مئی کے تیسرے ہفتے میں ہوگی، جس کی وجہ سے ٹرمپ کو ریپبلکنز صدارتی امیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے وقت مل گیا ہے۔

    کیس کی سماعت 14 اگست کو رکھی گئی تھی مگر ٹرمپ کے وکلا نے شدید مخالفت کی، ٹرمپ کی یہ کوشش تھی کہ سماعت کی تاریخ آگے بڑھ جائے کیوں کہ وہ اس وقت دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کے سلسلے میں بھرپور مہم چلا رہے ہیں، اگر عدالتی کارروائی شروع ہو جاتی تو ان کی انتخابی مہم متاثر ہو جاتی۔

    کیس کی سماعت اب آئندہ برس مئی میں ہوگی، ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے اس ریلیف کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ رائے عامہ کے جائزوں میں ٹرمپ ریپبلکنز امیدواروں میں تاحال سرفہرست ہیں۔